Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کشمیر کا ذکر ہوا تو اقبال تڑپ اٹھے اور انھوں نے سوال کیا ع
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے بدترین مظالم بلکہ نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ سامنے آیا تو یہ مصرع زبان پر بے ساختہ آ گیا۔ کشمیر میں عوام کے حق خود ارادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ اقبال نے دل نکال کر کاغذ پر رکھ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کشمیر ہو یا فلسطین بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو، اقبال کا یہ ترانہ اسے صرف زبان نہیں دیتا بلکہ احتجاج کا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ پہلے ایک نظر اس نظم پر
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینہ ٔ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر
آہ!یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ فلسطین میں تاریخ کی بدترین خون ریزی اور نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اس اعتبار سے تو حوصلہ افزا ہے کہ عالمی سطح پر طاقت کے مراکز پر چھائی ہوئی بے حسی میں یہ امید کی کرن ہے۔ اس طرح کم از کم یہ تو ہوا کہ اسرائیل کی بہیمیت اور حیوانیت کے بارے میں قانون نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ یوں اب یہ ممکن نہیں رہے گا کہ کوئی طاقت منھ بھر کر اسرائیل کی حمایت کر سکے۔ اسرائیل کے ظالمانہ طرز عمل کے نتیجے میں امریکی جامعات کے طلبہ کے غیرت مندانہ احتجاج اور باضمیر امریکی رائے عامہ کی مخالفت کے بعد اتنا تو ہوا کہ واشنگٹن انتظامیہ دبا ؤمحسوس کرنے لگی ہے اور اس نے اسرائیل کو کسی حد تک اسلحے کی فراہمی روکی ہے۔ اس فیصلے کے بعد اسرائیلی جارحیت کی کھلی حمایت اب امریکا اور اس جیسی طاقتوں کے لیے ممکن نہیں رہے گی۔ اس پہلو سے فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ حوصلہ افزا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاروں طرف پھیلے ہوئے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ روشنی کی پہلی کرن ہے جس پر کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
اس فیصلے کا ایک پہلو اور بھی ہے جس کا تعلق انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والے ملک اور اس کے راہ نما نیتن یاہو کے خلاف اس کے گناہوں کی سزا بھی ضرور سنائی جانی چاہیے تھی۔ یہ سزا اگر سنا دی جاتی، نیتن یاہو اور اس کی قاتل انتظامیہ اور مجرمانہ طرز عمل رکھنے والی فوجی قیادت کو سزا سنائی جاتی، ان کی گرفتاری کا حکم ہوتا یا اس سے بڑھ کوئی سزا تجویز ہوتی تو اس فیصلے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی۔ اس فیصلے کی اہمیت خواہ علامتی ہی رہتی لیکن اس کے باوجود قانونی طور پر ہمیشہ کے لیے ثابت ہو جاتا کہ اسرائیل ایک مجرم ریاست ہے، انسانیت کے خلاف جس کے جرائم ثابت ،دہ اور تصدیق شدہ ہیں۔ یہ فیصلہ ان عالمی قوتوں پر دباؤ میں مزید اضافہ کرتا جو کھلے یا چھپے کسی نہ کسی طرح اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں یا اس کے جرائم کی طرف اپنی آنکھیں بند رکھتی ہیں۔
اس فیصلے نے مسلم دنیا اور خاص طور پر فلسطینی عوام کے دوستوں اور اس سے محبت کرنے والی اقوام کے لیے کچھ کرنے کی ایک نئی کھڑکی کھولی ہے۔ جنوبی افریقہ عالمی عدالت انصاف میں یہ مقدمہ لے کر گیا تھا۔ اس کے علاوہ آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے اپنے طور پر ایک جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ ان ملکوں کا یہ فیصلہ اگر چہ دو ریاستی حل کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ ایک ایسا حل ہے جسے فلسطینی عوام تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستان نے بھی روز اول سے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے اس مؤقف کا ساتھ دینے کا ہمیشہ اعادہ کیا ہے جو فلسطینی عوام کو قبول ہو۔ یوں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اس قضیے کے بارے میں ہمارے تاریخی اور منصفانہ مؤقف کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ امید کی ایک بڑی کرن ہے۔ اب کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلم دنیا اور خاص طور پر قائدانہ کردار ادا کرنے والے اسلامی ممالک بڑی حکمت اور دانش مندی کے ساتھ ایک حکمت عملی تیار کر کے خاص طور پر ان چار ملکوں اور ان دیگر ممالک کے ساتھ رابطہ کریں جن کے ہاں فلسطین کے بارے میں ذرا سا نرم گوشہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد فلسطین کے حق میں ایک متحرک اورمؤثر بلاک کی تشکیل ہونا چاہیے جو علاقائی اور عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں کردار ادا کر سکے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد مسلم دنیا فوری طور پر متحرک ہو کر ان ملکوں اور اقوام سے رابطے کی حکمت عملی تیار کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔
کشمیر کا ذکر ہوا تو اقبال تڑپ اٹھے اور انھوں نے سوال کیا ع
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے بدترین مظالم بلکہ نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ سامنے آیا تو یہ مصرع زبان پر بے ساختہ آ گیا۔ کشمیر میں عوام کے حق خود ارادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ اقبال نے دل نکال کر کاغذ پر رکھ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کشمیر ہو یا فلسطین بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو، اقبال کا یہ ترانہ اسے صرف زبان نہیں دیتا بلکہ احتجاج کا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ پہلے ایک نظر اس نظم پر
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینہ ٔ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر
آہ!یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ فلسطین میں تاریخ کی بدترین خون ریزی اور نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اس اعتبار سے تو حوصلہ افزا ہے کہ عالمی سطح پر طاقت کے مراکز پر چھائی ہوئی بے حسی میں یہ امید کی کرن ہے۔ اس طرح کم از کم یہ تو ہوا کہ اسرائیل کی بہیمیت اور حیوانیت کے بارے میں قانون نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ یوں اب یہ ممکن نہیں رہے گا کہ کوئی طاقت منھ بھر کر اسرائیل کی حمایت کر سکے۔ اسرائیل کے ظالمانہ طرز عمل کے نتیجے میں امریکی جامعات کے طلبہ کے غیرت مندانہ احتجاج اور باضمیر امریکی رائے عامہ کی مخالفت کے بعد اتنا تو ہوا کہ واشنگٹن انتظامیہ دبا ؤمحسوس کرنے لگی ہے اور اس نے اسرائیل کو کسی حد تک اسلحے کی فراہمی روکی ہے۔ اس فیصلے کے بعد اسرائیلی جارحیت کی کھلی حمایت اب امریکا اور اس جیسی طاقتوں کے لیے ممکن نہیں رہے گی۔ اس پہلو سے فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ حوصلہ افزا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاروں طرف پھیلے ہوئے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ روشنی کی پہلی کرن ہے جس پر کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
اس فیصلے کا ایک پہلو اور بھی ہے جس کا تعلق انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والے ملک اور اس کے راہ نما نیتن یاہو کے خلاف اس کے گناہوں کی سزا بھی ضرور سنائی جانی چاہیے تھی۔ یہ سزا اگر سنا دی جاتی، نیتن یاہو اور اس کی قاتل انتظامیہ اور مجرمانہ طرز عمل رکھنے والی فوجی قیادت کو سزا سنائی جاتی، ان کی گرفتاری کا حکم ہوتا یا اس سے بڑھ کوئی سزا تجویز ہوتی تو اس فیصلے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی۔ اس فیصلے کی اہمیت خواہ علامتی ہی رہتی لیکن اس کے باوجود قانونی طور پر ہمیشہ کے لیے ثابت ہو جاتا کہ اسرائیل ایک مجرم ریاست ہے، انسانیت کے خلاف جس کے جرائم ثابت ،دہ اور تصدیق شدہ ہیں۔ یہ فیصلہ ان عالمی قوتوں پر دباؤ میں مزید اضافہ کرتا جو کھلے یا چھپے کسی نہ کسی طرح اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں یا اس کے جرائم کی طرف اپنی آنکھیں بند رکھتی ہیں۔
اس فیصلے نے مسلم دنیا اور خاص طور پر فلسطینی عوام کے دوستوں اور اس سے محبت کرنے والی اقوام کے لیے کچھ کرنے کی ایک نئی کھڑکی کھولی ہے۔ جنوبی افریقہ عالمی عدالت انصاف میں یہ مقدمہ لے کر گیا تھا۔ اس کے علاوہ آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے اپنے طور پر ایک جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ ان ملکوں کا یہ فیصلہ اگر چہ دو ریاستی حل کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ ایک ایسا حل ہے جسے فلسطینی عوام تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستان نے بھی روز اول سے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے اس مؤقف کا ساتھ دینے کا ہمیشہ اعادہ کیا ہے جو فلسطینی عوام کو قبول ہو۔ یوں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اس قضیے کے بارے میں ہمارے تاریخی اور منصفانہ مؤقف کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ امید کی ایک بڑی کرن ہے۔ اب کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلم دنیا اور خاص طور پر قائدانہ کردار ادا کرنے والے اسلامی ممالک بڑی حکمت اور دانش مندی کے ساتھ ایک حکمت عملی تیار کر کے خاص طور پر ان چار ملکوں اور ان دیگر ممالک کے ساتھ رابطہ کریں جن کے ہاں فلسطین کے بارے میں ذرا سا نرم گوشہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد فلسطین کے حق میں ایک متحرک اورمؤثر بلاک کی تشکیل ہونا چاہیے جو علاقائی اور عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں کردار ادا کر سکے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد مسلم دنیا فوری طور پر متحرک ہو کر ان ملکوں اور اقوام سے رابطے کی حکمت عملی تیار کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔
ADVERTISEMENT
کشمیر کا ذکر ہوا تو اقبال تڑپ اٹھے اور انھوں نے سوال کیا ع
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے بدترین مظالم بلکہ نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ سامنے آیا تو یہ مصرع زبان پر بے ساختہ آ گیا۔ کشمیر میں عوام کے حق خود ارادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ اقبال نے دل نکال کر کاغذ پر رکھ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کشمیر ہو یا فلسطین بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو، اقبال کا یہ ترانہ اسے صرف زبان نہیں دیتا بلکہ احتجاج کا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ پہلے ایک نظر اس نظم پر
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینہ ٔ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر
آہ!یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ فلسطین میں تاریخ کی بدترین خون ریزی اور نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اس اعتبار سے تو حوصلہ افزا ہے کہ عالمی سطح پر طاقت کے مراکز پر چھائی ہوئی بے حسی میں یہ امید کی کرن ہے۔ اس طرح کم از کم یہ تو ہوا کہ اسرائیل کی بہیمیت اور حیوانیت کے بارے میں قانون نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ یوں اب یہ ممکن نہیں رہے گا کہ کوئی طاقت منھ بھر کر اسرائیل کی حمایت کر سکے۔ اسرائیل کے ظالمانہ طرز عمل کے نتیجے میں امریکی جامعات کے طلبہ کے غیرت مندانہ احتجاج اور باضمیر امریکی رائے عامہ کی مخالفت کے بعد اتنا تو ہوا کہ واشنگٹن انتظامیہ دبا ؤمحسوس کرنے لگی ہے اور اس نے اسرائیل کو کسی حد تک اسلحے کی فراہمی روکی ہے۔ اس فیصلے کے بعد اسرائیلی جارحیت کی کھلی حمایت اب امریکا اور اس جیسی طاقتوں کے لیے ممکن نہیں رہے گی۔ اس پہلو سے فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ حوصلہ افزا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاروں طرف پھیلے ہوئے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ روشنی کی پہلی کرن ہے جس پر کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
اس فیصلے کا ایک پہلو اور بھی ہے جس کا تعلق انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والے ملک اور اس کے راہ نما نیتن یاہو کے خلاف اس کے گناہوں کی سزا بھی ضرور سنائی جانی چاہیے تھی۔ یہ سزا اگر سنا دی جاتی، نیتن یاہو اور اس کی قاتل انتظامیہ اور مجرمانہ طرز عمل رکھنے والی فوجی قیادت کو سزا سنائی جاتی، ان کی گرفتاری کا حکم ہوتا یا اس سے بڑھ کوئی سزا تجویز ہوتی تو اس فیصلے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی۔ اس فیصلے کی اہمیت خواہ علامتی ہی رہتی لیکن اس کے باوجود قانونی طور پر ہمیشہ کے لیے ثابت ہو جاتا کہ اسرائیل ایک مجرم ریاست ہے، انسانیت کے خلاف جس کے جرائم ثابت ،دہ اور تصدیق شدہ ہیں۔ یہ فیصلہ ان عالمی قوتوں پر دباؤ میں مزید اضافہ کرتا جو کھلے یا چھپے کسی نہ کسی طرح اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں یا اس کے جرائم کی طرف اپنی آنکھیں بند رکھتی ہیں۔
اس فیصلے نے مسلم دنیا اور خاص طور پر فلسطینی عوام کے دوستوں اور اس سے محبت کرنے والی اقوام کے لیے کچھ کرنے کی ایک نئی کھڑکی کھولی ہے۔ جنوبی افریقہ عالمی عدالت انصاف میں یہ مقدمہ لے کر گیا تھا۔ اس کے علاوہ آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے اپنے طور پر ایک جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ ان ملکوں کا یہ فیصلہ اگر چہ دو ریاستی حل کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ ایک ایسا حل ہے جسے فلسطینی عوام تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستان نے بھی روز اول سے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے اس مؤقف کا ساتھ دینے کا ہمیشہ اعادہ کیا ہے جو فلسطینی عوام کو قبول ہو۔ یوں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اس قضیے کے بارے میں ہمارے تاریخی اور منصفانہ مؤقف کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ امید کی ایک بڑی کرن ہے۔ اب کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلم دنیا اور خاص طور پر قائدانہ کردار ادا کرنے والے اسلامی ممالک بڑی حکمت اور دانش مندی کے ساتھ ایک حکمت عملی تیار کر کے خاص طور پر ان چار ملکوں اور ان دیگر ممالک کے ساتھ رابطہ کریں جن کے ہاں فلسطین کے بارے میں ذرا سا نرم گوشہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد فلسطین کے حق میں ایک متحرک اورمؤثر بلاک کی تشکیل ہونا چاہیے جو علاقائی اور عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں کردار ادا کر سکے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد مسلم دنیا فوری طور پر متحرک ہو کر ان ملکوں اور اقوام سے رابطے کی حکمت عملی تیار کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔
کشمیر کا ذکر ہوا تو اقبال تڑپ اٹھے اور انھوں نے سوال کیا ع
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے بدترین مظالم بلکہ نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ سامنے آیا تو یہ مصرع زبان پر بے ساختہ آ گیا۔ کشمیر میں عوام کے حق خود ارادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ اقبال نے دل نکال کر کاغذ پر رکھ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کشمیر ہو یا فلسطین بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو، اقبال کا یہ ترانہ اسے صرف زبان نہیں دیتا بلکہ احتجاج کا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ پہلے ایک نظر اس نظم پر
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینہ ٔ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر
آہ!یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ فلسطین میں تاریخ کی بدترین خون ریزی اور نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اس اعتبار سے تو حوصلہ افزا ہے کہ عالمی سطح پر طاقت کے مراکز پر چھائی ہوئی بے حسی میں یہ امید کی کرن ہے۔ اس طرح کم از کم یہ تو ہوا کہ اسرائیل کی بہیمیت اور حیوانیت کے بارے میں قانون نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ یوں اب یہ ممکن نہیں رہے گا کہ کوئی طاقت منھ بھر کر اسرائیل کی حمایت کر سکے۔ اسرائیل کے ظالمانہ طرز عمل کے نتیجے میں امریکی جامعات کے طلبہ کے غیرت مندانہ احتجاج اور باضمیر امریکی رائے عامہ کی مخالفت کے بعد اتنا تو ہوا کہ واشنگٹن انتظامیہ دبا ؤمحسوس کرنے لگی ہے اور اس نے اسرائیل کو کسی حد تک اسلحے کی فراہمی روکی ہے۔ اس فیصلے کے بعد اسرائیلی جارحیت کی کھلی حمایت اب امریکا اور اس جیسی طاقتوں کے لیے ممکن نہیں رہے گی۔ اس پہلو سے فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ حوصلہ افزا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاروں طرف پھیلے ہوئے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ روشنی کی پہلی کرن ہے جس پر کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
اس فیصلے کا ایک پہلو اور بھی ہے جس کا تعلق انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والے ملک اور اس کے راہ نما نیتن یاہو کے خلاف اس کے گناہوں کی سزا بھی ضرور سنائی جانی چاہیے تھی۔ یہ سزا اگر سنا دی جاتی، نیتن یاہو اور اس کی قاتل انتظامیہ اور مجرمانہ طرز عمل رکھنے والی فوجی قیادت کو سزا سنائی جاتی، ان کی گرفتاری کا حکم ہوتا یا اس سے بڑھ کوئی سزا تجویز ہوتی تو اس فیصلے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی۔ اس فیصلے کی اہمیت خواہ علامتی ہی رہتی لیکن اس کے باوجود قانونی طور پر ہمیشہ کے لیے ثابت ہو جاتا کہ اسرائیل ایک مجرم ریاست ہے، انسانیت کے خلاف جس کے جرائم ثابت ،دہ اور تصدیق شدہ ہیں۔ یہ فیصلہ ان عالمی قوتوں پر دباؤ میں مزید اضافہ کرتا جو کھلے یا چھپے کسی نہ کسی طرح اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں یا اس کے جرائم کی طرف اپنی آنکھیں بند رکھتی ہیں۔
اس فیصلے نے مسلم دنیا اور خاص طور پر فلسطینی عوام کے دوستوں اور اس سے محبت کرنے والی اقوام کے لیے کچھ کرنے کی ایک نئی کھڑکی کھولی ہے۔ جنوبی افریقہ عالمی عدالت انصاف میں یہ مقدمہ لے کر گیا تھا۔ اس کے علاوہ آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے اپنے طور پر ایک جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ ان ملکوں کا یہ فیصلہ اگر چہ دو ریاستی حل کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ ایک ایسا حل ہے جسے فلسطینی عوام تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستان نے بھی روز اول سے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے اس مؤقف کا ساتھ دینے کا ہمیشہ اعادہ کیا ہے جو فلسطینی عوام کو قبول ہو۔ یوں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اس قضیے کے بارے میں ہمارے تاریخی اور منصفانہ مؤقف کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ امید کی ایک بڑی کرن ہے۔ اب کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلم دنیا اور خاص طور پر قائدانہ کردار ادا کرنے والے اسلامی ممالک بڑی حکمت اور دانش مندی کے ساتھ ایک حکمت عملی تیار کر کے خاص طور پر ان چار ملکوں اور ان دیگر ممالک کے ساتھ رابطہ کریں جن کے ہاں فلسطین کے بارے میں ذرا سا نرم گوشہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد فلسطین کے حق میں ایک متحرک اورمؤثر بلاک کی تشکیل ہونا چاہیے جو علاقائی اور عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں کردار ادا کر سکے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد مسلم دنیا فوری طور پر متحرک ہو کر ان ملکوں اور اقوام سے رابطے کی حکمت عملی تیار کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔