Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اس قوم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے اسپورٹس لونگ نیشن ہے۔ اس قوم کا ہر فرد کھیل اور اس وابستہ کھلاڑیوں کو اپنی پلکوں پر رکھتا ہے۔ چاہے ہاکی ہو کرکٹ ہو فٹبال یا کوئی بھی کھیل جس سے سبز ہلالی پرچم سر بلند ہو یا ملک و قوم کا نام روشن ہو۔ اس کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔
اپنے جذبات اور احساسات یا کہیں کہ اپنی رائے کا اظہار اپنا وقت نکال کر ریڈیو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوے صحت مند بحث کا حصہ بنتے ہیں اسی طرح ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے پاکستان کا پہلا اسپورٹس چینل اسپورٹس ایف ایم 94 کے نام سے اسی حکومت نے عوام کی کھیلوں سے الفت کو مد نظر رکھتے ہوئے چینل کا آغاز کیا جس کا افتتاح مریم اورنگزیب صاحبہ نے بطور وزیر اطلاعات کے کیا تھا۔ بڑی کامیابی سے عوام میں مقبول ہو رہا تھا جس میں اسپورٹس اپڈیٹس اور کھیلوں سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات دیگر کھیلوں کے پروگرامز میں شرکت کرتے اور اپنے مداحوں سے گفتگو کرتے۔ اس طرح عوام کو بھی اپنے پسندیدہ اسپورٹس سیلیبرٹی سے بات کرنے کا موقع ملتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈیلی الاؤنس سے محروم قومی ہاکی ٹیم نے کارنامہ کیسے کیا؟
مظہر کلیم کے عمران سیریز کا عاشق دیوانہ
ہاکی، قومی کھیل میں دھڑے بندی کا ذمے دار کون؟
مگر ناجانے نئے ڈی جی ریڈیو کے ذہن میں صحت کو لیکر خیال آیا کہ اس چینل کو بند کردینا مناسب ہوگا۔ شاید ان کا لوگوں میں کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ ٹھیک نہیں لگ رہا ہو اور پورا چینل اسپورٹس کی صحت کا بنا دینے پر اٹل ہیں۔ جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ یہ سرکاری ادارے جو پاکستان کے عوام کے ٹیکس پر چلتے ہیں اور وہی عوام دشمن فیصلے کرنے پر بضد ہوں تو کیا کیا جائے۔ پاکستان جہاں ہر کھانے پینے کی اشیاء خالص دستیاب نہیں ہوتی وہاں صحت پر بات کرنا زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہو گا .ہمارے تمام وزراء یہ کہتے نہیں تھکتے کھیلوں سے دل و دماغ صحت مند رہتا ہے کھیلوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے ۔ سپورٹس ایف ایم 94 بھی اسی کوشش میں مصروف تھا کہ لوگوں میں کھیل کے رحجان کو فروغ دیا جاے کیونکہ کھیلوں کو پروان چڑھانے سے بیماریاں قریب نہیں آتیں مگر شاید پاکستان ریڈیو اسٹیشن کے تھنک ٹینک کو اس کی کوئی پرواہ نہیں صرف اگر سروے ہی کرالیں تو بآسانی ان کو اندازہ ہو جائیگا کہ صحت پر کتنے لوگ بات کرنا یا سننا چاہتے ہیں۔ جناب لوگ صحت مند رہنا چاہتے ہیں پر صحت پر سننا یا بات کرنا تو کجا اگر شک ہو تو سروے کرالیں ڈر خوف کیسا؟ انسان اپنی زندگی میں ڈاکٹر ،طبیب،حکیم سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں کچھ اور ہی سوچ ہے ۔
تمام ایف ایم چینل گانوں سے شروع ہوکر غزلوں کے لیے وقف ہیں۔ ایسے میں اسپورٹس چینل لانا ایک بہترین اقدام تھا اور اس کی عوام میں مقبولیت اور انکی دلچسپی کو بالائے طاق رکھ کر اتنا ظالمانہ اقدام کھیل سے محبت کرنے والے کیساتھ سراسر نا انصافی بلکہ ظلم ہے . کھیل اور صحت ساتھ ساتھ بھی چل سکتے ہیں اوقات کی تقسیم بھی ممکن ہے نصف اوقات کھیل اور نصف صحت ٹرانسمشن ممکن ہو سکتا ہے مگر جب بات آپسی اختلاف کی ہو تو ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جو کہ کھیل سے انتہائی محبت کرتے ہوں انکی پارٹی کی حکومت میں کھیل سے وابستہ چینل کیساتھ ایسا ہونا اس بات کو دل قبول نہیں کرتا۔ خدا کرے کہ میاں صاحب تک یہ خبر جائے تو ہوسکتا ہے وہ یقیناً احسن اقدام اٹھائیں مگر لگتا مشکل ہے کیونکہ ڈی جی صاحب ایک الگ ذہن میں ہیں اور صحت چینل کے لیے عوام کو افسردہ کرنے پر تل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس خبر پر کھلاڑیوں نے بھی اپنے افسوس اور غصے کا اظہار اور ناراضی بھی دکھائی جس پر پاکستان کی صف اول کی کوہ پیما صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والی نائلہ کیانی کا ٹوئٹر پیغام بڑا دلچسپ ہے۔ وہ یہ کہ کھیل کو فروغ دیں تاکہ ہیلتھ کا ایشو ہی نہ ہو۔ اور بھی انہوں نے اپنے غم کا اظہار کیا ہے جو آپ انکے ٹوئٹر ہینڈل پر دیکھ سکتے ہیں صحافی مغیظ علی کی اس بریکنگ نیوز نے مجھ سمیت سب کے دل توڑ دیے خیر وہ ہے نہ کہ وابستہ رہہ شجر سے ،،امید بہار رکھ،،اس کیساتھ بس دعا ہے کے اعلیٰ حکام کو شاید عوام کا خیال آجاے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
اس قوم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے اسپورٹس لونگ نیشن ہے۔ اس قوم کا ہر فرد کھیل اور اس وابستہ کھلاڑیوں کو اپنی پلکوں پر رکھتا ہے۔ چاہے ہاکی ہو کرکٹ ہو فٹبال یا کوئی بھی کھیل جس سے سبز ہلالی پرچم سر بلند ہو یا ملک و قوم کا نام روشن ہو۔ اس کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔
اپنے جذبات اور احساسات یا کہیں کہ اپنی رائے کا اظہار اپنا وقت نکال کر ریڈیو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوے صحت مند بحث کا حصہ بنتے ہیں اسی طرح ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے پاکستان کا پہلا اسپورٹس چینل اسپورٹس ایف ایم 94 کے نام سے اسی حکومت نے عوام کی کھیلوں سے الفت کو مد نظر رکھتے ہوئے چینل کا آغاز کیا جس کا افتتاح مریم اورنگزیب صاحبہ نے بطور وزیر اطلاعات کے کیا تھا۔ بڑی کامیابی سے عوام میں مقبول ہو رہا تھا جس میں اسپورٹس اپڈیٹس اور کھیلوں سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات دیگر کھیلوں کے پروگرامز میں شرکت کرتے اور اپنے مداحوں سے گفتگو کرتے۔ اس طرح عوام کو بھی اپنے پسندیدہ اسپورٹس سیلیبرٹی سے بات کرنے کا موقع ملتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈیلی الاؤنس سے محروم قومی ہاکی ٹیم نے کارنامہ کیسے کیا؟
مظہر کلیم کے عمران سیریز کا عاشق دیوانہ
ہاکی، قومی کھیل میں دھڑے بندی کا ذمے دار کون؟
مگر ناجانے نئے ڈی جی ریڈیو کے ذہن میں صحت کو لیکر خیال آیا کہ اس چینل کو بند کردینا مناسب ہوگا۔ شاید ان کا لوگوں میں کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ ٹھیک نہیں لگ رہا ہو اور پورا چینل اسپورٹس کی صحت کا بنا دینے پر اٹل ہیں۔ جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ یہ سرکاری ادارے جو پاکستان کے عوام کے ٹیکس پر چلتے ہیں اور وہی عوام دشمن فیصلے کرنے پر بضد ہوں تو کیا کیا جائے۔ پاکستان جہاں ہر کھانے پینے کی اشیاء خالص دستیاب نہیں ہوتی وہاں صحت پر بات کرنا زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہو گا .ہمارے تمام وزراء یہ کہتے نہیں تھکتے کھیلوں سے دل و دماغ صحت مند رہتا ہے کھیلوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے ۔ سپورٹس ایف ایم 94 بھی اسی کوشش میں مصروف تھا کہ لوگوں میں کھیل کے رحجان کو فروغ دیا جاے کیونکہ کھیلوں کو پروان چڑھانے سے بیماریاں قریب نہیں آتیں مگر شاید پاکستان ریڈیو اسٹیشن کے تھنک ٹینک کو اس کی کوئی پرواہ نہیں صرف اگر سروے ہی کرالیں تو بآسانی ان کو اندازہ ہو جائیگا کہ صحت پر کتنے لوگ بات کرنا یا سننا چاہتے ہیں۔ جناب لوگ صحت مند رہنا چاہتے ہیں پر صحت پر سننا یا بات کرنا تو کجا اگر شک ہو تو سروے کرالیں ڈر خوف کیسا؟ انسان اپنی زندگی میں ڈاکٹر ،طبیب،حکیم سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں کچھ اور ہی سوچ ہے ۔
تمام ایف ایم چینل گانوں سے شروع ہوکر غزلوں کے لیے وقف ہیں۔ ایسے میں اسپورٹس چینل لانا ایک بہترین اقدام تھا اور اس کی عوام میں مقبولیت اور انکی دلچسپی کو بالائے طاق رکھ کر اتنا ظالمانہ اقدام کھیل سے محبت کرنے والے کیساتھ سراسر نا انصافی بلکہ ظلم ہے . کھیل اور صحت ساتھ ساتھ بھی چل سکتے ہیں اوقات کی تقسیم بھی ممکن ہے نصف اوقات کھیل اور نصف صحت ٹرانسمشن ممکن ہو سکتا ہے مگر جب بات آپسی اختلاف کی ہو تو ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جو کہ کھیل سے انتہائی محبت کرتے ہوں انکی پارٹی کی حکومت میں کھیل سے وابستہ چینل کیساتھ ایسا ہونا اس بات کو دل قبول نہیں کرتا۔ خدا کرے کہ میاں صاحب تک یہ خبر جائے تو ہوسکتا ہے وہ یقیناً احسن اقدام اٹھائیں مگر لگتا مشکل ہے کیونکہ ڈی جی صاحب ایک الگ ذہن میں ہیں اور صحت چینل کے لیے عوام کو افسردہ کرنے پر تل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس خبر پر کھلاڑیوں نے بھی اپنے افسوس اور غصے کا اظہار اور ناراضی بھی دکھائی جس پر پاکستان کی صف اول کی کوہ پیما صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والی نائلہ کیانی کا ٹوئٹر پیغام بڑا دلچسپ ہے۔ وہ یہ کہ کھیل کو فروغ دیں تاکہ ہیلتھ کا ایشو ہی نہ ہو۔ اور بھی انہوں نے اپنے غم کا اظہار کیا ہے جو آپ انکے ٹوئٹر ہینڈل پر دیکھ سکتے ہیں صحافی مغیظ علی کی اس بریکنگ نیوز نے مجھ سمیت سب کے دل توڑ دیے خیر وہ ہے نہ کہ وابستہ رہہ شجر سے ،،امید بہار رکھ،،اس کیساتھ بس دعا ہے کے اعلیٰ حکام کو شاید عوام کا خیال آجاے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
اس قوم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے اسپورٹس لونگ نیشن ہے۔ اس قوم کا ہر فرد کھیل اور اس وابستہ کھلاڑیوں کو اپنی پلکوں پر رکھتا ہے۔ چاہے ہاکی ہو کرکٹ ہو فٹبال یا کوئی بھی کھیل جس سے سبز ہلالی پرچم سر بلند ہو یا ملک و قوم کا نام روشن ہو۔ اس کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔
اپنے جذبات اور احساسات یا کہیں کہ اپنی رائے کا اظہار اپنا وقت نکال کر ریڈیو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوے صحت مند بحث کا حصہ بنتے ہیں اسی طرح ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے پاکستان کا پہلا اسپورٹس چینل اسپورٹس ایف ایم 94 کے نام سے اسی حکومت نے عوام کی کھیلوں سے الفت کو مد نظر رکھتے ہوئے چینل کا آغاز کیا جس کا افتتاح مریم اورنگزیب صاحبہ نے بطور وزیر اطلاعات کے کیا تھا۔ بڑی کامیابی سے عوام میں مقبول ہو رہا تھا جس میں اسپورٹس اپڈیٹس اور کھیلوں سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات دیگر کھیلوں کے پروگرامز میں شرکت کرتے اور اپنے مداحوں سے گفتگو کرتے۔ اس طرح عوام کو بھی اپنے پسندیدہ اسپورٹس سیلیبرٹی سے بات کرنے کا موقع ملتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈیلی الاؤنس سے محروم قومی ہاکی ٹیم نے کارنامہ کیسے کیا؟
مظہر کلیم کے عمران سیریز کا عاشق دیوانہ
ہاکی، قومی کھیل میں دھڑے بندی کا ذمے دار کون؟
مگر ناجانے نئے ڈی جی ریڈیو کے ذہن میں صحت کو لیکر خیال آیا کہ اس چینل کو بند کردینا مناسب ہوگا۔ شاید ان کا لوگوں میں کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ ٹھیک نہیں لگ رہا ہو اور پورا چینل اسپورٹس کی صحت کا بنا دینے پر اٹل ہیں۔ جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ یہ سرکاری ادارے جو پاکستان کے عوام کے ٹیکس پر چلتے ہیں اور وہی عوام دشمن فیصلے کرنے پر بضد ہوں تو کیا کیا جائے۔ پاکستان جہاں ہر کھانے پینے کی اشیاء خالص دستیاب نہیں ہوتی وہاں صحت پر بات کرنا زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہو گا .ہمارے تمام وزراء یہ کہتے نہیں تھکتے کھیلوں سے دل و دماغ صحت مند رہتا ہے کھیلوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے ۔ سپورٹس ایف ایم 94 بھی اسی کوشش میں مصروف تھا کہ لوگوں میں کھیل کے رحجان کو فروغ دیا جاے کیونکہ کھیلوں کو پروان چڑھانے سے بیماریاں قریب نہیں آتیں مگر شاید پاکستان ریڈیو اسٹیشن کے تھنک ٹینک کو اس کی کوئی پرواہ نہیں صرف اگر سروے ہی کرالیں تو بآسانی ان کو اندازہ ہو جائیگا کہ صحت پر کتنے لوگ بات کرنا یا سننا چاہتے ہیں۔ جناب لوگ صحت مند رہنا چاہتے ہیں پر صحت پر سننا یا بات کرنا تو کجا اگر شک ہو تو سروے کرالیں ڈر خوف کیسا؟ انسان اپنی زندگی میں ڈاکٹر ،طبیب،حکیم سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں کچھ اور ہی سوچ ہے ۔
تمام ایف ایم چینل گانوں سے شروع ہوکر غزلوں کے لیے وقف ہیں۔ ایسے میں اسپورٹس چینل لانا ایک بہترین اقدام تھا اور اس کی عوام میں مقبولیت اور انکی دلچسپی کو بالائے طاق رکھ کر اتنا ظالمانہ اقدام کھیل سے محبت کرنے والے کیساتھ سراسر نا انصافی بلکہ ظلم ہے . کھیل اور صحت ساتھ ساتھ بھی چل سکتے ہیں اوقات کی تقسیم بھی ممکن ہے نصف اوقات کھیل اور نصف صحت ٹرانسمشن ممکن ہو سکتا ہے مگر جب بات آپسی اختلاف کی ہو تو ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جو کہ کھیل سے انتہائی محبت کرتے ہوں انکی پارٹی کی حکومت میں کھیل سے وابستہ چینل کیساتھ ایسا ہونا اس بات کو دل قبول نہیں کرتا۔ خدا کرے کہ میاں صاحب تک یہ خبر جائے تو ہوسکتا ہے وہ یقیناً احسن اقدام اٹھائیں مگر لگتا مشکل ہے کیونکہ ڈی جی صاحب ایک الگ ذہن میں ہیں اور صحت چینل کے لیے عوام کو افسردہ کرنے پر تل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس خبر پر کھلاڑیوں نے بھی اپنے افسوس اور غصے کا اظہار اور ناراضی بھی دکھائی جس پر پاکستان کی صف اول کی کوہ پیما صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والی نائلہ کیانی کا ٹوئٹر پیغام بڑا دلچسپ ہے۔ وہ یہ کہ کھیل کو فروغ دیں تاکہ ہیلتھ کا ایشو ہی نہ ہو۔ اور بھی انہوں نے اپنے غم کا اظہار کیا ہے جو آپ انکے ٹوئٹر ہینڈل پر دیکھ سکتے ہیں صحافی مغیظ علی کی اس بریکنگ نیوز نے مجھ سمیت سب کے دل توڑ دیے خیر وہ ہے نہ کہ وابستہ رہہ شجر سے ،،امید بہار رکھ،،اس کیساتھ بس دعا ہے کے اعلیٰ حکام کو شاید عوام کا خیال آجاے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
اس قوم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے اسپورٹس لونگ نیشن ہے۔ اس قوم کا ہر فرد کھیل اور اس وابستہ کھلاڑیوں کو اپنی پلکوں پر رکھتا ہے۔ چاہے ہاکی ہو کرکٹ ہو فٹبال یا کوئی بھی کھیل جس سے سبز ہلالی پرچم سر بلند ہو یا ملک و قوم کا نام روشن ہو۔ اس کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔
اپنے جذبات اور احساسات یا کہیں کہ اپنی رائے کا اظہار اپنا وقت نکال کر ریڈیو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوے صحت مند بحث کا حصہ بنتے ہیں اسی طرح ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے پاکستان کا پہلا اسپورٹس چینل اسپورٹس ایف ایم 94 کے نام سے اسی حکومت نے عوام کی کھیلوں سے الفت کو مد نظر رکھتے ہوئے چینل کا آغاز کیا جس کا افتتاح مریم اورنگزیب صاحبہ نے بطور وزیر اطلاعات کے کیا تھا۔ بڑی کامیابی سے عوام میں مقبول ہو رہا تھا جس میں اسپورٹس اپڈیٹس اور کھیلوں سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات دیگر کھیلوں کے پروگرامز میں شرکت کرتے اور اپنے مداحوں سے گفتگو کرتے۔ اس طرح عوام کو بھی اپنے پسندیدہ اسپورٹس سیلیبرٹی سے بات کرنے کا موقع ملتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈیلی الاؤنس سے محروم قومی ہاکی ٹیم نے کارنامہ کیسے کیا؟
مظہر کلیم کے عمران سیریز کا عاشق دیوانہ
ہاکی، قومی کھیل میں دھڑے بندی کا ذمے دار کون؟
مگر ناجانے نئے ڈی جی ریڈیو کے ذہن میں صحت کو لیکر خیال آیا کہ اس چینل کو بند کردینا مناسب ہوگا۔ شاید ان کا لوگوں میں کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ ٹھیک نہیں لگ رہا ہو اور پورا چینل اسپورٹس کی صحت کا بنا دینے پر اٹل ہیں۔ جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ یہ سرکاری ادارے جو پاکستان کے عوام کے ٹیکس پر چلتے ہیں اور وہی عوام دشمن فیصلے کرنے پر بضد ہوں تو کیا کیا جائے۔ پاکستان جہاں ہر کھانے پینے کی اشیاء خالص دستیاب نہیں ہوتی وہاں صحت پر بات کرنا زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہو گا .ہمارے تمام وزراء یہ کہتے نہیں تھکتے کھیلوں سے دل و دماغ صحت مند رہتا ہے کھیلوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے ۔ سپورٹس ایف ایم 94 بھی اسی کوشش میں مصروف تھا کہ لوگوں میں کھیل کے رحجان کو فروغ دیا جاے کیونکہ کھیلوں کو پروان چڑھانے سے بیماریاں قریب نہیں آتیں مگر شاید پاکستان ریڈیو اسٹیشن کے تھنک ٹینک کو اس کی کوئی پرواہ نہیں صرف اگر سروے ہی کرالیں تو بآسانی ان کو اندازہ ہو جائیگا کہ صحت پر کتنے لوگ بات کرنا یا سننا چاہتے ہیں۔ جناب لوگ صحت مند رہنا چاہتے ہیں پر صحت پر سننا یا بات کرنا تو کجا اگر شک ہو تو سروے کرالیں ڈر خوف کیسا؟ انسان اپنی زندگی میں ڈاکٹر ،طبیب،حکیم سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں کچھ اور ہی سوچ ہے ۔
تمام ایف ایم چینل گانوں سے شروع ہوکر غزلوں کے لیے وقف ہیں۔ ایسے میں اسپورٹس چینل لانا ایک بہترین اقدام تھا اور اس کی عوام میں مقبولیت اور انکی دلچسپی کو بالائے طاق رکھ کر اتنا ظالمانہ اقدام کھیل سے محبت کرنے والے کیساتھ سراسر نا انصافی بلکہ ظلم ہے . کھیل اور صحت ساتھ ساتھ بھی چل سکتے ہیں اوقات کی تقسیم بھی ممکن ہے نصف اوقات کھیل اور نصف صحت ٹرانسمشن ممکن ہو سکتا ہے مگر جب بات آپسی اختلاف کی ہو تو ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جو کہ کھیل سے انتہائی محبت کرتے ہوں انکی پارٹی کی حکومت میں کھیل سے وابستہ چینل کیساتھ ایسا ہونا اس بات کو دل قبول نہیں کرتا۔ خدا کرے کہ میاں صاحب تک یہ خبر جائے تو ہوسکتا ہے وہ یقیناً احسن اقدام اٹھائیں مگر لگتا مشکل ہے کیونکہ ڈی جی صاحب ایک الگ ذہن میں ہیں اور صحت چینل کے لیے عوام کو افسردہ کرنے پر تل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس خبر پر کھلاڑیوں نے بھی اپنے افسوس اور غصے کا اظہار اور ناراضی بھی دکھائی جس پر پاکستان کی صف اول کی کوہ پیما صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والی نائلہ کیانی کا ٹوئٹر پیغام بڑا دلچسپ ہے۔ وہ یہ کہ کھیل کو فروغ دیں تاکہ ہیلتھ کا ایشو ہی نہ ہو۔ اور بھی انہوں نے اپنے غم کا اظہار کیا ہے جو آپ انکے ٹوئٹر ہینڈل پر دیکھ سکتے ہیں صحافی مغیظ علی کی اس بریکنگ نیوز نے مجھ سمیت سب کے دل توڑ دیے خیر وہ ہے نہ کہ وابستہ رہہ شجر سے ،،امید بہار رکھ،،اس کیساتھ بس دعا ہے کے اعلیٰ حکام کو شاید عوام کا خیال آجاے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔