پاکستان دوبارہ دنیائے ہاکی میں کھویا مقام حاصل کر سکے گا کھیل جو لوگوں کو جوڑنے کا بہترین ذریعہ ہے اس میں ہی دھڑے بندی ہو جاے تو سدھار کیسے ممکن ہے۔ دور جدید میں کھیل کی رفتار تکنیک سیکھیے بغیر یہ کیسے ممکن ہوگا۔ ماضی کے کارناموں کا ڈھونڈرا کب تک کرتے رہینگے۔
ان دنوں ہاکی کھیل بھی زبوں حالی کا شکار ہے اس پر فیڈریشن کی دھڑے بندی نے شائقین کو مزید مایوس کردیا ہے جہاں ہاکی کے لیے پاکستان میں اب ٹیلنٹ دستیاب نہیں مگر وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ دو فیڈریشن اپنے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ایک دھڑے کے سیکریٹری حیدر حسین ہیں اور دوسرے دھڑے کے سیکریٹری سابق اولمپیئن رانا مجاھد ہیں۔ ٹیم کی سیلیکشن کے لیے ہم نے دیکھا کہ کراچی اور اسلام آباد میں دو الک کیمپ لگے ہیں۔ اس پر عالمی ہاکی فیڈریشن کو کودنا پڑا۔ اس نے حکومت سے معاملہ درست کرنے کو کہا جس پر چیرمین یوتھ پروگرام نے دونوں فریقین کو بلایا اور فی الحال اس بات پر متفق ہوئے کہ دونوں کیمپوں کے کھلاڑیوں کو اسلام آباد بلا کر ہیڈ کوچ رولنٹ اولٹ مینز کی سربراہی میں سیلیکٹ کر کے ٹیم بھیجی جائے۔ یہ کام ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
چاند کا سفر: اس دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والے کون ہیں؟
یہ معاملہ تو حل ہوگیا لیکن مستقل حل کے لیے رانا مشہود صاحب کا یہ بیان سامنے آیا کہ آئی ایچ ایف جس فیڈریشن پر انگلی رکھ دیگی اس کو مان لیا جاے گا جبکہ آئی ایچ ایف کے اپنے آئین میں یہ صاف درج ہے کے کسی ملک کی فیڈریشن کے انتخاب میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب سیکریٹری پی ایچ ایف کا یہ کہنا کہ وہ مزاکرات کے لیے تیار ہیں مگر کرپٹ افراد مذاکراتی کمیٹی میں ہوئے تو وہ ہرگز اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔
طارق بگٹی کی نامزدگی پیٹرن ان چیف کی جانب سے بلائے گیے اجلاس کی روشنی میں ہوئی مگر عبوری وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔ قانون میں اس کی گنجائش نہیں۔ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر پلڑا حیدر حسین کی طرف جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بقول حیدر حسین وہ تمام قانونی حیثیت سے مضبوط ہیں۔ تمام لیگل ڈوکیومنٹس انکے پاس ہیں اور اذلان شاہ ٹورنامنٹ مینجمینٹ کی جانب سے لیٹر بھی ان کے نام آیا اور کیمپ کے دوسرے دھڑے کی جانب سے لگائے جانا ہاکی کی بہتری نہیں بلکہ اس کھیل کی تنزلی کا باعث بن رہی ہے۔ خیر حیدر حسین کی ہاکی کے لیے گراس روٹ لیول پر کیا خدمات رہیں وہ آگے چل کر آوازہ کے مہمان میں آپ کے سامنے رکھیں گے۔
بات کی جائے ہاکی کی تو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر ہی ہم کھویا مقام حاصل کرسکتے ہیں جس کے بغیر کھیل میں بہتری کا سوچنا ایک خواب لگتا ہے کیونکہ ہاکی کے قوانین میں تبدیلی بھی ایک وجہ ہے جیسے آف سائیڈ ،رکاوٹ obstruction اور turning ایسے قانون میں تبدیلی سے بھی ہمیں نقصان پہنچا۔ اب آئی کونٹیکٹ ،شارٹ پاسنگ،اسٹمینا کامبینیشن ان پر کام کی ضرورت ہے ہمارے کھلاڑیوں کو آئس ہاکی سے مدد مل سکتی ہے جو رفتار اور پاسنگ کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکے گی۔ انتظامیہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا بدل گئی ہے کھیل کی رفتار سے مطابقت رکھنے کے لیے نئی تکنیک کو ہر حال میں لاگو کرنا ہوگا مگر ان سب کے لیے سچی نیت اور یکسوئی کیساتھ محنت لازمی ہے آخر میں اس دعا کیساتھ کہ پاکستان ایک بار پھر ہاکی میں اپنا کھویا مقام حاصل کرے، امین۔