Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
انسان کو خلیفۃ فی الارض بھی کہا گیا ہے کیونکہ اس کا مادی خمیر اسی مقامِ ارض سے لیا گیا تھا. جنت سے زمین تک کا سفر انسان کی “گمراہی” بھی، ابلیس سے زیادہ انسان کی اپنی انا، مرضی اور ارادے کے اظہار کا نتیجہ ہے. اگر وہ فرشتوں کی طرح صرف معلومات رکھتا اور ارادہ نہ رکھتا تو کبھی بھی “گمراہ” نہ ہوتا. بلکہ غیر ارادی وجود ہونے کے سبب ہمیشہ اتباع میں رہتا….!جنت سے نکالے اس انسان نے لکھنا کب سیکھا؟
فاسلز کے مطالعہ کے مطابق، انسان کم و بیش اڑھائی لاکھ سال سے زمین پر موجود ہے. اس سے قبل اس کا قریبی homodous زمین پر موجود تھا.
یہاں کچھ اہل ِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدم کی زمین پر آمد سے قبل، اس جیسا غیر شعوری وجود زمین پر بھیجا گیا. زمینی ماحول کے سازگار ہونے پر آدم کو زمین پر اتارا گیا، جو صرف مادی. وجود نہیں تھا، بلکہ شعور و ارادہ بھی رکھتا تھا.
کم و بیش ایسی ہی بات ڈارون نے اپنی ارتقاء کہ تھیوری میں کہی اور یوال نوح حیراری بھی اپنی کتاب
Sapiens: A Berief History of Humankind میں کچھ ایسی ہی انسانی تاریخ بیان کر چکا ہے.
یہ بھی پڑھئے:
چاند کا سفر: اس دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والے کون ہیں؟
جماعت اسلامی کے امیر نئے ، باتیں پرانی
قصہ مختصر، انسان نے شروع دن سے ہی اپنے “ارادے” اور خیال کے اظہار کے لیے، زبان کا استعمال کیا اور زبان کا بصری پہلو، کتابت یا خطاطی ہے. ابتداء میں، انسان نے اس بصری کمیونیکیشن کے لیے pictography یعنی تصویری خط کا استعمال کیا.
غاروں میں اور ہزاروں سال پرانی ایرک کی زیر زمین عمارتوں سے اس کے شواہد بھی ملتے ہیں.
تصویری خط کے بعد، علامتی خط یعنی symbolic letters یا symbolism کا استعمال بصری کمیونیکیشن کے طور پر ہوا.
تیسرے دور میں جب صحیفوں اور الہامی کتب کا آغاز ہوا تو، جیومیٹریکل اشکال سے زبان کو لکھا گیا. میخی خط اس کی واضح مثال ہے.
یہ صرف زبان یا خط کا ارتقاء ہی نہیں، بلکہ انسان کی شعوری اور روحانی ترقی کا سفربھی تھا.
A History of God by Keren ArmStrong
میں بھی بھی زبان اور پرانی عمارتوں پر مذہبی عبارتوں کے ایسے حوالوں کا ذکر ملتا ہے.
عربی زبان کا وجود قریب 1700 سال قبل عبرانی، سریانی اور کچھ زبانوں سے مل کر ہوا تو، کوفہ یعنی ھیری شہر، اس وقت کے ثقافتی و علمی مرکز سے ہی عربی زبان نے اپنا خط اور انداز تحریر بھی (میخی و نبطی خط کے ارتقاء) سے لیا.
ھیری (کوفی خط) میں کچھ ترامیم کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اسے بہترین جیومیٹری سے اور خوبصورت بنایا، اور آپ کے شاگرد حضرت ابو الاسد الدولی رح نے اس خط کو نقاط کی گرائمر سے مزید حُسن و بلاغت دی.
بصری کمیونیکیشن یا لکھنے اور کچھ بنانے کا فن، انسان کے شعوری وجود کے ساتھ ساتھ اس کی جمالیاتی حس اور تخلیقی صلاحیت کا بھی اظہار ہے.
ابن مقلہ شیرازی رح، انسانی تاریخ کے واحد خطاط ہیں جنہوں نے چھ نئے عربی خطوط کی بنیاد رکھی
ثُلُث، نسخ، ریحان، محقق، رقعہ اور توقیع
اور ان کے خطوط کے اصول، مادی اشکال کے مشاہدہ سے زیادہ، آفاقی توازن، اصول اور جیومیٹری پر. مبنی ہیں. جیسا کہ خط ثُلُث کے حروف میں حیران کن حدتک گولڈن ریشو کا ہونا….. اور اس کی جیومیٹری کا کائناتی جیومیٹری سے ہم. آہنگ ہونا….!
( بعد میں سیاسی وجوہات کی بنیاد پر ان کے دونوں ہاتھ کاٹ کر ان کو جیل میں ہی پھانسی دی گئی تھی)
ان کے بعد میری علی تبریزی رح، خط نستعلیق کے موجد اور تخلیق کار کا کہنا ہے کہ جب وہ حروف کی اشکال کا درست تعین نہیں کر پا رہے تھے، تو اسی پریشانی میں دعا گو بھی رہتے کہ وہ خط کو حتمی اشکال سے مزین کر سکیں.
ان کے مطابق، ایک شب ان کو خواب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت ہوئی، اور آپ نے حروف کی حتمی اشکال کے لیے پرندوں اور ان کے مختلف اعضاء کے مشاہدے کا حکم دیا.
میر علی تبرییزی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے چند دنوں میں ہی خط نستعلیق کے مفردات کا کراسہ مکمل کر لیا.
یہاں سے فن تحریر اور pictography ( پرندوں /جانوروں کی اشکال سے جیومیٹریکل مشابہت ہونا)
کے باہمی تعلق کا بھی اشارہ ملتا ہے.
ہر دو صورت میں، کسی بھی زبان کے حروف و الفاظ ہوں، بنیادی طور پر علامتیں اور اشکال ہی تو ہیں. جواپنے شعوری معانی کے سبب ہی انسانوں کے لیے معتبر و مقدس ہیں.
اور ان اشکال میں جمالیاتی و تخلیقی رنگ، ان کے معانی کو اور بھی زیادہ موثر بنا دیتا ہے.
مذہبی پس منظر میں، اس فن نے یہی کردار ادا کیا اور ابتدائی تاریخ و فلسفہ اور الہامی متن کو محفوظ بھی بنایا.
الہامی متن کے لوحِ محفوظ سے صفحہ قرطاس پر حفاظت کا یہ سفر انسان کا شعوری، روحانی اور تخلیقی سفر ہے، جس کا محرک، خطاطیم اور مرکز قلم ہے، جس کی خالقِ کائنات نے قسم بھی اٹھائی ہے….
ن، والقلم وما یسطرون….!
انسان کو خلیفۃ فی الارض بھی کہا گیا ہے کیونکہ اس کا مادی خمیر اسی مقامِ ارض سے لیا گیا تھا. جنت سے زمین تک کا سفر انسان کی “گمراہی” بھی، ابلیس سے زیادہ انسان کی اپنی انا، مرضی اور ارادے کے اظہار کا نتیجہ ہے. اگر وہ فرشتوں کی طرح صرف معلومات رکھتا اور ارادہ نہ رکھتا تو کبھی بھی “گمراہ” نہ ہوتا. بلکہ غیر ارادی وجود ہونے کے سبب ہمیشہ اتباع میں رہتا….!جنت سے نکالے اس انسان نے لکھنا کب سیکھا؟
فاسلز کے مطالعہ کے مطابق، انسان کم و بیش اڑھائی لاکھ سال سے زمین پر موجود ہے. اس سے قبل اس کا قریبی homodous زمین پر موجود تھا.
یہاں کچھ اہل ِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدم کی زمین پر آمد سے قبل، اس جیسا غیر شعوری وجود زمین پر بھیجا گیا. زمینی ماحول کے سازگار ہونے پر آدم کو زمین پر اتارا گیا، جو صرف مادی. وجود نہیں تھا، بلکہ شعور و ارادہ بھی رکھتا تھا.
کم و بیش ایسی ہی بات ڈارون نے اپنی ارتقاء کہ تھیوری میں کہی اور یوال نوح حیراری بھی اپنی کتاب
Sapiens: A Berief History of Humankind میں کچھ ایسی ہی انسانی تاریخ بیان کر چکا ہے.
یہ بھی پڑھئے:
چاند کا سفر: اس دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والے کون ہیں؟
جماعت اسلامی کے امیر نئے ، باتیں پرانی
قصہ مختصر، انسان نے شروع دن سے ہی اپنے “ارادے” اور خیال کے اظہار کے لیے، زبان کا استعمال کیا اور زبان کا بصری پہلو، کتابت یا خطاطی ہے. ابتداء میں، انسان نے اس بصری کمیونیکیشن کے لیے pictography یعنی تصویری خط کا استعمال کیا.
غاروں میں اور ہزاروں سال پرانی ایرک کی زیر زمین عمارتوں سے اس کے شواہد بھی ملتے ہیں.
تصویری خط کے بعد، علامتی خط یعنی symbolic letters یا symbolism کا استعمال بصری کمیونیکیشن کے طور پر ہوا.
تیسرے دور میں جب صحیفوں اور الہامی کتب کا آغاز ہوا تو، جیومیٹریکل اشکال سے زبان کو لکھا گیا. میخی خط اس کی واضح مثال ہے.
یہ صرف زبان یا خط کا ارتقاء ہی نہیں، بلکہ انسان کی شعوری اور روحانی ترقی کا سفربھی تھا.
A History of God by Keren ArmStrong
میں بھی بھی زبان اور پرانی عمارتوں پر مذہبی عبارتوں کے ایسے حوالوں کا ذکر ملتا ہے.
عربی زبان کا وجود قریب 1700 سال قبل عبرانی، سریانی اور کچھ زبانوں سے مل کر ہوا تو، کوفہ یعنی ھیری شہر، اس وقت کے ثقافتی و علمی مرکز سے ہی عربی زبان نے اپنا خط اور انداز تحریر بھی (میخی و نبطی خط کے ارتقاء) سے لیا.
ھیری (کوفی خط) میں کچھ ترامیم کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اسے بہترین جیومیٹری سے اور خوبصورت بنایا، اور آپ کے شاگرد حضرت ابو الاسد الدولی رح نے اس خط کو نقاط کی گرائمر سے مزید حُسن و بلاغت دی.
بصری کمیونیکیشن یا لکھنے اور کچھ بنانے کا فن، انسان کے شعوری وجود کے ساتھ ساتھ اس کی جمالیاتی حس اور تخلیقی صلاحیت کا بھی اظہار ہے.
ابن مقلہ شیرازی رح، انسانی تاریخ کے واحد خطاط ہیں جنہوں نے چھ نئے عربی خطوط کی بنیاد رکھی
ثُلُث، نسخ، ریحان، محقق، رقعہ اور توقیع
اور ان کے خطوط کے اصول، مادی اشکال کے مشاہدہ سے زیادہ، آفاقی توازن، اصول اور جیومیٹری پر. مبنی ہیں. جیسا کہ خط ثُلُث کے حروف میں حیران کن حدتک گولڈن ریشو کا ہونا….. اور اس کی جیومیٹری کا کائناتی جیومیٹری سے ہم. آہنگ ہونا….!
( بعد میں سیاسی وجوہات کی بنیاد پر ان کے دونوں ہاتھ کاٹ کر ان کو جیل میں ہی پھانسی دی گئی تھی)
ان کے بعد میری علی تبریزی رح، خط نستعلیق کے موجد اور تخلیق کار کا کہنا ہے کہ جب وہ حروف کی اشکال کا درست تعین نہیں کر پا رہے تھے، تو اسی پریشانی میں دعا گو بھی رہتے کہ وہ خط کو حتمی اشکال سے مزین کر سکیں.
ان کے مطابق، ایک شب ان کو خواب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت ہوئی، اور آپ نے حروف کی حتمی اشکال کے لیے پرندوں اور ان کے مختلف اعضاء کے مشاہدے کا حکم دیا.
میر علی تبرییزی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے چند دنوں میں ہی خط نستعلیق کے مفردات کا کراسہ مکمل کر لیا.
یہاں سے فن تحریر اور pictography ( پرندوں /جانوروں کی اشکال سے جیومیٹریکل مشابہت ہونا)
کے باہمی تعلق کا بھی اشارہ ملتا ہے.
ہر دو صورت میں، کسی بھی زبان کے حروف و الفاظ ہوں، بنیادی طور پر علامتیں اور اشکال ہی تو ہیں. جواپنے شعوری معانی کے سبب ہی انسانوں کے لیے معتبر و مقدس ہیں.
اور ان اشکال میں جمالیاتی و تخلیقی رنگ، ان کے معانی کو اور بھی زیادہ موثر بنا دیتا ہے.
مذہبی پس منظر میں، اس فن نے یہی کردار ادا کیا اور ابتدائی تاریخ و فلسفہ اور الہامی متن کو محفوظ بھی بنایا.
الہامی متن کے لوحِ محفوظ سے صفحہ قرطاس پر حفاظت کا یہ سفر انسان کا شعوری، روحانی اور تخلیقی سفر ہے، جس کا محرک، خطاطیم اور مرکز قلم ہے، جس کی خالقِ کائنات نے قسم بھی اٹھائی ہے….
ن، والقلم وما یسطرون….!
انسان کو خلیفۃ فی الارض بھی کہا گیا ہے کیونکہ اس کا مادی خمیر اسی مقامِ ارض سے لیا گیا تھا. جنت سے زمین تک کا سفر انسان کی “گمراہی” بھی، ابلیس سے زیادہ انسان کی اپنی انا، مرضی اور ارادے کے اظہار کا نتیجہ ہے. اگر وہ فرشتوں کی طرح صرف معلومات رکھتا اور ارادہ نہ رکھتا تو کبھی بھی “گمراہ” نہ ہوتا. بلکہ غیر ارادی وجود ہونے کے سبب ہمیشہ اتباع میں رہتا….!جنت سے نکالے اس انسان نے لکھنا کب سیکھا؟
فاسلز کے مطالعہ کے مطابق، انسان کم و بیش اڑھائی لاکھ سال سے زمین پر موجود ہے. اس سے قبل اس کا قریبی homodous زمین پر موجود تھا.
یہاں کچھ اہل ِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدم کی زمین پر آمد سے قبل، اس جیسا غیر شعوری وجود زمین پر بھیجا گیا. زمینی ماحول کے سازگار ہونے پر آدم کو زمین پر اتارا گیا، جو صرف مادی. وجود نہیں تھا، بلکہ شعور و ارادہ بھی رکھتا تھا.
کم و بیش ایسی ہی بات ڈارون نے اپنی ارتقاء کہ تھیوری میں کہی اور یوال نوح حیراری بھی اپنی کتاب
Sapiens: A Berief History of Humankind میں کچھ ایسی ہی انسانی تاریخ بیان کر چکا ہے.
یہ بھی پڑھئے:
چاند کا سفر: اس دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والے کون ہیں؟
جماعت اسلامی کے امیر نئے ، باتیں پرانی
قصہ مختصر، انسان نے شروع دن سے ہی اپنے “ارادے” اور خیال کے اظہار کے لیے، زبان کا استعمال کیا اور زبان کا بصری پہلو، کتابت یا خطاطی ہے. ابتداء میں، انسان نے اس بصری کمیونیکیشن کے لیے pictography یعنی تصویری خط کا استعمال کیا.
غاروں میں اور ہزاروں سال پرانی ایرک کی زیر زمین عمارتوں سے اس کے شواہد بھی ملتے ہیں.
تصویری خط کے بعد، علامتی خط یعنی symbolic letters یا symbolism کا استعمال بصری کمیونیکیشن کے طور پر ہوا.
تیسرے دور میں جب صحیفوں اور الہامی کتب کا آغاز ہوا تو، جیومیٹریکل اشکال سے زبان کو لکھا گیا. میخی خط اس کی واضح مثال ہے.
یہ صرف زبان یا خط کا ارتقاء ہی نہیں، بلکہ انسان کی شعوری اور روحانی ترقی کا سفربھی تھا.
A History of God by Keren ArmStrong
میں بھی بھی زبان اور پرانی عمارتوں پر مذہبی عبارتوں کے ایسے حوالوں کا ذکر ملتا ہے.
عربی زبان کا وجود قریب 1700 سال قبل عبرانی، سریانی اور کچھ زبانوں سے مل کر ہوا تو، کوفہ یعنی ھیری شہر، اس وقت کے ثقافتی و علمی مرکز سے ہی عربی زبان نے اپنا خط اور انداز تحریر بھی (میخی و نبطی خط کے ارتقاء) سے لیا.
ھیری (کوفی خط) میں کچھ ترامیم کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اسے بہترین جیومیٹری سے اور خوبصورت بنایا، اور آپ کے شاگرد حضرت ابو الاسد الدولی رح نے اس خط کو نقاط کی گرائمر سے مزید حُسن و بلاغت دی.
بصری کمیونیکیشن یا لکھنے اور کچھ بنانے کا فن، انسان کے شعوری وجود کے ساتھ ساتھ اس کی جمالیاتی حس اور تخلیقی صلاحیت کا بھی اظہار ہے.
ابن مقلہ شیرازی رح، انسانی تاریخ کے واحد خطاط ہیں جنہوں نے چھ نئے عربی خطوط کی بنیاد رکھی
ثُلُث، نسخ، ریحان، محقق، رقعہ اور توقیع
اور ان کے خطوط کے اصول، مادی اشکال کے مشاہدہ سے زیادہ، آفاقی توازن، اصول اور جیومیٹری پر. مبنی ہیں. جیسا کہ خط ثُلُث کے حروف میں حیران کن حدتک گولڈن ریشو کا ہونا….. اور اس کی جیومیٹری کا کائناتی جیومیٹری سے ہم. آہنگ ہونا….!
( بعد میں سیاسی وجوہات کی بنیاد پر ان کے دونوں ہاتھ کاٹ کر ان کو جیل میں ہی پھانسی دی گئی تھی)
ان کے بعد میری علی تبریزی رح، خط نستعلیق کے موجد اور تخلیق کار کا کہنا ہے کہ جب وہ حروف کی اشکال کا درست تعین نہیں کر پا رہے تھے، تو اسی پریشانی میں دعا گو بھی رہتے کہ وہ خط کو حتمی اشکال سے مزین کر سکیں.
ان کے مطابق، ایک شب ان کو خواب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت ہوئی، اور آپ نے حروف کی حتمی اشکال کے لیے پرندوں اور ان کے مختلف اعضاء کے مشاہدے کا حکم دیا.
میر علی تبرییزی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے چند دنوں میں ہی خط نستعلیق کے مفردات کا کراسہ مکمل کر لیا.
یہاں سے فن تحریر اور pictography ( پرندوں /جانوروں کی اشکال سے جیومیٹریکل مشابہت ہونا)
کے باہمی تعلق کا بھی اشارہ ملتا ہے.
ہر دو صورت میں، کسی بھی زبان کے حروف و الفاظ ہوں، بنیادی طور پر علامتیں اور اشکال ہی تو ہیں. جواپنے شعوری معانی کے سبب ہی انسانوں کے لیے معتبر و مقدس ہیں.
اور ان اشکال میں جمالیاتی و تخلیقی رنگ، ان کے معانی کو اور بھی زیادہ موثر بنا دیتا ہے.
مذہبی پس منظر میں، اس فن نے یہی کردار ادا کیا اور ابتدائی تاریخ و فلسفہ اور الہامی متن کو محفوظ بھی بنایا.
الہامی متن کے لوحِ محفوظ سے صفحہ قرطاس پر حفاظت کا یہ سفر انسان کا شعوری، روحانی اور تخلیقی سفر ہے، جس کا محرک، خطاطیم اور مرکز قلم ہے، جس کی خالقِ کائنات نے قسم بھی اٹھائی ہے….
ن، والقلم وما یسطرون….!
انسان کو خلیفۃ فی الارض بھی کہا گیا ہے کیونکہ اس کا مادی خمیر اسی مقامِ ارض سے لیا گیا تھا. جنت سے زمین تک کا سفر انسان کی “گمراہی” بھی، ابلیس سے زیادہ انسان کی اپنی انا، مرضی اور ارادے کے اظہار کا نتیجہ ہے. اگر وہ فرشتوں کی طرح صرف معلومات رکھتا اور ارادہ نہ رکھتا تو کبھی بھی “گمراہ” نہ ہوتا. بلکہ غیر ارادی وجود ہونے کے سبب ہمیشہ اتباع میں رہتا….!جنت سے نکالے اس انسان نے لکھنا کب سیکھا؟
فاسلز کے مطالعہ کے مطابق، انسان کم و بیش اڑھائی لاکھ سال سے زمین پر موجود ہے. اس سے قبل اس کا قریبی homodous زمین پر موجود تھا.
یہاں کچھ اہل ِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدم کی زمین پر آمد سے قبل، اس جیسا غیر شعوری وجود زمین پر بھیجا گیا. زمینی ماحول کے سازگار ہونے پر آدم کو زمین پر اتارا گیا، جو صرف مادی. وجود نہیں تھا، بلکہ شعور و ارادہ بھی رکھتا تھا.
کم و بیش ایسی ہی بات ڈارون نے اپنی ارتقاء کہ تھیوری میں کہی اور یوال نوح حیراری بھی اپنی کتاب
Sapiens: A Berief History of Humankind میں کچھ ایسی ہی انسانی تاریخ بیان کر چکا ہے.
یہ بھی پڑھئے:
چاند کا سفر: اس دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والے کون ہیں؟
جماعت اسلامی کے امیر نئے ، باتیں پرانی
قصہ مختصر، انسان نے شروع دن سے ہی اپنے “ارادے” اور خیال کے اظہار کے لیے، زبان کا استعمال کیا اور زبان کا بصری پہلو، کتابت یا خطاطی ہے. ابتداء میں، انسان نے اس بصری کمیونیکیشن کے لیے pictography یعنی تصویری خط کا استعمال کیا.
غاروں میں اور ہزاروں سال پرانی ایرک کی زیر زمین عمارتوں سے اس کے شواہد بھی ملتے ہیں.
تصویری خط کے بعد، علامتی خط یعنی symbolic letters یا symbolism کا استعمال بصری کمیونیکیشن کے طور پر ہوا.
تیسرے دور میں جب صحیفوں اور الہامی کتب کا آغاز ہوا تو، جیومیٹریکل اشکال سے زبان کو لکھا گیا. میخی خط اس کی واضح مثال ہے.
یہ صرف زبان یا خط کا ارتقاء ہی نہیں، بلکہ انسان کی شعوری اور روحانی ترقی کا سفربھی تھا.
A History of God by Keren ArmStrong
میں بھی بھی زبان اور پرانی عمارتوں پر مذہبی عبارتوں کے ایسے حوالوں کا ذکر ملتا ہے.
عربی زبان کا وجود قریب 1700 سال قبل عبرانی، سریانی اور کچھ زبانوں سے مل کر ہوا تو، کوفہ یعنی ھیری شہر، اس وقت کے ثقافتی و علمی مرکز سے ہی عربی زبان نے اپنا خط اور انداز تحریر بھی (میخی و نبطی خط کے ارتقاء) سے لیا.
ھیری (کوفی خط) میں کچھ ترامیم کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اسے بہترین جیومیٹری سے اور خوبصورت بنایا، اور آپ کے شاگرد حضرت ابو الاسد الدولی رح نے اس خط کو نقاط کی گرائمر سے مزید حُسن و بلاغت دی.
بصری کمیونیکیشن یا لکھنے اور کچھ بنانے کا فن، انسان کے شعوری وجود کے ساتھ ساتھ اس کی جمالیاتی حس اور تخلیقی صلاحیت کا بھی اظہار ہے.
ابن مقلہ شیرازی رح، انسانی تاریخ کے واحد خطاط ہیں جنہوں نے چھ نئے عربی خطوط کی بنیاد رکھی
ثُلُث، نسخ، ریحان، محقق، رقعہ اور توقیع
اور ان کے خطوط کے اصول، مادی اشکال کے مشاہدہ سے زیادہ، آفاقی توازن، اصول اور جیومیٹری پر. مبنی ہیں. جیسا کہ خط ثُلُث کے حروف میں حیران کن حدتک گولڈن ریشو کا ہونا….. اور اس کی جیومیٹری کا کائناتی جیومیٹری سے ہم. آہنگ ہونا….!
( بعد میں سیاسی وجوہات کی بنیاد پر ان کے دونوں ہاتھ کاٹ کر ان کو جیل میں ہی پھانسی دی گئی تھی)
ان کے بعد میری علی تبریزی رح، خط نستعلیق کے موجد اور تخلیق کار کا کہنا ہے کہ جب وہ حروف کی اشکال کا درست تعین نہیں کر پا رہے تھے، تو اسی پریشانی میں دعا گو بھی رہتے کہ وہ خط کو حتمی اشکال سے مزین کر سکیں.
ان کے مطابق، ایک شب ان کو خواب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت ہوئی، اور آپ نے حروف کی حتمی اشکال کے لیے پرندوں اور ان کے مختلف اعضاء کے مشاہدے کا حکم دیا.
میر علی تبرییزی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے چند دنوں میں ہی خط نستعلیق کے مفردات کا کراسہ مکمل کر لیا.
یہاں سے فن تحریر اور pictography ( پرندوں /جانوروں کی اشکال سے جیومیٹریکل مشابہت ہونا)
کے باہمی تعلق کا بھی اشارہ ملتا ہے.
ہر دو صورت میں، کسی بھی زبان کے حروف و الفاظ ہوں، بنیادی طور پر علامتیں اور اشکال ہی تو ہیں. جواپنے شعوری معانی کے سبب ہی انسانوں کے لیے معتبر و مقدس ہیں.
اور ان اشکال میں جمالیاتی و تخلیقی رنگ، ان کے معانی کو اور بھی زیادہ موثر بنا دیتا ہے.
مذہبی پس منظر میں، اس فن نے یہی کردار ادا کیا اور ابتدائی تاریخ و فلسفہ اور الہامی متن کو محفوظ بھی بنایا.
الہامی متن کے لوحِ محفوظ سے صفحہ قرطاس پر حفاظت کا یہ سفر انسان کا شعوری، روحانی اور تخلیقی سفر ہے، جس کا محرک، خطاطیم اور مرکز قلم ہے، جس کی خالقِ کائنات نے قسم بھی اٹھائی ہے….
ن، والقلم وما یسطرون….!