Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
میں نے ابن صفی صاحب کو بھی پڑھا ہے اور دوسرے مصنفین کو بھی پڑھا ہے مگر میرے ذہن میں مظہر کلیم کا کھینچا ہوا عمران کا جو خاکہ ہے میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتا۔ نئے لکھنے والے نئے زمانے کے حساب سے اچھا لکھتے ہوں گے مگر میں اپنے پرانے عمران کو اپنے خیالات میں زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو محترمہ سیمی عثمان صاحبہ کو جواب کہ میں نے ان کی لکھی ساری تحریریں پڑھی ہیں اور دوسرے ممبران کی بھی پڑھتا رہا ہوں۔ میں کئی گروپس میں ایڈ ہوں کچھ دن پہلے صفدر سعید پر لکھی ان کی تحریر کسی نے دوبارہ شئیر کی تھی جو کہ میں پہلے بھی پڑھ چکا تھا۔ اس وقت ہی مجھے خیال آیا کہ میں بھی کچھ لکھوں۔ کچھ ساتھیوں نے ناول پر تبصروں کی بھی فرمائش کی ہے موقع ملا تو وہ بھی کروں گا۔ ابھی تو بس عمران سیریز کے حوالے سے جو کچھ زندگی میں بیتی ہے وہ لکھوں گا۔ 2005 میں پہلے مرتبہ تبلیغی جماعت کے ساتھ کے پی کے کے پہاڑوں میں جانا ہوا تو عمران کے پہاڑوں میں مکمل کئے ہوئے مشن کے خیالات آتے رہے کہ اگر ابھی عمران یا سیکرٹ سروس ہوتی کتنی آسانی سے ان پہاڑوں میں اترنا چڑھنا کر لیتے۔ اس کے بعد ہر سال ہی چالیس دنوں کے لئے تبلیغی جماعت کے ساتھ جانا ہوتا ہے اور تقریبا پورا پاکستان ہی کئی مرتبہ دیکھنے کا موقع ملا۔ 2018 سے ملازمت کی وجہ سے بھی مختلف شہروں میں جاتا رہا اور پہاڑ، صحرا جنگل دریا ہر قسم کے حالات سے اللہ نے گزارا۔ 2014 میں افریقہ کے ملک یوگنڈا جانا ہوا۔ روانڈہ اور کانگو کے باڈر کے علاقے میں موجود جنگلات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ساڑھے چار مہینے کام کیا۔ وہاں پر بھی علی عمران اور جوزف میرے ساتھ ساتھ رہے۔ مظہر کلیم صاحب کے بیان کردہ افریقہ کے چار ممالک کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔
یوگنڈا کا قومی جانور گوریلا ہے جو بن مانس سے بھی بہت بڑا ہوتا ہے میں اسے دیکھ کر سوچتا تھا کہ جوزف کے جسم میں کتنی طاقت ہوگی کہ اتنے بڑے گوریلا کو بھی اپنے ہاتھوں سے ہلاک کر دیتا تھا۔ جب ہم افریقہ کے جنگلات کے اندر جاتے تھے اور مختلف جانوروں سے سامنا ہوتا تھا تو جوزف کا خیال آتا تھا۔ ہماری جماعت نے بہت سارے افریقی مردوں اور عورتوں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ میں سوچتا تھا کہ عمران بھی سید چراغ شاہ صاحب کی ہدایت پر افریقہ میں شیطان کا زور توڑنے آتا تھا۔ مظہر کلیم صاحب کے بیان کردہ افریقی لوگ اور ان کے مقامی لباس اور روایات کو جتنا مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں پڑھا اتنا ہی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ گلگت کے پہاڑ ہوں یا ایران کا باڈر ہو یا طورخم کا بارڈر ان جگہوں پر جا کر فور اسٹارز کے مقامی جرائم پر پڑھے ناول یاد آتے رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
فیصل واؤڈا کا غم کیا ہے اور غم دہر کا جھگڑا کیا ہے؟
اسپورٹس چینل ایف ایم 94 کیوں بند کیا گیا؟
ڈیلی الاؤنس سے محروم قومی ہاکی ٹیم نے کارنامہ کیسے کیا؟
مظہر کلیم کے عمران سیریز کا عاشق دیوانہ
مظہر کلیم صاحب کے ناولوں کو پڑھ کر ذہنی استعداد میں بہت اضافہ ہو گیا تھا جسکی وجہ سے ہر نئی چیز چاہے وہ علاقہ و ملک ہو سامان یا ایجادات ہوں یا شہر یا ملک ہو اس کے بارے میں پہلے سے ہی ذہن میں کچھ نا کچھ ضرور ہوتا تھا۔
عمران سیریز پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں الفاظ کے چنائو اور الفاظ سے کھیلنا سیکھتا چلا گیا۔ عمران کی طرح سپر مین تو نہیں بن سکتا مگر سامنے آنے والے ہر چیز کو سیکھنا اور ہر قسم کے حالات میں ذہن کو ٹھنڈا رکھنا سیکھا۔ میرے والدین کتابوں کو کتنی اہمیت دیتے تھے، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ 1995 میں کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ کمپنیز بند ہو رہی تھیں۔ ابو کو کئی کئی مہینے تک تنخواہ نہیں ملتی تھی مگر ان حالات میں بھی ہمارے گھر میں آنے والے اخبارات اور رسائل بند نہیں کئے گئے۔
انیس سو پچانوے کے بعد میں اور میرا دوست راشد اقبال پاکستانی فلمیں دیکھنے سینما جانے لگے جب کئی فلمیں دیکھ لیں تو ایک دن ابو نے کہا کہ جیمز بونڈ کی فلم آنے والی ہے، وہ جا کر دیکھنا۔ میں اور میرا دوست راشد اقبال نشاط سینما میں جیمز بونڈ کی فلم گولڈن آئی دیکھنے گئے۔ ان دنوں میں مظہر کلیم صاحب کے ناول پابندی سے پڑھتا تھا، ہمیں یوں لگا جیسے عمران زندہ حالت میں ہمارے سامنے آگیا ہے۔ ان ہی دنوں میں جیمز بانڈ کی ایک اور فلم ٹومورو نیور ڈائی دیکھی جس میں وہ ایک جنگی اڈہ کو تباہ کرنے کے مشن پر ہوتا ہے۔ اڈہ تباہ کر کے جنگی جہاز کے ٹرانسمیٹر پر اپنے ہیڈ کواٹر رابطہ کرتا ہے اور کوڈ دھراتا ہے۔ مجھے آج تک وہ کوڈ بھی یاد ہے۔ ہمیں لگتا تھا کہ ہم پاگل ہو جائیں گے کہ جو کچھ ہم مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں پڑھتے تھے وہ سب کچھ اسکرین پر دیکھ رہے ہیں۔
یادیں اور باتیں بہت ساری ہیں ہماری جنریشن کا مسئلہ بڑا عجیب ہے۔ میرے ابو، ماموں اور خالو کتابیں پڑھتے رہے اور ان کے بعد ہم نے ان کتابوں کو پڑھا اور اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سارے کرداروں پر بات کی جو ان کے بچپن اور جوانی میں ان کے ساتھ تھے۔ ہمارے بچے جب بڑے ہوئے تو ہماری باتیں سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ہمارے بڑوں نے ابن صفی صاحب کی عمران سیریز پڑھی اور ہم نے مظہر کلیم صاحب کی۔ مگر ہمارے بچے کتابوں سے دور ہو گئے۔ ہماری باتیں سنے والا کوئی نہیں۔ ہم اپنے عمران کا ذکر اپنے بچوں سے نہیں کر سکتے۔ ہماری ذات میں ایک خلا آگیا ہے جو پورا نہیں ہو سکتا۔
جب میں پہلی مرتبہ لاہور گیا تو شاہی قلعہ میں کھڑا عمران سیریز کے ایک ناول کو سوچتا رہا جس میں سیکرٹ سروس کی پوری ٹیم کوئی قلعہ گھومنے جاتی ہے اور عمران قلعہ کی ایک ایک اینٹ کی تفصیل بتاتا ہے جسے سن کر جولیا سوچتی ہے کہ واقعی عمران ہر فن مولا ہے۔
اس ناول کو پڑھ کر میں نے سوچا تھا کہ میں بھی ہر کام سیکھوں گا۔ اسکے بعد میں نے بھی زندگی کے ہر کام میں دلچسپی لی چاہے وہ گھر کا بجلی کا کام ہو کھانا پکانا ہو یا پلمبنگ کا کام ہو۔ اپنی علمی استعداد میں اضافہ کرنا ہو یا مستقل مطالعہ کی عادت، تحریر و تقریر ہو یا ترجمانی۔
دو ہزار دو میں بی کام کے بعد ہمدرد یونیورسٹی کے مین کیمپس میں ایم بی اے میں داخلہ ہوا تو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری سے متعلقہ مضامین کی کتابیں لیتا رہا چونکہ بیشتر کتابیں امریکن انگلش میں تھیں جسکی وجہ کچھ دن تو کافی پریشانی رہی اور کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔ ایک سمسٹر کے بعد جب کچھ حواس بحال ہوئے تو پتہ چلا کہ وہاں کی مین لائبریری الگ ہے جہاں اردو میں بھی کتابیں ہیں تو جناب میں اگلے ہی دن پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ اردو ادب کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں جن کو خریدنا اس وقت میرے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔ بس پھر ہماری تو موج ہو گئی اور سارے بڑے مصنفین کو پڑھنا شروع کیا اور سینکڑوں کتابیں پڑھ لی۔ مظہر کلیم صاحب اکثر اپنے ناول کی ابتدا کرتے تھے کہ عمران مطالعہ میں مصروف تھا۔ اس جملہ کو انھوں نے اتنی کثرت سے لکھا کہ یہ میرے لاشعور یا شاید تحت الشعور میں چلا گیا اور میں مطالعہ کا عادی ہو گیا۔ مین لائبریری جو کہ ہمارے کیمپس سے تھوڑی دور تھی جانا شروع کر دیا۔ کبھی سلمان رائو کی منت تو کبھی ضیاء کی سماجت اور کبھی ماہین خان کو ساتھ لے جاتا کہ میرے ساتھ چلو، ضیاء اور سلمان تو راشد اقبال کی طرح باتیں سناتے اورکبھی جاتے کبھی نہیں جاتے۔ ماہین بیچاری مجھ پر ترس کھا کر میرے ساتھ چلی جاتی کہ باقیوں نے منع کر دیا تھا۔
میری ایک رشتے کی کزن ہیں جن کو ہم گڑیا باجی کہتے ہیں۔ وہ مجھ سے کافی بڑی ہیں۔ وہ ہم بچوں میں بہت مقبول تھیں جتنی مقبول وہ اپنی چھوٹی سگی اور کزن بہنوں میں تھیں، اتنی ہی ہم چھوٹے لڑکوں میں بھی مقبول تھیں۔ مجھ سے ان کی دوستی کی وجہ عمران سیریز تھی۔ مجھ سے بڑی ہونے کی وجہ سے انھوں نے مجھ سے زیادہ ناول پڑھے تھے۔ جب بھی ملاقات ہوتی، وہ مظہر کلیم صاحب کے کسی نہ کسی ایسے ناول کا ذکر کرتییں جو میں نے نہیں پڑھی ہوتی۔ میں چودہ پندرہ سال کا لڑکا منہ کھول کر حیرت سے ان کی داستان گوئی سنتا رہتا اور ان سے وعدہ لیتا کہ کسی طرح سے مجھے بھی یہ ناول بھجوا دیں گی۔ عمران سیریز کا چسکہ اور اس کا نشہ ہی ایسا تھا کہ میں ہر اس چھوٹے بڑے مرد و عورت کے پاس پہنچ جاتا تھا جس کے پاس کوئی بھی کتاب ہو اور اس کی منت سماجت کر کے پڑھنے کے لئے مانگ لاتا تھا۔
مظہر کلیم صاحب نے ٹائیگر اور جوزف کے کرداروں کے ذریعے اپنے استاد کی اطاعت کا سبق دیا۔ میں نے بھی عملی زندگی میں ہمیشہ اپنے ٹیم لیڈر کا احترام کیا ۔
ایک ناول میں کسی موقع پر جوزف جوانا کو سخت الفاظ میں کچھ کہتا ہے تو جوانا کہتا ہے کہ اس لہجے میں تو مجھ سے آج تک ماسٹر نے بھی بات نہیں کی۔ اس جملے کو میں نے اپنی ملازمت میں کئی مرتبہ استعمال کیا کہ اس لہجے میں تو کمپنی کے مالک نے بھی مجھ سے بات نہیں کی۔ آپ اپنی آواز اور انداز کنٹرول کریں۔
میرے ابو کو کرنل فریدی پسند رہا اور ہارڈ اسٹون کا لفظ انھیں متاثر کرتا رہا۔ وہ میری تحریر پڑھ کر ابن صفی صاحب کے عمران اور ہارڈ اسٹون یعنی کرنل فریدی کا ذکر کیا کرتے ہیں۔
میں نے ابن صفی صاحب کو بھی پڑھا ہے اور دوسرے مصنفین کو بھی پڑھا ہے مگر میرے ذہن میں مظہر کلیم کا کھینچا ہوا عمران کا جو خاکہ ہے میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتا۔ نئے لکھنے والے نئے زمانے کے حساب سے اچھا لکھتے ہوں گے مگر میں اپنے پرانے عمران کو اپنے خیالات میں زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو محترمہ سیمی عثمان صاحبہ کو جواب کہ میں نے ان کی لکھی ساری تحریریں پڑھی ہیں اور دوسرے ممبران کی بھی پڑھتا رہا ہوں۔ میں کئی گروپس میں ایڈ ہوں کچھ دن پہلے صفدر سعید پر لکھی ان کی تحریر کسی نے دوبارہ شئیر کی تھی جو کہ میں پہلے بھی پڑھ چکا تھا۔ اس وقت ہی مجھے خیال آیا کہ میں بھی کچھ لکھوں۔ کچھ ساتھیوں نے ناول پر تبصروں کی بھی فرمائش کی ہے موقع ملا تو وہ بھی کروں گا۔ ابھی تو بس عمران سیریز کے حوالے سے جو کچھ زندگی میں بیتی ہے وہ لکھوں گا۔ 2005 میں پہلے مرتبہ تبلیغی جماعت کے ساتھ کے پی کے کے پہاڑوں میں جانا ہوا تو عمران کے پہاڑوں میں مکمل کئے ہوئے مشن کے خیالات آتے رہے کہ اگر ابھی عمران یا سیکرٹ سروس ہوتی کتنی آسانی سے ان پہاڑوں میں اترنا چڑھنا کر لیتے۔ اس کے بعد ہر سال ہی چالیس دنوں کے لئے تبلیغی جماعت کے ساتھ جانا ہوتا ہے اور تقریبا پورا پاکستان ہی کئی مرتبہ دیکھنے کا موقع ملا۔ 2018 سے ملازمت کی وجہ سے بھی مختلف شہروں میں جاتا رہا اور پہاڑ، صحرا جنگل دریا ہر قسم کے حالات سے اللہ نے گزارا۔ 2014 میں افریقہ کے ملک یوگنڈا جانا ہوا۔ روانڈہ اور کانگو کے باڈر کے علاقے میں موجود جنگلات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ساڑھے چار مہینے کام کیا۔ وہاں پر بھی علی عمران اور جوزف میرے ساتھ ساتھ رہے۔ مظہر کلیم صاحب کے بیان کردہ افریقہ کے چار ممالک کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔
یوگنڈا کا قومی جانور گوریلا ہے جو بن مانس سے بھی بہت بڑا ہوتا ہے میں اسے دیکھ کر سوچتا تھا کہ جوزف کے جسم میں کتنی طاقت ہوگی کہ اتنے بڑے گوریلا کو بھی اپنے ہاتھوں سے ہلاک کر دیتا تھا۔ جب ہم افریقہ کے جنگلات کے اندر جاتے تھے اور مختلف جانوروں سے سامنا ہوتا تھا تو جوزف کا خیال آتا تھا۔ ہماری جماعت نے بہت سارے افریقی مردوں اور عورتوں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ میں سوچتا تھا کہ عمران بھی سید چراغ شاہ صاحب کی ہدایت پر افریقہ میں شیطان کا زور توڑنے آتا تھا۔ مظہر کلیم صاحب کے بیان کردہ افریقی لوگ اور ان کے مقامی لباس اور روایات کو جتنا مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں پڑھا اتنا ہی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ گلگت کے پہاڑ ہوں یا ایران کا باڈر ہو یا طورخم کا بارڈر ان جگہوں پر جا کر فور اسٹارز کے مقامی جرائم پر پڑھے ناول یاد آتے رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
فیصل واؤڈا کا غم کیا ہے اور غم دہر کا جھگڑا کیا ہے؟
اسپورٹس چینل ایف ایم 94 کیوں بند کیا گیا؟
ڈیلی الاؤنس سے محروم قومی ہاکی ٹیم نے کارنامہ کیسے کیا؟
مظہر کلیم کے عمران سیریز کا عاشق دیوانہ
مظہر کلیم صاحب کے ناولوں کو پڑھ کر ذہنی استعداد میں بہت اضافہ ہو گیا تھا جسکی وجہ سے ہر نئی چیز چاہے وہ علاقہ و ملک ہو سامان یا ایجادات ہوں یا شہر یا ملک ہو اس کے بارے میں پہلے سے ہی ذہن میں کچھ نا کچھ ضرور ہوتا تھا۔
عمران سیریز پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں الفاظ کے چنائو اور الفاظ سے کھیلنا سیکھتا چلا گیا۔ عمران کی طرح سپر مین تو نہیں بن سکتا مگر سامنے آنے والے ہر چیز کو سیکھنا اور ہر قسم کے حالات میں ذہن کو ٹھنڈا رکھنا سیکھا۔ میرے والدین کتابوں کو کتنی اہمیت دیتے تھے، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ 1995 میں کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ کمپنیز بند ہو رہی تھیں۔ ابو کو کئی کئی مہینے تک تنخواہ نہیں ملتی تھی مگر ان حالات میں بھی ہمارے گھر میں آنے والے اخبارات اور رسائل بند نہیں کئے گئے۔
انیس سو پچانوے کے بعد میں اور میرا دوست راشد اقبال پاکستانی فلمیں دیکھنے سینما جانے لگے جب کئی فلمیں دیکھ لیں تو ایک دن ابو نے کہا کہ جیمز بونڈ کی فلم آنے والی ہے، وہ جا کر دیکھنا۔ میں اور میرا دوست راشد اقبال نشاط سینما میں جیمز بونڈ کی فلم گولڈن آئی دیکھنے گئے۔ ان دنوں میں مظہر کلیم صاحب کے ناول پابندی سے پڑھتا تھا، ہمیں یوں لگا جیسے عمران زندہ حالت میں ہمارے سامنے آگیا ہے۔ ان ہی دنوں میں جیمز بانڈ کی ایک اور فلم ٹومورو نیور ڈائی دیکھی جس میں وہ ایک جنگی اڈہ کو تباہ کرنے کے مشن پر ہوتا ہے۔ اڈہ تباہ کر کے جنگی جہاز کے ٹرانسمیٹر پر اپنے ہیڈ کواٹر رابطہ کرتا ہے اور کوڈ دھراتا ہے۔ مجھے آج تک وہ کوڈ بھی یاد ہے۔ ہمیں لگتا تھا کہ ہم پاگل ہو جائیں گے کہ جو کچھ ہم مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں پڑھتے تھے وہ سب کچھ اسکرین پر دیکھ رہے ہیں۔
یادیں اور باتیں بہت ساری ہیں ہماری جنریشن کا مسئلہ بڑا عجیب ہے۔ میرے ابو، ماموں اور خالو کتابیں پڑھتے رہے اور ان کے بعد ہم نے ان کتابوں کو پڑھا اور اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سارے کرداروں پر بات کی جو ان کے بچپن اور جوانی میں ان کے ساتھ تھے۔ ہمارے بچے جب بڑے ہوئے تو ہماری باتیں سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ہمارے بڑوں نے ابن صفی صاحب کی عمران سیریز پڑھی اور ہم نے مظہر کلیم صاحب کی۔ مگر ہمارے بچے کتابوں سے دور ہو گئے۔ ہماری باتیں سنے والا کوئی نہیں۔ ہم اپنے عمران کا ذکر اپنے بچوں سے نہیں کر سکتے۔ ہماری ذات میں ایک خلا آگیا ہے جو پورا نہیں ہو سکتا۔
جب میں پہلی مرتبہ لاہور گیا تو شاہی قلعہ میں کھڑا عمران سیریز کے ایک ناول کو سوچتا رہا جس میں سیکرٹ سروس کی پوری ٹیم کوئی قلعہ گھومنے جاتی ہے اور عمران قلعہ کی ایک ایک اینٹ کی تفصیل بتاتا ہے جسے سن کر جولیا سوچتی ہے کہ واقعی عمران ہر فن مولا ہے۔
اس ناول کو پڑھ کر میں نے سوچا تھا کہ میں بھی ہر کام سیکھوں گا۔ اسکے بعد میں نے بھی زندگی کے ہر کام میں دلچسپی لی چاہے وہ گھر کا بجلی کا کام ہو کھانا پکانا ہو یا پلمبنگ کا کام ہو۔ اپنی علمی استعداد میں اضافہ کرنا ہو یا مستقل مطالعہ کی عادت، تحریر و تقریر ہو یا ترجمانی۔
دو ہزار دو میں بی کام کے بعد ہمدرد یونیورسٹی کے مین کیمپس میں ایم بی اے میں داخلہ ہوا تو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری سے متعلقہ مضامین کی کتابیں لیتا رہا چونکہ بیشتر کتابیں امریکن انگلش میں تھیں جسکی وجہ کچھ دن تو کافی پریشانی رہی اور کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔ ایک سمسٹر کے بعد جب کچھ حواس بحال ہوئے تو پتہ چلا کہ وہاں کی مین لائبریری الگ ہے جہاں اردو میں بھی کتابیں ہیں تو جناب میں اگلے ہی دن پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ اردو ادب کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں جن کو خریدنا اس وقت میرے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔ بس پھر ہماری تو موج ہو گئی اور سارے بڑے مصنفین کو پڑھنا شروع کیا اور سینکڑوں کتابیں پڑھ لی۔ مظہر کلیم صاحب اکثر اپنے ناول کی ابتدا کرتے تھے کہ عمران مطالعہ میں مصروف تھا۔ اس جملہ کو انھوں نے اتنی کثرت سے لکھا کہ یہ میرے لاشعور یا شاید تحت الشعور میں چلا گیا اور میں مطالعہ کا عادی ہو گیا۔ مین لائبریری جو کہ ہمارے کیمپس سے تھوڑی دور تھی جانا شروع کر دیا۔ کبھی سلمان رائو کی منت تو کبھی ضیاء کی سماجت اور کبھی ماہین خان کو ساتھ لے جاتا کہ میرے ساتھ چلو، ضیاء اور سلمان تو راشد اقبال کی طرح باتیں سناتے اورکبھی جاتے کبھی نہیں جاتے۔ ماہین بیچاری مجھ پر ترس کھا کر میرے ساتھ چلی جاتی کہ باقیوں نے منع کر دیا تھا۔
میری ایک رشتے کی کزن ہیں جن کو ہم گڑیا باجی کہتے ہیں۔ وہ مجھ سے کافی بڑی ہیں۔ وہ ہم بچوں میں بہت مقبول تھیں جتنی مقبول وہ اپنی چھوٹی سگی اور کزن بہنوں میں تھیں، اتنی ہی ہم چھوٹے لڑکوں میں بھی مقبول تھیں۔ مجھ سے ان کی دوستی کی وجہ عمران سیریز تھی۔ مجھ سے بڑی ہونے کی وجہ سے انھوں نے مجھ سے زیادہ ناول پڑھے تھے۔ جب بھی ملاقات ہوتی، وہ مظہر کلیم صاحب کے کسی نہ کسی ایسے ناول کا ذکر کرتییں جو میں نے نہیں پڑھی ہوتی۔ میں چودہ پندرہ سال کا لڑکا منہ کھول کر حیرت سے ان کی داستان گوئی سنتا رہتا اور ان سے وعدہ لیتا کہ کسی طرح سے مجھے بھی یہ ناول بھجوا دیں گی۔ عمران سیریز کا چسکہ اور اس کا نشہ ہی ایسا تھا کہ میں ہر اس چھوٹے بڑے مرد و عورت کے پاس پہنچ جاتا تھا جس کے پاس کوئی بھی کتاب ہو اور اس کی منت سماجت کر کے پڑھنے کے لئے مانگ لاتا تھا۔
مظہر کلیم صاحب نے ٹائیگر اور جوزف کے کرداروں کے ذریعے اپنے استاد کی اطاعت کا سبق دیا۔ میں نے بھی عملی زندگی میں ہمیشہ اپنے ٹیم لیڈر کا احترام کیا ۔
ایک ناول میں کسی موقع پر جوزف جوانا کو سخت الفاظ میں کچھ کہتا ہے تو جوانا کہتا ہے کہ اس لہجے میں تو مجھ سے آج تک ماسٹر نے بھی بات نہیں کی۔ اس جملے کو میں نے اپنی ملازمت میں کئی مرتبہ استعمال کیا کہ اس لہجے میں تو کمپنی کے مالک نے بھی مجھ سے بات نہیں کی۔ آپ اپنی آواز اور انداز کنٹرول کریں۔
میرے ابو کو کرنل فریدی پسند رہا اور ہارڈ اسٹون کا لفظ انھیں متاثر کرتا رہا۔ وہ میری تحریر پڑھ کر ابن صفی صاحب کے عمران اور ہارڈ اسٹون یعنی کرنل فریدی کا ذکر کیا کرتے ہیں۔
میں نے ابن صفی صاحب کو بھی پڑھا ہے اور دوسرے مصنفین کو بھی پڑھا ہے مگر میرے ذہن میں مظہر کلیم کا کھینچا ہوا عمران کا جو خاکہ ہے میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتا۔ نئے لکھنے والے نئے زمانے کے حساب سے اچھا لکھتے ہوں گے مگر میں اپنے پرانے عمران کو اپنے خیالات میں زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو محترمہ سیمی عثمان صاحبہ کو جواب کہ میں نے ان کی لکھی ساری تحریریں پڑھی ہیں اور دوسرے ممبران کی بھی پڑھتا رہا ہوں۔ میں کئی گروپس میں ایڈ ہوں کچھ دن پہلے صفدر سعید پر لکھی ان کی تحریر کسی نے دوبارہ شئیر کی تھی جو کہ میں پہلے بھی پڑھ چکا تھا۔ اس وقت ہی مجھے خیال آیا کہ میں بھی کچھ لکھوں۔ کچھ ساتھیوں نے ناول پر تبصروں کی بھی فرمائش کی ہے موقع ملا تو وہ بھی کروں گا۔ ابھی تو بس عمران سیریز کے حوالے سے جو کچھ زندگی میں بیتی ہے وہ لکھوں گا۔ 2005 میں پہلے مرتبہ تبلیغی جماعت کے ساتھ کے پی کے کے پہاڑوں میں جانا ہوا تو عمران کے پہاڑوں میں مکمل کئے ہوئے مشن کے خیالات آتے رہے کہ اگر ابھی عمران یا سیکرٹ سروس ہوتی کتنی آسانی سے ان پہاڑوں میں اترنا چڑھنا کر لیتے۔ اس کے بعد ہر سال ہی چالیس دنوں کے لئے تبلیغی جماعت کے ساتھ جانا ہوتا ہے اور تقریبا پورا پاکستان ہی کئی مرتبہ دیکھنے کا موقع ملا۔ 2018 سے ملازمت کی وجہ سے بھی مختلف شہروں میں جاتا رہا اور پہاڑ، صحرا جنگل دریا ہر قسم کے حالات سے اللہ نے گزارا۔ 2014 میں افریقہ کے ملک یوگنڈا جانا ہوا۔ روانڈہ اور کانگو کے باڈر کے علاقے میں موجود جنگلات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ساڑھے چار مہینے کام کیا۔ وہاں پر بھی علی عمران اور جوزف میرے ساتھ ساتھ رہے۔ مظہر کلیم صاحب کے بیان کردہ افریقہ کے چار ممالک کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔
یوگنڈا کا قومی جانور گوریلا ہے جو بن مانس سے بھی بہت بڑا ہوتا ہے میں اسے دیکھ کر سوچتا تھا کہ جوزف کے جسم میں کتنی طاقت ہوگی کہ اتنے بڑے گوریلا کو بھی اپنے ہاتھوں سے ہلاک کر دیتا تھا۔ جب ہم افریقہ کے جنگلات کے اندر جاتے تھے اور مختلف جانوروں سے سامنا ہوتا تھا تو جوزف کا خیال آتا تھا۔ ہماری جماعت نے بہت سارے افریقی مردوں اور عورتوں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ میں سوچتا تھا کہ عمران بھی سید چراغ شاہ صاحب کی ہدایت پر افریقہ میں شیطان کا زور توڑنے آتا تھا۔ مظہر کلیم صاحب کے بیان کردہ افریقی لوگ اور ان کے مقامی لباس اور روایات کو جتنا مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں پڑھا اتنا ہی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ گلگت کے پہاڑ ہوں یا ایران کا باڈر ہو یا طورخم کا بارڈر ان جگہوں پر جا کر فور اسٹارز کے مقامی جرائم پر پڑھے ناول یاد آتے رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
فیصل واؤڈا کا غم کیا ہے اور غم دہر کا جھگڑا کیا ہے؟
اسپورٹس چینل ایف ایم 94 کیوں بند کیا گیا؟
ڈیلی الاؤنس سے محروم قومی ہاکی ٹیم نے کارنامہ کیسے کیا؟
مظہر کلیم کے عمران سیریز کا عاشق دیوانہ
مظہر کلیم صاحب کے ناولوں کو پڑھ کر ذہنی استعداد میں بہت اضافہ ہو گیا تھا جسکی وجہ سے ہر نئی چیز چاہے وہ علاقہ و ملک ہو سامان یا ایجادات ہوں یا شہر یا ملک ہو اس کے بارے میں پہلے سے ہی ذہن میں کچھ نا کچھ ضرور ہوتا تھا۔
عمران سیریز پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں الفاظ کے چنائو اور الفاظ سے کھیلنا سیکھتا چلا گیا۔ عمران کی طرح سپر مین تو نہیں بن سکتا مگر سامنے آنے والے ہر چیز کو سیکھنا اور ہر قسم کے حالات میں ذہن کو ٹھنڈا رکھنا سیکھا۔ میرے والدین کتابوں کو کتنی اہمیت دیتے تھے، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ 1995 میں کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ کمپنیز بند ہو رہی تھیں۔ ابو کو کئی کئی مہینے تک تنخواہ نہیں ملتی تھی مگر ان حالات میں بھی ہمارے گھر میں آنے والے اخبارات اور رسائل بند نہیں کئے گئے۔
انیس سو پچانوے کے بعد میں اور میرا دوست راشد اقبال پاکستانی فلمیں دیکھنے سینما جانے لگے جب کئی فلمیں دیکھ لیں تو ایک دن ابو نے کہا کہ جیمز بونڈ کی فلم آنے والی ہے، وہ جا کر دیکھنا۔ میں اور میرا دوست راشد اقبال نشاط سینما میں جیمز بونڈ کی فلم گولڈن آئی دیکھنے گئے۔ ان دنوں میں مظہر کلیم صاحب کے ناول پابندی سے پڑھتا تھا، ہمیں یوں لگا جیسے عمران زندہ حالت میں ہمارے سامنے آگیا ہے۔ ان ہی دنوں میں جیمز بانڈ کی ایک اور فلم ٹومورو نیور ڈائی دیکھی جس میں وہ ایک جنگی اڈہ کو تباہ کرنے کے مشن پر ہوتا ہے۔ اڈہ تباہ کر کے جنگی جہاز کے ٹرانسمیٹر پر اپنے ہیڈ کواٹر رابطہ کرتا ہے اور کوڈ دھراتا ہے۔ مجھے آج تک وہ کوڈ بھی یاد ہے۔ ہمیں لگتا تھا کہ ہم پاگل ہو جائیں گے کہ جو کچھ ہم مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں پڑھتے تھے وہ سب کچھ اسکرین پر دیکھ رہے ہیں۔
یادیں اور باتیں بہت ساری ہیں ہماری جنریشن کا مسئلہ بڑا عجیب ہے۔ میرے ابو، ماموں اور خالو کتابیں پڑھتے رہے اور ان کے بعد ہم نے ان کتابوں کو پڑھا اور اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سارے کرداروں پر بات کی جو ان کے بچپن اور جوانی میں ان کے ساتھ تھے۔ ہمارے بچے جب بڑے ہوئے تو ہماری باتیں سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ہمارے بڑوں نے ابن صفی صاحب کی عمران سیریز پڑھی اور ہم نے مظہر کلیم صاحب کی۔ مگر ہمارے بچے کتابوں سے دور ہو گئے۔ ہماری باتیں سنے والا کوئی نہیں۔ ہم اپنے عمران کا ذکر اپنے بچوں سے نہیں کر سکتے۔ ہماری ذات میں ایک خلا آگیا ہے جو پورا نہیں ہو سکتا۔
جب میں پہلی مرتبہ لاہور گیا تو شاہی قلعہ میں کھڑا عمران سیریز کے ایک ناول کو سوچتا رہا جس میں سیکرٹ سروس کی پوری ٹیم کوئی قلعہ گھومنے جاتی ہے اور عمران قلعہ کی ایک ایک اینٹ کی تفصیل بتاتا ہے جسے سن کر جولیا سوچتی ہے کہ واقعی عمران ہر فن مولا ہے۔
اس ناول کو پڑھ کر میں نے سوچا تھا کہ میں بھی ہر کام سیکھوں گا۔ اسکے بعد میں نے بھی زندگی کے ہر کام میں دلچسپی لی چاہے وہ گھر کا بجلی کا کام ہو کھانا پکانا ہو یا پلمبنگ کا کام ہو۔ اپنی علمی استعداد میں اضافہ کرنا ہو یا مستقل مطالعہ کی عادت، تحریر و تقریر ہو یا ترجمانی۔
دو ہزار دو میں بی کام کے بعد ہمدرد یونیورسٹی کے مین کیمپس میں ایم بی اے میں داخلہ ہوا تو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری سے متعلقہ مضامین کی کتابیں لیتا رہا چونکہ بیشتر کتابیں امریکن انگلش میں تھیں جسکی وجہ کچھ دن تو کافی پریشانی رہی اور کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔ ایک سمسٹر کے بعد جب کچھ حواس بحال ہوئے تو پتہ چلا کہ وہاں کی مین لائبریری الگ ہے جہاں اردو میں بھی کتابیں ہیں تو جناب میں اگلے ہی دن پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ اردو ادب کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں جن کو خریدنا اس وقت میرے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔ بس پھر ہماری تو موج ہو گئی اور سارے بڑے مصنفین کو پڑھنا شروع کیا اور سینکڑوں کتابیں پڑھ لی۔ مظہر کلیم صاحب اکثر اپنے ناول کی ابتدا کرتے تھے کہ عمران مطالعہ میں مصروف تھا۔ اس جملہ کو انھوں نے اتنی کثرت سے لکھا کہ یہ میرے لاشعور یا شاید تحت الشعور میں چلا گیا اور میں مطالعہ کا عادی ہو گیا۔ مین لائبریری جو کہ ہمارے کیمپس سے تھوڑی دور تھی جانا شروع کر دیا۔ کبھی سلمان رائو کی منت تو کبھی ضیاء کی سماجت اور کبھی ماہین خان کو ساتھ لے جاتا کہ میرے ساتھ چلو، ضیاء اور سلمان تو راشد اقبال کی طرح باتیں سناتے اورکبھی جاتے کبھی نہیں جاتے۔ ماہین بیچاری مجھ پر ترس کھا کر میرے ساتھ چلی جاتی کہ باقیوں نے منع کر دیا تھا۔
میری ایک رشتے کی کزن ہیں جن کو ہم گڑیا باجی کہتے ہیں۔ وہ مجھ سے کافی بڑی ہیں۔ وہ ہم بچوں میں بہت مقبول تھیں جتنی مقبول وہ اپنی چھوٹی سگی اور کزن بہنوں میں تھیں، اتنی ہی ہم چھوٹے لڑکوں میں بھی مقبول تھیں۔ مجھ سے ان کی دوستی کی وجہ عمران سیریز تھی۔ مجھ سے بڑی ہونے کی وجہ سے انھوں نے مجھ سے زیادہ ناول پڑھے تھے۔ جب بھی ملاقات ہوتی، وہ مظہر کلیم صاحب کے کسی نہ کسی ایسے ناول کا ذکر کرتییں جو میں نے نہیں پڑھی ہوتی۔ میں چودہ پندرہ سال کا لڑکا منہ کھول کر حیرت سے ان کی داستان گوئی سنتا رہتا اور ان سے وعدہ لیتا کہ کسی طرح سے مجھے بھی یہ ناول بھجوا دیں گی۔ عمران سیریز کا چسکہ اور اس کا نشہ ہی ایسا تھا کہ میں ہر اس چھوٹے بڑے مرد و عورت کے پاس پہنچ جاتا تھا جس کے پاس کوئی بھی کتاب ہو اور اس کی منت سماجت کر کے پڑھنے کے لئے مانگ لاتا تھا۔
مظہر کلیم صاحب نے ٹائیگر اور جوزف کے کرداروں کے ذریعے اپنے استاد کی اطاعت کا سبق دیا۔ میں نے بھی عملی زندگی میں ہمیشہ اپنے ٹیم لیڈر کا احترام کیا ۔
ایک ناول میں کسی موقع پر جوزف جوانا کو سخت الفاظ میں کچھ کہتا ہے تو جوانا کہتا ہے کہ اس لہجے میں تو مجھ سے آج تک ماسٹر نے بھی بات نہیں کی۔ اس جملے کو میں نے اپنی ملازمت میں کئی مرتبہ استعمال کیا کہ اس لہجے میں تو کمپنی کے مالک نے بھی مجھ سے بات نہیں کی۔ آپ اپنی آواز اور انداز کنٹرول کریں۔
میرے ابو کو کرنل فریدی پسند رہا اور ہارڈ اسٹون کا لفظ انھیں متاثر کرتا رہا۔ وہ میری تحریر پڑھ کر ابن صفی صاحب کے عمران اور ہارڈ اسٹون یعنی کرنل فریدی کا ذکر کیا کرتے ہیں۔
میں نے ابن صفی صاحب کو بھی پڑھا ہے اور دوسرے مصنفین کو بھی پڑھا ہے مگر میرے ذہن میں مظہر کلیم کا کھینچا ہوا عمران کا جو خاکہ ہے میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتا۔ نئے لکھنے والے نئے زمانے کے حساب سے اچھا لکھتے ہوں گے مگر میں اپنے پرانے عمران کو اپنے خیالات میں زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو محترمہ سیمی عثمان صاحبہ کو جواب کہ میں نے ان کی لکھی ساری تحریریں پڑھی ہیں اور دوسرے ممبران کی بھی پڑھتا رہا ہوں۔ میں کئی گروپس میں ایڈ ہوں کچھ دن پہلے صفدر سعید پر لکھی ان کی تحریر کسی نے دوبارہ شئیر کی تھی جو کہ میں پہلے بھی پڑھ چکا تھا۔ اس وقت ہی مجھے خیال آیا کہ میں بھی کچھ لکھوں۔ کچھ ساتھیوں نے ناول پر تبصروں کی بھی فرمائش کی ہے موقع ملا تو وہ بھی کروں گا۔ ابھی تو بس عمران سیریز کے حوالے سے جو کچھ زندگی میں بیتی ہے وہ لکھوں گا۔ 2005 میں پہلے مرتبہ تبلیغی جماعت کے ساتھ کے پی کے کے پہاڑوں میں جانا ہوا تو عمران کے پہاڑوں میں مکمل کئے ہوئے مشن کے خیالات آتے رہے کہ اگر ابھی عمران یا سیکرٹ سروس ہوتی کتنی آسانی سے ان پہاڑوں میں اترنا چڑھنا کر لیتے۔ اس کے بعد ہر سال ہی چالیس دنوں کے لئے تبلیغی جماعت کے ساتھ جانا ہوتا ہے اور تقریبا پورا پاکستان ہی کئی مرتبہ دیکھنے کا موقع ملا۔ 2018 سے ملازمت کی وجہ سے بھی مختلف شہروں میں جاتا رہا اور پہاڑ، صحرا جنگل دریا ہر قسم کے حالات سے اللہ نے گزارا۔ 2014 میں افریقہ کے ملک یوگنڈا جانا ہوا۔ روانڈہ اور کانگو کے باڈر کے علاقے میں موجود جنگلات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ساڑھے چار مہینے کام کیا۔ وہاں پر بھی علی عمران اور جوزف میرے ساتھ ساتھ رہے۔ مظہر کلیم صاحب کے بیان کردہ افریقہ کے چار ممالک کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔
یوگنڈا کا قومی جانور گوریلا ہے جو بن مانس سے بھی بہت بڑا ہوتا ہے میں اسے دیکھ کر سوچتا تھا کہ جوزف کے جسم میں کتنی طاقت ہوگی کہ اتنے بڑے گوریلا کو بھی اپنے ہاتھوں سے ہلاک کر دیتا تھا۔ جب ہم افریقہ کے جنگلات کے اندر جاتے تھے اور مختلف جانوروں سے سامنا ہوتا تھا تو جوزف کا خیال آتا تھا۔ ہماری جماعت نے بہت سارے افریقی مردوں اور عورتوں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ میں سوچتا تھا کہ عمران بھی سید چراغ شاہ صاحب کی ہدایت پر افریقہ میں شیطان کا زور توڑنے آتا تھا۔ مظہر کلیم صاحب کے بیان کردہ افریقی لوگ اور ان کے مقامی لباس اور روایات کو جتنا مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں پڑھا اتنا ہی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ گلگت کے پہاڑ ہوں یا ایران کا باڈر ہو یا طورخم کا بارڈر ان جگہوں پر جا کر فور اسٹارز کے مقامی جرائم پر پڑھے ناول یاد آتے رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
فیصل واؤڈا کا غم کیا ہے اور غم دہر کا جھگڑا کیا ہے؟
اسپورٹس چینل ایف ایم 94 کیوں بند کیا گیا؟
ڈیلی الاؤنس سے محروم قومی ہاکی ٹیم نے کارنامہ کیسے کیا؟
مظہر کلیم کے عمران سیریز کا عاشق دیوانہ
مظہر کلیم صاحب کے ناولوں کو پڑھ کر ذہنی استعداد میں بہت اضافہ ہو گیا تھا جسکی وجہ سے ہر نئی چیز چاہے وہ علاقہ و ملک ہو سامان یا ایجادات ہوں یا شہر یا ملک ہو اس کے بارے میں پہلے سے ہی ذہن میں کچھ نا کچھ ضرور ہوتا تھا۔
عمران سیریز پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں الفاظ کے چنائو اور الفاظ سے کھیلنا سیکھتا چلا گیا۔ عمران کی طرح سپر مین تو نہیں بن سکتا مگر سامنے آنے والے ہر چیز کو سیکھنا اور ہر قسم کے حالات میں ذہن کو ٹھنڈا رکھنا سیکھا۔ میرے والدین کتابوں کو کتنی اہمیت دیتے تھے، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ 1995 میں کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ کمپنیز بند ہو رہی تھیں۔ ابو کو کئی کئی مہینے تک تنخواہ نہیں ملتی تھی مگر ان حالات میں بھی ہمارے گھر میں آنے والے اخبارات اور رسائل بند نہیں کئے گئے۔
انیس سو پچانوے کے بعد میں اور میرا دوست راشد اقبال پاکستانی فلمیں دیکھنے سینما جانے لگے جب کئی فلمیں دیکھ لیں تو ایک دن ابو نے کہا کہ جیمز بونڈ کی فلم آنے والی ہے، وہ جا کر دیکھنا۔ میں اور میرا دوست راشد اقبال نشاط سینما میں جیمز بونڈ کی فلم گولڈن آئی دیکھنے گئے۔ ان دنوں میں مظہر کلیم صاحب کے ناول پابندی سے پڑھتا تھا، ہمیں یوں لگا جیسے عمران زندہ حالت میں ہمارے سامنے آگیا ہے۔ ان ہی دنوں میں جیمز بانڈ کی ایک اور فلم ٹومورو نیور ڈائی دیکھی جس میں وہ ایک جنگی اڈہ کو تباہ کرنے کے مشن پر ہوتا ہے۔ اڈہ تباہ کر کے جنگی جہاز کے ٹرانسمیٹر پر اپنے ہیڈ کواٹر رابطہ کرتا ہے اور کوڈ دھراتا ہے۔ مجھے آج تک وہ کوڈ بھی یاد ہے۔ ہمیں لگتا تھا کہ ہم پاگل ہو جائیں گے کہ جو کچھ ہم مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں پڑھتے تھے وہ سب کچھ اسکرین پر دیکھ رہے ہیں۔
یادیں اور باتیں بہت ساری ہیں ہماری جنریشن کا مسئلہ بڑا عجیب ہے۔ میرے ابو، ماموں اور خالو کتابیں پڑھتے رہے اور ان کے بعد ہم نے ان کتابوں کو پڑھا اور اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سارے کرداروں پر بات کی جو ان کے بچپن اور جوانی میں ان کے ساتھ تھے۔ ہمارے بچے جب بڑے ہوئے تو ہماری باتیں سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ہمارے بڑوں نے ابن صفی صاحب کی عمران سیریز پڑھی اور ہم نے مظہر کلیم صاحب کی۔ مگر ہمارے بچے کتابوں سے دور ہو گئے۔ ہماری باتیں سنے والا کوئی نہیں۔ ہم اپنے عمران کا ذکر اپنے بچوں سے نہیں کر سکتے۔ ہماری ذات میں ایک خلا آگیا ہے جو پورا نہیں ہو سکتا۔
جب میں پہلی مرتبہ لاہور گیا تو شاہی قلعہ میں کھڑا عمران سیریز کے ایک ناول کو سوچتا رہا جس میں سیکرٹ سروس کی پوری ٹیم کوئی قلعہ گھومنے جاتی ہے اور عمران قلعہ کی ایک ایک اینٹ کی تفصیل بتاتا ہے جسے سن کر جولیا سوچتی ہے کہ واقعی عمران ہر فن مولا ہے۔
اس ناول کو پڑھ کر میں نے سوچا تھا کہ میں بھی ہر کام سیکھوں گا۔ اسکے بعد میں نے بھی زندگی کے ہر کام میں دلچسپی لی چاہے وہ گھر کا بجلی کا کام ہو کھانا پکانا ہو یا پلمبنگ کا کام ہو۔ اپنی علمی استعداد میں اضافہ کرنا ہو یا مستقل مطالعہ کی عادت، تحریر و تقریر ہو یا ترجمانی۔
دو ہزار دو میں بی کام کے بعد ہمدرد یونیورسٹی کے مین کیمپس میں ایم بی اے میں داخلہ ہوا تو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری سے متعلقہ مضامین کی کتابیں لیتا رہا چونکہ بیشتر کتابیں امریکن انگلش میں تھیں جسکی وجہ کچھ دن تو کافی پریشانی رہی اور کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔ ایک سمسٹر کے بعد جب کچھ حواس بحال ہوئے تو پتہ چلا کہ وہاں کی مین لائبریری الگ ہے جہاں اردو میں بھی کتابیں ہیں تو جناب میں اگلے ہی دن پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ اردو ادب کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں جن کو خریدنا اس وقت میرے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔ بس پھر ہماری تو موج ہو گئی اور سارے بڑے مصنفین کو پڑھنا شروع کیا اور سینکڑوں کتابیں پڑھ لی۔ مظہر کلیم صاحب اکثر اپنے ناول کی ابتدا کرتے تھے کہ عمران مطالعہ میں مصروف تھا۔ اس جملہ کو انھوں نے اتنی کثرت سے لکھا کہ یہ میرے لاشعور یا شاید تحت الشعور میں چلا گیا اور میں مطالعہ کا عادی ہو گیا۔ مین لائبریری جو کہ ہمارے کیمپس سے تھوڑی دور تھی جانا شروع کر دیا۔ کبھی سلمان رائو کی منت تو کبھی ضیاء کی سماجت اور کبھی ماہین خان کو ساتھ لے جاتا کہ میرے ساتھ چلو، ضیاء اور سلمان تو راشد اقبال کی طرح باتیں سناتے اورکبھی جاتے کبھی نہیں جاتے۔ ماہین بیچاری مجھ پر ترس کھا کر میرے ساتھ چلی جاتی کہ باقیوں نے منع کر دیا تھا۔
میری ایک رشتے کی کزن ہیں جن کو ہم گڑیا باجی کہتے ہیں۔ وہ مجھ سے کافی بڑی ہیں۔ وہ ہم بچوں میں بہت مقبول تھیں جتنی مقبول وہ اپنی چھوٹی سگی اور کزن بہنوں میں تھیں، اتنی ہی ہم چھوٹے لڑکوں میں بھی مقبول تھیں۔ مجھ سے ان کی دوستی کی وجہ عمران سیریز تھی۔ مجھ سے بڑی ہونے کی وجہ سے انھوں نے مجھ سے زیادہ ناول پڑھے تھے۔ جب بھی ملاقات ہوتی، وہ مظہر کلیم صاحب کے کسی نہ کسی ایسے ناول کا ذکر کرتییں جو میں نے نہیں پڑھی ہوتی۔ میں چودہ پندرہ سال کا لڑکا منہ کھول کر حیرت سے ان کی داستان گوئی سنتا رہتا اور ان سے وعدہ لیتا کہ کسی طرح سے مجھے بھی یہ ناول بھجوا دیں گی۔ عمران سیریز کا چسکہ اور اس کا نشہ ہی ایسا تھا کہ میں ہر اس چھوٹے بڑے مرد و عورت کے پاس پہنچ جاتا تھا جس کے پاس کوئی بھی کتاب ہو اور اس کی منت سماجت کر کے پڑھنے کے لئے مانگ لاتا تھا۔
مظہر کلیم صاحب نے ٹائیگر اور جوزف کے کرداروں کے ذریعے اپنے استاد کی اطاعت کا سبق دیا۔ میں نے بھی عملی زندگی میں ہمیشہ اپنے ٹیم لیڈر کا احترام کیا ۔
ایک ناول میں کسی موقع پر جوزف جوانا کو سخت الفاظ میں کچھ کہتا ہے تو جوانا کہتا ہے کہ اس لہجے میں تو مجھ سے آج تک ماسٹر نے بھی بات نہیں کی۔ اس جملے کو میں نے اپنی ملازمت میں کئی مرتبہ استعمال کیا کہ اس لہجے میں تو کمپنی کے مالک نے بھی مجھ سے بات نہیں کی۔ آپ اپنی آواز اور انداز کنٹرول کریں۔
میرے ابو کو کرنل فریدی پسند رہا اور ہارڈ اسٹون کا لفظ انھیں متاثر کرتا رہا۔ وہ میری تحریر پڑھ کر ابن صفی صاحب کے عمران اور ہارڈ اسٹون یعنی کرنل فریدی کا ذکر کیا کرتے ہیں۔