محمد حمید شاہد کون ہے اور کیا ہے؟ یہ سوال بہت سے لوگوں کے لیے معمہ ہو سکتا ہے۔ شاید ان لوگوں کے لیے بھی جو آج بہ وجہ اس کے ادبی قد کاٹھ کے اسے بہ خوبی جاننے کے دعوے دار ہوں لیکن میرے لیے نہیں۔
بھابھی یاسمین حمید ایک بار ہمارے یہاں آئیں۔ ‘ ایک بار’ کے الفاظ اضافی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب وہ پہلی بار ہمارے گھر تشریف لائیں تو میری بیوی سے راز و نیاز کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ مزہ نہیں آتا جب تک ان کا پورا نام نہ لیا جائے لہٰذا میں ہمیشہ پورے اہتمام سے کہا کرتی ہوں: حمید شاہد ‘۔ بشریٰ نے حیرت سے میری طرف دیکھا تو میں نے نگاہ چراتے ہوئے براہ راست جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ یہ ماجرا دراصل رقابت کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اس شخص سے ہماری علیک سلیک ہوئی اور معاملہ بڑھتے بڑھتے بے تکلف دوستی تک جا پہنچا تو ہم نے بھی اسے ہمیشہ اسی نام سے پکارا۔ بشریٰ عجیب سی نگاہیں ہم تینوں پر ڈال کر خاموش ہو گئی۔ کوئی سوال ضرور اس کے ذہن کو پریشان کرتا ہو گا لیکن رات کی رانی کی مشام جاں کو تازہ کرتی ہوئی خوشبو مدد کو آئی اور ہم بشریٰ کے مشورے پر کمرے سے نکل کر لان میں آ بیٹھے۔ اسی دوران میں ایک جملہ مجھ سے سرزد ہوا کہ محبوبانہ ادائیں رکھنے والے اس شخص کا مزاج ہی ایسا ہے جو اسے دیکھتا ہے، اس پر فدا ہو جاتا ہے۔ فاروق عادل ہو کہ اشفاق احمد کاشف، یہاں کہ بھابھی یاسمین حمید بھی۔ یہ سن کر حمید شاہد نے ایک کھلا قہقہہ لگایا اور ایوان صدر کی پرسکون خاموشی میں بکھری خوشبو میں ایک اور بھرپور سانس لی۔
تو بھائیو، حمید شاہد یہ ہے۔ ایوان صدر میں ایک بار فیصلہ ہوا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے تعاون سے ایک پروگرام کیا جائے۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو ان دنوں صدر نشین ہوا کرتے تھے۔ دوران گفتگو حمید شاہد کا ذکر ہوا تو وہ چونکے اور کہا کہ کون حمید شاہد؟ وہ حمید شاہد جو بہت پڑھا لکھا ہے؟ حمید شاہد کے علم و فضل سے تو مجھے کبھی انکار نہیں رہا لیکن زبان ‘ غیر’ سے شرح آرزو کچھ اجنبی لگی۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ وہ لوگ جو آپ کے آس پاس ہوں یا جن پر آپ اپنا حق جتائے بغیر حق جتا سکیں، ان کے بارے میں کسی کے منھ سے کوئی کلمہ تعریف سننے کو ملے تو اسی طرح حیرت ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
انیق احمد کے تفردات، آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
کچھ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی حمایت میں
سپریم کورٹ سے اب کیسے فیصلے آیا کریں گے؟
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ، اثرات کیا ہوں گے؟
ڈاکٹر قاسم بگھیو تو خود بہت پڑھے لکھے اور روشن خیال آدمی ہیں ، نہیں معلوم کہ وہ ہمارے حمید شاہد کو کس اعتبار سے پڑھا لکھا سمجھتے ہیں لیکن میرے ذہن اس کا ایک پس منظر ہے۔ حمید شاہد نے اپنی خود نوشت ‘ خوشبو کی دیوار کے پیچھے’ میں اس موضوع پر بات کی ہے اور اختصار کے ساتھ یہ کہہ کر بات ختم کر دی ہے کہ یہ عشق کا معاملہ ہے۔ ایسا ہی ہو گا، آخر اس شخص نے تحریک ختم نبوت کے زمانے میں جیل کا اندر باہر دیکھا ہے۔ لوگ اس دیار میں یوں ہی تو نہیں چلے جاتے۔ خیر، یہ موضوع مختلف ہے۔ بتانا مجھے یہ ہے کہ اس شخص کے قلم میں جو برکت پیدا ہوئی اور وہ بلا ناغہ ہر روز سحری کے وقت بے تکان لکھتا چلا جاتا ہے تو اس کاراز کیا ہےاور اس فراوانی سے مضامین غیب سے خیال میں کیسے آ جاتے ہیں۔
میرے اور حمید شاہد کے زمانہ طالب علمی میں جس قسم کا نظریاتی ماحول تھا، اس میں ریڈیو کا سننا بھی زیادہ آسان نہ تھا۔ اس جادوئی آلے سے ہر شام بھلے ہی شاہ بلیغ الدین اپنی بلیغ زبان میں روشنی بکھیرتے ہوں لیکن اس سے تعلق کا مطلب لہو لعب سے آلودگی ہی تھا۔ ریڈیو تو خیر آگے کی چیز ہے۔ میرے ایک نیک نہاد دوست وجاہت اشرف باجوہ نے میری اخبار دوستی اور کبھی کبھار ان میں میرے شائع ہو جانے کے بارے میں کہا تھا کہ فاروق صاحب، اخباراں چ نہ لکھیا کرو۔ وجاہت کے ذہن میں کیا تھا، یہ تذکرہ میں نے چھیڑا تو بات دور نکل جائے گی، مجھے حمید شاہد کے ریڈیو کے ساتھ اس رشتے کی کہانی بیان کرنی ہے جس کی برکت سے اس کے قلم میں برکت پیدا ہوئی۔
تو واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے کی تمام تر کج ادائی کے باوجود حمید شاہد نے ریڈیو سنا اور اس سے کام کی ایک بات سیکھی۔ یہ شخص ریڈیو سے اور جانے کیا سنتا ہو گا لیکن التزام سے اس نے شاہ بلیغ الدین ہی کو سنا۔ شاہ بلیغ الدین کی شہرت عالم دین اور کسی قدر سیاست دان کی ہے لیکن ریڈیو پر ہر شام وہ ایک مختصر تحریر پڑھا کرتے تھے جس میں کوئی حرف نصیحت یا کوئی سبق آموز واقعہ ہوتا۔ ذرا سی دیر میں ان کا اسکرپٹ ختم ہو جاتا لیکن سننے والا سمجھتا کہ ختم نہیں ہوا بلکہ بات تو اب شروع ہوئی ہے۔ حمید شاہد اسی اسلوب سے متاثر ہوا۔ ان دنوں سوچا کرتا کہ یہ اسلوب جس میں بات نامختتم رہ جاتی ہے، یہ کچھ ایسے مکمل ہو کہ مکمل ہو بھی جائے، کسی نامعلوم راستے کا دروازہ بھی کھول دے اور جانے اور کیا کیا ہو جائے۔ یہ بہ قول جمیل الدین عالی آٹھویں سر کی جستجو تھی۔ میں نے حمید شاہد کو اس جستجو میں مگن دیکھا ہے۔
ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد کی لائبریری میں ان دنوں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنی کتابیں بھی تھی، وہ اس کے کمرے میں تھیں جو تھوڑی سی جگہ بچی، اس میں ایک میز اور ایک بستر بہ مشکل سما پائے۔ میز پر ایک ٹیبل لیمپ ہوتا، کاغذوں کا دستہ ہوتا اور سر جھکائے حمید شاہد ہوتا۔ کمرہ ہمیشہ کھلا ملتا۔ اشفاق احمد کاشف اور میں کمرے میں داخل ہوتے تو حمید شاہد محبوبانہ ادا کے ساتھ پلٹ کر ہمیں دیکھتا پھر لکھنے میں مصروف ہو جاتا۔ اس زمانے کے صبح و شام کی لذت کیا رہی ہوگی؟ اس سوال کا جواب مجھے نہیں معلوم لیکن ایک بات ذہن میں ہے کہ جس ادارے نے یہ کتاب شائع کی، حمید شاہد نے اسے ہدایت کی تھی کہ کوئی ضروری نہیں کہ سرورق پر اس کا نام بھی شائع کیا جائے۔ وہ ادارہ ایسا فرماں بردار نکلا کہ اس نے مصنف کی کسر نفسی کو عملی جامہ پہنا کر ہی دم لیا۔
سرزمین ادب میں اس شخص کی مقبولیت بلکہ محبوبیت کو دیکھتے ہوئے میں نے ہمیشہ رشک کیا، صبر کیا اور خود کو سمجھایا کہ مورکھ، تم نے بھی ‘ پیکر جمیل’ جیسا کوئی کارنامہ انجام دیا ہوتا تو تمھیں بھی ایسے ہی بھاگ لگتے۔
محبتوں کے سلسلے عجیب ہوتے ہیں۔ بائیں سے شروع کریں تو خبر کیے بغیر بات بائیں طرف کو پھر جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو سمت کی خبر بھی نہیں رہتی۔ کچھ ایسا تجربہ مجھے بھی ہوا ہے۔ بیٹھا تو میں حمید شاہد کی سر گزشت ‘ خوشبو کی دیوار کے پیچھے’ پر بات کرنے کے لیے تھا لیکن یہ بات جانے کہاں جا نکلی۔ خود نوشتیں گاہے سماج کو پیچھے مڑ کر دیکھنے اور سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ گاہے پڑھنے والے پر بوجھ بن جاتی ہیں۔ یہ کتاب پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس ضمن میں بھی کرنے کو بہت سی باتیں ہیں جیسے خطہ پوٹھوہار کا حسن، اس کے لوگ اور ان کے بدلے ہوئے دن۔ فیصل آباد اور اس سے پہلے لائل پور کی راتیں اور دن۔حمید شاہد نے ان سب کا بیان بہت دل لگا کر کیا ہے۔ پڑھنے والے چاہیں تو اسی میں الجھ کر رہ جائیں لیکن میری توجہ میں ایک اور معاملہ آیا ہے۔ یہ جو ہمارے سماج میں تقسیم در تقسیم ہوئی چaلی جاتی ہے۔ مجھے اس سرگزشت میں اس کے اسباب کا سراغ ملا ہے۔ دینی اور نظریاتی تحریکیں اور طالب علموں میں اس کا اثر و نفوذ ایک اعتبار سے غنیمت ہے کہ اوائل عمری میں ہی انسان بھٹکنے سے بچ جاتا ہے لیکن اس تقسیم کا کیا کریں جو تنظیم سازی کی برکت سے سماج میں سرایت کر جاتی ہے اور فاصلے بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ حمید شاہد نے اس سوانح میں یہ راز خوب کھولا ہے۔
میری بات یہاں ختم ہوئی۔ بس دو باتیں مجھے اپنے یار کو یاد دلانی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ شخص ادب میں صحافت کے راستے داخل ہوا جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ خواہی نہ خواہی ہنگامہ خیزی اس کا مقدر رہی ہے ۔ صحافت میں بھی وہ اس سے محفوظ نہ رہ پایا۔ وہ تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد کا ہنگامہ خیز دور تھا۔ فیصل آباد میں کسی جلسے کے دوران میں کسی منھ چھٹ نے اپنے محبوب لیڈر کا نام لے کر کہہ دیا کہ اس دور میں اگر محبوب کائنات کو دیکھنا ہو تو انھیں دیکھ لیں۔ جلسے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بہت سوں کے ہاتھ کانپ گئے، اگر کسی نے حوصلہ دکھایا تو وہ ہمارا جانا پہچانا حمید شاہد تھا۔ اس بعد کیا کیا نہیں ہوا ہوگا، ہم اندازہ کر سکتے ہیں لیکن یہ شخص ثابت قدم رہا۔ یہ تذکرہ بہت سبق آموز ہوتا اگر حمید شاہد کو یاد رہتا۔ دوسری بات کا تعلق چوں کہ حمید شاہد ، اشفاق احمد کاشف اور میری مشترکہ ادبی آوارہ گردی سے ہے، اس لیے فی الحال یہ تذکرہ رہنے دیتے ہیں۔