ایس ایم ظفر چلے گئے اور اپنے طرز عمل سے اس سفاک حقیقت کو اور واضح کرگئے کہ قانون کی سب سے زیدہ دھجیاں خود قانون کے نام لیواؤں اور رکھوالوں کے ہاتھوں اڑائی جاتی ہیں کیونکہ موصوف نے نہ صرف 1958 میں جمہوریت پہ شبخون مارنے والے آمر کا ساتھ دینے اور مارشل لاء کو جائز قرار دینے میں اپنی صلاحیتوں کا بے دریغ استعمال کیا بلکہ پھر 1962 کےآئین کی تیاری میں وہ کارہنر بھی کردکھایا کہ اس میں انسانی حقوق یکسر روند کے رکھ دیئے گئے اور اس بدبودار دستوری بندوبست کو پرفریب وعدوں کی خوشبو لگا کے ایک قالین کی شکل دی گئی اور پھر اسے ایک آمر اور جمہوریت دشمن کے قدموں میں بڑے عجز و نیاز سےبچھادیا گیا – بحیثیت دستور ساز و قریبی مشیر ایس ایم ظفر اس آئین کے تحت جنم دیئے گئے اس بنیادی جمہوریت کے منصوبہ ساز تھے کہ جس نے 80 ہزار بی ڈی ممبروں کے نظام کو وجود میں لاکر اس کے بل پہ آمر کی کرسی کو تخت شاہی بنادیا اور پھر 1964 کے صدارتی انتخابات میں بی ڈی سسٹم کے پیدا کردہ گھناؤنے ہتھکنڈوں کے تحت محترمہ فاطمہ جناح کی اکثریت کو کچل کے رکھ دیا گیا ۔۔۔
دربار اکبری کے ملا فیضی کی مانند اس دستوری و سیاسی ہنر مند کو بھی اسکے قانون فروشی کے غیرمعمولی اوصاف کی بدولت دربار ایوبی کے نورتنوں میں جگہ مل ہی گئی جہاں وہ دور ایوبی کے پورے عرصے میں کھل کھیلتے رہے اور وطن عزیز میں جمہوریت اور اسکی اقدار تماشا بنا کے رکھ دی گئیں ۔۔۔ اس دستوری کبڈی کے اثرات نے اہل مشرقی پاکستان کو ہم سے بیحد بددل کرڈالا حتیٰ کہ بعد میں وہ بھارت کی مدد سے ہم سے ناطہ ہی توڑ بیٹھے ۔۔۔ اسی لیئے میں صرف بھٹو ، یحییٰ خان اور جنرل نیازی و ٹکا خان ہی کو نہیں بلکہ شریف الدین پیرزادہ اور جیسے دستوری ایس ایم ظفر بازیگروں کو بھی اس کے ذمہ داروں میں شمار کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس ملک میں جمہوریت کا خون کرنے والوں کو نہ صرف اپنی بدطینت اہلیت و منفی قابلیت کا بغدا تھمایا بلکہ بعد میں خون کے داغ بھی اپنی ٹائیوں اور رومالوں سے برخوردارانہ طور پہ پونچھے ۔
یہ بھی پڑھئے:
نواز شریف کا استقبال: مسلم لیگ کراچی نے تاریخ بنا دی
ملکہ پکھراج نے کس کس کے قتل کی سازش کی؟
چلتے چلتے یہ بھی بتادوں کہ جہاں ممتاز ادیب مختار مسعود کے کان میں مینار پاکستان نے جھک کر یہ سرگوشی کی تھی کہ قحط الرجال یہ ہے کہ معاشروں میں اچھے لوگوں کی پیدائش ، نمو اور افزائش ماند پڑجاتی ہے تو دوسری طرف میرے ذہن میں اسکی ایک دوسری تفہیم وہ بھی ہے جو کہ لڑکپن گزرنے کے بعد میرے ذہن میں پہلی بار مزار قائد پہ پہنچتے ہی مزار قائد کے گنبد سے گونجتی صدا نے میرےشعور میں نقش کی تھی اور وہ یہ ہے کہ قحط الرجال کی ایک اورشکل یہ ہے کہ جب معاشرے اچھے اور برے افراد کے درمیان خط امتیاز مٹا دیتے ہیں اور اچھوں کی گنتی میں بروں کو بھی شمار کرنے لگتے ہیں یوں اچھوں کی گنتی کم ہوتی جاتی ہے کہ ان میں بہتیرے اچھےلوگ اس طرح کی ‘خانہ ساز کرداری ملاوٹ’ سے بددل ہوکر میدان عمل سے ہی باہر چلے جاتے ہیں ۔۔۔ بدقسمتی سے بطور معاشرہ ہم دونوں طرح کے قحط الرجال کا شکار ہیں اور خصوصاً موخرالذکر میں تو شاید ہمارا ثانی ہی کوئی نہیں ۔۔۔ ایسا نہ ہوتا تو سقوط مشرقی پاکستان کا اصلی منصوبہ ساز ذوالفقار علی بھٹو نواب محمد خان کے قتل کے جرم میں نہ مارا جاتا بلکہ ملک کو دو لخت کرانے کے جرم میں سولی پہ کھینچا جاتا ۔۔۔۔ نہ کہ وہ اس سانحے کے پانچوین ہی روز اسی بدقسمت ملک کا حاکم بنادیا گیا ۔۔
بیشک کسی فرد کی جانب سے کسی دوسرے فرد کے کسی حق کی پامالی ان دو افراد کے درمیان کا معاملہ ہے لیکن ملی و قومی حقوق کی پامالی ایسا معاملہ ہرگز نہیں کہ جس پہ کسی ایسے فرد کو کوئی فرد معاف کرسکے اور قومی و معاشرتی جرائم کے ذمہ داروں کے عبرت انگیز تذکرے تو ہماری کتاب ہدایت کا بھی سبق آموز حصہ بنائے گئے ہیں ۔۔۔ اسی لیئے تاریخ بھی گواہ ہے کہ قحط الرجال کی بد ترین شکل یہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ اپنی بنیادی اقدار کی تباہی کے ذمہ داروں اور انکے معاون بننے والوں کا احتساب کرنا تو درکنار انہیں برا کہنے کی توفیق بھی کھو بیٹھتا ہے ۔۔۔۔ البتہ جو کوئی یہ تلخ حقائق یاد دلائے اسی کا منہ نوچ لینے کے لیئے بہتیرے بقراط متحد و کمربستہ ہوجاتے ہیں ۔