Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
جادو کا ذکر ہوتے ہی میرے ذہن میں مبارک صدیقی کوہی صاحب کی اس نظم کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور آجاتا ہے۔ اس نظم سے جڑی بہت سی یادیں ہیں جن کا تذکرہ الگ سے کروں گا۔ پہلے ایک نظر اس نظم پر
کوئی ایسا جادو ٹونہ کر۔
مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو۔
یوں الٹ پلٹ کر گردش کی۔
میں شمع، وہ پروانہ ہو۔
ذرا دیکھ کے چال ستاروں کی۔
کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا
کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ۔
جو کر دے بخت سکندر سا
کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر۔
کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔
کوئی ایسا دے تعویز مجھے۔
وہ مجھ پر عاشق ہو جائے۔
کوئی فال نکال کرشمہ گر ۔
مری راہ میں پھول گلاب آئیں۔
کوئی پانی پھونک کے دے ایسا۔
وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔
کوئی ایسا کالا جادو کر
جو جگمگ کر دے میرے دن۔
وہ کہے مبارک جلدی آ ۔
اب جیا نہ جائے تیرے بن۔
کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے ۔
جس رہ سے وہ دلدار ملے۔
کوئی تسبیح دم درود بتا ۔
جسے پڑھوں تو میرا یار ملے
کوئی قابو کر بے قابو جن۔
کوئی سانپ نکال پٹاری سے
کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا
کوئی منکا اکشا دھاری سے ۔
کوئی ایسا بول سکھا دے نا۔
وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں۔
کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ۔
وہ جانے ، جان نثار ہوں میں۔
کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا۔
اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں ۔
جو مرضی میرے یار کی ہے۔
اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں۔
کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ۔
جو اشک بہا دے سجدوں میں۔
اور جیسے تیرا دعویٰ ہے
محبوب ہو میرے قدموں میں ۔
پر عامل رک، اک بات کہوں۔
یہ قدموں والی بات ہے کیا ؟
محبوب تو ہے سر آنکھوں پر۔
مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا۔
اور عامل سن یہ کام بدل۔
یہ کام بہت نقصان کا ہے۔
سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں۔
جو مالک کل جہان کا ہے .
اللہ تعالی کی بنائی ہوئی کائنات میں بہت ساری چیزیں ظاہر ہیں اور بہت سارے اسرار پوشیدہ ہیں۔ پوشیدہ چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا خیال انسانوں کو ہمیشہ ہی اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے۔ اس میں کچھ چیزیں جائز اور حلال ہیں اور کچھ چیزیں ناجائز اور حرام ہیں ۔ جادو بھی ان حرام کاموں میں سے ایک ہے جو ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ جادو کی کئی اقسام ہیں اس کے بارے میں تفصیلات تو علماءاکرام یا مستند دینی کتابوں سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ میں نہ عالم دین ہوں اور نہ ہی عملیات کا ماہر۔ اس موضوع پر اپنے مشاہدات اور تجربات لکھوں گا تو پڑھنے والے مجھے فاترالعقل ہی سمجھیں گے اسلئیے میرا اس موضوع پر کچھ لکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ البتہ یہ ضرور بتاتا چلوں کہ کئی مرتبہ جادو کا شکار ہو چکا ہوں اور ان معاملات میں بری طرح پھنسا رہا، مگر اللہ نے کرم کیا اور مفتی احسان صاحب اور مولانا لائق صاحب کی رہنمائی اور علاج کی بدولت اللہ نے ان مسائل سے بغیر کسی بڑے نقصان کے نکال دیا۔
سن دو ہزار چھ میں میں میری ملاقات ہمارےگھر کے قریب ایک بہت بڑے مدرسہ کے استاد الحدیث مفتی احسان اللہ شاہ اصغر صاحب سے ہوئی اور دو ہزار آٹھ میں مولانا لائق عادل صاحب سے تعلق بنا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان دونوں علمائےکرام سے دوستی گھریلو تعلقات میں بدلتے چلے گئے۔ دونوں حضرات صحیح بخاری کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ عملیات کے بھی ماہر ہیں۔ ان کی صحبت میں رہنے سے جادو کے بارے حقیقی معلومات ملی۔ جسمانی امراض اور روحانی معاملات یعنی نظر، جادو اور جناتی اثرات کے بارے میں اپنی تسبیح پکڑ کر بتا دینا، ان کی کاٹ اور اس کے بعد مریض کا اچانک ٹھیک ہونا یہ سب میرے سامنے سینکڑوں مرتبہ ہو چکا ہے۔
جادو کی سب سے گندی قسم اور نچلا درجہ سفلی جادو یا کالا جادو کا ہے۔ سفلی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے جادو کی اسی قسم کو بیان کیا ہے اور جادو کے ذریعے ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو اپنے ناول کا مرکزی خیال رکھا ہے۔
جادو اور جنات کے عملیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ جادو کے زور پر کسی ملک کے راز چرانا جس سے پورے ملک کی سلامتی دائو پر لگ جائے یا جادو کے زور پر کسی بھی ملک کی اہم شخصیت کو مارنے کی کوشش کرنا اور ان ساری کوششوں کو اسطرح سے جاسوسی ناول میں بیان کرنا کہ مستند معلومات کے حامل لوگ یا ان حالات سے گزرے لوگ بھی اسے پڑھ کر قبول کر لیں، واقعی لکھاری کی لکھنے سے پہلے مکمل تحقیق اور اپنی تحریر پر مکمل گرفت کوظاہر کرتاہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کالے بھونڈ __ جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ
نواز شریف: اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
آوازہ کی طرف سے آواز اٹھانے پر ریڈیو پاکستان کا سپورٹس چینل بحال
دوسری دلچسپ بات اس میں عمران کا گمباگا نامی جن سے جسمانی مقابلہ ہے ایک انسان کی جنات سے جسمانی لڑائی لڑ کر جن کو شکست دینا اور اس کی سائنسی توجیہ بیان کرنا انداز بیان کا کمال ہے کہ پڑھنے والے اسے قبول کر لیتے ہیں۔
جاسوسی ناول کے لئے پلاٹس بہت کم ہوتے ہیں اس میں جادو کے زور پر ملکی دفاع کی فائل چرانے کا خیال ذرا مختلف ہے۔ قدم قدم پر جادو کے حملے، جادوگروں سے ٹکرائو اور اس سے بچنے کی دعائیں اور جادوگروں سے لڑنے کےلئے روحانی عملیات اورساتھ ساتھ جسمانی لڑائیاں اور اسلحہ کا استعمال ،یقینی طور پر بہترین انداز بیان ہے کہ قاری واقعات کے تسلسل میں اسطرح سے جکڑ جاتا ہے کہ ناول ختم کئے بنا چین نہیں ملتا۔
جامعہ الرشید کے استاد الحدیث مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب “دجال 2 ۔ عالمی دجالی ریاست، ابتدا سے انتہا تک” میں عالمی صہیونی تنظیموں کے بارے میں بتایا ہے کہ دجال کی آمد کےمنتظر شیطان کے پیروکار یہودیوں اور صہیونیوں نے کس طرح جادو کے زور پر مسلمانوں کی اور دنیا کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا ہے اور سعودی بادشاہ شاہ فیصل شہید اور امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ جادو بھی شامل تھا۔
سفلی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے بڑی تفصیل سے سفلی عمل یا کالے جادو کو بیان کیا ہے اور حقیقت میں سفلی دنیا میں ہونے والے واقعات کو اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔ ان کے بیان کردہ بیشتر واقعات حقیقت کے بہت قریب ہیں اور جن لوگوں کا واسطہ ان معاملات سے پڑ چکا ہے وہ اسے بہت بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ ایسے کئی عاملین حضرات سے میرا ذاتی تعلق ہے جو روحانی عملیات کے ذریعے جسمانی اور روحانی مسائل کے بارے میں معلوم کر لیتے ہیں۔
سفلی دنیا مظہر کلیم صاحب کا بہت خاص ناول ہے جس میں انھوں نے کئی کامیاب تجربات کئے ہیں اور عمران سیریز کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی دی ہے۔
ابن صفی صاحب کے بعد بہت سارے مصنفین نے عمران سیریز میں مختلف کرداروں کا اضافہ کیا مگر مجموعی طور پر کسی نے بھی عمران سے زیادہ طاقتور اور بااختیار کردار تخلیق نہیں کیا اور سارے کرداروں کو عمران سے نیچے ہی رکھا حتی کہ مظہر کلیم صاحب نے بھی کرنل فریدی جیسے کردار کو بھی عمران کے ہم پلہ ہی دکھایا اور کچھ سچویشن میں عمران کرنل فریدی پر سبقت لے گیا۔
میرے خیال میں اس ناول کی سب سے اہم بات سید چراغ شاہ صاحب کی دھماکہ دار انٹری ہے جس نے آکر کئی دہائیوں سے ناقابل تسخیر، ناقابل شکست، اپنی تہہ درد تہہ شخصیت کو چھپانے کے ماہر ، ملک کے طاقتور ترین اور بااختیار شخص کو پہلی ہی ملاقات میں چاروں شانے چت کر دیا۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں جہالت کی وجہ سے جعلی پیر و فقیر، تعویز گنڈےکا رواج عام ہے وہاں سید چراغ شاہ جیسے کردار کو اپنے قارئین سے قبول کروانا مظہر کلیم صاحب کا عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان ان جعلی تعویز گنڈے اور جعلی پیروں کے بارے میں جو سوچ رکھتا ہے اسکی مظہر کلیم صاحب نے سید چراغ شاہ صاحب سے پہلی ملاقات میں بہترین منظر کشی کی ہے۔ آج کے دور میں جب روحانیت کے نام پر کاروبار چل رہا ہے ایک روحانی شخصیت کے مقام و مرتبہ کو ملک کی سب سے ذہین، قابل اور طاقتور شخصیت سے قبول کروانا اور اسطرح سے انداز بیان رکھنا کی قارئین بھی اسے تسلیم کر لیں اس ناول کی سب سے خاص بات ہے۔
بہت مزے کی سچویشن اس وقت بنتی ہے جب کئی دہائیوں سے مقبول اور ناقابل شکست کردار علی عمران کو احساس ہوتا ہے کہ گائوں میں بیٹھے سید چراغ شاہ صاحب کے سامنے وہ طفل مکتب ہے اور گائوں کے اس بوڑھے انسان کے پاس ایکسٹو سے بھی زیادہ اختیارات ہیں۔
سید چراغ شاہ کے کردار میں انھوں نے تصوف، تبلیغ، عملیات، تدریس اور روحانیت کو ایک ساتھ جمع کیا ہے اور اس موضوع کی حساسیت اور نزاکت کو پیچیدگیوں سے بچا کر بڑے سہل انداز میں بیان کیا ہے۔ مذہبی علم یا معلومات رکھنے والے اس موضوع کی نزاکتیں سمجھ سکتے ہیں کہ مستند دینی کتابوں میں موجود باتوں سے ہٹ کر کوئی بات ہو تو اسے پڑھنے والے قبول نہیں کر پاتے ہیں۔
بہرحال جادو ایک حقیقت ہے اور اس سے بچنے کے لئے نمازوں کا اہتمام، جسمانی پاکیزگی، رزق حلال کا اہتمام، معوذات کی تلاوت اور مسنون دعائوں کا اہتمام ضروری یے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اللہ نے کسی کو دینی یا دنیاوی کوئی منصب یا نعمتیں دی ہیں تو اسے چاہئیے کہ استعازہ کا اہتمام کرے یعنی ایسی دعائوں کا جو اعوذ باللہ سے شروع ہوتی ہوں۔
“سفلی دنیا” جنوں بھوتوں اور جادو کی عام روایتی کہانیوں سے ہٹ کر ایک مختلف اوربہترین ناول ہے جسے پڑھ کر قارئین لطف اندوز ہوں گے۔
جادو کا ذکر ہوتے ہی میرے ذہن میں مبارک صدیقی کوہی صاحب کی اس نظم کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور آجاتا ہے۔ اس نظم سے جڑی بہت سی یادیں ہیں جن کا تذکرہ الگ سے کروں گا۔ پہلے ایک نظر اس نظم پر
کوئی ایسا جادو ٹونہ کر۔
مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو۔
یوں الٹ پلٹ کر گردش کی۔
میں شمع، وہ پروانہ ہو۔
ذرا دیکھ کے چال ستاروں کی۔
کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا
کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ۔
جو کر دے بخت سکندر سا
کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر۔
کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔
کوئی ایسا دے تعویز مجھے۔
وہ مجھ پر عاشق ہو جائے۔
کوئی فال نکال کرشمہ گر ۔
مری راہ میں پھول گلاب آئیں۔
کوئی پانی پھونک کے دے ایسا۔
وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔
کوئی ایسا کالا جادو کر
جو جگمگ کر دے میرے دن۔
وہ کہے مبارک جلدی آ ۔
اب جیا نہ جائے تیرے بن۔
کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے ۔
جس رہ سے وہ دلدار ملے۔
کوئی تسبیح دم درود بتا ۔
جسے پڑھوں تو میرا یار ملے
کوئی قابو کر بے قابو جن۔
کوئی سانپ نکال پٹاری سے
کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا
کوئی منکا اکشا دھاری سے ۔
کوئی ایسا بول سکھا دے نا۔
وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں۔
کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ۔
وہ جانے ، جان نثار ہوں میں۔
کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا۔
اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں ۔
جو مرضی میرے یار کی ہے۔
اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں۔
کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ۔
جو اشک بہا دے سجدوں میں۔
اور جیسے تیرا دعویٰ ہے
محبوب ہو میرے قدموں میں ۔
پر عامل رک، اک بات کہوں۔
یہ قدموں والی بات ہے کیا ؟
محبوب تو ہے سر آنکھوں پر۔
مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا۔
اور عامل سن یہ کام بدل۔
یہ کام بہت نقصان کا ہے۔
سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں۔
جو مالک کل جہان کا ہے .
اللہ تعالی کی بنائی ہوئی کائنات میں بہت ساری چیزیں ظاہر ہیں اور بہت سارے اسرار پوشیدہ ہیں۔ پوشیدہ چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا خیال انسانوں کو ہمیشہ ہی اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے۔ اس میں کچھ چیزیں جائز اور حلال ہیں اور کچھ چیزیں ناجائز اور حرام ہیں ۔ جادو بھی ان حرام کاموں میں سے ایک ہے جو ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ جادو کی کئی اقسام ہیں اس کے بارے میں تفصیلات تو علماءاکرام یا مستند دینی کتابوں سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ میں نہ عالم دین ہوں اور نہ ہی عملیات کا ماہر۔ اس موضوع پر اپنے مشاہدات اور تجربات لکھوں گا تو پڑھنے والے مجھے فاترالعقل ہی سمجھیں گے اسلئیے میرا اس موضوع پر کچھ لکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ البتہ یہ ضرور بتاتا چلوں کہ کئی مرتبہ جادو کا شکار ہو چکا ہوں اور ان معاملات میں بری طرح پھنسا رہا، مگر اللہ نے کرم کیا اور مفتی احسان صاحب اور مولانا لائق صاحب کی رہنمائی اور علاج کی بدولت اللہ نے ان مسائل سے بغیر کسی بڑے نقصان کے نکال دیا۔
سن دو ہزار چھ میں میں میری ملاقات ہمارےگھر کے قریب ایک بہت بڑے مدرسہ کے استاد الحدیث مفتی احسان اللہ شاہ اصغر صاحب سے ہوئی اور دو ہزار آٹھ میں مولانا لائق عادل صاحب سے تعلق بنا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان دونوں علمائےکرام سے دوستی گھریلو تعلقات میں بدلتے چلے گئے۔ دونوں حضرات صحیح بخاری کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ عملیات کے بھی ماہر ہیں۔ ان کی صحبت میں رہنے سے جادو کے بارے حقیقی معلومات ملی۔ جسمانی امراض اور روحانی معاملات یعنی نظر، جادو اور جناتی اثرات کے بارے میں اپنی تسبیح پکڑ کر بتا دینا، ان کی کاٹ اور اس کے بعد مریض کا اچانک ٹھیک ہونا یہ سب میرے سامنے سینکڑوں مرتبہ ہو چکا ہے۔
جادو کی سب سے گندی قسم اور نچلا درجہ سفلی جادو یا کالا جادو کا ہے۔ سفلی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے جادو کی اسی قسم کو بیان کیا ہے اور جادو کے ذریعے ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو اپنے ناول کا مرکزی خیال رکھا ہے۔
جادو اور جنات کے عملیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ جادو کے زور پر کسی ملک کے راز چرانا جس سے پورے ملک کی سلامتی دائو پر لگ جائے یا جادو کے زور پر کسی بھی ملک کی اہم شخصیت کو مارنے کی کوشش کرنا اور ان ساری کوششوں کو اسطرح سے جاسوسی ناول میں بیان کرنا کہ مستند معلومات کے حامل لوگ یا ان حالات سے گزرے لوگ بھی اسے پڑھ کر قبول کر لیں، واقعی لکھاری کی لکھنے سے پہلے مکمل تحقیق اور اپنی تحریر پر مکمل گرفت کوظاہر کرتاہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کالے بھونڈ __ جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ
نواز شریف: اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
آوازہ کی طرف سے آواز اٹھانے پر ریڈیو پاکستان کا سپورٹس چینل بحال
دوسری دلچسپ بات اس میں عمران کا گمباگا نامی جن سے جسمانی مقابلہ ہے ایک انسان کی جنات سے جسمانی لڑائی لڑ کر جن کو شکست دینا اور اس کی سائنسی توجیہ بیان کرنا انداز بیان کا کمال ہے کہ پڑھنے والے اسے قبول کر لیتے ہیں۔
جاسوسی ناول کے لئے پلاٹس بہت کم ہوتے ہیں اس میں جادو کے زور پر ملکی دفاع کی فائل چرانے کا خیال ذرا مختلف ہے۔ قدم قدم پر جادو کے حملے، جادوگروں سے ٹکرائو اور اس سے بچنے کی دعائیں اور جادوگروں سے لڑنے کےلئے روحانی عملیات اورساتھ ساتھ جسمانی لڑائیاں اور اسلحہ کا استعمال ،یقینی طور پر بہترین انداز بیان ہے کہ قاری واقعات کے تسلسل میں اسطرح سے جکڑ جاتا ہے کہ ناول ختم کئے بنا چین نہیں ملتا۔
جامعہ الرشید کے استاد الحدیث مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب “دجال 2 ۔ عالمی دجالی ریاست، ابتدا سے انتہا تک” میں عالمی صہیونی تنظیموں کے بارے میں بتایا ہے کہ دجال کی آمد کےمنتظر شیطان کے پیروکار یہودیوں اور صہیونیوں نے کس طرح جادو کے زور پر مسلمانوں کی اور دنیا کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا ہے اور سعودی بادشاہ شاہ فیصل شہید اور امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ جادو بھی شامل تھا۔
سفلی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے بڑی تفصیل سے سفلی عمل یا کالے جادو کو بیان کیا ہے اور حقیقت میں سفلی دنیا میں ہونے والے واقعات کو اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔ ان کے بیان کردہ بیشتر واقعات حقیقت کے بہت قریب ہیں اور جن لوگوں کا واسطہ ان معاملات سے پڑ چکا ہے وہ اسے بہت بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ ایسے کئی عاملین حضرات سے میرا ذاتی تعلق ہے جو روحانی عملیات کے ذریعے جسمانی اور روحانی مسائل کے بارے میں معلوم کر لیتے ہیں۔
سفلی دنیا مظہر کلیم صاحب کا بہت خاص ناول ہے جس میں انھوں نے کئی کامیاب تجربات کئے ہیں اور عمران سیریز کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی دی ہے۔
ابن صفی صاحب کے بعد بہت سارے مصنفین نے عمران سیریز میں مختلف کرداروں کا اضافہ کیا مگر مجموعی طور پر کسی نے بھی عمران سے زیادہ طاقتور اور بااختیار کردار تخلیق نہیں کیا اور سارے کرداروں کو عمران سے نیچے ہی رکھا حتی کہ مظہر کلیم صاحب نے بھی کرنل فریدی جیسے کردار کو بھی عمران کے ہم پلہ ہی دکھایا اور کچھ سچویشن میں عمران کرنل فریدی پر سبقت لے گیا۔
میرے خیال میں اس ناول کی سب سے اہم بات سید چراغ شاہ صاحب کی دھماکہ دار انٹری ہے جس نے آکر کئی دہائیوں سے ناقابل تسخیر، ناقابل شکست، اپنی تہہ درد تہہ شخصیت کو چھپانے کے ماہر ، ملک کے طاقتور ترین اور بااختیار شخص کو پہلی ہی ملاقات میں چاروں شانے چت کر دیا۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں جہالت کی وجہ سے جعلی پیر و فقیر، تعویز گنڈےکا رواج عام ہے وہاں سید چراغ شاہ جیسے کردار کو اپنے قارئین سے قبول کروانا مظہر کلیم صاحب کا عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان ان جعلی تعویز گنڈے اور جعلی پیروں کے بارے میں جو سوچ رکھتا ہے اسکی مظہر کلیم صاحب نے سید چراغ شاہ صاحب سے پہلی ملاقات میں بہترین منظر کشی کی ہے۔ آج کے دور میں جب روحانیت کے نام پر کاروبار چل رہا ہے ایک روحانی شخصیت کے مقام و مرتبہ کو ملک کی سب سے ذہین، قابل اور طاقتور شخصیت سے قبول کروانا اور اسطرح سے انداز بیان رکھنا کی قارئین بھی اسے تسلیم کر لیں اس ناول کی سب سے خاص بات ہے۔
بہت مزے کی سچویشن اس وقت بنتی ہے جب کئی دہائیوں سے مقبول اور ناقابل شکست کردار علی عمران کو احساس ہوتا ہے کہ گائوں میں بیٹھے سید چراغ شاہ صاحب کے سامنے وہ طفل مکتب ہے اور گائوں کے اس بوڑھے انسان کے پاس ایکسٹو سے بھی زیادہ اختیارات ہیں۔
سید چراغ شاہ کے کردار میں انھوں نے تصوف، تبلیغ، عملیات، تدریس اور روحانیت کو ایک ساتھ جمع کیا ہے اور اس موضوع کی حساسیت اور نزاکت کو پیچیدگیوں سے بچا کر بڑے سہل انداز میں بیان کیا ہے۔ مذہبی علم یا معلومات رکھنے والے اس موضوع کی نزاکتیں سمجھ سکتے ہیں کہ مستند دینی کتابوں میں موجود باتوں سے ہٹ کر کوئی بات ہو تو اسے پڑھنے والے قبول نہیں کر پاتے ہیں۔
بہرحال جادو ایک حقیقت ہے اور اس سے بچنے کے لئے نمازوں کا اہتمام، جسمانی پاکیزگی، رزق حلال کا اہتمام، معوذات کی تلاوت اور مسنون دعائوں کا اہتمام ضروری یے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اللہ نے کسی کو دینی یا دنیاوی کوئی منصب یا نعمتیں دی ہیں تو اسے چاہئیے کہ استعازہ کا اہتمام کرے یعنی ایسی دعائوں کا جو اعوذ باللہ سے شروع ہوتی ہوں۔
“سفلی دنیا” جنوں بھوتوں اور جادو کی عام روایتی کہانیوں سے ہٹ کر ایک مختلف اوربہترین ناول ہے جسے پڑھ کر قارئین لطف اندوز ہوں گے۔
جادو کا ذکر ہوتے ہی میرے ذہن میں مبارک صدیقی کوہی صاحب کی اس نظم کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور آجاتا ہے۔ اس نظم سے جڑی بہت سی یادیں ہیں جن کا تذکرہ الگ سے کروں گا۔ پہلے ایک نظر اس نظم پر
کوئی ایسا جادو ٹونہ کر۔
مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو۔
یوں الٹ پلٹ کر گردش کی۔
میں شمع، وہ پروانہ ہو۔
ذرا دیکھ کے چال ستاروں کی۔
کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا
کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ۔
جو کر دے بخت سکندر سا
کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر۔
کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔
کوئی ایسا دے تعویز مجھے۔
وہ مجھ پر عاشق ہو جائے۔
کوئی فال نکال کرشمہ گر ۔
مری راہ میں پھول گلاب آئیں۔
کوئی پانی پھونک کے دے ایسا۔
وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔
کوئی ایسا کالا جادو کر
جو جگمگ کر دے میرے دن۔
وہ کہے مبارک جلدی آ ۔
اب جیا نہ جائے تیرے بن۔
کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے ۔
جس رہ سے وہ دلدار ملے۔
کوئی تسبیح دم درود بتا ۔
جسے پڑھوں تو میرا یار ملے
کوئی قابو کر بے قابو جن۔
کوئی سانپ نکال پٹاری سے
کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا
کوئی منکا اکشا دھاری سے ۔
کوئی ایسا بول سکھا دے نا۔
وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں۔
کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ۔
وہ جانے ، جان نثار ہوں میں۔
کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا۔
اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں ۔
جو مرضی میرے یار کی ہے۔
اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں۔
کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ۔
جو اشک بہا دے سجدوں میں۔
اور جیسے تیرا دعویٰ ہے
محبوب ہو میرے قدموں میں ۔
پر عامل رک، اک بات کہوں۔
یہ قدموں والی بات ہے کیا ؟
محبوب تو ہے سر آنکھوں پر۔
مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا۔
اور عامل سن یہ کام بدل۔
یہ کام بہت نقصان کا ہے۔
سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں۔
جو مالک کل جہان کا ہے .
اللہ تعالی کی بنائی ہوئی کائنات میں بہت ساری چیزیں ظاہر ہیں اور بہت سارے اسرار پوشیدہ ہیں۔ پوشیدہ چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا خیال انسانوں کو ہمیشہ ہی اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے۔ اس میں کچھ چیزیں جائز اور حلال ہیں اور کچھ چیزیں ناجائز اور حرام ہیں ۔ جادو بھی ان حرام کاموں میں سے ایک ہے جو ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ جادو کی کئی اقسام ہیں اس کے بارے میں تفصیلات تو علماءاکرام یا مستند دینی کتابوں سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ میں نہ عالم دین ہوں اور نہ ہی عملیات کا ماہر۔ اس موضوع پر اپنے مشاہدات اور تجربات لکھوں گا تو پڑھنے والے مجھے فاترالعقل ہی سمجھیں گے اسلئیے میرا اس موضوع پر کچھ لکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ البتہ یہ ضرور بتاتا چلوں کہ کئی مرتبہ جادو کا شکار ہو چکا ہوں اور ان معاملات میں بری طرح پھنسا رہا، مگر اللہ نے کرم کیا اور مفتی احسان صاحب اور مولانا لائق صاحب کی رہنمائی اور علاج کی بدولت اللہ نے ان مسائل سے بغیر کسی بڑے نقصان کے نکال دیا۔
سن دو ہزار چھ میں میں میری ملاقات ہمارےگھر کے قریب ایک بہت بڑے مدرسہ کے استاد الحدیث مفتی احسان اللہ شاہ اصغر صاحب سے ہوئی اور دو ہزار آٹھ میں مولانا لائق عادل صاحب سے تعلق بنا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان دونوں علمائےکرام سے دوستی گھریلو تعلقات میں بدلتے چلے گئے۔ دونوں حضرات صحیح بخاری کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ عملیات کے بھی ماہر ہیں۔ ان کی صحبت میں رہنے سے جادو کے بارے حقیقی معلومات ملی۔ جسمانی امراض اور روحانی معاملات یعنی نظر، جادو اور جناتی اثرات کے بارے میں اپنی تسبیح پکڑ کر بتا دینا، ان کی کاٹ اور اس کے بعد مریض کا اچانک ٹھیک ہونا یہ سب میرے سامنے سینکڑوں مرتبہ ہو چکا ہے۔
جادو کی سب سے گندی قسم اور نچلا درجہ سفلی جادو یا کالا جادو کا ہے۔ سفلی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے جادو کی اسی قسم کو بیان کیا ہے اور جادو کے ذریعے ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو اپنے ناول کا مرکزی خیال رکھا ہے۔
جادو اور جنات کے عملیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ جادو کے زور پر کسی ملک کے راز چرانا جس سے پورے ملک کی سلامتی دائو پر لگ جائے یا جادو کے زور پر کسی بھی ملک کی اہم شخصیت کو مارنے کی کوشش کرنا اور ان ساری کوششوں کو اسطرح سے جاسوسی ناول میں بیان کرنا کہ مستند معلومات کے حامل لوگ یا ان حالات سے گزرے لوگ بھی اسے پڑھ کر قبول کر لیں، واقعی لکھاری کی لکھنے سے پہلے مکمل تحقیق اور اپنی تحریر پر مکمل گرفت کوظاہر کرتاہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کالے بھونڈ __ جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ
نواز شریف: اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
آوازہ کی طرف سے آواز اٹھانے پر ریڈیو پاکستان کا سپورٹس چینل بحال
دوسری دلچسپ بات اس میں عمران کا گمباگا نامی جن سے جسمانی مقابلہ ہے ایک انسان کی جنات سے جسمانی لڑائی لڑ کر جن کو شکست دینا اور اس کی سائنسی توجیہ بیان کرنا انداز بیان کا کمال ہے کہ پڑھنے والے اسے قبول کر لیتے ہیں۔
جاسوسی ناول کے لئے پلاٹس بہت کم ہوتے ہیں اس میں جادو کے زور پر ملکی دفاع کی فائل چرانے کا خیال ذرا مختلف ہے۔ قدم قدم پر جادو کے حملے، جادوگروں سے ٹکرائو اور اس سے بچنے کی دعائیں اور جادوگروں سے لڑنے کےلئے روحانی عملیات اورساتھ ساتھ جسمانی لڑائیاں اور اسلحہ کا استعمال ،یقینی طور پر بہترین انداز بیان ہے کہ قاری واقعات کے تسلسل میں اسطرح سے جکڑ جاتا ہے کہ ناول ختم کئے بنا چین نہیں ملتا۔
جامعہ الرشید کے استاد الحدیث مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب “دجال 2 ۔ عالمی دجالی ریاست، ابتدا سے انتہا تک” میں عالمی صہیونی تنظیموں کے بارے میں بتایا ہے کہ دجال کی آمد کےمنتظر شیطان کے پیروکار یہودیوں اور صہیونیوں نے کس طرح جادو کے زور پر مسلمانوں کی اور دنیا کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا ہے اور سعودی بادشاہ شاہ فیصل شہید اور امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ جادو بھی شامل تھا۔
سفلی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے بڑی تفصیل سے سفلی عمل یا کالے جادو کو بیان کیا ہے اور حقیقت میں سفلی دنیا میں ہونے والے واقعات کو اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔ ان کے بیان کردہ بیشتر واقعات حقیقت کے بہت قریب ہیں اور جن لوگوں کا واسطہ ان معاملات سے پڑ چکا ہے وہ اسے بہت بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ ایسے کئی عاملین حضرات سے میرا ذاتی تعلق ہے جو روحانی عملیات کے ذریعے جسمانی اور روحانی مسائل کے بارے میں معلوم کر لیتے ہیں۔
سفلی دنیا مظہر کلیم صاحب کا بہت خاص ناول ہے جس میں انھوں نے کئی کامیاب تجربات کئے ہیں اور عمران سیریز کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی دی ہے۔
ابن صفی صاحب کے بعد بہت سارے مصنفین نے عمران سیریز میں مختلف کرداروں کا اضافہ کیا مگر مجموعی طور پر کسی نے بھی عمران سے زیادہ طاقتور اور بااختیار کردار تخلیق نہیں کیا اور سارے کرداروں کو عمران سے نیچے ہی رکھا حتی کہ مظہر کلیم صاحب نے بھی کرنل فریدی جیسے کردار کو بھی عمران کے ہم پلہ ہی دکھایا اور کچھ سچویشن میں عمران کرنل فریدی پر سبقت لے گیا۔
میرے خیال میں اس ناول کی سب سے اہم بات سید چراغ شاہ صاحب کی دھماکہ دار انٹری ہے جس نے آکر کئی دہائیوں سے ناقابل تسخیر، ناقابل شکست، اپنی تہہ درد تہہ شخصیت کو چھپانے کے ماہر ، ملک کے طاقتور ترین اور بااختیار شخص کو پہلی ہی ملاقات میں چاروں شانے چت کر دیا۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں جہالت کی وجہ سے جعلی پیر و فقیر، تعویز گنڈےکا رواج عام ہے وہاں سید چراغ شاہ جیسے کردار کو اپنے قارئین سے قبول کروانا مظہر کلیم صاحب کا عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان ان جعلی تعویز گنڈے اور جعلی پیروں کے بارے میں جو سوچ رکھتا ہے اسکی مظہر کلیم صاحب نے سید چراغ شاہ صاحب سے پہلی ملاقات میں بہترین منظر کشی کی ہے۔ آج کے دور میں جب روحانیت کے نام پر کاروبار چل رہا ہے ایک روحانی شخصیت کے مقام و مرتبہ کو ملک کی سب سے ذہین، قابل اور طاقتور شخصیت سے قبول کروانا اور اسطرح سے انداز بیان رکھنا کی قارئین بھی اسے تسلیم کر لیں اس ناول کی سب سے خاص بات ہے۔
بہت مزے کی سچویشن اس وقت بنتی ہے جب کئی دہائیوں سے مقبول اور ناقابل شکست کردار علی عمران کو احساس ہوتا ہے کہ گائوں میں بیٹھے سید چراغ شاہ صاحب کے سامنے وہ طفل مکتب ہے اور گائوں کے اس بوڑھے انسان کے پاس ایکسٹو سے بھی زیادہ اختیارات ہیں۔
سید چراغ شاہ کے کردار میں انھوں نے تصوف، تبلیغ، عملیات، تدریس اور روحانیت کو ایک ساتھ جمع کیا ہے اور اس موضوع کی حساسیت اور نزاکت کو پیچیدگیوں سے بچا کر بڑے سہل انداز میں بیان کیا ہے۔ مذہبی علم یا معلومات رکھنے والے اس موضوع کی نزاکتیں سمجھ سکتے ہیں کہ مستند دینی کتابوں میں موجود باتوں سے ہٹ کر کوئی بات ہو تو اسے پڑھنے والے قبول نہیں کر پاتے ہیں۔
بہرحال جادو ایک حقیقت ہے اور اس سے بچنے کے لئے نمازوں کا اہتمام، جسمانی پاکیزگی، رزق حلال کا اہتمام، معوذات کی تلاوت اور مسنون دعائوں کا اہتمام ضروری یے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اللہ نے کسی کو دینی یا دنیاوی کوئی منصب یا نعمتیں دی ہیں تو اسے چاہئیے کہ استعازہ کا اہتمام کرے یعنی ایسی دعائوں کا جو اعوذ باللہ سے شروع ہوتی ہوں۔
“سفلی دنیا” جنوں بھوتوں اور جادو کی عام روایتی کہانیوں سے ہٹ کر ایک مختلف اوربہترین ناول ہے جسے پڑھ کر قارئین لطف اندوز ہوں گے۔
جادو کا ذکر ہوتے ہی میرے ذہن میں مبارک صدیقی کوہی صاحب کی اس نظم کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور آجاتا ہے۔ اس نظم سے جڑی بہت سی یادیں ہیں جن کا تذکرہ الگ سے کروں گا۔ پہلے ایک نظر اس نظم پر
کوئی ایسا جادو ٹونہ کر۔
مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو۔
یوں الٹ پلٹ کر گردش کی۔
میں شمع، وہ پروانہ ہو۔
ذرا دیکھ کے چال ستاروں کی۔
کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا
کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ۔
جو کر دے بخت سکندر سا
کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر۔
کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔
کوئی ایسا دے تعویز مجھے۔
وہ مجھ پر عاشق ہو جائے۔
کوئی فال نکال کرشمہ گر ۔
مری راہ میں پھول گلاب آئیں۔
کوئی پانی پھونک کے دے ایسا۔
وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔
کوئی ایسا کالا جادو کر
جو جگمگ کر دے میرے دن۔
وہ کہے مبارک جلدی آ ۔
اب جیا نہ جائے تیرے بن۔
کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے ۔
جس رہ سے وہ دلدار ملے۔
کوئی تسبیح دم درود بتا ۔
جسے پڑھوں تو میرا یار ملے
کوئی قابو کر بے قابو جن۔
کوئی سانپ نکال پٹاری سے
کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا
کوئی منکا اکشا دھاری سے ۔
کوئی ایسا بول سکھا دے نا۔
وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں۔
کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ۔
وہ جانے ، جان نثار ہوں میں۔
کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا۔
اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں ۔
جو مرضی میرے یار کی ہے۔
اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں۔
کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ۔
جو اشک بہا دے سجدوں میں۔
اور جیسے تیرا دعویٰ ہے
محبوب ہو میرے قدموں میں ۔
پر عامل رک، اک بات کہوں۔
یہ قدموں والی بات ہے کیا ؟
محبوب تو ہے سر آنکھوں پر۔
مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا۔
اور عامل سن یہ کام بدل۔
یہ کام بہت نقصان کا ہے۔
سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں۔
جو مالک کل جہان کا ہے .
اللہ تعالی کی بنائی ہوئی کائنات میں بہت ساری چیزیں ظاہر ہیں اور بہت سارے اسرار پوشیدہ ہیں۔ پوشیدہ چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا خیال انسانوں کو ہمیشہ ہی اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے۔ اس میں کچھ چیزیں جائز اور حلال ہیں اور کچھ چیزیں ناجائز اور حرام ہیں ۔ جادو بھی ان حرام کاموں میں سے ایک ہے جو ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ جادو کی کئی اقسام ہیں اس کے بارے میں تفصیلات تو علماءاکرام یا مستند دینی کتابوں سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ میں نہ عالم دین ہوں اور نہ ہی عملیات کا ماہر۔ اس موضوع پر اپنے مشاہدات اور تجربات لکھوں گا تو پڑھنے والے مجھے فاترالعقل ہی سمجھیں گے اسلئیے میرا اس موضوع پر کچھ لکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ البتہ یہ ضرور بتاتا چلوں کہ کئی مرتبہ جادو کا شکار ہو چکا ہوں اور ان معاملات میں بری طرح پھنسا رہا، مگر اللہ نے کرم کیا اور مفتی احسان صاحب اور مولانا لائق صاحب کی رہنمائی اور علاج کی بدولت اللہ نے ان مسائل سے بغیر کسی بڑے نقصان کے نکال دیا۔
سن دو ہزار چھ میں میں میری ملاقات ہمارےگھر کے قریب ایک بہت بڑے مدرسہ کے استاد الحدیث مفتی احسان اللہ شاہ اصغر صاحب سے ہوئی اور دو ہزار آٹھ میں مولانا لائق عادل صاحب سے تعلق بنا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان دونوں علمائےکرام سے دوستی گھریلو تعلقات میں بدلتے چلے گئے۔ دونوں حضرات صحیح بخاری کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ عملیات کے بھی ماہر ہیں۔ ان کی صحبت میں رہنے سے جادو کے بارے حقیقی معلومات ملی۔ جسمانی امراض اور روحانی معاملات یعنی نظر، جادو اور جناتی اثرات کے بارے میں اپنی تسبیح پکڑ کر بتا دینا، ان کی کاٹ اور اس کے بعد مریض کا اچانک ٹھیک ہونا یہ سب میرے سامنے سینکڑوں مرتبہ ہو چکا ہے۔
جادو کی سب سے گندی قسم اور نچلا درجہ سفلی جادو یا کالا جادو کا ہے۔ سفلی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے جادو کی اسی قسم کو بیان کیا ہے اور جادو کے ذریعے ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو اپنے ناول کا مرکزی خیال رکھا ہے۔
جادو اور جنات کے عملیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ جادو کے زور پر کسی ملک کے راز چرانا جس سے پورے ملک کی سلامتی دائو پر لگ جائے یا جادو کے زور پر کسی بھی ملک کی اہم شخصیت کو مارنے کی کوشش کرنا اور ان ساری کوششوں کو اسطرح سے جاسوسی ناول میں بیان کرنا کہ مستند معلومات کے حامل لوگ یا ان حالات سے گزرے لوگ بھی اسے پڑھ کر قبول کر لیں، واقعی لکھاری کی لکھنے سے پہلے مکمل تحقیق اور اپنی تحریر پر مکمل گرفت کوظاہر کرتاہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کالے بھونڈ __ جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ
نواز شریف: اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
آوازہ کی طرف سے آواز اٹھانے پر ریڈیو پاکستان کا سپورٹس چینل بحال
دوسری دلچسپ بات اس میں عمران کا گمباگا نامی جن سے جسمانی مقابلہ ہے ایک انسان کی جنات سے جسمانی لڑائی لڑ کر جن کو شکست دینا اور اس کی سائنسی توجیہ بیان کرنا انداز بیان کا کمال ہے کہ پڑھنے والے اسے قبول کر لیتے ہیں۔
جاسوسی ناول کے لئے پلاٹس بہت کم ہوتے ہیں اس میں جادو کے زور پر ملکی دفاع کی فائل چرانے کا خیال ذرا مختلف ہے۔ قدم قدم پر جادو کے حملے، جادوگروں سے ٹکرائو اور اس سے بچنے کی دعائیں اور جادوگروں سے لڑنے کےلئے روحانی عملیات اورساتھ ساتھ جسمانی لڑائیاں اور اسلحہ کا استعمال ،یقینی طور پر بہترین انداز بیان ہے کہ قاری واقعات کے تسلسل میں اسطرح سے جکڑ جاتا ہے کہ ناول ختم کئے بنا چین نہیں ملتا۔
جامعہ الرشید کے استاد الحدیث مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب “دجال 2 ۔ عالمی دجالی ریاست، ابتدا سے انتہا تک” میں عالمی صہیونی تنظیموں کے بارے میں بتایا ہے کہ دجال کی آمد کےمنتظر شیطان کے پیروکار یہودیوں اور صہیونیوں نے کس طرح جادو کے زور پر مسلمانوں کی اور دنیا کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا ہے اور سعودی بادشاہ شاہ فیصل شہید اور امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ جادو بھی شامل تھا۔
سفلی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے بڑی تفصیل سے سفلی عمل یا کالے جادو کو بیان کیا ہے اور حقیقت میں سفلی دنیا میں ہونے والے واقعات کو اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔ ان کے بیان کردہ بیشتر واقعات حقیقت کے بہت قریب ہیں اور جن لوگوں کا واسطہ ان معاملات سے پڑ چکا ہے وہ اسے بہت بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ ایسے کئی عاملین حضرات سے میرا ذاتی تعلق ہے جو روحانی عملیات کے ذریعے جسمانی اور روحانی مسائل کے بارے میں معلوم کر لیتے ہیں۔
سفلی دنیا مظہر کلیم صاحب کا بہت خاص ناول ہے جس میں انھوں نے کئی کامیاب تجربات کئے ہیں اور عمران سیریز کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی دی ہے۔
ابن صفی صاحب کے بعد بہت سارے مصنفین نے عمران سیریز میں مختلف کرداروں کا اضافہ کیا مگر مجموعی طور پر کسی نے بھی عمران سے زیادہ طاقتور اور بااختیار کردار تخلیق نہیں کیا اور سارے کرداروں کو عمران سے نیچے ہی رکھا حتی کہ مظہر کلیم صاحب نے بھی کرنل فریدی جیسے کردار کو بھی عمران کے ہم پلہ ہی دکھایا اور کچھ سچویشن میں عمران کرنل فریدی پر سبقت لے گیا۔
میرے خیال میں اس ناول کی سب سے اہم بات سید چراغ شاہ صاحب کی دھماکہ دار انٹری ہے جس نے آکر کئی دہائیوں سے ناقابل تسخیر، ناقابل شکست، اپنی تہہ درد تہہ شخصیت کو چھپانے کے ماہر ، ملک کے طاقتور ترین اور بااختیار شخص کو پہلی ہی ملاقات میں چاروں شانے چت کر دیا۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں جہالت کی وجہ سے جعلی پیر و فقیر، تعویز گنڈےکا رواج عام ہے وہاں سید چراغ شاہ جیسے کردار کو اپنے قارئین سے قبول کروانا مظہر کلیم صاحب کا عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان ان جعلی تعویز گنڈے اور جعلی پیروں کے بارے میں جو سوچ رکھتا ہے اسکی مظہر کلیم صاحب نے سید چراغ شاہ صاحب سے پہلی ملاقات میں بہترین منظر کشی کی ہے۔ آج کے دور میں جب روحانیت کے نام پر کاروبار چل رہا ہے ایک روحانی شخصیت کے مقام و مرتبہ کو ملک کی سب سے ذہین، قابل اور طاقتور شخصیت سے قبول کروانا اور اسطرح سے انداز بیان رکھنا کی قارئین بھی اسے تسلیم کر لیں اس ناول کی سب سے خاص بات ہے۔
بہت مزے کی سچویشن اس وقت بنتی ہے جب کئی دہائیوں سے مقبول اور ناقابل شکست کردار علی عمران کو احساس ہوتا ہے کہ گائوں میں بیٹھے سید چراغ شاہ صاحب کے سامنے وہ طفل مکتب ہے اور گائوں کے اس بوڑھے انسان کے پاس ایکسٹو سے بھی زیادہ اختیارات ہیں۔
سید چراغ شاہ کے کردار میں انھوں نے تصوف، تبلیغ، عملیات، تدریس اور روحانیت کو ایک ساتھ جمع کیا ہے اور اس موضوع کی حساسیت اور نزاکت کو پیچیدگیوں سے بچا کر بڑے سہل انداز میں بیان کیا ہے۔ مذہبی علم یا معلومات رکھنے والے اس موضوع کی نزاکتیں سمجھ سکتے ہیں کہ مستند دینی کتابوں میں موجود باتوں سے ہٹ کر کوئی بات ہو تو اسے پڑھنے والے قبول نہیں کر پاتے ہیں۔
بہرحال جادو ایک حقیقت ہے اور اس سے بچنے کے لئے نمازوں کا اہتمام، جسمانی پاکیزگی، رزق حلال کا اہتمام، معوذات کی تلاوت اور مسنون دعائوں کا اہتمام ضروری یے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اللہ نے کسی کو دینی یا دنیاوی کوئی منصب یا نعمتیں دی ہیں تو اسے چاہئیے کہ استعازہ کا اہتمام کرے یعنی ایسی دعائوں کا جو اعوذ باللہ سے شروع ہوتی ہوں۔
“سفلی دنیا” جنوں بھوتوں اور جادو کی عام روایتی کہانیوں سے ہٹ کر ایک مختلف اوربہترین ناول ہے جسے پڑھ کر قارئین لطف اندوز ہوں گے۔