Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
میرے ابو، ماموں اور خالو بھی عمران سیریز پڑھا کرتے تھے لیکن اس سے پہلے میں یہ بتابا چاہتا ہوں کہ میں پڑھنا کیسے سیکھا اور عمران سیریز کی طرف کیسے آیا۔ میری امی نے سات سال کی عمر میں مجھے اور میری چھوٹی بہن کو اردو پڑھنا سکھائی اورہم بچوں کی کہانیاں پڑھنے لگے۔ اس سے پہلے امی ہمیں روزانہ رات میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ان کی سنائی ہوئی ایک کہانی جو آج کل وہ میرے چھوٹے بچوں کو سناتی ہیں جس کا ذکر اس تحریر میں کر رہا ہوں۔ میں نے ان سے فرمائش کر کے آج پھر سنی۔
جنگل میں ایک بکری اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ قریب ایک بھیڑیا رہتا ہے جو بکری کے بچوں کو کھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بکری اپنے اور اپنے بچوں کے لئے جب خوراک کا انتظام کرنے باہر جاتی ہے تو اپنے بچوں کو کہتی ہے کہ جب میں واپس آئوں گی تو تو کہوں گی اٹٹ بٹٹ پٹ کھول دے تو تم لوگ دروازہ کھولنا۔ جب بکری چلی جاتی تو بھیڑیا دروازے پر آ کر بکری کی آواز میں دروازہ کھولنے کا کہتا ہے مگر بکری کے بچے کوڈز ورڈز کا تقاضا کرتے ہیں اور دروازہ نہیں کھولتے اور بھیڑیے سے محفوظ رہتے ہیں۔
بچپن میں سنی اس کہانی کی وجہ سے ہم بچوں نے روزانہ کی بنیاد پر اپنی گفتگو میں نت نئے کوڈ ورڈزطے کرنا شروع کر دئے تھے، جب بھی میں گھر کے باہر کھڑا ہوتا اور میری گلی میں ہی واقع میری خالہ کے گھر سے میری ہم عمر میری خالہ زاد میرے گھر آ رہی ہوتی تو میں گھر کے اندر جا کر دروازہ بند کر دیتا۔ وہ دروازہ کے باہر کھڑی کنڈی بجاتی اور میں دروازہ کھولنے سے پہلے کوڈ ورڈز کا تقاضا کرتا۔ روزانہ کی بنیاد پر طے کئے جانے والے کوڈز کبھی اسے یاد ہوتے اور کبھی بھول جاتی اور میں دروازہ نہیں کھولتا اور وہ تیز تیز کنڈی بجانے لگتی حتی کہ امی آ کردروازہ کھولتیں۔ یہی حرکت وہ میرے ساتھ کرتی اور دروازہ کھولنے سے پہلے کوڈز کا تقاضا کرتی۔ جب کئی دنوں تک ایسا ہوا تو ایک دن ہماری پٹائی ہوئی اور یہ معاملہ ختم ہوا۔
جب ہم بچوں کی کہانیاں پڑھنے لگے اور ظالم دیو اور مکار جادوگر کسی کو گھر سے اغوا کر کے لے جاتا تھا تو میں سوچتا تھا کہ کیسے بیوقوف گھر والے تھے کہ کوڈ ورڈزطے نہیں کیا۔ اگر کوڈز ورڈز طے کر لیتے تو مکار جادوگر اور ظالم دیو سے بچت ہو جاتی۔ اگلے چند سالوں میں مظہر کلیم صاحب کی بچوں پر لکھی سیریز پڑھنی شروع کی تو نئے کردار میری زندگی میں داخل ہو گئے۔
ٹارزن، عمروعیار، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو اور چلوسک ملوسک سیریز پڑھی اور آنے والی ہر نئی کتاب پڑھتا رہا۔ میرے پسندیدہ کردار چلوسک ملوسک تھے۔ خاص کر جب چلوسک ملوسک اپنے خلائی جہاز کو لے کر کسی نئے سیارہ پر چلے جاتے ہیں۔
زمین کی حدود سے نکل کر کسی نئے سیارہ پر جانے کا خیال مجھے چلوسک ملوسک کے نئے سیارہ پر جانے سے ہی رہا اور ٹائم زون میں سفر کر کے پچھلے زمانے میں جانے کے خیالات اے حمید صاحب کی ناگ عنبر ماریا سیریز پڑھ کر آتے رہے ۔ میں ابو سے زمین سے نکل کر کسی نئے سیارہ پر جانے یا موجودہ زمانے سے نکل ٹائم ٹریول مشین کے زریعے پرانے زمانے میں جانے کے متعلق اکثر پوچھتا رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی کہانیوں میں بھی مظہر کلیم صاحب نے نیا انداز متعارف کروایا اور اس زمانے کے ہم بچوں کو بچپن میں ہی نئے سیارے، خلائی مخلوق اور خلائی جہاز جیسے خیالات دے دئیے۔
ہمارے پرانے محلے کے پڑوسی ساجد نظامی کے والد صاحب کے ہمارے دادا کے زمانےسے یعنی ستر سال پرانے تعلقات ہیں۔ ساجد میرا ہم عمر ہے اور ہم نے مختلف اسکولوں سے مگر ایک ہی سال میں میٹرک کیا تھا۔ میں اور ساجد مل کر کہانیوں کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ بعد میں عمران سیریز لینے پاک عرب لائبریری ساتھ جایا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے کچھ عرصہ کے لئے ایک چھوٹی لائیبریری بھی چلائی جہاں میں اکثر جا کر بیٹھتا اور عمران سیریز اور دیگر کتابیں یا رسائل پڑھتا رہتا تھا۔
ساجد کے بڑے بھائی عابد نظامی جو مجھ سے تقریبا دس سال بڑے ہیں اور اپنے اسکول کے زمانے سے ہی ان کا تعلق اسلامی جمعت طلبہ سے رہا۔ عابد بھائی ہمارے اور محلہ کے مختلف گھروں میں ماہنامہ ساتھی کئی سال تک پابندی سے پہنچاتے رہے۔ غالبا سن اٹھاسی کی بات ہے کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی بزم ساتھی یا جمعیت کے کسی پروگرام میں لے گئے اور میرا تعلق عابد بھائی سے بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری دوستی عابد بھائی سے بڑھنے لگی۔ لڑکپن اور نوجوانی کے دنوں میں میں بہت سارے دینی مسائل ان سے کھل کر پوچھتا تھا اور وہ اس کے بارے میں مجھے اور اپنے چھوٹے بھائیوں کو بتاتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
فلسطین ، ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر
یہ آپ کا بحران ہے، پاکستان کا نہیں
تبلیغی جماعت اور مظہر کلیم کی عمران سیریز ساتھ ساتھ چلے؟
عابد بھائی کی شخصیت بھی کمال کی تھی، محلہ میں موجود خالی پلاٹوں میں لے جا کر کبھی وہ ہمیں جوڈو کراٹے سکھاتے تو کبھی چھری ، کانٹے اور کسی بھی برتن یا سامنے موجود چیزوں کو استعمال کر کے کنگفو کی ٹریننگ دینا شروع ہو جاتے۔ کبھی وہ زمین کھود کر بھربھری مٹی پر ہمیں لانگ جمپ اور ہائی جمپ لگواتے تو کبھی میدان میں لے جا کر دوڑنے کی مشق کرواتے اور کبھی ہمیں پکڑ کر جم لیجاتے اور باڈی بلڈنگ کے فوائد سمجھانے لگتے۔ کبھی ہمیں درخت پر چڑھنا سکھاتے۔ ہم شہر کی گنجان آبادی میں رہنے کے باوجوداور اپنے علاقہ میں کتے اور بلیوں کے علاوہ کبھی کسی جانور کو نہ دیکھنے کے باوجود، شیر، چیتے اور دیگر جنگلی جانوروں کے متوقع خیالی حملے سے بچنے کے لئے عابد بھائی سے درخت پر چڑھنے کی تربیت لیتے رہے۔ ایک دن وہ کہیں سے بہت ساری لاٹھیاں لے آئے اور ہمیں لاٹھی چلا کر دشمن سے بچائو کے طریقے سکھانے لگے۔ ایک دن جب میں گھر سے نکلا تو وہ ہاتھ میں ننچک لیکر گھوم رہے تھے۔ میں ان کے پیچھے پیچھے گھومتا رہا کہ مجھے بھی ننچک چلانا سکھا دیں۔ وہ بڑی سنجیدہ شکل بنا کر کہتے رہے کہ تم ابھی بہت چھوٹے ہو بعد میں سکھائوں گا۔
مجھے مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز پڑھتے تھوڑا وقت ہوگیا تھا۔ مظہر کلیم صاحب کی وادی مشکبار کی جدوجہد پر لکھے کئی ناول پڑھ چکا تھا۔ عابد بھائی نے مجھے بتایا تھاکہ ناول میں لکھے مشکبار کا مطلب کشمیر ہے۔ اس زمانے میں کشمیر کا جہاد عروج پر تھا۔ عابد بھائی افواج پاکستان کے اسلحے، توپ، ٹینک، جنگی جہازوں اور ان کو ملنے والے میڈلز کے اسٹیکرز لا کر اپنی دوکان یا لائبریری میں بیچتے تھے جسے میں خرید کر اپنی کتابوں اور گھر میں مختلف جگہوں پر لگاتا تھا۔ مختلف رسالوں میں چھپنے والی کشمیری مجاہدین کی کہانیاں عابد بھائی پڑھتے تھے اور ہمیں بڑے ڈرامائی انداز میں سناتے تھے۔ میں ان کی زبانی کشمیر اور مجاہدین کے واقعات سنتا تھا اور گھر آ کر اسٹیکر دیکھتا رہتا تھا۔ اسکے بعد جب میں مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز کے مشکباری ناول پڑھتا تھا تو خیالوں ہی خیالوں میں عمران اور سیکرٹ سروس کے ساتھ ساتھ کشمیر پہنچ جاتا تھا اور انڈین فوج سے لڑتا تھا۔ اس زمانے میں پڑھے عمران سیریز کے مشکباری موضوع پر لکھے ناول کے ہر ہر جملے میں ، میں عمران اور سیکرٹ سروس کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔
عابد بھائی نے ابن صفی صاحب اور مظہر کلیم صاحب کے کافی ناول پڑھے تھے۔ ان کی رائے دونوں مصنفین کے بارے میں معتدل تھی۔ میرے خیال میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عمران سیریز پڑھنے والوں کی پسند پر محترم ابن صفی صاحب غالب رہے۔ نوے کی دہائی میں مجھ جیسے عمران سیریز پڑھنے والوں کے پسندیدہ مصنف مظہر کلیم صاحب رہے مگر اسی کی دہائی سے عمران سیریز شروع کرنے والوں کی پسند ابن صفی صاحب کے بعد مظہر کلیم صاحب ہی رہے۔ یہ میرا خیال ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
میں نےایم بی اے کے بعد سائٹ ایریا واقع ایک کمپنی میں ملازمت شروع کی تو عابد بھائی بھی قریب ہی ایک کمپنی میں کام کرتے تھے اور تقریبا دو سال تک صبح میرے ساتھ ہی جایا کرتے تھے اور ہم لوگ اکثر عمران سیریز کے کسی نہ کسی کردار یا سچویشن پر بات کرتے رہتے تھے۔ میری شادی سے پہلے کا ایک سال ہم لوگ رات دیر تک ساتھ بیٹھتے تھے اور عمران سیریز کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ مظہر کلیم صاحب کے لکھے مائورائی ناولوں کے بارے میں بات کرتے کرتے اکثر ہم رات گئے الخلیل مارکیٹ کی طرف سے چہل قدمی کرتے کرتے سیکٹر ساڑھے گیارہ کے قبرستان چلے جاتے تھےاور عابد بھائی کے کہنے پر جنات کی تلاش میں قبرستان کے اندر جا کر گھومتے رہتے تھے جس کی تفصیل میں مظہر کلیم صاحب کے مائورائی ناولوں پر اپنی تحریر میں لکھوں گا۔
میرے ابو، ماموں اور خالو بھی عمران سیریز پڑھا کرتے تھے لیکن اس سے پہلے میں یہ بتابا چاہتا ہوں کہ میں پڑھنا کیسے سیکھا اور عمران سیریز کی طرف کیسے آیا۔ میری امی نے سات سال کی عمر میں مجھے اور میری چھوٹی بہن کو اردو پڑھنا سکھائی اورہم بچوں کی کہانیاں پڑھنے لگے۔ اس سے پہلے امی ہمیں روزانہ رات میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ان کی سنائی ہوئی ایک کہانی جو آج کل وہ میرے چھوٹے بچوں کو سناتی ہیں جس کا ذکر اس تحریر میں کر رہا ہوں۔ میں نے ان سے فرمائش کر کے آج پھر سنی۔
جنگل میں ایک بکری اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ قریب ایک بھیڑیا رہتا ہے جو بکری کے بچوں کو کھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بکری اپنے اور اپنے بچوں کے لئے جب خوراک کا انتظام کرنے باہر جاتی ہے تو اپنے بچوں کو کہتی ہے کہ جب میں واپس آئوں گی تو تو کہوں گی اٹٹ بٹٹ پٹ کھول دے تو تم لوگ دروازہ کھولنا۔ جب بکری چلی جاتی تو بھیڑیا دروازے پر آ کر بکری کی آواز میں دروازہ کھولنے کا کہتا ہے مگر بکری کے بچے کوڈز ورڈز کا تقاضا کرتے ہیں اور دروازہ نہیں کھولتے اور بھیڑیے سے محفوظ رہتے ہیں۔
بچپن میں سنی اس کہانی کی وجہ سے ہم بچوں نے روزانہ کی بنیاد پر اپنی گفتگو میں نت نئے کوڈ ورڈزطے کرنا شروع کر دئے تھے، جب بھی میں گھر کے باہر کھڑا ہوتا اور میری گلی میں ہی واقع میری خالہ کے گھر سے میری ہم عمر میری خالہ زاد میرے گھر آ رہی ہوتی تو میں گھر کے اندر جا کر دروازہ بند کر دیتا۔ وہ دروازہ کے باہر کھڑی کنڈی بجاتی اور میں دروازہ کھولنے سے پہلے کوڈ ورڈز کا تقاضا کرتا۔ روزانہ کی بنیاد پر طے کئے جانے والے کوڈز کبھی اسے یاد ہوتے اور کبھی بھول جاتی اور میں دروازہ نہیں کھولتا اور وہ تیز تیز کنڈی بجانے لگتی حتی کہ امی آ کردروازہ کھولتیں۔ یہی حرکت وہ میرے ساتھ کرتی اور دروازہ کھولنے سے پہلے کوڈز کا تقاضا کرتی۔ جب کئی دنوں تک ایسا ہوا تو ایک دن ہماری پٹائی ہوئی اور یہ معاملہ ختم ہوا۔
جب ہم بچوں کی کہانیاں پڑھنے لگے اور ظالم دیو اور مکار جادوگر کسی کو گھر سے اغوا کر کے لے جاتا تھا تو میں سوچتا تھا کہ کیسے بیوقوف گھر والے تھے کہ کوڈ ورڈزطے نہیں کیا۔ اگر کوڈز ورڈز طے کر لیتے تو مکار جادوگر اور ظالم دیو سے بچت ہو جاتی۔ اگلے چند سالوں میں مظہر کلیم صاحب کی بچوں پر لکھی سیریز پڑھنی شروع کی تو نئے کردار میری زندگی میں داخل ہو گئے۔
ٹارزن، عمروعیار، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو اور چلوسک ملوسک سیریز پڑھی اور آنے والی ہر نئی کتاب پڑھتا رہا۔ میرے پسندیدہ کردار چلوسک ملوسک تھے۔ خاص کر جب چلوسک ملوسک اپنے خلائی جہاز کو لے کر کسی نئے سیارہ پر چلے جاتے ہیں۔
زمین کی حدود سے نکل کر کسی نئے سیارہ پر جانے کا خیال مجھے چلوسک ملوسک کے نئے سیارہ پر جانے سے ہی رہا اور ٹائم زون میں سفر کر کے پچھلے زمانے میں جانے کے خیالات اے حمید صاحب کی ناگ عنبر ماریا سیریز پڑھ کر آتے رہے ۔ میں ابو سے زمین سے نکل کر کسی نئے سیارہ پر جانے یا موجودہ زمانے سے نکل ٹائم ٹریول مشین کے زریعے پرانے زمانے میں جانے کے متعلق اکثر پوچھتا رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی کہانیوں میں بھی مظہر کلیم صاحب نے نیا انداز متعارف کروایا اور اس زمانے کے ہم بچوں کو بچپن میں ہی نئے سیارے، خلائی مخلوق اور خلائی جہاز جیسے خیالات دے دئیے۔
ہمارے پرانے محلے کے پڑوسی ساجد نظامی کے والد صاحب کے ہمارے دادا کے زمانےسے یعنی ستر سال پرانے تعلقات ہیں۔ ساجد میرا ہم عمر ہے اور ہم نے مختلف اسکولوں سے مگر ایک ہی سال میں میٹرک کیا تھا۔ میں اور ساجد مل کر کہانیوں کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ بعد میں عمران سیریز لینے پاک عرب لائبریری ساتھ جایا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے کچھ عرصہ کے لئے ایک چھوٹی لائیبریری بھی چلائی جہاں میں اکثر جا کر بیٹھتا اور عمران سیریز اور دیگر کتابیں یا رسائل پڑھتا رہتا تھا۔
ساجد کے بڑے بھائی عابد نظامی جو مجھ سے تقریبا دس سال بڑے ہیں اور اپنے اسکول کے زمانے سے ہی ان کا تعلق اسلامی جمعت طلبہ سے رہا۔ عابد بھائی ہمارے اور محلہ کے مختلف گھروں میں ماہنامہ ساتھی کئی سال تک پابندی سے پہنچاتے رہے۔ غالبا سن اٹھاسی کی بات ہے کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی بزم ساتھی یا جمعیت کے کسی پروگرام میں لے گئے اور میرا تعلق عابد بھائی سے بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری دوستی عابد بھائی سے بڑھنے لگی۔ لڑکپن اور نوجوانی کے دنوں میں میں بہت سارے دینی مسائل ان سے کھل کر پوچھتا تھا اور وہ اس کے بارے میں مجھے اور اپنے چھوٹے بھائیوں کو بتاتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
فلسطین ، ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر
یہ آپ کا بحران ہے، پاکستان کا نہیں
تبلیغی جماعت اور مظہر کلیم کی عمران سیریز ساتھ ساتھ چلے؟
عابد بھائی کی شخصیت بھی کمال کی تھی، محلہ میں موجود خالی پلاٹوں میں لے جا کر کبھی وہ ہمیں جوڈو کراٹے سکھاتے تو کبھی چھری ، کانٹے اور کسی بھی برتن یا سامنے موجود چیزوں کو استعمال کر کے کنگفو کی ٹریننگ دینا شروع ہو جاتے۔ کبھی وہ زمین کھود کر بھربھری مٹی پر ہمیں لانگ جمپ اور ہائی جمپ لگواتے تو کبھی میدان میں لے جا کر دوڑنے کی مشق کرواتے اور کبھی ہمیں پکڑ کر جم لیجاتے اور باڈی بلڈنگ کے فوائد سمجھانے لگتے۔ کبھی ہمیں درخت پر چڑھنا سکھاتے۔ ہم شہر کی گنجان آبادی میں رہنے کے باوجوداور اپنے علاقہ میں کتے اور بلیوں کے علاوہ کبھی کسی جانور کو نہ دیکھنے کے باوجود، شیر، چیتے اور دیگر جنگلی جانوروں کے متوقع خیالی حملے سے بچنے کے لئے عابد بھائی سے درخت پر چڑھنے کی تربیت لیتے رہے۔ ایک دن وہ کہیں سے بہت ساری لاٹھیاں لے آئے اور ہمیں لاٹھی چلا کر دشمن سے بچائو کے طریقے سکھانے لگے۔ ایک دن جب میں گھر سے نکلا تو وہ ہاتھ میں ننچک لیکر گھوم رہے تھے۔ میں ان کے پیچھے پیچھے گھومتا رہا کہ مجھے بھی ننچک چلانا سکھا دیں۔ وہ بڑی سنجیدہ شکل بنا کر کہتے رہے کہ تم ابھی بہت چھوٹے ہو بعد میں سکھائوں گا۔
مجھے مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز پڑھتے تھوڑا وقت ہوگیا تھا۔ مظہر کلیم صاحب کی وادی مشکبار کی جدوجہد پر لکھے کئی ناول پڑھ چکا تھا۔ عابد بھائی نے مجھے بتایا تھاکہ ناول میں لکھے مشکبار کا مطلب کشمیر ہے۔ اس زمانے میں کشمیر کا جہاد عروج پر تھا۔ عابد بھائی افواج پاکستان کے اسلحے، توپ، ٹینک، جنگی جہازوں اور ان کو ملنے والے میڈلز کے اسٹیکرز لا کر اپنی دوکان یا لائبریری میں بیچتے تھے جسے میں خرید کر اپنی کتابوں اور گھر میں مختلف جگہوں پر لگاتا تھا۔ مختلف رسالوں میں چھپنے والی کشمیری مجاہدین کی کہانیاں عابد بھائی پڑھتے تھے اور ہمیں بڑے ڈرامائی انداز میں سناتے تھے۔ میں ان کی زبانی کشمیر اور مجاہدین کے واقعات سنتا تھا اور گھر آ کر اسٹیکر دیکھتا رہتا تھا۔ اسکے بعد جب میں مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز کے مشکباری ناول پڑھتا تھا تو خیالوں ہی خیالوں میں عمران اور سیکرٹ سروس کے ساتھ ساتھ کشمیر پہنچ جاتا تھا اور انڈین فوج سے لڑتا تھا۔ اس زمانے میں پڑھے عمران سیریز کے مشکباری موضوع پر لکھے ناول کے ہر ہر جملے میں ، میں عمران اور سیکرٹ سروس کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔
عابد بھائی نے ابن صفی صاحب اور مظہر کلیم صاحب کے کافی ناول پڑھے تھے۔ ان کی رائے دونوں مصنفین کے بارے میں معتدل تھی۔ میرے خیال میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عمران سیریز پڑھنے والوں کی پسند پر محترم ابن صفی صاحب غالب رہے۔ نوے کی دہائی میں مجھ جیسے عمران سیریز پڑھنے والوں کے پسندیدہ مصنف مظہر کلیم صاحب رہے مگر اسی کی دہائی سے عمران سیریز شروع کرنے والوں کی پسند ابن صفی صاحب کے بعد مظہر کلیم صاحب ہی رہے۔ یہ میرا خیال ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
میں نےایم بی اے کے بعد سائٹ ایریا واقع ایک کمپنی میں ملازمت شروع کی تو عابد بھائی بھی قریب ہی ایک کمپنی میں کام کرتے تھے اور تقریبا دو سال تک صبح میرے ساتھ ہی جایا کرتے تھے اور ہم لوگ اکثر عمران سیریز کے کسی نہ کسی کردار یا سچویشن پر بات کرتے رہتے تھے۔ میری شادی سے پہلے کا ایک سال ہم لوگ رات دیر تک ساتھ بیٹھتے تھے اور عمران سیریز کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ مظہر کلیم صاحب کے لکھے مائورائی ناولوں کے بارے میں بات کرتے کرتے اکثر ہم رات گئے الخلیل مارکیٹ کی طرف سے چہل قدمی کرتے کرتے سیکٹر ساڑھے گیارہ کے قبرستان چلے جاتے تھےاور عابد بھائی کے کہنے پر جنات کی تلاش میں قبرستان کے اندر جا کر گھومتے رہتے تھے جس کی تفصیل میں مظہر کلیم صاحب کے مائورائی ناولوں پر اپنی تحریر میں لکھوں گا۔
میرے ابو، ماموں اور خالو بھی عمران سیریز پڑھا کرتے تھے لیکن اس سے پہلے میں یہ بتابا چاہتا ہوں کہ میں پڑھنا کیسے سیکھا اور عمران سیریز کی طرف کیسے آیا۔ میری امی نے سات سال کی عمر میں مجھے اور میری چھوٹی بہن کو اردو پڑھنا سکھائی اورہم بچوں کی کہانیاں پڑھنے لگے۔ اس سے پہلے امی ہمیں روزانہ رات میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ان کی سنائی ہوئی ایک کہانی جو آج کل وہ میرے چھوٹے بچوں کو سناتی ہیں جس کا ذکر اس تحریر میں کر رہا ہوں۔ میں نے ان سے فرمائش کر کے آج پھر سنی۔
جنگل میں ایک بکری اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ قریب ایک بھیڑیا رہتا ہے جو بکری کے بچوں کو کھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بکری اپنے اور اپنے بچوں کے لئے جب خوراک کا انتظام کرنے باہر جاتی ہے تو اپنے بچوں کو کہتی ہے کہ جب میں واپس آئوں گی تو تو کہوں گی اٹٹ بٹٹ پٹ کھول دے تو تم لوگ دروازہ کھولنا۔ جب بکری چلی جاتی تو بھیڑیا دروازے پر آ کر بکری کی آواز میں دروازہ کھولنے کا کہتا ہے مگر بکری کے بچے کوڈز ورڈز کا تقاضا کرتے ہیں اور دروازہ نہیں کھولتے اور بھیڑیے سے محفوظ رہتے ہیں۔
بچپن میں سنی اس کہانی کی وجہ سے ہم بچوں نے روزانہ کی بنیاد پر اپنی گفتگو میں نت نئے کوڈ ورڈزطے کرنا شروع کر دئے تھے، جب بھی میں گھر کے باہر کھڑا ہوتا اور میری گلی میں ہی واقع میری خالہ کے گھر سے میری ہم عمر میری خالہ زاد میرے گھر آ رہی ہوتی تو میں گھر کے اندر جا کر دروازہ بند کر دیتا۔ وہ دروازہ کے باہر کھڑی کنڈی بجاتی اور میں دروازہ کھولنے سے پہلے کوڈ ورڈز کا تقاضا کرتا۔ روزانہ کی بنیاد پر طے کئے جانے والے کوڈز کبھی اسے یاد ہوتے اور کبھی بھول جاتی اور میں دروازہ نہیں کھولتا اور وہ تیز تیز کنڈی بجانے لگتی حتی کہ امی آ کردروازہ کھولتیں۔ یہی حرکت وہ میرے ساتھ کرتی اور دروازہ کھولنے سے پہلے کوڈز کا تقاضا کرتی۔ جب کئی دنوں تک ایسا ہوا تو ایک دن ہماری پٹائی ہوئی اور یہ معاملہ ختم ہوا۔
جب ہم بچوں کی کہانیاں پڑھنے لگے اور ظالم دیو اور مکار جادوگر کسی کو گھر سے اغوا کر کے لے جاتا تھا تو میں سوچتا تھا کہ کیسے بیوقوف گھر والے تھے کہ کوڈ ورڈزطے نہیں کیا۔ اگر کوڈز ورڈز طے کر لیتے تو مکار جادوگر اور ظالم دیو سے بچت ہو جاتی۔ اگلے چند سالوں میں مظہر کلیم صاحب کی بچوں پر لکھی سیریز پڑھنی شروع کی تو نئے کردار میری زندگی میں داخل ہو گئے۔
ٹارزن، عمروعیار، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو اور چلوسک ملوسک سیریز پڑھی اور آنے والی ہر نئی کتاب پڑھتا رہا۔ میرے پسندیدہ کردار چلوسک ملوسک تھے۔ خاص کر جب چلوسک ملوسک اپنے خلائی جہاز کو لے کر کسی نئے سیارہ پر چلے جاتے ہیں۔
زمین کی حدود سے نکل کر کسی نئے سیارہ پر جانے کا خیال مجھے چلوسک ملوسک کے نئے سیارہ پر جانے سے ہی رہا اور ٹائم زون میں سفر کر کے پچھلے زمانے میں جانے کے خیالات اے حمید صاحب کی ناگ عنبر ماریا سیریز پڑھ کر آتے رہے ۔ میں ابو سے زمین سے نکل کر کسی نئے سیارہ پر جانے یا موجودہ زمانے سے نکل ٹائم ٹریول مشین کے زریعے پرانے زمانے میں جانے کے متعلق اکثر پوچھتا رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی کہانیوں میں بھی مظہر کلیم صاحب نے نیا انداز متعارف کروایا اور اس زمانے کے ہم بچوں کو بچپن میں ہی نئے سیارے، خلائی مخلوق اور خلائی جہاز جیسے خیالات دے دئیے۔
ہمارے پرانے محلے کے پڑوسی ساجد نظامی کے والد صاحب کے ہمارے دادا کے زمانےسے یعنی ستر سال پرانے تعلقات ہیں۔ ساجد میرا ہم عمر ہے اور ہم نے مختلف اسکولوں سے مگر ایک ہی سال میں میٹرک کیا تھا۔ میں اور ساجد مل کر کہانیوں کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ بعد میں عمران سیریز لینے پاک عرب لائبریری ساتھ جایا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے کچھ عرصہ کے لئے ایک چھوٹی لائیبریری بھی چلائی جہاں میں اکثر جا کر بیٹھتا اور عمران سیریز اور دیگر کتابیں یا رسائل پڑھتا رہتا تھا۔
ساجد کے بڑے بھائی عابد نظامی جو مجھ سے تقریبا دس سال بڑے ہیں اور اپنے اسکول کے زمانے سے ہی ان کا تعلق اسلامی جمعت طلبہ سے رہا۔ عابد بھائی ہمارے اور محلہ کے مختلف گھروں میں ماہنامہ ساتھی کئی سال تک پابندی سے پہنچاتے رہے۔ غالبا سن اٹھاسی کی بات ہے کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی بزم ساتھی یا جمعیت کے کسی پروگرام میں لے گئے اور میرا تعلق عابد بھائی سے بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری دوستی عابد بھائی سے بڑھنے لگی۔ لڑکپن اور نوجوانی کے دنوں میں میں بہت سارے دینی مسائل ان سے کھل کر پوچھتا تھا اور وہ اس کے بارے میں مجھے اور اپنے چھوٹے بھائیوں کو بتاتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
فلسطین ، ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر
یہ آپ کا بحران ہے، پاکستان کا نہیں
تبلیغی جماعت اور مظہر کلیم کی عمران سیریز ساتھ ساتھ چلے؟
عابد بھائی کی شخصیت بھی کمال کی تھی، محلہ میں موجود خالی پلاٹوں میں لے جا کر کبھی وہ ہمیں جوڈو کراٹے سکھاتے تو کبھی چھری ، کانٹے اور کسی بھی برتن یا سامنے موجود چیزوں کو استعمال کر کے کنگفو کی ٹریننگ دینا شروع ہو جاتے۔ کبھی وہ زمین کھود کر بھربھری مٹی پر ہمیں لانگ جمپ اور ہائی جمپ لگواتے تو کبھی میدان میں لے جا کر دوڑنے کی مشق کرواتے اور کبھی ہمیں پکڑ کر جم لیجاتے اور باڈی بلڈنگ کے فوائد سمجھانے لگتے۔ کبھی ہمیں درخت پر چڑھنا سکھاتے۔ ہم شہر کی گنجان آبادی میں رہنے کے باوجوداور اپنے علاقہ میں کتے اور بلیوں کے علاوہ کبھی کسی جانور کو نہ دیکھنے کے باوجود، شیر، چیتے اور دیگر جنگلی جانوروں کے متوقع خیالی حملے سے بچنے کے لئے عابد بھائی سے درخت پر چڑھنے کی تربیت لیتے رہے۔ ایک دن وہ کہیں سے بہت ساری لاٹھیاں لے آئے اور ہمیں لاٹھی چلا کر دشمن سے بچائو کے طریقے سکھانے لگے۔ ایک دن جب میں گھر سے نکلا تو وہ ہاتھ میں ننچک لیکر گھوم رہے تھے۔ میں ان کے پیچھے پیچھے گھومتا رہا کہ مجھے بھی ننچک چلانا سکھا دیں۔ وہ بڑی سنجیدہ شکل بنا کر کہتے رہے کہ تم ابھی بہت چھوٹے ہو بعد میں سکھائوں گا۔
مجھے مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز پڑھتے تھوڑا وقت ہوگیا تھا۔ مظہر کلیم صاحب کی وادی مشکبار کی جدوجہد پر لکھے کئی ناول پڑھ چکا تھا۔ عابد بھائی نے مجھے بتایا تھاکہ ناول میں لکھے مشکبار کا مطلب کشمیر ہے۔ اس زمانے میں کشمیر کا جہاد عروج پر تھا۔ عابد بھائی افواج پاکستان کے اسلحے، توپ، ٹینک، جنگی جہازوں اور ان کو ملنے والے میڈلز کے اسٹیکرز لا کر اپنی دوکان یا لائبریری میں بیچتے تھے جسے میں خرید کر اپنی کتابوں اور گھر میں مختلف جگہوں پر لگاتا تھا۔ مختلف رسالوں میں چھپنے والی کشمیری مجاہدین کی کہانیاں عابد بھائی پڑھتے تھے اور ہمیں بڑے ڈرامائی انداز میں سناتے تھے۔ میں ان کی زبانی کشمیر اور مجاہدین کے واقعات سنتا تھا اور گھر آ کر اسٹیکر دیکھتا رہتا تھا۔ اسکے بعد جب میں مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز کے مشکباری ناول پڑھتا تھا تو خیالوں ہی خیالوں میں عمران اور سیکرٹ سروس کے ساتھ ساتھ کشمیر پہنچ جاتا تھا اور انڈین فوج سے لڑتا تھا۔ اس زمانے میں پڑھے عمران سیریز کے مشکباری موضوع پر لکھے ناول کے ہر ہر جملے میں ، میں عمران اور سیکرٹ سروس کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔
عابد بھائی نے ابن صفی صاحب اور مظہر کلیم صاحب کے کافی ناول پڑھے تھے۔ ان کی رائے دونوں مصنفین کے بارے میں معتدل تھی۔ میرے خیال میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عمران سیریز پڑھنے والوں کی پسند پر محترم ابن صفی صاحب غالب رہے۔ نوے کی دہائی میں مجھ جیسے عمران سیریز پڑھنے والوں کے پسندیدہ مصنف مظہر کلیم صاحب رہے مگر اسی کی دہائی سے عمران سیریز شروع کرنے والوں کی پسند ابن صفی صاحب کے بعد مظہر کلیم صاحب ہی رہے۔ یہ میرا خیال ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
میں نےایم بی اے کے بعد سائٹ ایریا واقع ایک کمپنی میں ملازمت شروع کی تو عابد بھائی بھی قریب ہی ایک کمپنی میں کام کرتے تھے اور تقریبا دو سال تک صبح میرے ساتھ ہی جایا کرتے تھے اور ہم لوگ اکثر عمران سیریز کے کسی نہ کسی کردار یا سچویشن پر بات کرتے رہتے تھے۔ میری شادی سے پہلے کا ایک سال ہم لوگ رات دیر تک ساتھ بیٹھتے تھے اور عمران سیریز کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ مظہر کلیم صاحب کے لکھے مائورائی ناولوں کے بارے میں بات کرتے کرتے اکثر ہم رات گئے الخلیل مارکیٹ کی طرف سے چہل قدمی کرتے کرتے سیکٹر ساڑھے گیارہ کے قبرستان چلے جاتے تھےاور عابد بھائی کے کہنے پر جنات کی تلاش میں قبرستان کے اندر جا کر گھومتے رہتے تھے جس کی تفصیل میں مظہر کلیم صاحب کے مائورائی ناولوں پر اپنی تحریر میں لکھوں گا۔
میرے ابو، ماموں اور خالو بھی عمران سیریز پڑھا کرتے تھے لیکن اس سے پہلے میں یہ بتابا چاہتا ہوں کہ میں پڑھنا کیسے سیکھا اور عمران سیریز کی طرف کیسے آیا۔ میری امی نے سات سال کی عمر میں مجھے اور میری چھوٹی بہن کو اردو پڑھنا سکھائی اورہم بچوں کی کہانیاں پڑھنے لگے۔ اس سے پہلے امی ہمیں روزانہ رات میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ان کی سنائی ہوئی ایک کہانی جو آج کل وہ میرے چھوٹے بچوں کو سناتی ہیں جس کا ذکر اس تحریر میں کر رہا ہوں۔ میں نے ان سے فرمائش کر کے آج پھر سنی۔
جنگل میں ایک بکری اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ قریب ایک بھیڑیا رہتا ہے جو بکری کے بچوں کو کھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بکری اپنے اور اپنے بچوں کے لئے جب خوراک کا انتظام کرنے باہر جاتی ہے تو اپنے بچوں کو کہتی ہے کہ جب میں واپس آئوں گی تو تو کہوں گی اٹٹ بٹٹ پٹ کھول دے تو تم لوگ دروازہ کھولنا۔ جب بکری چلی جاتی تو بھیڑیا دروازے پر آ کر بکری کی آواز میں دروازہ کھولنے کا کہتا ہے مگر بکری کے بچے کوڈز ورڈز کا تقاضا کرتے ہیں اور دروازہ نہیں کھولتے اور بھیڑیے سے محفوظ رہتے ہیں۔
بچپن میں سنی اس کہانی کی وجہ سے ہم بچوں نے روزانہ کی بنیاد پر اپنی گفتگو میں نت نئے کوڈ ورڈزطے کرنا شروع کر دئے تھے، جب بھی میں گھر کے باہر کھڑا ہوتا اور میری گلی میں ہی واقع میری خالہ کے گھر سے میری ہم عمر میری خالہ زاد میرے گھر آ رہی ہوتی تو میں گھر کے اندر جا کر دروازہ بند کر دیتا۔ وہ دروازہ کے باہر کھڑی کنڈی بجاتی اور میں دروازہ کھولنے سے پہلے کوڈ ورڈز کا تقاضا کرتا۔ روزانہ کی بنیاد پر طے کئے جانے والے کوڈز کبھی اسے یاد ہوتے اور کبھی بھول جاتی اور میں دروازہ نہیں کھولتا اور وہ تیز تیز کنڈی بجانے لگتی حتی کہ امی آ کردروازہ کھولتیں۔ یہی حرکت وہ میرے ساتھ کرتی اور دروازہ کھولنے سے پہلے کوڈز کا تقاضا کرتی۔ جب کئی دنوں تک ایسا ہوا تو ایک دن ہماری پٹائی ہوئی اور یہ معاملہ ختم ہوا۔
جب ہم بچوں کی کہانیاں پڑھنے لگے اور ظالم دیو اور مکار جادوگر کسی کو گھر سے اغوا کر کے لے جاتا تھا تو میں سوچتا تھا کہ کیسے بیوقوف گھر والے تھے کہ کوڈ ورڈزطے نہیں کیا۔ اگر کوڈز ورڈز طے کر لیتے تو مکار جادوگر اور ظالم دیو سے بچت ہو جاتی۔ اگلے چند سالوں میں مظہر کلیم صاحب کی بچوں پر لکھی سیریز پڑھنی شروع کی تو نئے کردار میری زندگی میں داخل ہو گئے۔
ٹارزن، عمروعیار، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو اور چلوسک ملوسک سیریز پڑھی اور آنے والی ہر نئی کتاب پڑھتا رہا۔ میرے پسندیدہ کردار چلوسک ملوسک تھے۔ خاص کر جب چلوسک ملوسک اپنے خلائی جہاز کو لے کر کسی نئے سیارہ پر چلے جاتے ہیں۔
زمین کی حدود سے نکل کر کسی نئے سیارہ پر جانے کا خیال مجھے چلوسک ملوسک کے نئے سیارہ پر جانے سے ہی رہا اور ٹائم زون میں سفر کر کے پچھلے زمانے میں جانے کے خیالات اے حمید صاحب کی ناگ عنبر ماریا سیریز پڑھ کر آتے رہے ۔ میں ابو سے زمین سے نکل کر کسی نئے سیارہ پر جانے یا موجودہ زمانے سے نکل ٹائم ٹریول مشین کے زریعے پرانے زمانے میں جانے کے متعلق اکثر پوچھتا رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی کہانیوں میں بھی مظہر کلیم صاحب نے نیا انداز متعارف کروایا اور اس زمانے کے ہم بچوں کو بچپن میں ہی نئے سیارے، خلائی مخلوق اور خلائی جہاز جیسے خیالات دے دئیے۔
ہمارے پرانے محلے کے پڑوسی ساجد نظامی کے والد صاحب کے ہمارے دادا کے زمانےسے یعنی ستر سال پرانے تعلقات ہیں۔ ساجد میرا ہم عمر ہے اور ہم نے مختلف اسکولوں سے مگر ایک ہی سال میں میٹرک کیا تھا۔ میں اور ساجد مل کر کہانیوں کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ بعد میں عمران سیریز لینے پاک عرب لائبریری ساتھ جایا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے کچھ عرصہ کے لئے ایک چھوٹی لائیبریری بھی چلائی جہاں میں اکثر جا کر بیٹھتا اور عمران سیریز اور دیگر کتابیں یا رسائل پڑھتا رہتا تھا۔
ساجد کے بڑے بھائی عابد نظامی جو مجھ سے تقریبا دس سال بڑے ہیں اور اپنے اسکول کے زمانے سے ہی ان کا تعلق اسلامی جمعت طلبہ سے رہا۔ عابد بھائی ہمارے اور محلہ کے مختلف گھروں میں ماہنامہ ساتھی کئی سال تک پابندی سے پہنچاتے رہے۔ غالبا سن اٹھاسی کی بات ہے کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی بزم ساتھی یا جمعیت کے کسی پروگرام میں لے گئے اور میرا تعلق عابد بھائی سے بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری دوستی عابد بھائی سے بڑھنے لگی۔ لڑکپن اور نوجوانی کے دنوں میں میں بہت سارے دینی مسائل ان سے کھل کر پوچھتا تھا اور وہ اس کے بارے میں مجھے اور اپنے چھوٹے بھائیوں کو بتاتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
فلسطین ، ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر
یہ آپ کا بحران ہے، پاکستان کا نہیں
تبلیغی جماعت اور مظہر کلیم کی عمران سیریز ساتھ ساتھ چلے؟
عابد بھائی کی شخصیت بھی کمال کی تھی، محلہ میں موجود خالی پلاٹوں میں لے جا کر کبھی وہ ہمیں جوڈو کراٹے سکھاتے تو کبھی چھری ، کانٹے اور کسی بھی برتن یا سامنے موجود چیزوں کو استعمال کر کے کنگفو کی ٹریننگ دینا شروع ہو جاتے۔ کبھی وہ زمین کھود کر بھربھری مٹی پر ہمیں لانگ جمپ اور ہائی جمپ لگواتے تو کبھی میدان میں لے جا کر دوڑنے کی مشق کرواتے اور کبھی ہمیں پکڑ کر جم لیجاتے اور باڈی بلڈنگ کے فوائد سمجھانے لگتے۔ کبھی ہمیں درخت پر چڑھنا سکھاتے۔ ہم شہر کی گنجان آبادی میں رہنے کے باوجوداور اپنے علاقہ میں کتے اور بلیوں کے علاوہ کبھی کسی جانور کو نہ دیکھنے کے باوجود، شیر، چیتے اور دیگر جنگلی جانوروں کے متوقع خیالی حملے سے بچنے کے لئے عابد بھائی سے درخت پر چڑھنے کی تربیت لیتے رہے۔ ایک دن وہ کہیں سے بہت ساری لاٹھیاں لے آئے اور ہمیں لاٹھی چلا کر دشمن سے بچائو کے طریقے سکھانے لگے۔ ایک دن جب میں گھر سے نکلا تو وہ ہاتھ میں ننچک لیکر گھوم رہے تھے۔ میں ان کے پیچھے پیچھے گھومتا رہا کہ مجھے بھی ننچک چلانا سکھا دیں۔ وہ بڑی سنجیدہ شکل بنا کر کہتے رہے کہ تم ابھی بہت چھوٹے ہو بعد میں سکھائوں گا۔
مجھے مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز پڑھتے تھوڑا وقت ہوگیا تھا۔ مظہر کلیم صاحب کی وادی مشکبار کی جدوجہد پر لکھے کئی ناول پڑھ چکا تھا۔ عابد بھائی نے مجھے بتایا تھاکہ ناول میں لکھے مشکبار کا مطلب کشمیر ہے۔ اس زمانے میں کشمیر کا جہاد عروج پر تھا۔ عابد بھائی افواج پاکستان کے اسلحے، توپ، ٹینک، جنگی جہازوں اور ان کو ملنے والے میڈلز کے اسٹیکرز لا کر اپنی دوکان یا لائبریری میں بیچتے تھے جسے میں خرید کر اپنی کتابوں اور گھر میں مختلف جگہوں پر لگاتا تھا۔ مختلف رسالوں میں چھپنے والی کشمیری مجاہدین کی کہانیاں عابد بھائی پڑھتے تھے اور ہمیں بڑے ڈرامائی انداز میں سناتے تھے۔ میں ان کی زبانی کشمیر اور مجاہدین کے واقعات سنتا تھا اور گھر آ کر اسٹیکر دیکھتا رہتا تھا۔ اسکے بعد جب میں مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز کے مشکباری ناول پڑھتا تھا تو خیالوں ہی خیالوں میں عمران اور سیکرٹ سروس کے ساتھ ساتھ کشمیر پہنچ جاتا تھا اور انڈین فوج سے لڑتا تھا۔ اس زمانے میں پڑھے عمران سیریز کے مشکباری موضوع پر لکھے ناول کے ہر ہر جملے میں ، میں عمران اور سیکرٹ سروس کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔
عابد بھائی نے ابن صفی صاحب اور مظہر کلیم صاحب کے کافی ناول پڑھے تھے۔ ان کی رائے دونوں مصنفین کے بارے میں معتدل تھی۔ میرے خیال میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عمران سیریز پڑھنے والوں کی پسند پر محترم ابن صفی صاحب غالب رہے۔ نوے کی دہائی میں مجھ جیسے عمران سیریز پڑھنے والوں کے پسندیدہ مصنف مظہر کلیم صاحب رہے مگر اسی کی دہائی سے عمران سیریز شروع کرنے والوں کی پسند ابن صفی صاحب کے بعد مظہر کلیم صاحب ہی رہے۔ یہ میرا خیال ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
میں نےایم بی اے کے بعد سائٹ ایریا واقع ایک کمپنی میں ملازمت شروع کی تو عابد بھائی بھی قریب ہی ایک کمپنی میں کام کرتے تھے اور تقریبا دو سال تک صبح میرے ساتھ ہی جایا کرتے تھے اور ہم لوگ اکثر عمران سیریز کے کسی نہ کسی کردار یا سچویشن پر بات کرتے رہتے تھے۔ میری شادی سے پہلے کا ایک سال ہم لوگ رات دیر تک ساتھ بیٹھتے تھے اور عمران سیریز کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ مظہر کلیم صاحب کے لکھے مائورائی ناولوں کے بارے میں بات کرتے کرتے اکثر ہم رات گئے الخلیل مارکیٹ کی طرف سے چہل قدمی کرتے کرتے سیکٹر ساڑھے گیارہ کے قبرستان چلے جاتے تھےاور عابد بھائی کے کہنے پر جنات کی تلاش میں قبرستان کے اندر جا کر گھومتے رہتے تھے جس کی تفصیل میں مظہر کلیم صاحب کے مائورائی ناولوں پر اپنی تحریر میں لکھوں گا۔