سپریم کورٹ کے فیصلے سے اتفاق و اختلاف ایک دوسری بات ہے مگر آج کے فیصلے نے یہ ضرور ثابت کیا ہے کہ اب یہ عدالت کسی جتھے کے زیراثر پہلے سے طے شدہ فریم ورک کے تحت فیصلے نہیں کرے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ جتھے کے اراکین مل کر اپنی پسند کے کیسز میں منصف بن جائیں اور ایسے فیصلے صادر کریں جن کے بارے میں کیس دائر ہونے سے پہلے ہی سب کو اندازہ ہو۔ دونوں اطراف میں مخصوص ججوں کی ہم آہنگی اب بھی موجود ہے مگر اس رجحان کے خاتمے کی طرف ایک خوش آئند قدم ہے کہ ہم خیال جج ہی عدالتی آہنگ کا روپ دھار لیں اور دوسرے جج صاحبان حاشیہ پر بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں۔
عدالت کا اس کے علاوہ کوئی گرینڈ نیریٹو نہیں ہونا چاہیئے کہ دستوریت کے تحت جو حدود و قیود اعلی عدلیہ کے لئے قائم کی گئی ہیں ان کا لحاظ کرتے ہوئے عدالت اپنا کردار ادا کرے اور ریاست کے دوسرے اداروں کو اسی طرح کام کرنے دے جس طرح کی آزادی عدلیہ اپنے لئے چاہتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے عدالت کو دستوری شقوں تک محدود رہنا چاہیئے اور ماورائے آئین کسی تصوراتی خاکے کو تراش کر بالاتر نگہبان بننے سے گریز کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے:
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ، اثرات کیا ہوں گے؟
اسرائیل پر حماس کا تباہ کن حملہ کس انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے؟