کارگل کی جنگ کے بعد حکومت پاکستان کو ملٹری نیول پورٹ اور کراچی گوادر روڈ کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ اول اول یہ راستے دفاعی ضروریات کے تحت ہموار کیے گئے لیکن 2002 میں ان پر سنجیدگی سے عمل درآمد کی جانب پیش قدمی کی گئی ایک پیچیدہ اور پرخطر رہ گذر کو ایسے ہموار کرنا کہ چین،ایران،وسط ایشیا حتیٰ کہ یورپ ممالک تک رسائی حاصل ہو ،کوہ دشوار تھا لیکن برادر ملک چین کے تعاون نے ایک سراب کو حقیقت کے سانچے میں ڈھال دیا۔ یہی سی پیک ہے۔
پاکستان اور چین نے “ون بیلٹ ون روڈ” منصوبے پر کام شروع کیا جسے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک کا نام دیا گیا منصوبے میں دونوں ممالک کے ساتھ ایران ،افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں اس کے مقاصد جلیلہ میں دونوں ممالک کے مابین عوام کا طرزِ زندگی بہتر بنانا ،دو طرفہ روابط،سرمایہ کاری،معاشی استحکام ،تجارت،لاجسٹک،سیاحت، صنعت،زراعت،تعلیم،طب اور پانی کی فراہمی شامل تھے سی پیک میں زمینی راستوں کے ساتھ بحری اور ٹرین گزرگاہ بھی شامل تھی جو خیبرپختونخواہ،گلگت بلتستان ،پنجاب ،سندھ،بلوچستان اور آزاد کشمیر سے لے کے چین کے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ تک پھیلی راہ داری ہے جہاں اوئی گر مسلمان آباد ہیں یہ تقریباً 3000کلومیٹر کا انفراسٹرکچر بنتا ہے۔ اس راستے سے چین یورپ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کر لے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
غزہ: جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
ملکہ پکھراج نے کس کس کے قتل کی سازش کی؟
کیا عناد، انصاف پر حاوی رہے گا؟
محمد حمید شاہ، ایک کہانی دیوار کے پیچھے سے
منصوبے پر پاکستان اور چین دونوں حکومتوں کی باہمی گفت وشنید جاری رہی بالآخر 16مئی 2013کو چین نے گوادر پورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یہ 46بلین ڈالرز کا منصوبہ تھا20اپریل 2015 کوچین کے بینکوں کی معاونت سے منصوبے کا آغاز کر دیا گیا اور باقاعدہ اعلان 2017میں کیا گیا 2020تک اس کا تخمینہ 62بلین ڈالرز تک لگایا گیا۔ چین کے مطابق درحقیقت یہ شاہ راہ ریشم کی بحالی کا منصوبہ ہے۔
سی پیک پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس سے 2.3ملین پاکستانی روزگار حاصل کریں گے 2030تک پاکستان کے جی ڈی پی میں 2.5فیصد اضافہ متوقع ہے منفعت بخش صنعتوں میں فوڈ پراسیسنگ ،ماربل،معدنیات،زرعی آلات ،لوہا،سٹیل،موٹر بائیک، آٹو موبائلز اور الیکٹریکل مصنوعات شامل ہیں۔ اس منصوبے سے پاکستانی جدید ذرائع آمدورفت اور تیز ترین گذرگاہوں سے فیض یاب ہو سکیں گے۔
چین اسے عمان گلف تک طویل پھیلے بارڈر 12000کلو میٹر راستے سے 2395کلومیٹر راستے تک محدود کر لے گا جو تیل کی ترسیل میں معاون و سود مند ثابت ہوگا جس سے چین کو سالانہ 2بلین ڈالرز کی بچت ہو گی۔
حکومت چین نے گوادر پورٹ میں ان گنت منصوبے مرکزی راہ داری کے علاوہ بھی پلان کر رکھے ہیں مقامی رہائشیوں کو ہنرمندی کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ سی پیک منصوبے میں یہ تربیت معاشی استحکام میں معاون ثابت ہو 300میگا واٹ کوئلہ پاور پلانٹ ،300بستروں پر مشتمل ہسپتال گواردر مشرقی bay ایکسپریس وے اور مکران کوسٹل ہائی وے شامل ہیں۔ چین نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقامی افراد کو دو سال میں 7000سیٹ سولر پینل گھریلو استعمال کی مد میں فراہم کیے اور اب مزید 10000سیٹ سولر پینل تیاری کے مراحل میں ہیں جو بلوچستان کے رہائشیوں کو عطیہ کیے جائیں گے
اسی طرح حکومت پاکستان نے 943ملین روپے لاگت کا منصوبہ پاک چین ٹیکنیکل ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ بنانے کا اعلان کیا ہے یہ ادارہ ہنرمندی کے رحجان کو بڑھائے گا۔
حال ہی میں چین نے عالمی صحافت کانفرنس برائے سی پیک کا انعقاد کیا ہے۔ آل پاکستان جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے وفد ظہیر عالم اور عابد چوہدری نے پاکستان کی ترجمانی کی ہے اور دیگر ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعاون کے معاہدات پر دستخط کیے ہیں۔
سی پیک منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔ چینی حکام نے ایجنڈے کے کچھ آئٹمز کو موخر کرنے کا مطالبہ کیا اور سی پیک پر فیصلہ کرنے والی اعلیٰ ترین باڈی جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی JCC کو روک دیا ان کے مطابق دہشت گرد تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کی ظالمانہ کارروائیوں نے عدم تحفظ کی فضا پیدا کر رکھی ہے پاکستان کے حساس اداروں نے چینی حکام کو بھارتی حساس ادارے کے ملوث ہونے کے شواہد فراہم کر رکھے ہیں جس کے مطابق اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے سات سو افراد تعینات ہیں جنھوں نے سی پیک منصوبے کی وسیع اور ناقابلِ شمار سرمایہ کاری اور خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
چین پرعزم ہے کہ وہ جلد ہی صورتحال پر قابو پا لے گا پاکستان بھی اپنے سیاسی استحکام اور امن و ترقی کی راہ پر گامزن ہے سی پیک پاک چین دوستی کی مضبوطی اور پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے۔