امریکی صدر جو بائیڈن خطرے کے باجود اسرائیل پہنچ کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اور ان کا ملک اس “مشکل کی گھڑی” میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔یاد رہے 1946 سے لے کر 2023 تک امریکہ اسرائیل کو 260 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم رشید سونک اسرائیل پہنچ کر اسرائیل کو کہتے ہیں کہ ہم آپ کو جیتتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔۔
انٹرنیشنل ٹی وی چینلز حماس کا کردار سبوتاژ کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ اسرائیل کو ایک پرامن ریاست ثابت کرنے کے لیے اپنا دن رات ایک کررہے ہیں۔اس جنگ کا سارا ملبہ حماس پر ڈال کر اسرائیل کے ہر عمل کو بقا کی جنگ کا لقب دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ چند رپورٹس شائع کر کے بالکل بونگی ہو جاتی ہے۔ اسرائیل کا ساتھ دینے والے تمام فریقین اپنی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں۔ حتی کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو غزہ پٹی پر زمینی آپریشن شروع کرنے سے قبل غزہ کے بارڈر پر موجود اسرائیلی فوجیوں سے مل کر ان سے بات چیت کرتے ہیں،انہیں سراہتے ہیں حوصلہ دیتے ہیں۔۔ البتہ فلسطین کا ساتھ دینے والے فریقین پر سوالیہ نشان ہے؟وہ کیا کررہے ہیں؟
یہ بھی پڑڑھئے:
ایس ایم ظفر تاریخ کے مجرم کیوں ہیں؟
نواز شریف کا استقبال: مسلم لیگ کراچی نے تاریخ بنا دی
عرب لیگ ،او آئی سی ہر پیلٹ فارم پر ناکام ہوچکے ہیں۔ کیوں ناکام ہوتے رہے ہیں؟اس حوالے سے کبھی بھی مسلم دنیا کے ذہین دماغوں نے غور و فکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔اگر آج کی دنیا کی طاقت معیشت ہے تو کمزوری بھی یہی ہے۔آج کی دنیا میں یہ معیشت ہی ہے جو کسی بھی ملک کو سرنڈر کرنے پہ مجبور کرسکتی ہے۔دھڑام سے نیچے گرا سکتی ہے۔کم از کم ان تنظیموں کا اتنا اثر و رسوخ کو ہونا چاہیے تھا کہ یہ تمام مسلم دنیا کو اسرائیل سے ہر قسم کی ٹریڈ کرنے سے رکوا پاتے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اسرائیل سے مکمل تجارتی بائیکاٹ پر رضا مند کروا پاتے۔ انفرادی سطح پر یہ کام ہوا ہے لیکن اگر یہ اجتماعی سطح پر ہوتا تو اسرائیل گھٹنوں کے بل ضرور آ گرتا۔
دو تین انٹرنیشنل چینلز کو چھوڑ کر باقی تمام ٹی وی چینل اچھے پائے کی رپورٹنگ کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔وہ فلسطینیوں کا مقدمہ اس طرح دنیا کے سامنے نہیں لا پارہے جس طرح لانا چاہیے۔اگر مسلم دنیا کا میڈیا ایک مؤثر کردار ادا کرتا تو آج صورتحال میں نمایاں تبدیلی ہوتی۔یہ اکیسویں صدی ہے۔ اب میڈیا لوگوں کے لاشعور کی تربیت کرتا ہے۔ مغرب کے چینلز نے بھر پور اسرائیلیوں کے حق میں بولا ہے ایسی رپورٹس پیش کی ہیں جو اسرائیل کے حملوں کو جواز فراہم کرتی ہیں۔لیکن مسلم دنیا کا میڈیا حماس کے کردار کے حوالے سے ہی شک و شبہات کا اظہار کرتا رہا حماس کو ہی لعن طعن کرتا رہا۔اب تک ایسی رپورٹ پیش نہیں کرسکا جو ثبوتوں کے ساتھ مغربی رہنماؤں ، مفکروں اور صحافیوں کی بولتی کو بند کرسکے۔
فلسطین کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہنے کا دعویٰ کرنے والے مسلم ممالک کیا کرہے ہیں؟ محض بیان بازی؟؟وہ بھی ڈر ڈر کر۔۔چند ممالک کے سوا۔ وطن عزیز کے حکمرانوں کی تو بیان بازی بھی محض اسرائیلی حملوں کی مذمت اور جنگ بندی کے مطالبہ پر ختم ہوجاتی ہے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔کیا ایک ایٹمی ملک کے سربراہ کی ذمہ داری محض بیان دے دینا ہے؟ 2001 میں جب دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان شمولیت اختیار کر سکتا ہے تو اب کیوں نہیں؟ اگر جوان فوجیوں کی شہادت کا خوف ہے تو کیا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اپنی جانیں نہیں گنوائیں؟
اگر معیشت کی تباہی کا خوف ہے تو کیا پاکستان ابھی جی -20 میں شامل ہے؟
اگر پابندیوں کا خوف ہے تو کیا ابھی پاکستان ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہے؟
اگر پاکستان کے اس جنگ میں شمولیت اختیار کرنے سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے طویل ہو جانے کا خوف ہے تو یہ واضح ہے کہ یہ جنگ نہیں رکے گی حتی کہ اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرلے۔۔اسرائیل کے اہداف کیا ہیں؟یہ سب اب ایک کھلی کتاب کی مانند ہے بس آنکھوں سے پٹی اتار کر اسے پڑھنا ضروری ہے لیکن اگر پاکستان کے حکمران اپنی دور اندیشی کے سبب اس جنگ میں شمولیت اختیار نہیں کرنا چاہ رہے تو کم از کم اندرونی طور حماس کو سپورٹ تو فراہم کرسکتے ہیں۔۔
انہیں اسلحہ تو فراہم کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ “حماس دہشتگرد تنظیم ہے”یہ دنیا کہتی ہے ہم نہیں۔۔ایسا دنیا مانتی ہے ہم نہیں۔ یہ دنیا کا دستور ہے کہ ہمیشہ ہی حق کے لیے بہت کم آوازیں اٹھتی ہیں،ساتھ دینے والے اس سے بھی کم ہوتے ہیں۔۔لیکن تاریخ ہیرو کے طور پر اسی کو اپنے صفحات پر رقم کرتی ہے جو ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے اپنا خون بہا دے، سر کٹوا دے لیکن سر نہ جھکائے۔ یہ پاکستان کو طے کرنا ہوگا کہ اس نے تاریخ کے لیے اپنا کیسا تعارف چھوڑنا یے۔ہیرو بننا ہے یا غدار؟بس یہ دعا ہے کہ آنے والی نسلیں ہم پر شرمندہ نہ ہوں!