تبلیغی جماعت یا اس سے وابستہ کسی شخصیت کی سیاست میں دل چسپی تاریخ میں صرف دوبار دیکھنے کو ملی۔ پہلی بار تب جب مفتی زین العابدین سرگرم عمل ہوئے۔ مولانا مفتی زین العابدین کی شہرت ایک متوازن، نرم خو اور بیدار مغز عالم دین کی تھی، دنیا بھر میں جن کا بے پناہ احترام تھا۔ وہ تبلیغی جماعت کی شوریٰ کے رکن تھے لیکن اس تعلق کے باوجود ان کی اپنی شخصیت بھی بہت بھاری بھرکم تھی۔ سیاست میں ان کی دل چسپی ایک بحران کے موقع پر دیکھنے میں آئی۔ یہ عین وہی زمانہ تھا جب صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم محمد نواز شریف کے درمیان محاذ آرائی عروج پر تھی۔ بھڑکتی ہوئی اس آگ پر پانی ڈالنے کے لیے کئی شخصیات متحرک ہوئیں۔ ان میں ایک مفتی زین العابدین بھی تھے۔ تبلیغی جماعت سے تعلق کی شہرت رکھنے والی کسی دوسری شخصیت کی سیاست میں دلچسپی کی خبریں حالیہ برسوں میں سامنے آئیں جب مولانا طارق جمیل نے عمران خان کی پرجوش حمایت کی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکمرانوں سے ان کا ربط ضبط کسی فائدے یا مفاد کے لیے نہیں، بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔
مولانا طارق جمیل نے اگست 2021ء میں ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ وہ 1992ء سے حکمرانوں سے ملاقاتیں کرتے آ رہے اور انھوں قائم مقام صدر وسیم سجاد سے لے عمران خان تک تمام حکمرانوں سے ملاقاتیں کی ہیں ماسوائے بے نظیر بھٹو کے۔ بے نظیر بھٹو سے ملاقات نہ ہونے کا باعث محض ان کا خاتون ہونا تھا یا اس کی وجہ کچھ اور بھی تھی؟ یہ شاید اتفاق ہی رہا ہوگا کہ دوران گفتگو اس سوال پر بات نہ ہو سکی۔ البتہ اس سوال کا جواب انھوں نے بغیر کسی تکلف کے دیا کہ وہ حکمرانوں سے کیوں ملتے جلتے ہیں؟
یہ بھی دیکھئے:
ان سے پوچھا گیا تھا کہ مسلم تاریخی روایات تو حکمرانوں سے علما کی دوری کی کہانی بیان کرتی ہیں لیکن آپ کا طرز عمل بظاہر مختلف ہے۔ مولانا طارق جمیل نے یہ سوال نہایت اطمینان کے ساتھ سنا اور کسی تکدر کے بغیر جواب دیا:
‘ حکمرانوں کو نصیحت کرنے کی ذمہ داری بھی تو علما پر عاید کی گئی ہے، میں اسی لیے ان سے ملتا ہوں۔ عمران خان سے تعلق خاطر اور ملاقاتوں کے پس پشت بھی میرا مقصد ہمیشہ یہی رہا ہے’۔
مولانا طارق جمیل حکمرانوں سے ملاقاتوں کی جو وجہ بتاتے ہیں، بعض واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب ایک سحر انگیز خطیب کی حیثیت سے مولانا طارق جمیل کی شہرت تیزی سے پھیل رہی تھی، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے انھیں اپنی کابینہ کےاجلاس میں مدعو کیا جہاں انھوں نے اپنے خطاب میں وفاقی وزرا کی توجہ دین کی تعلیمات کی طرف مبذول کرائی اور انھیں نصیحت کی کہ وہ کار سرکار نمٹاتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل پیش نظر رکھیں۔
بی بی سی میں شائع ہونے والے حصے کا لنک
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62479182
مولانا طارق جمیل عمران خان سے اپنی ملاقاتوں کی وجہ بھی نصیحت ہی بیان کرتے ہیں۔ ماضی کے برعکس ان کی حالیہ ملاقاتوں پر عوامی ردعمل منقسم دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر حالیہ دنوں میں ( اگست 2022ء)۔ عمران خان سے اپنی ملاقات کے بعد انھوں نے ایک پرائیویٹ نیوز چینل ‘ بول’ کے اینکر امیر عباس کو جو انٹرویو دیا ہے، اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور اس کے بعد بعد مولانا طارق جمیل نے علانیہ ان کی حمایت کی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی رقت آمیز دعائیں بہت شہرت رکھتی ہیں جو انھوں نے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب یا دیگر دینی اہمیت رکھنے والے ایام کے موقع پر وزیر اعظم ہاؤس میں کرائیں۔ ان واقعات نے ان کی غیر متنازع شہرت کو متاثر کیا لیکن ‘ بول’ ٹیلی ویژن کے انٹرویو کے اثرات ماضی کے واقعات سے زیادہ گہرے ثابت ہوئے۔مولانا طارق جمیل نے اس انٹرویو میں کہا:
‘ میں پاکستانی ہوں۔ پاکستان کی شہریت رکھتا ہوں۔ کس طرح ان لوگوں کو خریدا گیا اور کس طرح خرید کے ایک دھوکے کے ساتھ حکومت بنائی گئی۔ کیا یہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ اللہ کے نبی کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ کم بختو! میں نے تو اولاد ذبح کروا دی اور چند ٹکوں پر تم نے بائیس کروڑ عوام کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا’۔
دو برس قبل 2020ء میں شب معراج کے موقع پر وزیر اعظم ہاؤس میں انھوں نے رو رو کر اس طرح دعا کی تھی:
‘ یا اللہ تو نے ہمیں ایک اچھا حکمران دیا ہے، نیک سیرت ہے۔ دیانت دار ہے۔ اس کی مدد فرما۔ اس کی مدد فرما۔ آگے سے پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے اس کی مدد فرما’۔
دعا کے اس انداز پر اُس موقع پر بھی مولانا طارق جمیل کو شدید تنقید برداشت کرنا پڑی تھی لیکن اس بار تنقید کا دائرہ اور اُس کی شدت زیادہ وسیع ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے آفیشل ٹوئیٹر ہینڈل پر قرآن حکیم کی سورہ الحجرات کی آیت نمبر 18 جاری کی جس کا ترجمہ ہے:
‘ اے ایمان والو! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو بے جا اذیت نہ دے بیٹھو پھر اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاو’ ( ترجمہ: مولانا احمد رضا خان بریلوی، کنز الایمان)۔
سماجی رابطوں کے فورمز بعض تبصرے اس سے بھی زیادہ سخت تھے۔ اس صورت حال پر مولانا طارق جمیل کیا سوچتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے میں نے ان سے رابطہ کیا۔ مولانا احتشام اللہ ان کے قریب ترین معاونین میں سے ایک ہیں، بی بی سی کو ان کے ذریعے معذرت کا پیغام ملا اور بتایا گیا:
‘ مولانا اس معاملے پر فی الحال کوئی کمنٹ نہیں کریں گے’۔
یہ بھی پڑھئے:
فارن فنڈنگ کیس نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد کیسے بنے گا؟
عرفان صدیقی کی شاعری اور عام انتخابات
اشعرنجمی کے دو بے مثل ناول: اس نے کہا تھا اور صفر کی توہین
اشعرنجمی کے دو بے مثل ناول: اس نے کہا تھا اور صفر کی توہین
عمران خان اور مولانا طارق جمیل کے اٹوٹ رشتے کی بنیاد
مولانا طارق جمیل عمران خان کی حمایت کی وجہ سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے آ رہے ہیں۔ ایک بار تو انھیں اس سلسلے میں معذرت بھی کرنا پڑی تھی۔ اس پس منظر میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ آخر عمران خان کے ساتھ اُن کا ایسا کیا رشتہ ہے جو انھیں ان کی حمایت پر بار بار مجبور کرتا ہے۔ اس حمایت کی وجہ سے وہ تنقید کا نشانہ بنتے ہیں، معذرت کرتے ہیں پھر حمایت کرتے ہیں پھر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ اگست 2021ء میں ان سے انٹرویو میں بھی میں نے ان سے یہی سوال پوچھا تھا:
‘ویسے تو بہت عرصے سے ہماری سلام دعا ہے لیکن بطور وزیر اعظم جب عمران خان نے مجھے بلایا اور کہا کہ مولانا! میں چاہتا ہوں کہ میرے نوجوان اپنے نبی کے ساتھ جڑ جائیں اور ان کی زندگی کو اپنائیں، یہ بات اس سے پہلے مجھے کسی حکمران نے نہیں کہی۔ عمران خان نے بطور وزیر اعظم پہلی ملاقات میں مجھ سے کہا کہ ‘میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجوں اور آپ کے بیان کرواؤں۔’
مولانا طارق جمیل نے مزید کہا:
‘ مستقبل میں عمران خان کامیاب ہوتا ہے یا نہیں وہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن میں اس کی سوچ سے بہت متاثر ہوا ہوں۔
نواز شریف کی کابینہ سے خطاب
مولانا طارق جمیل جس کسی سے بھی متاثر ہوں، یہ ان کا حق ہے لیکن ریکارڈ بہر حال درست رہنا چاہیے۔ کیا واقعی یہ حقیقت ہے کہ عمران خان سے قبل پاکستان کا کوئی حکمران دین سے دل چسپی نہیں رکھتا تھا اور اس مقصد کے لیے کسی نے بھی ان سے کبھی رابطہ نہیں کیا؟ یہ سوال میں نے سینیٹر عرفان صدیقی سے کیا۔ انھوں نے ایک دل چسپ انکشاف کیا:
‘ مولانا طارق جمیل اگر عمران خان سے توقعات وابستہ کرتے ہیں تو اس میں ہرج کی کوئی بات نہیں لیکن یہ مناسب نہیں کہ وہ تاریخی حقائق کو بھی فراموش کر دیں۔ کیا انھیں یاد نہیں ہے کہ نوے کی دہائی میں وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں کابینہ کے اجلاس میں مدعو کیا جہاں انھوں نے خطاب بھی فرمایا تھا۔ دین کے فروغ کے لیے عمران خان کی خواہش جس پر عمل درآمد کبھی نہیں ہوا، نواز شریف کا عمل اُس سے زیادہ موثر اور نتیجہ خیز دکھائی دیتا ہے’۔
کیا سبب ہے کہ عمران خان کی خواہشات تو مولانا طارق جمیل کے حافظے میں تازہ ہیں لیکن وفاقی کابینہ سے خطاب جیسا غیر معمولی واقعہ ان کی یاداشت کا حصہ نہیں؟ بی بی سی مولانا طارق جمیل سے رابطے میں کامیاب ہو جاتی تو یہ سوال ان سے یقیناً کیا جاتا۔ مولانا طارق جمیل سے یہ سوال دریافت کرنے کا موقع تو میسر نہیں آیا لیکن گزشتہ برس کے انٹرویو میں ان کے مزاج کو سمجھنے کا قیمتی موقع ضرور میسر آیا۔
تبلیغی جماعت سے اخراج کی افواہیں
مولانا طارق جمیل کے انٹرویو پر بڑے پیمانے پر جو ردعمل سامنے آیا ہے، اس میں کئی باتیں دل چسپ اور توجہ طلب ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صارف محمد ریاض لکھتے ہیں:
‘ پتہ نہیں اس مولانا کو کیا ہو گیا ہے، کیا مجبوری ہے اس کی، ساری قوم اس کی عزت کرتی تھی، اس کے بیانات کو سنتی تھی، خواہ مخواہ اس نے خود کو متنازع بنا دیا ہے۔
ایک اور صارف زمان حسین لکھتے ہیں:
‘ اپنی عزت ختم کروا دی’۔
وسیم اللہ خاموش نے اپنا تبصرہ مسلمان علما کی طرف سے حکمرانوں سے دور رہنے کی روش کو مقبول ترک ڈرامے ارتغرل کے ایک مقبول کردار اور صوفی محی الدین ابن العربی کے تعلق سے کیا ہے:
‘ کبھی دیکھا نہیں کی العربی تغرل کے گھر خود حاضری دینے گیا ہو’۔
یہ تبصرہ اس لیے زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے کہ عمران خان اس ڈرامے کو پسند کرتے ہیں اور ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران میں ہی اردو ڈبنگ کر کے اسے پاکستان ٹیلی ویژن پر دکھایا جانے لگا۔
ایک صارف جن کا ٹویٹر ہینڈل ‘ ترجمان’ ہے، سوال کیا ہے:
‘ ایموشنل دعا کا ٹائم کیا رکھا گیا ہے؟
ایک اور صارف اکرام اللہ نسیم کا ٹویٹ بہت وائرل ہوا ہے۔ اپنے ٹویٹ میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ مولانا طارق جمیل کو تبلیغی جماعت کی شوریٰ سے معزول کردیا گیا ہے۔ ٹویٹ کے الفاظ یہ تھے:
‘ مولانا طارق جمیل کو تبلیغی جماعت کی شوریٰ سے نکالا گیا ہے اور موصوف پہ ہر قسم کے تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں بیان پر پابندی ہے، ان کے کسی بھی فعل کو اور قول کو تبلیغی جماعت کے ساتھ نہ جوڑا جائے کیوں کہ ان کا تبلیغی جماعت سے خارجہ کیا گیا ہے’۔
مولانا طارق جمیل کے تبلیغی جماعت سے اخراج کی باتیں پہلی بار نہیں ہوئیں۔اکرام اللہ نسیم کی ٹویٹ کے انداز تحریر سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اخراج ماضی میں کیا گیا ہوگا۔ تبلیغی جماعت ایک ایسا مذہبی گروہ ہے جو اپنے معاملات ذرائع ابلاغ پر لانا مناسب نہیں سمجھتا۔ اس کی طرف سے متنازع معاملات پر کبھی کوئی وضاحت بھی جاری نہیں کی گئی۔ اس صورت حال میں صورف مولانا طارق جمیل ہی رہ جاتے ہیں جن کی مدد سے تصویر کا دوسرا رخ سامنے آ سکتا ہے۔ بی بی سی نے اس سلسلے میں ان کے معاون خصوصی اور ان کی مولانا طارق جمیل فاونڈیشن کے چیف ایگزیکٹو مولانا احتشام اللہ سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا معاملہ جس کی تحقیق کے لیے مولانا طارق جمیل سے بات کرنا ضروری نہیں۔ اس سلسلے میں؛ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ صورت حال واضح کر سکتا ہوں۔ انھوں نے بتایا:
‘ وہ تبلیغی جماعت کی مرکزی شوریٰ کے رکن کبھی نہیں رہے، اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انھیں نکالا جائے۔ میں پھر کہتا ہوں کبھی بھی شوریٰ میں رائے ونڈ کی، میں مولانا نہیں رہے۔ رہی بات ان کے بیان پر پابندی کی تو ابھی چند روز قبل میاں چنوں میں ان کا بیان ہوا تھا۔ اسی ماہ ایبٹ آباد مرکز میں بیان ہوا ہے۔ رائے ونڈ بھی ان کا جانا ہے۔ پہلے مولانا کی مستقل ترتیب تھی، وہ کثرت سے جاتے تھے، اب جب ان کی طبیعت بہتر ہوتی ہے، وہ جاتے ہیں
مذہبی رواداری
برصغیر پاک و ہند میں علمائے کرام کے ایک طبقے میں چند بڑی مسلم شخصیات کے لیے تکدر کی کیفیت پائی جاتی ہے جیسے سر سید احمد خان کا ذکر خوش گوار انداز میں نہیں کیا جاتا۔ مولانا مودودی کے نام ساتھ برصغیر کی روایت کے مطابق مولانا کا سابقہ شامل کرنے کے بجائے صرف مودودی کہنے پر اکتفا کیا جاتا ہے یا مودودی صاحب کہہ کر کام چلا لیا جاتا ہے۔ اسی طرح فرقہ دارانہ( نوٹ: درست لفظ دال سے دارانہ ہے، اسے واؤ سے وارانہ نہ کیا جائے) معاملات میں تنگ دلی پائی جاتی ہے۔ مولانا طارق جمیل کے اس انٹرویو سے یہ خوش گوار حقیقت سامنے آئی کہ وہ ان معاملات میں کشادہ ظرفی سے کام لیتے ہیں اور دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود شیعہ مکتب فکر کی امام بارگاہوں میں جانے اور وہاں خطاب کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔ اسی طرح ‘ فضائل اہل بیت’ کے نام سے ان کی ایک کتاب بھی شائع ہو چکی ہے جو سنی شیعہ مکاتب فکر کے مابین دوری میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ سر سید کا نام بھی پورے اہتمام اور احترام سے لیتے ہوئے علیہ رحمہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح مودودی صاحب کہہ کر بات بڑھا نہیں دیتے مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کا یہ طرز عمل مذہبی طبقے کی عمومی روایت سے مختلف اور حوصلہ افزا ہے۔
سر سید احمد خان سے ان کے غیر معمولی احترام کا جذبہ دیکھ کر خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے کہ وہ ان کے تعلیمی فلسفے میں بھی دل چسپی رکھتے ہوں۔ اس لیے سوال کیا کہ مسلم دنیا اور بالخصوص پاکستان میں دینی اور جدید تعلیم حاصل کرنے والے طبقات میں خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ رائے عامہ پر وسیع اثرات رکھنے والے ایک خطیب اور عالم دین کی حیثیت سے ان کے نزدیک اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ ذرا سا بھی سوچے بغیر انھوں نے جواب دیا کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔ جواب کے اسلوب سے اندازہ ہوا کہ یہ معاملہ شاید ان کے غور و فکر میں جگہ پانے میں ناکام رہا ہے۔
اولاد پر غیر ضروری سختی سے گریز
روایتی علما میں شدت کی شکایات عام ہیں۔ شدت کا یہ رویہ ان کے عوامی دائرہ اثر سے ہوتا ہوا گھر کی چار دیواری میں بھی داخل ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں مولانا طارق جمیل کے رویے میں کشادگی پائی جاتی ہے۔ مولانا طارق جمیل تلمبہ نامی گاؤں میں اپنی وسیع حویلی میں رہتے ہیں۔ دیہی روایت کے مطابق یہ حویلی دو حصوں میں بٹی ہوئی۔ یعنی ایک حصہ بالکل گھریلو اور دوسرا مردانہ۔ اسے مہمان خانہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ حویلی میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب مہمان خانہ واقع ہے جس کے بائیں جانب چند جدید تعمیرات کی گئی ہیں۔ اس جانب کچھ ایسا ہے کہ مہمان خانے میں داخل ہوتے وقت نگاہ خود بخود اس طرف اٹھ جاتی ہے۔ اندر جاتے ہوئے میری نگاہ بھی کچھ کھلونوں اور کھیلوں کے سامان پر پڑی۔ کونے میں نہایت نفاست سے کرکٹ کے بیٹ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ ان بیٹوں کے اوپر کچھ کھلونے تھے اور انسانی چہروں کے اسکلپچر۔ کچھ ڈرائیگز بھی تھیں جن پر نقش انسانی احساسات دیکھنے والے کو متوجہ کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ مولانا طارق جمیل کے پوتوں کی دلچسپی کاسامان ہے۔ کسی روایتی عالم دین کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے ایسی آزادی خوش گوار احساس پیدا کرتی ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ ان کے صاحبزادے ان کی دینی اور رفاحی سرگرمیوں میں خوش دلی سے شریک ہوتے ہیں۔ خانگی زندگی میں ان کے مزاج کی یہ خوبی ظاہر کرتی ہے کہ اداکاروں، کھلاڑیوں حتیٰ کہ معاشرے کے بعض ٹھکرانے ہوئے طبقات یعنی طوائفوں کے ساتھ اصلاحی ربط ضبط ان کے لیے کیسے آسان ہو جاتا ہے۔
ان کے مزاج کی یہی انفرادیت ہے جو انھیں اپنے ہم عصر علما میں ممتاز کرتی ہے۔ ان کاایک اور امتیاز یہ ہے کہ اپنی تبلیغی سرگرمیوں کے لیے انھوں نے جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی حالانکہ تبلیغی جماعت کے ہاں اس کی مکمل ممانعت ہے۔ اسی طرح مفتی زین العابدین کے بعد وہ دوسری شخصیت ہیں جنھوں نے سیاست کو شجر ممنوعہ خیال نہیں کیا لیکن ان دونوں شخصیات کے رجحان میں ذراسا فرق ہے مفتی زین العابدین مرحوم ایک کشیدہ صورت حال میں اصلاح احوال کے متحرک ہوئے تھے، مولانا طارق جمیل کی کوششوں کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ فیصلہ تاریخ کو ابھی کرنا ہے۔