جناب عرفان صدیقی کی شہرت صحافی، دانش ور اور سیاست دان کی ہے۔ ان کی اصل شہرت تو ایک ایسے نثر نگار کی تھی جس کا انداز تحریر کلاسیکی زبان میں گندھا ہوا تھا۔ اہل وطن ان سے اختلاف کرتے یا اختلاف رکھتے، ان کی نثر کا لطف ضرور لیتے۔ جبر کے موسموں میں کھلا کہ وہ صرف نثر نگار تو نہیں، شاعر بھی ہیں۔ صرف زلف و کاکل کے اندھیروں میں بھٹکنے والے شاعر نہیں بلکہ ان کلاسیکی استعاروں کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق نئے معنی عطا کرنے والے شاعر۔ بعضے یوں ہوتا ہے کہ انسان کچھ اور ہوتا ہے لیکن حالات اسے کچھ اور بنا دیتے ہیں جیسے عرفان صاحب کے بارے میں خیال ہوا کہ حالات نے انھیں شاعر بنا دیا ہے لیکن ان کا شعری مجموعہ ۔ گریز پا موسموں کی خوشبو’ شائع ہوا تو ان کے شاگرد رشید فواد حسن فواد کی زبانی کھلا کہ یہ شخص تو حسن کی اس دیوی یعنی شاعری پر بہت پہلے سے فدا ہے۔ بس، کسی کو خبر نہیں ہونے دیتا۔ خیر یہ فسانہ عام ہوا ہے۔ جناب عرفان صدیقی کی ایک تازہ غزل دیکھئے۔ اپنے عہد کے دکھوں کو انھوں نے اس خوبی سے بیان کیا ہے کہ شاعری کے کلاسیکی انداز پر کوئی آنچ بھی نہیں آئی اور شاعر اپنی ‘ واردات’ بھی کر گیا۔ (فاروق عادل)
صلیبیں ایک سی اور سر کم و بیش ایک جیسے ہیں
کئی صدیوں سے یہ منظر کم و بیش ایک جیسے ہیں
مسلسل نامساعد موسموں کی مار کھا کھا کر
اب ہر بستی کے بام و در کم و بیش ایک جیسے ہیں
شہیدانِ وفا کے تیشہ و سنگِ گراں اپنے
حسینان پری پیکر کم و بیش ایک جیسے ہیں
اگرچہ اپنا چہرہ نام اور کردار ہے لیکن
ہر اک سرکس کے بازی گر کم و بیش ایک جیسے ہیں
کوئی بھی کارواں کیسا ہی زاد راہ ہو لیکن
مسلح رہزنوں کے ڈر کم و بیش ایک جیسے ہیں
برائے محسناں ہر آستیں میں ایک سے خنجر
بدستِ دوستاں پتھر کم و بیش ایک جیسے ہیں
اڑانیں عرش تک ہوں یا فقط شاخ نشیمن تک
پرندوں کے شکستہ پر کم و بیش ایک جیسے ہیں
تہی دستوں میں بھی کچھ تو کشادہ دست ہوتے ہیں
خداوندان سیم و زر کم و بیش ایک جیسے ہیں
ہر اک چہرے کی زیبائی فقط کچھ فاصلے سے ہے
قریب آ جائیں تو اکثر، کم و بیش ایک جیسے ہیں
xxxxxxxxxx
یہ بھی پڑھئے:
نواز شریف کا مزاحمتی بیانیہ، حدت ختم ہوئی کہ برف؟
کاشف حسین غائر کا شعر یا غارت گروں کا محلہ
کہانی ”سیاہ کاری” اور ”سہولت کاری” کی
سی پیک ،پاکستان، چین اور نئے پرانے راستے