اس بحث سے ہٹ کر کہ نواز شریف کی آمد کسی ڈیل کے نتیجے میں ہوئی ہے یا ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے اہم سوال ایک ہی ہے کہ کیا وہ ا س نازک دور میں پاکستان کی اقتصادی ناؤ کے چھید بھر سکیں گے؟ نوازشریف ایک تجربہ کار اور زیرک سیاست دان ہیں وہ گھاٹ گھاٹ کا ہی نہیں کئی جیلوں کا پانی بھی پی چکے ہیں۔ وہ سیاست کے رموز سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے حامی ان کے کریڈٹ میں موٹر وے، لوڈشیڈنگ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا خاتمہ اور سب سے بڑ ھ کر ایٹمی دھماکوں کو شامل کرتے ہیں جس پر نوازشریف بھی فخرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نو مئی والے نہیں اٹھائیس مئی والے ہیں۔
میاں صاحب کے چاہنے والے انہیں امید کے طور پر دیکھ رہے ہیں لگ بھی یہی رہا ہے کہ ان کے مشکل دن گنے جا چکے اور اب وہ مخالفین کو مشکل میں ڈالنے کی پوزیشن میں آچکے ہیں جس سے انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ہدف ملکی معیشت ہے۔ سوال یہی ہے کہ اگر وہ ایک بار پھر پاکستان کےفیصلہ سازوں میں شامل ہوتے ہیں اور مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو کیا وہ انتقامی کارروائیوں میں پڑے بغیر وطن عزیز کی کمزور معیشت کی رفو گری پر توجہ رکھ سکیں گےاور اگر مسلم لیگ ن الیکشن کے بعد اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتی ہے تو ان کی حکمت عملی کیا ہوگی ؟
یہ بھی پڑھئے:
کاشف حسین غائر کا شعر یا غارت گروں کا محلہ
کہانی ”سیاہ کاری” اور ”سہولت کاری” کی
سی پیک ،پاکستان، چین اور نئے پرانے راستے
حالات نازک ہی نہیں نازک ترین ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پی ڈی ایم کے دورحکومت میں پاکستان تقریبا ڈیفالٹ کرچکا تھا شہبازشریف نے آئی ایم ایف کی منتیں کرکے پروگرام لیا اور وقتی طور پر نادہندگی کی تلوار ہٹائی لیکن خطرہ ٹلا کب ہے ؟ کشتی منجھدار میں بھی ہے اور بدقسمتی سے اس میں ہماری نالائقیوں،خودغرضیوں اورغفلتوں نے چھید بھی کر رکھے ہیں۔
احوال یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے پیسے نہیں۔ حکومت نے بینکوں سے اوور ڈرافٹ لینے کی تجویز پر غور شروع کردیاہے۔ پی آئی اے کے پاس طیارے اڑانے کے لئے تیل نہیں۔ اب تو پی ایس او نے بھی ادھار دینے سے معذرت کرلی ہے۔ اسٹیل ملز گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے نہ اگلی جاسکتی ہے نہ نگلی جارہی ہے۔
مزید ملکی قرضے 36 ہزار 161 روپے کے اضافے کے ساتھ 40ہزار 942 روپوں سے بڑھ کر77ہزار104ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں میاں صاحب کی غیر موجودگی میں ان قرضوں میں 88 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2019 میں بے روزگار افراد کی تعداد47لاکھ 10ہزار سے بڑھ کر 56 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ معاشی صورت حال مخدوش ہے پھر دہشت گردی کے عفریت نے ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور کے پی کے کو بھی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پھر سیاسی عدم استحکام بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ ان سارے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے میاں صاحب دبئی سے ‘‘امید ِپاکستان’’ نامی پرواز سے وطن تو آچکے ہیں لیکن وہ پاکستانیوں کو ان کی امیدوں پر پورا اترنے کی انہیں کس حد تک یقین دہانی کراسکیں گے۔
یہ سوال سادہ نہیں ہے۔ ان کے راستے کا ایک کانٹا تو نکال کر اڈیالہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے لیکن اب ان کا مقابلہ اپنے دوست آصف زرداری ، ان کے جارحانہ موڈ میں آئے فرزند اور اپنے آپ سے بھی ہے۔ انہیں جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ آسانی سے سب کچھ بھول جانے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ان کی بھی اسٹیبلشمنٹ سے مراسم کی تاریخ زیادہ اچھی نہیں۔ جنرل جیلانی کا ہاتھ پکڑ کر سیاست میں آنے والے میاں صاحب کو جرنیلوں نے ہی کئی بارکرسی سے اتارا ہے۔ کیا میاں صاحب اپنے ساتھ ماضی میں روا رکھے جانے والے سلوک کو بھول کر معیشت کی بحالی میں لگ جائیں گے ؟ لندن میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دیا جانے والا بیان تو اس کی نفی کرتا ہے۔ اگرچہ اس مزاحمتی بیانئے کی حدت پرمفاہمتی برف تو رکھ دی گئی لیکن یہ طے نہ ہوسکا حدت ختم ہوئی ہے یا برف؟