• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

کالے بھونڈ __ جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ

کالے بھونڈوں کی عدل فرمائی میں تسلسل اور یکسانیت کا مسئلہ کیا ہے، سجیلی تتلیاں کن کا مقدر ہیں اور زہریلے کالے بھونڈ کس مقصد کے لیے ہوتے ہیں؟ سینیٹر عرفان صدیقی کا فکاہیہ

سینیٹر عرفان صدیقی by سینیٹر عرفان صدیقی
June 3, 2024
in تصویر وطن
0
کالے بھونڈ __ جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
گزشتہ ہفتے، سپریم کورٹ میں، ”کالی بھیڑوں” اور ‘بلیک بمبل بی” (Black Bumblebee) کا تذکرہ کچھ اس انداز سے آیا کہ سنجیدگی میں لپٹا کورٹ روم نمبر ایک، قہقہوں سے گونج اٹھا۔ میرا دل بھی سنجیدہ گفتاری بلکہ تلخ نگاری سے اوبنے لگا ہے۔ سو، جی چاہتا ہے ماحول کی اس شگفتگی سے تھوڑا لطف اٹھا لیا جائے۔
وزیراعظم شہبازشریف کی طرف سے پانامہ کے حوالے سے ججوں میں ”کالی بھیڑوں” کے ذکر کی گونج سپریم کورٹ میں سنائی دی تو اٹارنی جنرل نے وضاحت کردی کہ وزیراعظم کا اشارا ماضی کے کچھ جج صاحبان کی طرف تھا۔ اس پر جسٹس اطہرمن اللہْ  نے وزیراعظم کو پیغام دیا کہ’ ‘ہم کالی بھیڑیں نہیں، بلیک بمبل بی (Black Bumblebee) ہیں۔” جسٹس صاحب تو انگریزی زبان پر بھرپور دسترس رکھنے والی شخصیت ہیں لیکن انہوں نے ہم جیسوں کو شدید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ میں نے گوگل کو پکارا۔ لُغت سے مدد لی لیکن کچھ پلّے نہ پڑا۔ خاصی سرکھپائی کے بعد کچھ عالم فاضل دوستوں سے رجوع کیا مگر کسی مخصوص معنی یا یک لفظی اُردو متبادل پر اتفاق نہ ہوسکا۔
یہ بھی پڑھئے:
  نواز شریف: اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
آوازہ کی طرف سے آواز اٹھانے پر ریڈیو پاکستان کا سپورٹس چینل بحال
میں عمران سیریز کا قیدی کیسے بنا؟
ایک اور 9 مئی کی اُکساہٹ
عطاء الحق قاسمی بولے__ ”سب کالا بھونڈ کہہ رہے ہیں، آپ بھی یہی سمجھیں۔” افتخار عارف نے کہا ”شہد کی بڑی مکھی۔” سہیل وڑائچ کہنے لگے __ ”ہے تو بھونڈ ہی مگر بھِڑ زیادہ مناسب ہے۔” خورشید ندیم کا پیغام آیا ”سارنگ یا سارنگ مکھی۔سیاہ مکھی یا ذبابِ اسود۔” اظہار الحق نے بتایا ”بھونڈ ہی کہہ سکتے ہیں۔” اکادمی ادبیات کی سربراہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے راہنمائی کی ”بھنورا۔ زنبورِ سیاہ۔ سارنگ۔ بھونڈ۔” شعیب بن عزیز نے استادانہ انداز میں سمجھایا ”شہد کی بڑی سیاہ مکھی۔اسے ہم بچپن میں ”مَکھَّا” کہتے تھے۔ ہمارے پڑوسیوں کے بچے جھانسی سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ وہ اسے ”بَڑ مَکھِّی” کہتے تھے۔ سو اِسے ‘کالا مَکھَّا’ یا ‘سیاہ  بَڑ مَکھِّی’ کہہ سکتے ہیں۔” ڈاکٹر حسین پراچہ بولے__ ”کالی بھِڑ یا کالا بھونڈ۔”لسانیات کے ماہر ڈاکٹر قاسم بگھیو نے کہا ”کالی بھوملی۔” یاسر پیرزادہ نے اسے کہا تو ”زنبورِ سیاہ” مگر ووٹ ”بھونڈ” کے حق میں دیا۔ بلال غوری کی رائے تھی ”کالی مَکھِّی یا بھُونڈ۔”  ایک پوٹھوہاری دوست نے اس کا ترجمہ ”ڈڈار” اور دوسرے نے ”ڈیمو” کیا۔ تاہم ”کالے بھونڈ” پر اجماعِ امت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ میری الجھن یہ ہے کہ ”کالا بھونڈ” کوئی زیادہ شائستہ یا نستعلیق استعارہ نہیں۔  یہ غیر رومانوی اور غیرشاعرانہ بھی ہے۔ مجھے پوری اُردو شاعری میں کوئی ایک شعربھی نہیں ملا جس میں ‘بھونڈ’ کا لفظ استعمال ہوا ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جسٹس صاحب کسی اگلی سماعت میں خود ہی ”بلیک بمبل بی” کا کوئی اچھا سا اُردو متبادل تجویز کردیں۔
مختلف تراجم کے باوجود میرے دوستوں نے البتہ مکمل اتفاق کیا ہے کہ” کالا بھونڈ”سخت زہریلا کیڑا ہے۔ اگر یہ ایک سے زیادہ  یعنی لارجر یا فُل جتھہ کی شکل میں ہوں تو ڈنک زدہ شخص کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔
کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ ایک دوست کا فون آگیا۔ چھوٹتے ہی ‘کالے بھونڈ’ کی کتھا چھیڑ دی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ دنیا بھر کے جج اس طرح کی خوش کلامی کرتے اور لطیف چٹکلے چھوڑتے رہتے ہیں۔ اُسے بتایا کہ جسٹس اطہرمن اللہ نہایت صاحبِ فراست اور کثیرالمطالعہ جج ہیں۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ استعارہ استعمال کیا ہے۔
وہ بولا __ ”اس میں ایسی کون سی فراست اور دانش ہے؟”
میں نے دھیمے لہجے میں کہا ”دیکھو! یہ سیاہ بھونڈ، کالی بھوملی، زنبورِسیاہ، ذبابِ اسود یا ڈیمو، جو کچھ بھی ہے، ایک سچّے، کھرے اور حقیقی مُنصف کی طرح، سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ اُس کے سامنے گورا آئے یا کالا، بچہ آئے یا بوڑھا، عورت آئے یا مَرد، کسی سے بھی کوئی امتیازی روّیہ روا نہیں رکھتا۔ وہ کسی کی سیاسی وابستگی بھی نہیں دیکھتا۔ کوئی مسلم لیگ (ن) کا ہو یا پیپلزپارٹی کا، پی۔ٹی۔آئی کا ہو یا ایم۔کیو۔ایم کا، سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے اور ترازو کے پلڑوں میں بال برابر جھول نہیں آنے دیتا۔ گہری معنویت کے علاوہ اس استعارے میں ایک صوری یا ظاہری حُسن بھی ہے۔ پَروں والے زہریلے سیاہ بھونڈ کی دُم پر پیلے رنگ کی دھاریاں سی ہوتی ہیں۔ یہ دھاریاں جج صاحبان کی سیاہ عبائوں پر سنہری ریشمی حاشیوں سے گہری مشابہت رکھتی ہیں۔۔”
میری روانی میں خلل ڈالتے ہوئے وہ غصّے میں بولا__ ”بس بس بس۔ بند کرو یہ خوشامد۔ مت جھوٹ بولو کہ کالا بھونڈ سب سے یکساں سلوک کرتا ہے۔ ذرا بتائو، نوازشریف کو سسلین مافیا، گاڈ فادر جیسے لقب کس نے دئیے تھے؟ کس نے وزیراعظم کو پیغام دیا تھا کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ خالی ہے، اور پھر کس نے ریمانڈ پر زیرحراست ملزم کا استقبال ”گڈ ٹو سی یو” کہہ کر کیا تھا؟ یہ کیسے انصاف پسند بھونڈ ہیں جو کسی مُجرم کے سرپر تتلیوں کی طرح منڈلاتے اور کسی بے گناہ کے سینے میں اپنا گہرا  زہر یلا ڈَنک اتارتے ہوئے اسے وزیراعظم ہائوس سے نکال دیتے ہیں۔”
میں نے اُسے ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا __ ”یار یہ سب ماضی کی باتیں ہیں۔۔”
وہ اور زیادہ بپھر گیا __ ”اچھا تو یہ بتائو جن جج صاحب نے تمہیں ”کالے بھونڈ” کا استعارہ دیا ہے انہوں نے جج رانا شمیم کو کس طرح مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا؟ کس طرح اُس کا نام ای۔سی۔ایل میں ڈال دیا تھا۔ صرف اس لئے کہ اس نے شواہد کے ساتھ یہ الزام لگایا تھا کہ ثاقب نثار نے نواز اور مریم کے معاملے میں اسلام آباد کے ججوں پر دبائو ڈالا۔ آج وہی بات چھ جج صاحبان نے کہی تو جج صاحب کا موقف بدل گیا ہے۔”
میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ بولا __ ”سنو سنو! جب چار سال پہلے ، ”ریاست مدینہ” کے دعویدار عمران خان کے دور میں نوازشریف کی تقریر اور تصویر پر پابندی لگ گئی تو مسلم لیگ (ن) فریادی بن کر عدالت گئی۔ تب جسٹس اطہرمن اللہ صاحب نے درخواست ہی کو ناقابل سماعت قرار دے کر باہر پھینک دیا اور کہا ”سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائے جائیں۔تقریر پر پابندی سے نوازشریف کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟” اور آج عمران خان کے معاملے پر اُن کی رائے یہ ہے کہ کسی کی تقریر یا بیان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی چاہے وہ جیل میں بند کوئی سزا یافتہ مجرم ہی کیوں نہ ہو؟ کچھ دِن پہلے انہوں نے اپنے چار ساتھیوں سے اختلاف کرتے ہوئے رائے دی کہ وڈیو لنک پر عمران خان کا خطاب براہ راست پچیس کروڑ عوام تک پہنچایاجائے۔۔۔”
وہ پتہ نہیں کیا کیا اول فول بکے جارہا تھا۔ میں نے تنگ آ کر فون بند کردیا۔
میں پوری طرح عالی مرتبت جسٹس اطہرمن اللہ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انہوں نے” کالے بھونڈ” کے معنی خیز استعارے سے واضح پیغام دیا ہے کہ عدلیہ انصاف کی کارفرمائی کے لئے اپنا ڈنک ”کالے بھونڈ” کی طرح بلا خوف ورعایت اور بلا رغبت و عناد پوری زہر ناکی کے ساتھ استعمال کرے گی۔
تاہم حقیقت یہی ہے کہ پون صدی کے دوران میں ”کالے بھونڈوں” کا کردار ایک جیسا نہیں رہا۔ آج تک انہوں نے جمہوریت پر حملہ کرنے اور آئین توڑنے والے کسی ڈکٹیٹر کو نہیں کاٹا۔ بلکہ ان کے ہاتھوں پہ بوسے دئیے اور ان کے چمنستانوں کی خوش رنگ تتلیاں بن گئے۔ البتہ سیاستدانوں کے سینے ان کے زہریلے ڈنکوں سے چھلنی ہوتے رہے۔ ایک الجھن یہ بھی ہے کہ ”کالے بھونڈوں” کی عدل فرمائی میں تسلسل اور یکسانیت کے بجائے ایسا تاثر ملتا ہے کہ کچھ کے لئے تو وہ سجیلی تتلیاں  اور کچھ کے لئے زہریلے سیاہ بھونڈ بنے رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: black bumblesآوازہافتخار عارفبھونڈسپریم کورٹسہیل وڑائچسینیٹر عرفان صدیقی
Previous Post

  نواز شریف: اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے

Next Post

عمران سیریز کی سفلی دنیا کا وہ مرد بزرگ جس نے علی عمران کو زیر کیا

سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی

عرفان صدیقی استاد ہیں، ادیب ہیں، شاعر یا کالم نگار؟ یہ بحث اب پرانی ہوئی۔ قدرت نے انھیں یہ سب خوبیاں عطیہ کی ہیں لیکن ایک انعام اس سے بھی بڑا ہے۔ ہمارے یہاں ادیب اور شاعر حضرات اپنے سیاسی نظریات چھپاتے ہیں لیکن عرفان صاحب نے ان مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے میں بھی کسی عذر سے کام نہیں لیا۔ یہ طرز عمل ہمارے ان بزرگوں کی پیروی میں تھا جنھوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا تعلق رکھا اور اپنی آدرشوں کے لیے جدوجہد کے لیے سیاسی راستہ بھی اختیار کیا۔ عرفاں صاحب ہماری اسی تہذیب کی زندہ نشانی ہیں۔

Next Post
عمران سیریز کی سفلی دنیا کا وہ مرد بزرگ جس نے علی عمران کو زیر کیا

عمران سیریز کی سفلی دنیا کا وہ مرد بزرگ جس نے علی عمران کو زیر کیا

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions