ایک سیاح کو جب اور جہاں موقع ملتا ہے فوراً سیاحت کر لیتا ہے، خواہ سواری کوئی بھی ہو۔ جہاز، ریل گاڑی، بس، ٹرک، کار، موٹر سائیکل یا صرف سائیکل ہی کیوں نہ ہو۔میں بھی سیاح ہوں چنانچہ ہر دستیاب سواری پہ سیاحت کر لیتا ہوں۔ چند سال پہلے کی بات ہے میں اسلام آباد سے اپنے موٹر سائیکل ٹور پر جی ٹی روڈ کے راستے لاہور جا رہا تھا۔ روات، مندرہ ، سوہاوہ ، گوجر خان، دینہ، جہلم اور سرائے عالمگیر سے گزر کر اب میری موٹر سائیکل کھاریاں کی طرف دوڑے جا رہی تھی۔ پبی فاریسٹ کے گھنے درختوں میں سے گزرتا ہوا میں جیسے ہی آگے بڑھا، میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔ میں نے بائک کنارے پرایک درخت کے نیچے روکی اور ہیلمٹ اتار کر بجتا ہوا موبائل فون جیب سے نکالا۔ کسی اجنبی نمبر سے کال آ رہی تھی۔”ہیلو۔۔۔” میں فون کان سے لگا کر بولا۔ “السلام علیکم””وعلیکم السلام ۔۔۔ آپ عبیداللہ کیہر بات کر رہے ہیں؟” دوسری طرف کوئی خاتون تھیں۔”جی میں عبیداللہ کیہر بات کر رہا ہوں ۔ ” میں بولا۔”عبیداللہ صاحب میں سی پیک اتھارٹی آفس سے بات کر رہی ہوں ۔”
” جی فرمائیے۔” میں کچھ حیران ہوا۔
“جی ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ نے سی پیک کے حوالے سے کوئی کتاب لکھی ہے۔” وہ بولی۔”جی میں نے کچھ کتابیں ضرور لکھی ہیں لیکن سی پیک کے موضوع پر تو کوئی کتاب نہیں لکھی۔” میں بولا۔”تو ہو سکتا ہے آپ نے کوئی ایسی کتاب لکھی ہو جوان علاقوں کے بارے میں ہو جہاں سے سی پیک کو گزرنا ہے؟” خاتون نے استفسار جاری رکھا ۔ اسے تو یہ بالکل بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ میں بائک ٹور پر ہوں اور یہاں گجرات کی سرزمین پر جرنیلی سڑک کے کنارے پبی کے جنگل میں کھڑا بات کر رہا ہوں۔”جی پاکستان کے شہروں پر میری ایک کتاب ضرور ہے۔۔۔ شہر کہانیاں۔۔۔ لیکن اس کے مضامین میں سی پیک کے حوالے سے تو کوئی تخصیص نہیں ۔” میں نے جواب دیا۔”یعنی آپ نے سی پیک کے مجوزہ راستے کے حوالے سے کبھی کچھ نہیں لکھا؟” خاتون کچھ مایوس ہو کر بولی۔”جی میں نے خاص سی پیک کا حوالہ دے کر تو کبھی کچھ نہیں لکھا۔” میں بولا۔ “البتہ میری ایک کتاب ہے”قراقرم کے پار”۔۔۔ یہ آج سے تیس پینتیس سال پہلے میرے اس سفر کی روداد ہے جس میں مَیں بائی روڈ کراچی سے کاشغر تک گیا تھا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں سے گزرتے ہوئے، شاہراہ قراقرم پر گلگت و ہنزہ سے ہوتا ہوا چینی صوبے سنکیانگ کے پہلے شہر کاشغرتک کا سفر ۔۔۔ اور یہ تقریباً وہی روٹ ہے کہ جو آج سی پیک کا مجوزہ راستہ ہے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ میری یہ کتاب ماضی کے اس راستے پر لکھی گئی ہے کہ جس پر مستقبل میں سی پیک (چائنا پاکستان ایکانومک کاریڈور (China Pakistan Economic Corridor – CPEC بننا ہے۔” میں نے بتایا۔”جی ایگزیکٹلی۔” اب خاتون کھلکھلائی۔ ” بالکل یہی بات ۔ بس مجھے یہی پوچھنا تھا۔” وہ بولی۔
یہ بھی پڑھئے:
فتویٰ اور چیلنجز، بین الاقوامی کانفرنس سے وفاقی وزیر انیق احمد کا خطاب
پاکستان فلسطین کے ساتھ اسرائیل کے خلاف جنگ میں شریک کیوں نہیں؟
ایس ایم ظفر تاریخ کے مجرم کیوں ہیں؟
“ہم آپ سے جلد دوبارہ رابطہ کریں گے۔ بہت شکریہ۔ خدا حافظ۔”یہ کہہ کر خاتون نے تو کال ختم کر لی البتہ میں سوچتا ہی رہ گیا کہ انہوں نے مجھ سے یہ کیوں پوچھا؟۔۔۔
“ہو سکتا ہے کوئی ایوارڈ شیوارڈ کا سلسلہ ہو؟ ۔۔۔”میرا دل یکبارگی تیز دھڑکا مگر پھر نارمل ہو گیا۔
ابھی مجھے بائک پر لاہور پہنچنا تھا۔ میں نے بائک اسٹارٹ کی اور دوبارہ رواں دواں ہو گیا۔اس کال کو آئے ہوئے اب تو تین سال گزر گئے ہیں۔ دوبارہ سی پیک والوں کی طرف سے تو کوئی کال نہیں آئی البتہ سی پیک کے مجوزہ راستوں سے، شاہراہ قراقرم سے، گلگت و ہنزہ سے، دریائے سندھ کی پہاڑی گزر گاہوں سے اور چین و پاکستان کے درمیان دنیا کے بلند ترین راستے، 16 ہزار فٹ بلند درہ خنجراب سے مجھےبارہا کال آتی رہی ہے اور میں ہر بار اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کے ان عجیب اور سحر انگیز راستوں کی طرف کشاں کشاں لپکتا چلا جاتا ہوں کہ جو اب سی پیک تلے آنے والے ہیں۔
شاہراہ قراقرم سے میرا پہلا تعارف اتفاقاً ہی ہوا ۔ 1985ء میں مَیں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ پہلی بار سوات گیا ۔ میری عمر اس وقت بیس سال تھی اور میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا ۔ اس سے پہلے میری زندگی کا سب سے طویل سفر صرف کراچی سے لاہور تک ہی تھا ۔ چنانچہ جب پہلی بار پاکستان کے شمالی علاقے دیکھے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ بلند و بالا پہاڑ،سرسبز و شاداب وادیاں، شور مچاتے پہاڑی دریا، شفاف پانی کی ندیاں، چشمے، جھرنے اور وہ سارے مناظر جو اب تک صرف تصویروں یا فلموں میں ہی دیکھے تھے۔ ہم چند دن سوات میں گزار کر کراچی واپس تو آ گئے لیکن دل وہیں اٹکا رہ گیا۔ چنانچہ چند ہی مہینوں کے بعد میں نے اپنے کچھ دیگر دوستوں کو دوبارہ سوات چلنے کیلئے آمادہ کر لیا۔
وہ 1986ء کی گرمیاں تھیں۔ ہم کراچی سے ریل گاڑی میں سوار ہو کر پہلے لاہور پہنچے اور وہاں سے بس میں بیٹھ کر اسلام آباد آگئے۔ اب ہمیں سوات جانا تھا ۔ سوات کیلئے جو معروف راستہ تھا وہ تو وہی تھا جس پر راولپنڈی سے براستہ جرنیلی سڑک ٹیکسلا، واہ کینٹ اور اٹک سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ کو عبور کر کے پہلے نوشہرہ پہنچنا ہوتا تھا اور پھر وہاں جی ٹی روڈ کو چھوڑ کر دائیں طرف کی سڑک پر مردان کی مڑنا ہوتا تھا۔ یہ راستہ دریائے کابل کو عبور کر کے رسال پور، مردان، تخت باہی اور درگئی سے ہوتا ہوا ملاکنڈ کے پہاڑوں تک پہنچتا تو پہاڑوں کی بلندیوں پر پیچ در پیچ چڑھنا شروع ہو جاتا تھا۔ انہیں بلندیوں پر پہلے بٹ خیلہ کا مصروف قصبہ آ جاتا اور اور تھوڑا مزید آگے بڑھنے پر اچانک وادی کھل جاتی، ٹھنڈی ہوائیں استقبال کرتیں اور آنکھوں کے سامنے دریائے سوات کی میلوں وسیع وادی پھیل جاتی جس کے درمیان میں دریا کا پانی کروٹیں لیتا شور مچاتا بہہ رہا ہے اور سر سبز و شاداب کنارے نگاہوں کو سکون و سرخوشی دے رہے ہیں۔ اب اگلا سارا سفر اسی دریا کے کنارے کنارے ہوتا تھا جس پر پہلے وادئ سوات کا مرکزی شہر مینگورہ آتا تھا اور پھر یہی دریا کنارے راستہ مزید آگے بڑھتے ہوئے خوازہ خیلہ، مدین، بحرین اور کالام تک چلا جاتا تھا۔ میں پچھلی بار انہی راستوں سے سوات گیا تھا لیکن چند ہی ماہ بعد یہ دوبارہ سوات آنے کا پروگرام بنا تو میں نے اپنا روٹ کچھ تبدیل کیا۔
پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے نقشوں کا جائزہ لینے پر مجھے سوات جانے کیلئے ایک اور راستے کا بھی پتہ چلا جو شاہراہ قراقرم پر بشام کے قصبے سے نکلتا تھا۔ شاہراہ قراقرم پرحویلیاں، ایبٹ آباد ، مانسہرہ اور بٹگرام سے ہوتے ہوئے تھاکوٹ کے قصبے پہنچیں تو یہاں پہاڑوں میں بہتا ہوا دریائے سندھ سامنے آ جاتا ہے جسے ایک پل سے عبور کرتے ہی آپ ضلع سوات (اب ضلع شانگلہ) میں داخل ہو جاتے ہیں۔ تھاکوٹ پل سے چند کلو میٹر آگے دریا کنارے بشام کا مصروف قصبہ ہے جہاں سے سوات کیلئے ایک راستہ نکلتا ہے جو 11 ہزار فٹ بلند درہ شانگلہ کو عبور کر کے دوسری طرف وادئ سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے بحرین اور کالام قریب ہی ہیں۔ میں نے اس بار سوات جانے کیلئے یہی راستہ منتخب کیا ۔
اس راستے میں ایک کشش یہ بھی تھی کہ ہم شاہراہ قراقرم پر پہلی بار سفر کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کا پہاڑی روپ بھی دیکھ سکیں گے۔ میں اس سے پہلے شاہراہ قراقرم کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکا تھا اور گلگت، ہنزہ اور اسکردو کے بارے میں بھی خاصا کچھ جانتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے مستنصر حسین تارڑ کا شمالی علاقوں کے حوالے سے پہلا سفرنامہ “ہنزہ داستان” بھی شائع ہوا تھا جو میں پڑھ چکا تھا۔لیکن ان سب تحریروں کو پڑھ کر جو بات سب سے زیادہ سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ یہ راستے بہت خطرناک ہیں اور پہاڑوں سے چمٹی بلند و بالا اور موڑ در موڑ تنگ سڑکوں پر کسی بھی وقت کوئی جان لیوا حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ چنانچہ دل اس طرف رخ کرنے سے ڈر تا تھا۔ سوات چونکہ میں دیکھ چکا تھا اس لئے وہاں دوبارہ جانے میں کوئی انجانا خوف لاحق نہیں تھا۔ چنانچہ ہم نے راولپنڈی پہنچ کر پیر ودھائی بس اڈے کی طرف رخ کیا جہاں سے ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (نیٹکو NATCO) کی بسیں گلگت جاتی تھی۔ ہمیں گلگت تو نہیں جانا تھا، بشام میں اترنا تھا، چنانچہ بشام کے چار ٹکٹ خرید لئے۔
اگلے دن صبح سویرے نیٹکو کی بس پیر ودھائی اڈے سے نکلی اور جی ٹی روڈ پر دوڑنے لگی۔ حسن ابدال پہنچ کر ہم نے جی ٹی روڈ چھوڑ دیا اور دائیں طرف ہری پور، حویلیاں اور ایبٹ آباد جانے والی سڑک پر مڑ گئے۔
گھنٹے بھر میں ہم ہری پور اور سرائے صالح سے گزر کر حویلیاں پہنچ گئے ۔ حویلیاں شہر کے پہلو سے لگا “دریائے دوڑ” گزر رہا ہے جو کہ نتھیا گلی کے پہاڑوں سے بہتا آ رہا ہے ۔ دریائے دوڑ کو عبور کرتے ہی آپ جس سڑک پر آ جاتے ہیں وہی شاہراہ قراقرم ہے، جو یہاں سے چین تک جاتی ہے۔ یہ حویلیاں سے آگےایبٹ آباد، مانسہرہ، شنکیاری اور بٹگرام سے ہوتے دریائے سندھ کے کنارے تھاکوٹ کے قصبے تک پہنچتی ہے اور تھاکوٹ پل سے دریائے سندھ کو عبور کرتی ہے تو دوسری طرف ضلع سوات کی حدود میں بشام کا قصبہ آ جاتا ہے۔ بشام سے آگے شاہراہ قراقرم کی اصل خطرناکیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
دریائے سندھ کے کنارے کنارے ہندوکش کے فلک بوس پہاڑوں سے چمٹی ہوئی دنیا کے خطرناک ترین راستوں سے گزرتی ہوئی یہ سڑک پٹن، کومیلا، داسو، سازین،شتیال، چلاس، تھک گاہ، تتہ پانی، رائے کوٹ اور جگلوٹ سے ہوتی ہوئی گلگت پہنچتی ہے۔ پھر گلگت سے آگے یہ دریائے ہنزہ کے کنارے کنارے کوہ قراقرم کے دامن میں دنیور،نگر، کریم آبادہنزہ ، شیش کٹ ، گلمت، پھسو، مارخن اور گرچا کے دور افتادہ پہاڑی قصبوں سے ہوتی ہوئی پاکستان کے آخری قصبے سست تک پہنچ جاتی ہے۔ سست سے آگے یہ سڑک مزید بلندیوں کی طرف مائل ہوتے ہوئے پاکستان کے آخری گاؤں مسگر کے قریب سے گزرتی ہوئی سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ بلند برفانی درّے خنجراب تک پہنچ جاتی ہے جہاں پاکستان کی حدود ختم ہو جاتی ہیں اور شاہراہ قراقرم عوامی جمہوریہ چین میں داخل ہو جاتی ہے۔ چینی حدود میں مزید آگے بڑھتے ہوئے یہ دنیا کے بلند ترین علاقے پامیر میں داخل ہو جاتی ہے اور پھر پیرعلی، تاشقرغان، بلونگول اور اوپال کے قصبوں سے ہوتی ہوئی چین کے پہلے شہر کاشغر تک پہنچ جاتی ہے ۔ یہی وہ شہر ہے جس کا حوالہ علامہ اقبال نے اپنی طویل نظم خضر راہ میں یوں دیا ہے:
ربط و ضبطِ مِلّتِ بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبرپھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہومُلک و دولت ہے فقط حِفظِ حرم کا اک ثمرایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیےنِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
شاہراہ قراقرم اس ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا کا آٹھواں عجوبہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کی تعمیر سے پہلے ایک عام آدمی کیلئے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں میں چھپی ،دور افتادہ وادیوں تک پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔ آج شاہراہ قراقرم نے ان نا ممکنات کو دلفریب حقیقتوں کے روپ میں سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے گلگت جانے کا ایک ہی راستہ تھا جو مانسہرہ یا مظفر آباد سے ہوتے ہوئے دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ بالاکوٹ اور وادیٔ کاغان سےگزرتا ہوا 14ہزار فٹ بلند برفانی درّے بابو سر سے گذر کر جاتا تھا۔ درّہ بابو سر بھی صرف گرمیوں میں دو چار ماہ کیلئے ہی کھلتا تھا۔ وہ راستہ درہ بابوسر کی بلندیوں سے دوسری طرف اتر کر دریائے سندھ کے کنارے چلاس پہنچتا تھا اور چلاس سے آگے گلگت تک دریا کے کنارے کنارے ایک نسبتاً آسان رستہ ہوا کرتا تھا۔لیکن درہ بابوسروالے راستے میں سب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ یہ سال کے صرف پانچ مہینے یعنی مئی، جون جولائی، اگست اور ستمبر کیلئے کھلتا تھا۔ باقی سات مہینوں میں یہ راستہ دبیزبرف سے ڈھکا رہتا تھا چنانچہ سردیوں میں اس راستے سے گلگت جانا ناممکن ہوتا تھا۔
دوسرا ممکنہ راستہ دریائے سندھ کا کنارا تھاجس پر ایک طرف تو چلاس کا قصبہ تھا اور دوسری طرف سوات کا قصبہ بشام تھا، مگر ان دونوں قصبوں کے درمیان تقریباً ڈیڑھ سو میل کے فاصلے میں کوئی باقاعدہ راستہ موجود نہیں تھا۔ اکا دکا راستوں کے نام پر صرف وہ دشوار گذار پگڈنڈیاں تھیں جو گڈریوں، بھیڑ بکریوں ، گھوڑوں اور خچروں کی آمد ورفت سے بن گئی تھیں۔ بشام وادیٔ سوات میں درۂ شانگلہ کے راستے منگورہ سے مربوط تھا اور منگورہ مردان کے راستے جی ٹی روڈ سے منسلک تھا۔ چنانچہ بشام اور چلاس کے درمیان دریائے سندھ کے کنارے کنارے ایک سڑک کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تاکہ کاغان کے علاوہ سوات کے راستے بھی گلگت تک پہنچنا ممکن ہو سکے۔ یوں پہلے 1959ء میں شاہراہ سندھ طاس کے نام سے اس سڑک کی تعمیر شروع ہوگئی۔پھر1967ء میں شاہراہ سندھ طاس کی توسیع کرتے ہوئے چین کے تعاون سے ایک ایسی سڑک کی تعمیر شروع ہوئی جو ایک طرف تو بشام سے مانسہرہ اورایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے حویلیاں تک اور دوسری طرف چلاس ، گلگت اور ہنزہ سے گذرتے ہوئے پاک چین سرحد پر سولہ ہزار فٹ بلند درہ خنجراب تک پہنچ گئی۔ یہی شاہراہ قراقرم تھی جس کی تعمیر میں 25 ہزار کے لگ بھگ پاکستانی اور چینی جوانوں سے حصہ لیا۔
1978ء میں جب اس انوکھی سڑک کا افتتاح ہوا تو کسی کو یقین نہ آتا تھا کہ یہ واقعی بن گئی ہے۔804 کلومیٹر طویل اس کوہستانی شاہراہ کی تعمیر میں جہاں 20 سال کا عرصہ لگا وہاں 804 انسانوں کو بھی اپنی جان عزیز سے ہاتھ دھونا پڑے۔ آٹھ سو چار کلومیٹر، آٹھ سو چار انسان۔ فی کلومیٹر فی انسان قربانی سے وجود پانے والی اس سڑک پر آج بے شمار گاڑیاں، ٹرک اور بسیں دندناتی ہوئی گذر جاتی ہیں، اور ان گاڑیوں میں سوار کسی شخص کے ذہن میں شاید ہی یہ خیال آتا ہو کہ قدیم بے ہنگم پگڈنڈیوں کی جگہ لینے والی اس شاندار، ہموار اور سیاہ چمکدار سڑک کے وجود میں آٹھ سو چار انسانوں کے لہو کی سرخی بھی پوشیدہ ہے۔
یہ شاہراہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں چین تک پھیلے ہوئے علاقے کے باسیوں کی نسلوں کا خواب تھا ۔ کوئی مربوط راستہ نہ ہونے کے سبب یہاں کے لوگ مہذب دنیا سے بالکل کٹے ہوئے اور قطعاً ناواقف تھے۔ اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بننا ناممکنات میں سے تھا مگر پاکستان اور چین نے مل کر اس کو ممکن بنایا۔شاہراہ قراقرم ، جسے قومی شاہراہ 35 یا مختصراً N35 بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔ یہ چونکہ دنیا کے بلند ترین اور انتہائی دشوار گزار پہاڑوں میں تعمیر کی گئی ہے اس لئے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے۔
شاہراہ قراقرم کو “شاہراہ ریشم” بھی کہا جاتا ہے۔ اصل شاہراہ ریشم دنیا کی ایک قدیم تجارتی شاہراہ ہے جس کے ذریعے چین کا خاص مالِ تجارت دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتا تھا۔ان چینی اشیاء میں سب سے معروف چیز چونکہ ریشم تھا، اس لئے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑ گیا تھا۔ بعد میں جب چینی مال ِ تجارت کی ترسیل زیادہ تر سمندری راستوں سےہونے لگی تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ متروک ہوتی چلی گئی اوراس کا نام صرف داستانوں میں ہی رہ گیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب چین اور پاکستان میں دوستی کا آغاز ہوا تو اس قدیم شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کے منصوبہ بھی زیر غور آیا۔ 1962ء میں دونوں ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہو گیا جو چین کے پہلے شہر کاشغر سے سطح مرتفع پامیر سے گزرتا ہوا پاکستان کی انتہائی شمالی سرحد تک آتا تھا۔
کاشغر سے حویلیاں تک شاہراہ قراقرم کی کل طوالت 1300 کلومیٹر ہے جس کا تقریباً 900 کلو میٹر حصہ پاکستان میں اور 400 کلومیٹر چین میں ہے۔ اس شاہراہ کے افتتاح کے بعد جیسے ہی پاک چین سرحد کھلی، دنیا بھر کے سیاحوں نے اس راستے پر یلغار کردی۔ اس شاہراہ کی وجہ سے بائی روڈ پاکستان سے چین جانا بھی ممکن ہو گیا۔
لیکن شاہراہ قراقرم اور شاہراہ ریشم سے متعلق یہ ساری معلومات تو میں نے بعد میں حاصل کیں، اس وقت تو بس ہم بشام اور شانگلہ کے راستے صرف سوات جا نے کیلئے اس بس میں سفر کر رہے تھےاور بس اس وقت ایبٹ آباد کی طرف دوڑے جا رہی تھی۔ راستہ رفتہ رفتہ بلند ہوتا جا رہا تھا اور بس کے انجن کو زور لگانا پڑ رہا تھا۔ دو طرف پہاڑوں کے بیچ میں سینڈوچ بنی سڑک پر انجن کی آواز بپھرے شیر کی طرح گونج رہی تھی ۔