ڈاکٹر عزیز الرحمان ایک زیرک دانش ور ہیں جو قومی او عالمی معاملات کو عمومی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ مختلف زاویوں سے اسے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلسطین، حماس اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو بھی انھوں نے مختلف زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ حالیہ بحران کو جذباتی انداز میں دیکھنے کے بجائے سنجیدہ انداز میں اس پر غور کیا جائے۔
xxxxxxxxxxxx
کسی بھی معاملے، مثلا جنگ اور مسلح مزاحمت، کو مختلف زاویوں اور سطح پر دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک سطح پر یہ بات بالکل درست ہے کہ مظلوم قوم آخر کب تک ظلم کی چکی میں پسے گی۔ کسی وقت برداشت جواب دے جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں جوابی کاروائیاں سامنے آتی ہیں۔ مخالف فریق جب کسی قانون اور ضابطے کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور اسے دنیا بھر کے ظالم قوتوں کی حمایت حاصل ہے تو فرسٹریشن اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
اسی جدوجہد اور مزاحمت کو دیکھنے اور سمجھنے کی ایک اور سطح بھی ہے کہ آخر اس وقت کیوں اور اس پیمانے پر کیونکر یہ سب کچھ ہو رہا ہے! ظاہر ہے اس کے بارے تجزیہ مختلف قیاس آرائیوں اور تخمینوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی سیاسی حرکیات اور اس خطے میں امریکہ سمیت دیگر بااثر ممالک کے اثر و نفوذ اور مفادات کے بنتے بگڑتے کھیل کو سمجھے بغیر محض جذباتیت کی عینک لگا کر اس وقت جاری کشمکش کو دیکھنا سادہ لوحی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جنگ اور تناؤ کی ٹائمنگ کس فریق کو سوٹ کرتی ہے اور اس سے کن قوتوں کے مفادات کو سیٹ بیک ہوسکتا ہے، اس کے لئے ٹھنڈے دل سے غوروخوض کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے ہاں کارگل سے لے کر ممبئی پر چڑھ دوڑنے کے مناظر جذباتیت کے عینک لگا کر دیکھے اور بھگتے ہیں۔ انہی دو مس ایڈوینچرز کو ایک وسیع تر کینوس پر دیکھا جائے تو جو کچھ سمجھ آتا ہے وہ مائیکرو سطح کی سوچ سے بالکل مختلف نتائج دیتا ہے۔
صاحبو! جذبات بہت قیمتی ہوتے ہیں مگر ساتھ تھوڑی سے عقل بھی رہے تو اچھی بات ہے!
یہ بھی پڑھئے:
سلمان باسط کا ناسٹیلجیا اور جنریشن گیپ
بارہ ربیع الاول، مولانا راغب نعیمی کی پکار
پاکستان میں دہشت گردی کی اصل بنیاد: تکفیریت
بندہ محمد ابدال بیلا کی چشم کشا آپ بیتی