”بندہ ” ڈاکٹر کرنل محمدابدال بیلاکی چشم کشااوردلچسپ آپ بیتی ہے۔ اردومیں ‘ماں ‘کے بارے میں بہت عمدہ خاکے لکھے گئے ہیں۔جن میں ابدال بیلاکے مرشدقدرت اللہ شہاب کا”ماں جی” شامل ہے۔محمدحامدسراج نے تو”میا”کے عنوان سے انتہائی دلگداز پوری کتاب ہی لکھ دی ۔ ابدال بیلاکی پوری آب بیتی ”بندہ”اپنی مرحومہ ماں جی کومخاطب کرکے لکھی گئی ہے۔یہی اس کی سب سے بڑی خوبی اورانفرادیت ہے۔ابدال بیلااردوادب کے اس عظیم روحانی سلسلے قدرت اللہ شہاب،ممتازمفتی اوراشفاق احمدکی لڑی کاچوتھاستارہ ہیں اورانہی کا تربیت یافتہ سپوتِ پاکستان ۔اقوام عالم کی معتبرزبانوں ہندی،عربی،گرمگھی،سندھی،فارسی اورمغربی دنیامیں ترجمہ ہوکران کی درجنوں کتابیں پاکستانی ادب کی پہچان بنیں،دنیاکے پانچ براعظموںکی بے شماریونیورسٹیوںمیں’ایم فل’ اور’پی ایچ ڈی’ ان کی کتابوں پرہوچکے اورہورہے ہیں ۔آنسوؤں کے بیچ سوچتی ہرسوچ کی آب بیتی بندہ کے مصنف ابدال بیلاہیں۔
ابدال بیلا پاکستان کے مشہورترین بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب سے وابستہ روحانی سلسلہ ‘شہابیہ”سے تعلق رکھتے ہیں۔اس سلسلے کی سب سے ممتازشخصیت ممتازمفتی رہے ہیں۔جنہوں نے نہ صرف قدرت اللہ شہاب کے مقام ومرتبہ کی نشاندہی کی۔بلکہ ان کی روحانی شخصیت کواپنی دو کتب ”لبیک” اور”الکھ نگری” میں کھل کرپیش بھی کیا۔ اشفاق احمد ،بانوقدسیہ اورعکسی مفتی بھی سلسلہ شہابیہ کے اہم ارکان رہے ہیں۔
ابدال بیلا،ممتازمفتی کواپناگرواورخود کوان کابالکاقراردیتے ہیں۔ان تمام افراد کی روحانیت پرتواختلاف رائے ممکن ہے،لیکن اس میں کلام نہیں یہ سب قلم کے دھنی اورگنی لوگ ہیں۔قدرت اللہ شہاب بطورکامیاب بیوروکریٹ کئی حکمرانوں کے ساتھ رہے۔ان کی تصانیف ”ماں جی” ، ”نفسانے”،”سرخ فیتہ” اورسب سے بڑھ کر”شہاب نامہ ” اردوکی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب میں شامل ہیں۔ممتازمفتی اپنی طرزکے منفردافسانہ وناول نگارتھے۔ان کے دس افسانوی مجموعوں کے علاوہ دو سوانحی ناول”علی پورکاایلی” اور”الکھ نگری” خاکے ،منفرد سفرنامہ حج”لبیک” اورآخری بے مثال کتاب ”تلاش” انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ممتازمفتی اردوکے بے شمارلکھاریوں کے گرورہے ہیں۔ان کے صاحبزادے عکسی مفتی نے لوک ورثہ کے ڈائریکٹرکی حیثیت سے بے شمارکارہائے نمایاں انجام دیے۔ان کی کتب”پاکستان کی ثقافت ”،”ایک دن کی بات ”،”کاغذکاگھوڑا” اورسائنس کے ذریعے اللہ کی حقیقت جاننے کی کوشش ”تلاش” جوعکسی مفتی کاپی ایچ ڈی کاتھیسس ہے۔غیرمعمولی کتب ہیں ۔ اشفاق احمد اوربانوقدسیہ کی تحریراورگفتارکاایک زمانہ دیوانہ رہاہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے صرف ایک التماس
آمد نواز شریف کی اور ایک نئی جماعت کی
ڈاکٹر رؤف امیر: خاک نشین سے مسند نشین تک
بندیال کورٹ کیسے بنی عدلیہ کا رستا ہوا زخم؟
ابدال بیلاایم بی بی ایس ڈاکٹر،جرمنی سے ہسپتال مینجمنٹ میں ماسٹرز،پاکستان آرمی میں فل کرنل اورچالیس سے زائدکتب کے مصنف ہیں ۔انہوں نے افسانوں کاپہلامجموعہ میڈیکل کے آخری سال میں لکھا۔ممتازمفتی پریشان ہوگئے کہ میڈیکل کے آخری سال میں کسی کواتنی فرصت کیسے مل گئی۔ابدال بیلاچھ بھائی ہیں اورہرکوئی ایک سے بڑھ کرایک،اپنے اپنے شعبے کے ماہرہے۔انہوں نے ممتازمفتی کواس طرح گروبنایاکہ ان کے رنگ میں ہی رنگ گئے۔ان کااسلوب بھی مفتی جی کے اندازمیں ڈھل گیا۔ممتازمفتی کی شخصیت اورفن پر ضخیم کتاب”مفتی جی” مرتب کی۔افسانوں کے مجموعے”لب بستہ”،” زیرلبی”،”انہونیاں”،”سن فلاور”،”رنگ پچکاری”،”بونداباندی” ،”عرضی” ،”بین بجاؤ” ،” ابدالیات”،” بیلاکہانی”،”حیرت” ،قلوپطرہ”،”گڈاگڈی”،”بیلاگ”اوروطن کی محبت میں سرشار”پاکستان کہانی” نے قارئین کے دل میں گھرکرلیا۔
اپنے آباواجدادکے بارے میں اردوکاضخیم ترین سوانحی ناول”دروازہ کھلتاہے” لکھا۔جسے صدی کے بہترین ناول کاایوارڈ دیا گیا ۔ ناول کاہندی میں ترجمہ مشہوربھارتی ادیب کیول دھیرنے کیا۔یہی ناول الگ الگ حصوں میں بھی شائع ہوا۔سفرنامہ ”سورج کے رخ پر” اورخاکوں کی کتاب”کبوترباکبوتر” نے بھی شہرت پائی ۔پھرساڑھے گیارہ سوصفحات پرمشتمل انتہائی پراثر سیرت پاک ۖ ”آقا” تحریر کی ۔ جس کاترجمہ عربی میں بھی کیاگیا۔”آقا” کوالازہریونیورسٹی قاہرہ کے چیئرمین نے چودہ صدیوں میں کسی بھی زبان کی سیرتۖ کی بہترین کتاب قراردیا۔افسانوں کی کتب”شطرنج”،”آواز”،”لفظ” اورآپ بیتی کادوسراحصہ”رستہ” زیرِ طبع ہے ۔جوجلدشائع ہوں گی۔
کتاب کاانتساب ابدال بیلا نے”آقاۖ کے نام جنہوں نے خدا اوربندہ بیچ ہرپتھرہٹادیا” کیاہے۔پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔” ہرکتاب لکھنے والے کے من کی مورتی ہوتی ۔قلم پکڑکرتیشہ بنائے،وہ اپنی کھوج کرتا،کبھی فالتوپتھروں میں الجھ جاتا،کبھی پتھرچھپائے اسی بندے کو باندھے،پتھروں سے کھرچ کھرچ کے اپنے اندرکابندہ ڈھونڈلیتا۔ایساہوتوقلم ایک کام کرتا،سجدے میں سررکھ کے قلم، حرف حرف لکھتا، بوندبوندبندے کامیلاپن،سیاہی بنتا،پھرقلم اپنے آنسولکھتا۔ایسی ‘آپ بیتی’کے نیچے فالتونقطے اڑجاتے۔آپ بیتی ہوکے بھی وہ ‘آب بیتی’ رہتی۔آنکھوں کااورکام ہی کیا۔بندے کی ہوں ۔ یاقلم کی ،جب تک اندربھری سیاہی نہ ٹپکے کچھ لکھانہیں جاتا۔اس سے جس نے کورابے معنی کاغذ نہیں بننا۔اس پہ اُگے اپنے میلے من کوالفاظ دینے ہوں۔قلم کابھی بندے سے اک وعدہ ہے کہ تم سچ لکھوتوسہی،ڈرونہ، تیرے لکھے حرف مرنے نہیں دوں گا،کہتاقلم، یونہی تونہیں۔ہر’بندہ’ خداکاشاہکار،اس وقت تک جب تک وہ جانتا، کہ کوئی اس کاخداہے،ہے کوئی اس کاصنع کار،’سچ ‘ لفظ لکھناآسان،سچی عبارت میں خودکوپرونامشکل،کبھی قلم ڈگمگاجاتا،کبھی بندہ بدک جاتا۔ایسی داستان لکھ لی جائے تو پھروہ ایک فرد کی کہانی تھوڑی ہوتی ،اس پورے عہدکاثقافتی میوزیم بن جاتی۔وہ لکھنے والااوراس سے وابستہ سارے کردار،موم کے مجسمہ گھرمیں کھڑے کے کھڑے حنوط ہوجاتے ۔رہ جاتے۔جم جاتے۔موم موم جسم دونوں طرف جلے توپھرنیچے موم آنسوؤںکی برکھابرس جاتی ۔
اپنی بیتی کون بیتتا؟ ‘آب’ بیتنے کواپنی راہ بنالیتا۔جسم کاخلیہ خلیہ پانی میں تیرتا۔خوشی ہو۔غم ہو۔دکھ ہو۔فرحت اورانبساط بھرے لمحے ہوں۔ ہرمقام،ہرعضو کے آنسو۔وقت اورجگہوں کے روپ بہروپ انوکھے۔انہونے ۔جگہوں کے پھرسے جنم کی داستان توپرانی ہے۔ذرے کو ذرے سے توڑ کردھماکے بھی سن لیے ہم نے۔وقت کی بوند کاکلیجہ پھاڑناباقی ہے۔گزرے وقت کی آنکھ سے چھین کے لیاوقت۔آنے والے لمحوں کی بندزنبیل کوکھول کے پکڑاوقت۔یہ ‘وقت بوند’ جوالوہی وقت کی انی میں پروکے پھاڑنے کالمحہ۔’بندہ ‘ اسی وقت بوند کادھماکہ ہے جوسہاتوسب نے ہوا۔اسے سننا،سنانا،دیکھنادکھانا،لکھنالکھاناباقی تھا۔اسی دریافت کاسمے آیاجاتاہے۔یہ خدااوربندے کے درمیان ہر پتھرہٹائے جانے کے بعدکی کہانی ہے۔آقاۖ توکائنات کامعیار’احسنِ تقویم’ ہیں۔انہی کی پاکیزہ ترین روح ِ القدسۖ کی تخلیق کے بعد چاک پہ چڑھی مٹی کوخدانے وہ شکل دی تھی،جسے آج ہم ‘بندہ’ کہتے ہیں۔’بندہ’ لکھتے ہوئے احساس تھا۔جانتاتھاکہ ایک بندہ،’بندہ’ لکھ رہاہے’فرشتہ ‘ نہیں۔اس لیے میل کچیل اپنے منہ پرملارہنے دیا۔بات کہہ کے بھی بات پوری کہی نہیں گئی۔یہ ‘بندہ’ ہے۔جوبنایاتوخدا نے مکمل ہے۔رہتاادھوراہی ہے۔”
”بندہ” کاآغازروایتی آپ بیتیوں کی طرح مصنف کی پیدائش یابچپن سے نہیں ہوتابلکہ کچھ یوں ہوتاہے۔” 26دسمبرکی وہ صبح کتنی بے رحم تھی،ایسی ظالم دکھ بھری صبح اگرآنی ہوتوسورج مرجائے،کبھی نہ جاگے،رات نہ گزرے،مگروہ رات گزرگئی۔امی جی۔ ان ،بے دردوںنے آپ کوگرم نرم بستر سے کمبل سے نکال کے اس ٹھنڈی یخ صبح آپ کوبرف سی ٹھنڈی سفیداسٹیل کی ٹرالی پرلٹادیا۔ایک پتلی سی سفیدچادر بچھا کے ۔امی جی ،آپ کوٹھنڈ لگی ہوگی۔میں آپ کے پیروں کے پاس ماتھارکھے بلک رہاتھا۔خون آنسوبن کے نچڑرہاتھا۔آپ نے میری طرف رخ بھی نہ موڑا۔امی جی ،ایک دم آپ کے چہرے پہ ماہ وسال کی پڑی الجھی جھریاں اترگئیں۔سارے زندگی بھر کے دکھ دردسے بے نیازہواآپ کاچہرہ ایسے دمک گیا،جیسے آپ نے کوئی نیاجنم لیاہو۔جیسے لمبی کالی طوفانی رات جاگ کے آپ سوگئی ہوں۔ساری عمرکی تھکن اتار کے آپ کوایک دم نیندآگئی۔امی جی وہ صبح، میں کیسے بھول سکتاہوں،جس نے مجھ سے ایک لمحے میں سرسے پاؤں تک توڑکے رکھ دیا۔ دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔آنکھوں کے آگے اندھیراآگیا۔کھڑے کھڑے مجھ سے کھڑا نہ ہواجاتا۔امی جی،ایساکبھی پہلے نہیں ہواتھا۔ کبھی دل کوکچھ ہوتاتوآپ ہی کوآوازدیتا۔آپ کہیں بھی ہوتی،بھاگ کے آتیں۔میراپتر،تیریاں خیراں،امی جی، آپ تومیری آنکھ کا ایک آنسوبھی نہیں دیکھ سکتی تھیں اوراس صبح،میری آنکھوں سے ساری کائنات اُدھیڑکے نگہ کاہرمنظردھندلاکے آپ مجھے تڑپتاچھوڑگئیں۔”
یہ دلدوزبیانیہ قاری کوکہانی بتادیتاہے۔کائنات کی سب سے انمول ہستی’ماں’ابدال بیلاکوچھوڑکراس ابدی سفرپرروانہ ہوگئی،جس پرہم سب کوایک نہ ایک دن جاناہے۔یہ بیانیہ قاری کوپوری طرح اپنے اندرجکڑ لیتاہے اوروہ اس ہزارصفحات کی جدیدالف لیلہ کومکمل کیے بغیر چھوڑنے کے قابل نہیں رہتا۔یہی مصنف کے اسلوب کاکمال ہے۔
ذرایہ اندازِبیان ملاحظہ کریں۔”گھرسے چھوٹابھائی بلال آیاہواتھا۔وہ ضدکرے کہ آج رات میں امی جی کے پاس رہوں گاہسپتال میں ، میں نے اسے بہت منت سماجت سے منایا،دلیل یہ دی ،تم بنک منیجرہو،میں ڈاکٹرہوں،فوجی افسرہوں،فوجی ہسپتال ہے،ادھرکاعملہ بھی میری مانتاہے۔مجھے کیاپتہ تھا؟آپ کوکس دفترسے بلاواآنے والاہے؟ جدھرکسی کی کوئی حیثیت ہی نہیں،جوخود کوکچھ سمجھے۔ادھرنہ ڈاکٹرکی چلتی ۔نہ فوجی ہسپتال میں فوجی افسری۔وہاں بندہ صرف’بندہ’ ہے جس کے ہاتھ بندھے۔فجرکی اذان کاوقت تھاشاید۔آپ کی پنڈلیاں سہلارہا تھا۔نگہ سامنے مونیٹرپہ تھی۔صبح کی اذان ہوئی دل میں ایک عجیب لہراٹھی۔یوں لگاجیسے آپ نے کچھ کہاہو۔ایک دم مونیٹرٹوں ٹوں کرنے لگا ۔ ای سی جی کی لکیرمیں کھلبلی سی مچ گئی۔ساری اونچ نیچ یک لخت ادھڑنے لگی۔نرسیں بھاگتی آئیں۔ڈاکٹربھی آگیا۔مجھے کہنے لگے سرآپ ذرا۔میں انہیں کیسے کہتامیں بھی ڈاکٹرہوں۔انہیں پتہ تھاپہلے ہی۔مگرامی جی کون سابیٹااپنی ماں کوایسی حالت میں سنبھال سکتاہے؟اسے تو ماں نے سنبھالناہوتا۔
اللہ جی۔اللہ جی۔امی جی کوبچالو۔آپ بچاسکتے ہیں۔آپ کوبچاناآتاہے۔میری امی جی نے مجھ کو ساری عمرپھولوں کی طرح پالا،میں نے کبھی ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔میں اللہ کے پیروں میں گرا،گڑگڑارہاتھا۔مجھے اللہ کے پاؤں نظر آ جاتے تومیں اسے منا لیتا۔پاؤں نہ چھوڑتا۔پیروں میں وہ مجھے ریزہ ریزہ بھی کردیتامیں پاؤں کی دھول بن جاتا۔منالیتا۔دوسروںکوبچانے کے سبق پڑھواکے، ڈاکٹربناکے بھی،مجھ سے یہ سبق نہ پڑھاگیاکہ ماںکادل جب ادھڑجائے تواپنادل کیسے ادھڑنے نہ دینا۔کیسے ماں کو بچانا۔توبچاسکتاہے، اللہ۔آج تیری بارگاہ میں اتنی عرضی ہے۔میری امی جی کوبچالو،میں سجدے میں آنسوؤںکی جھیل لگائے ڈگمگا رہا تھا ۔ ڈاکٹرایک دم سے میری طرف پلٹااورپھرجووہ مجھے عجیب طرح سے بازوؤں میں لے کردلاسہ دینے لگا،بس ،اس وقت،اس وقت امی جی میں گرگیا۔میری آنکھیں پھٹ گئیں۔دل کٹ گیا۔روح فناہوگئی۔پوری دنیااس لمحے روئی کے گالوںکی طرح اڑی تھی امی جی۔امی جی وہ صبح ایسادردلے کر آئی،جوخداکسی بیٹے کواس کی ماں کی طرف سے نہ دے۔”
ایسادل شکن بیانیہ جوقاری کادل بھی ٹکڑے ٹکڑے کردے۔ایک بیٹے کے سامنے ماں کی مقدس ہستی کی رخصتی کابیان انتہائی المناک اورپر اثر ہے۔پوری آپ بیتی میں ابدال بیلا نے امی جی کومخاطب کرکے بات کرنے کاانوکھااسلوب اپنایاہے۔”یادہے امی جی،آپ نے مجھے پڑھنا،لکھنا سکھایا۔تختی پرالف بے آپ نے لکھ کے میرے ہاتھ میں قلم دیا۔قلم کیسے پکڑناہے؟قلم کواٹھاناکیسے ؟قلم کی نب کوسجدے میں لانا ہے۔پھرلکھناہے۔امی جی،یہ پہلاسبق آپ نے ہی دیاتھا۔بس وہ قلم اورسیاہی کی دوات آپ کادیاانمول تحفہ تھاامی جی مجھے لکھتے دیکھ کر آپ کیسے محبت سے آنکھوں میں تارے بھرکے مجھے دیکھاکرتی تھیں۔تختی لکھ کرآپ کودکھاتا۔آپ دیکھ کرمجھے گلے لگالیتی۔میراماتھاچومتی ، امی جی،دیکھیں میں نے لکھنانہیں چھوڑا۔آپ نے گلے لگاکے میراماتھاچومناچھوڑدیا۔امی جی ،وہ تارے جوآپ کی آنکھوں میں ہوتے تھے، وہ زمانے بھر میں مجھے کسی آنکھ میں نظرنہیں آئے۔کیسے محبت سے دیکھتے دیکھتے آپ کی آنکھوں کی چمک بڑھ جاتی۔تاروں کاچاندبن جا تا۔چاندبھی پورن ماشی کا۔”
احترام،پیاردل میں اترجانے والے اندازسے ماں کاذکرکرتے ہوئے مصنف کی زبان شہدمیں بھیگ جاتی ہے۔ اسی میٹھے انداز میں امی جی سے باتیں کرتے ہوئے ابدال بیلااپنی زندگی کاافسانہ سناتے ہیں جس کاایک ایک لفظ قاری کے دل میں گھرکرلیتاہے۔کیادلچسپ حقیقت بیان کرتے ہیں۔”امی جی خیال ایک عجیب آتاہے۔جیسے اللہ پالنے والاہے جہانوں کااورجوکچھ بھی ہے جہانوں میں،یہاں وہاں،انسانوں،پرندو ں،چرندوں،حیوانات تک کوپالنے کے لیے اللہ نے ممتاپیداکی ہے۔ماں دی ہے ہرایک کو۔سیدناعیسٰی کوبھی جن کوباپ کے بغیرزمین پہ خدالایا، ماں انہیں بھی دی ،جنہیں دنیاکی سب عورتوں سے برتر کہا۔یہ ممتا،یہ پالنے والی حس، یہ پالنے کی چاہت تو خداکی اپنی ہے۔خدا سے بہترکون پالتاہے۔اسی نے جب ماں میں یہ صفت رکھی،تواللہ تواللہ ،اللہ کی صفت بھی نہیں مرتی امی جی۔”
”بندہ” کادل پذیرحصہ وہ ہے،جب بھارتی شہر لدھیانہ میں ابدال بیلا نے پاکستان کاجھنڈالہرایا۔ان کی والدہ ہمیشہ لدھیانہ کی باتیں کرتی رہتی تھیں۔جب وہ اپنی کتاب ”دروازہ کھلتاہے”کے ہندی ترجمے کی تقریب کے لیے اسٹیج پرچڑھنے لگے توایک بزرگ سکھ نے کہاکہ صاحب ،کسی طرح دروازہ کھلواؤ۔میں نے اسی کاحوالہ دیااورکہامیں ان بنددروازوں کی کنجی لے کرآیاہوں۔کیول دھیرکومائک دیا۔ڈاکٹر کیول دھیربتانے لگے کنجی ہوگی کوئی نہ کوئی دروازے کھولنے کی ابدال بیلاکے پاس۔کیونکہ اس کے ناول کانام ہی”دروازہ کھلتاہے” جواسی شہرپرلکھاگیادنیاکاسب سے ضخیم ناول ہے۔اسے ہندی میں ترجمہ میں نے کیاہے۔ڈاکٹرکیول دھیرکے بات کرتے سمے میں نے روسٹرم کے پیچھے اپنابیگ کھول کے اس میں سے ایک ہی پلیٹ فارم پہ دوسنہری جڑی پیتل کی لڑیوں میں دوجھنڈے پروئے۔ایک جھنڈاپاکستان کا ، دوسراہندوستان کا۔پھرایک دم سے وہ دونوںجھنڈوں کاجڑاہوااسٹینڈہاتھ میں اٹھاکے لوگوں کے سامنے کیا۔یہ دیکھیں کنجی،لوگ اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔میں نے بائیں ہاتھ میں دونوں جھنڈے پکڑکے آگے کیے اورمائیک میں بولا،میں کرنل ریٹائرڈابدال بیلا،پاکستان آرمی ،دونوں جھنڈوں کوسلیوٹ کرتاہوں۔ہال میں بیٹھے پندرہ سولوگ کھڑے ہوکے ہاتھ ماتھے پہ رکھنے لگے۔اپنے قومی پرچم کویہاں سلامی دلا نے کایہی طریقہ تھا۔جس کی چھاؤں میں کبھی آپ اپنے اس شہرسے سہمے ہوئے،خون رنگی گلیوں سے چھپ چھپاکے نکلے تھے۔اس شہرکے لوگوں سے اسی پرچم کے لیے سلیوٹ لیناتھا۔
تقریب کے بعدلوگوں نے کہااتنی خالص لدھیانہ کی زبان تواب یہاں بھی نہیں رہی۔ادھرکے سڑسٹھ فیصدمسلمان گئے توسکھ آگئے۔آپ نے یہ خالص زبان کیسے سنبھال کے رکھی؟ ابدال بیلانے سادگی سے کہا،سرکار،میراتوکوئی کمال نہیں۔جومیری امی بولتی تھیں،بس میں اسی طرح بولتارہا۔ابدال بیلاکے اپنے داداکے گاؤں ماؤمیووال ،سائیں بگوشاہ اورخواجہ روشن ولی کی درگاہ تک پہنچنے کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے،کس طرح ان مرحومین نے ان انجان راستوں پرابدال بیلاکی رہنمائی کی کہ انہیں لے جانے والاجوان راستوںناواقف تھا وہ بھی حیران رہ گیا۔ سائیں بگوشاہ اوراپنے آباواجداد کی داستان انہوں نے ضخیم ترین ناول”دروازہ کھلتاہے” میں بیان کی ہے۔ سائیں بگو شاہ کی قبرکے قریب طاق پردیاجل رہاتھا۔وہ عین وہی دیاتھاجس کی تصویرپاکستان میں ابدال بیلاکے ناول”سائیں بگوشاہ” کے ٹائٹل کے لیے بنائی تھی۔ساتھ آنے والانیوراہی گاڑی سے ناول اٹھالایا۔ناول اورسائیں کی درگاہ کے طاق میں رکھے چراغ کوساتھ رکھاتوسب حیران دونوں جگہ بالکل ایک سادیا۔نیوراہی حیران ،دورپاکستان بیٹھ کے،کیسے یہی،’دیا’کتاب کے ٹائٹل پربنادیا۔
ایسی بہت سی حیرانیاں ‘بندہ’ میں جگہ جگہ موجود ہیں۔کالج میں ابدال بیلاکو پروفیسرصابرلودھی،غلام الثقلین نقوی،صوفی غلام مصطفٰے تبسم جیسے باکمال اساتذہ ملے۔ وہیں وہ ماڈل ٹاؤن میں اشفاق احمدکے گھرداستان سرائے پہنچ گئے۔اشفاق احمدنے ہی انہیں قلم پکڑناسکھایا۔وہ ایک طالب علم کوگھنٹوں ایسے ایسے مشاہدے سناتے اورانہیں لکھنے کی ترغیب دیتے کہ خودبخوداندرہی اندرخوشبودارکھیتوں کی فصل اگنے لگتی۔آٹھ سال بعدابدال بیلا کی پہلی کتاب کے فلیپ پراشفاق احمدنے لکھا۔”اردوافسانے کوابدال بیلاکے بعد”ققنس” کی طرح پھرسے جنم لیناپڑے گا۔” احمدندیم قاسمی نے لکھا۔”یہ منٹو،بیدی اورکرشن چندرسے آگے کی بات ہے۔”ڈاکٹربن کے ابدال بیلا پہلی بارممتازمفتی سے اسلام آباد میں ملے، پھر اس دن سے وہ ان کے گھرکے فردبن گئے،کس طرح مرشدکی تعریف کرتے ہیں۔”امی جی،آپ برانہ منانا۔مجھے ممتازمفتی آپ جیسے لگے ۔ جیسے آپ میری ماں۔وہ میرے گروتھے۔مرشدتھے۔میرے دوست نہیں،میری سہیلی تھے۔آپ کے جانے کے دوسال بعدوہ بھی چلے گئے۔تب میں بہت ٹوٹا۔مجھے لگامیری ماں پھرسے مرگئی۔مگرامی ،نہ ماں مرتی ہے،نہ مرشدمرتاہے۔اب سمجھ آئی ہے۔امی جی، آپ دونوں میرے ساتھ ہیں۔قلم پکڑانے والی آپ ہیں۔قلم سے لکھوانے والے اشفاق احمدہیں۔لکھناہے کیا،اورکیانہیں لکھنایہ بھیدبتا نے والے ممتازمفتی ہیں،جواشفاق احمدکے بھی بابادوست تھے۔”
ابدال بیلاکے تعلیمی کارگزاری،دوران تعلیم مشغولیات،ڈاکٹربننے کے بعدفوج میں شمولیت ،ابتدائی ٹریننگ اورآرمی میں ترقی پھرنیوی میں تبادلہ ،ادبی سرگرمیوں،حلقہ ارباب ذوق اورادیبوںکے قصے،ضخیم آپ بیتی میں بے شمارواقعات ہیں،لیکن سب کامرکز پاکستان سے بے پناہ محبت ہے۔جس نے ان سے ‘پاکستان کہانی’لکھوائی ، اللہ اوراس کے محبوب رسولۖ کی عشق میں سرشارجس نے ان سے ”آقاۖ” جیسی بے مثال سیرت پاکۖ تحریرکروائی۔”بندہ” بھی وطن اور نبی اوران کے بعدوالدین کی محبت میں ڈوبی ہوئی بے مثال داستان ہے۔
ممتازمفتی،اشفاق احمد،بانوقدسیہ ،عکسی مفتی،منشایاد،احمدداؤد،رشیدامجد،جلیل عالی،اعجازراہی،منصورقیصر،منیراحمدشیخ،احمدفراز،احمدندیم قاسمی،کشورناہید،اورسمیع آہوجاسمیت بے شمارادیبوں کے مختصرشخصی خاکے،اہل خانہ،فوج کے ڈاکٹرسلطان مظفر،شفیق الرحمٰن اوردیگربہت سے لوگوں کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔ اردوکے مایہ نازجنرل شفیق الرحمٰن کے انتہائی قابل بیٹے خلیق الرحمٰن نے ریل کے سامنے آکرخودکشی کرلی۔پھرچھوٹے بیٹے نے جنرل صاحب کا پستول نکال کرلبلبی دبادی۔اسے ”سی ایم ایچ”لایاگیا ۔دماغ کافوری آپریشن کیاگیا۔زندگی بچ گئی۔مگروہ لڑکاہمیشہ کے لیے دونو ں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگیا۔شادی شدہ اورالائیڈبینک کامنیجرتھا۔کچھ مہینے اسی طرح سفیدچھڑی لے کروہ اپنے دفترجاتارہا۔پھر اس نے ایک باردوبارہ ریوالوراٹھاکے دونوں نابیناآنکھوں کے درمیان نالی رکھ کرلبلبی دبادی اورموقع پرہی مرگیا۔کچھ ہی دن بعدعظیم مزاح نگارشفیق الرحمٰن بھی دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔
ایک نامورمزاح نگارکایہ بہت المناک اورعبرت انگیزانجام قاری کی آنکھوں کواشکبارکردیتاہے۔ابدال بیلاپاک فوج کی جانب سے سعودی عرب ڈیپوٹیشن پرگئے۔کندھے پراب تین پھول کے بجائے ،اٹھارہ کیرٹ گولڈ،پلیٹڈتین تین ستارے تھے۔ڈاکٹرہونے کی وجہ سے تنخواہ دوسرے کپتانوں سے دگنی سے بھی زیادہ تھی۔نان پریکٹس الاؤنس کی وجہ سے۔وہاں کااحوال،وہ ہرویک اینڈ پرتبوک سے مکہ مکرمہ پہنچ جاتے ،حج کابھی موقع ملا،عقیدت سے لبریزذکرقاری کوبھی سرشارکردیتاہے۔”سامنے ،خانہ کعبہ،خداکاکالاگھر۔مجھ سے جوتوں سے ہاتھ ہٹایا نہ گیا۔میں جوتوں کے ڈھیرپہ سجدے میں گرگیا۔ اللہ جی،میں آگیا۔اللہ جی،تیراشکرتونے بلالیا۔کعبے کے صحن میں دیوانوںکی طرح گھومتاپھرتا۔حج کے علاوہ عام دنوں میں ایسارش بھی نہ ہوتا۔جی بھرکے حجراسودکوچومتا۔روتا۔آنسوؤں سے اس کوبھگودیتا۔ادھرسرسے پاؤں تک نچڑجاتا۔حطیم میں جاکے بیٹھ جاتا۔اوپر’میزاب رحمت’ پہ نگہ کرتا،آسمان تکتا،کب بادل آئیں،برسیں اورمیزاب رحمت سے نورکی برسات برسے۔ایک دن بونداباندی شروع ہوگئی۔حجر اسودبھی گیلاگیلا۔اس کے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ کے ساری نمی چوس لی ۔ اوپر بارش تیزہوگئی۔آنسوؤںکی رفتاربھی تیز۔بارش میں آنسوبہانے کالطف ہی اورطواف کاپہلاچکرلگاتے ہوئے،چکرتوڑااورحطیم میں گھس گیا ۔بیس پچیس لوگوں کاجتھہ شہدکی مکھیوںکی طرح، میزاب رحمت سے برستے پانی کے نیچے تھرتھرارہاتھا۔پہلی باراوپرسے آتے پانی کی موٹی دھارسرپہ پڑی توجیسے جلتے انگاروں پہ فائربرگیڈکا نل گرے۔جسم کے اندر،جسم اڑگیا۔روح چیخے،اللہ اکبر،اللہ اکبر۔پون گھنٹے میں اس پانی میں نہایا۔سرسے پاؤں تک ہرسویاخلیہ بیدارہو گیا۔ہوش وحواس گم۔وہاں ہوش کوہوش رہتاکہ؟ جب بھی ادھرجاتا،مجنوں بنالیلیٰ کے گردگھومتاپھرتا۔”
ریاض الجنہ میںکزن نے بتایاکہ یہ چاروں طرف روضہ مبارک کے چاروں دیواروں پہ سونے کے حروف میں لکھی خطاطی میرے ناناکے کزن باباصادق مرحوم نے کی ہے۔باباصادق آرٹسٹ تھے۔پاکستان بننے کے بعدسعودی عرب چلے گئے۔جدہ میں رہتے تھے۔چھوٹی سی آرٹ گیلری بناکے روزی کماتے تھے۔ایک دن کسی دوست نے کہااگرتم اپنے اس فن سے کیلی گرافی کرو،قرآن کی آیات لکھو،آقاۖ کی ثنالکھوتوکیاہی بات ہے۔باباصادق نے ساری زندگی جوتصویریں بنائی تھیں انہیں آگ لگادی اورکیلی گرافی میں جت گئے۔انہی دنوں شاہ فیصل مرحوم نے ‘ریاض الجنہ’کی تزئین نوکے لیے ملک بھرسے کیلی گرافربلائے۔ان کے ٹیسٹ لیے۔باباصادق منتخب ہوگئے۔کہاں تھا؟ کہاں بھرتی کرلیاگیا۔انہی کے ہاتھ کی خطاطی کے شاہکار،حکومت سعودیہ نے سونے کے پانی میں ڈبوکے بڑے بڑے کتبے بناکے،آقاۖ کے روضہ مبارک کے سامنے ،”ریاض الجنہ” کی دیواروں پہ آویزاں کردیے اورانہیں ہمیشہ کیلیے مسجدِ نبوی ۖ میں تزئین وآرائش کاعہدہ داربنا کے رکھ لیا۔
ابدال بیلانے وہاں دعاکی۔”تیرے گھرکی تیرے ہاتھ کی بنی مسجدمیں ناناکے لکھے کوسونے میں پروکرسجوالیا۔میرے ہاتھ میں جوقلم ہے،اس سے بھی مجھے اپنی سیرت لکھنے کی اجازت دیدیں۔وہ بھی ایسی ہی سونے کے لفظوں میں ڈھلی ہوئی۔شایدوہ قبولیت کالمحہ تھا۔ برسوں بعد،آقاۖ کے قدموں میں بیٹھ کے،مسجدنبوی میں اعتکاف کے دوران میں نے سیرت پاک لکھنی شروع کی۔جوچھپ کے جب مصر کی جامعہ الازہرمیں پہنچی،تومصرکی ایک مدبراسکالرلڑکی”صفیہ صلاح” نے نہ صرف اس پہ ایم فل کیابلکہ اس کاعربی میں ترجمہ بھی کردیا ۔جو میرے آقاۖ کی اپنی زبان میں ہے۔قرآن کی زبان ہے۔الازہریونیورسٹی کے چیئرمین ڈاکٹرابراہیم محمدابراہیم نے اسی کتاب کے بارے میں کہاکہ یہ چودہ سوسال میں سیرت پاک پہ لکھی،کسی بھی زبان،کسی بھی ملک کی،سب سے بہترین کتاب ہے۔”
علم ومسائل کے ساتھ پاکستان کے رویہ کے بارے میں ”بندہ” میں چشم کشا واقعہ بیان کیاہے۔”آسٹریلیاکاایک اسکالریہاں آیا۔اس سے پوچھاکہ ادھرکس مشن پرآئے ہو۔وہ بولا،میں پی ایچ ڈی کاتھیسس لکھ رہاہوں،موضوع ہے”پاکستان،ہندوستان اورمسئلہ کشمیر” میں حیران آسٹریلیامیں بیٹھے اسکالرکویہ موضوع مل گیا۔ہماری کسی یونیورسٹی نے اس پہ پی ایچ ڈی کیوںنہیں کرائی؟پوچھا،توکہاں تک آپ کی تحقیق گئی؟ہندوستان گیا۔”سری نگر” میں آمدکامقصد بتایا۔انہوں نے مجھے”آرگومنٹ اون کشمیر” نام سے چھپی ستائیس کتابوں کاایک پورا انسا ئیکلوپیڈیاتھمادیا۔ادھراسلام آبادسے ہوکے آیاہوں۔کہا”کشمیر” پراپناموقف دو۔انہوںنے اخباروں کے کچھ تراشے اورچندایک کشمیر پر چھپے پمفلٹ تھمادیے۔تم لوگوں نے کاغذ اورقلم کوکہیں رکھ چھوڑاہے۔خالی باتوں،نعروں سے بات نہیں بنتی۔بولا،میںنے پہلے تحقیق تمہارے قائد”مسٹرجناح ” پرکی تھی۔جنہوں نے تمہیں یہ ساراملک ایک قلم اورکاغذوں کے بنڈل سے لے کردیاتھا۔وہ گاندھی کی طرح مرن برت نہیں رکھتے تھے،نہ نمک کی شعبدہ بازی کی۔لکھتارہا۔دلیل سے بات لکھی تدبرسے کہی۔ہزاربارسوچ کے وہ بات منہ سے نکالتا ۔ اس نے قلم سے تمہیں ملک جیت کے دیاتھا۔تم نے قلم ہاتھ سے گرادیا۔سچ کوسچ نہ لکھاجائے تولکھاگیاجھوٹ اسے نگل جاتاہے۔تم لوگوں نے پڑھنے لکھنے والوں کوکبھی عزت دی؟ کبھی کوئی تمہاراوزیراعظم پڑھالکھابندہ ہوا؟ایک ذولفقارعلی بھٹوتھا،اسے تم قلم کے رکھوالوں نے جھوٹا فیصلہ لکھ کرقلم توڑدی۔ اب مجھ سمندرپارسے آئے ایک پردیسی سے توقع رکھتے ہوکہ اپنے تھیسس میں ان ستائیس والیوم کے سامنے تمہارے اخباری تراشوں کوترجیح دوں۔ان تراشوںپہ جن پہ تم لوگ خوداگلے دن پکوڑے رکھ کربیچ دیتے ہو۔”
تب ابدال بیلاکویادآیاجب وہ اکیڈمی ادبیات کے ڈائریکٹرجنرل تھے۔صوفی ازم پرعالمگیرکانفرنس میں اٹھاسی ممالک کے مندوب آئے۔ جن میں فرانسیسی اسکالرکی پی ایچ ڈی کاموضوع تھا۔”پاکستان ہندوستان میں دریاؤں کے پانی کی تقسیم” ایک سری لنکن اسکالرنے ”پاکستان کے آئین میں آئینی ترمیمات” پرتھیسس لکھا۔امریکاسے آئے اکثردانشوروں نے پاکستان میں ”طبقاتی فالٹ لائن” پہ تحقیق کی ہوئی تھی۔کسی کاموضوع تھا۔ پاکستان میں مذہبی فرقے، کوئی پاکستان کے لسانی فتنوںکوہوادینے کی سعی میں تحقیق کرتاتھا۔پاکستان میں جمہوری اقدارکاقلم قمع کئی کاموضوع تھا۔غیرہمارے جغرافیے،ہماری تاریخ اورہمارے کلچر،ہماری تہذیب کی ساری گتھیوں کوکھول کے پرکھتے رہتے ہیں۔ہم اپنے قلم کوخول میں ڈالے اسے صرف میزپہ پڑاڈیکوریشن پیس سمجھتے ہیں۔پاکستان آرمی میں پہلے دنوں میں وردی پہ قلم لگاناڈریس کوڈ کی خلاف ورزی تھا۔شکرہے،پاکستان نیوی کی یونیفارم کی بائیں جیب میں قلم لگانے کی اجازت تھی۔گنجائش تھی میں نے قلم جیب میں لگائے رکھا۔
ابدال بیلاکوملتان کی اسپیشل مونیٹرنگ ٹیم کاسربراہ بنادیاگیا۔وہاں جیل کے ایک ڈاکٹرکی درخواست آگئی۔لکھاکہ شہرکے ”ڈپٹی کمشنر”نے بدنیتی سے جھوٹاالزام لگاکے نوکری سے نکال دیا۔آدھی رات کواسسٹنٹ کمشنرجیل ڈاکٹرکونشترہسپتال کے ڈیوٹی میڈیکل آفیسرکے پاس لے گیا۔بولاڈپٹی کمشنرکی رائے ہے۔یہ ڈاکٹرنشے میں ہے۔چیک کرو۔رپورٹ تحریری دو۔وہ بھی اللہ کا’بندہ ‘ تھا۔ڈراوے میں نہ آیا۔سچی رپورٹ لکھ دی۔کوئی نشہ نہیں۔پھر؟پھرپتہ نہیں کہاں سے ڈپٹی کمشنرنے ایک ٹیسٹ رپورٹ منگوائی۔جس میں لکھاتھا۔مارفین استعمال کی ہوئی ہے۔جیل ”ڈاکٹرسیدبخاری”کومعطل کردیا۔اس نے بتایا،سر،ڈپٹی کمشنرسینئرافسران کاچہیتاہے۔فسٹ کزن اس کاآپ کے ہیڈ کوارٹر میں ہے۔میری نوکری بھی گئی۔عزت بھی برباد،ہماراخاندان تباہ ہوگیا۔سیدلوگ ہم۔ہم پہ لوگ ہنستے ہیں۔ابدال بیلا نے کسی دباؤ میں آئے بغیر تفتیش کرکے ڈاکٹرکوبحال کرادیا۔لیکن خوددس ماہ زیرعتاب رہے۔
سب سے المناک واقعہ جو”بندہ” میں درج ہے۔خالدبن مجیدایک درویش صحافی تھے۔جو”آئی ایس پی آر” میں تعینات تھا۔ابدال بیلاکی پوسٹنگ بھی ادارے میں رائٹرپول کے سربراہ اور’ہلال”کے نگران کی حیثیت سے ہوگئی۔یہاں بہت اچھی ٹیم تھی ،جوانہیں مل گئی۔ایک سے بڑھ کے ایک نگینہ تھا۔پاکستان بننے سے پہلے انگریزی فوج کااخبار”سولجر”یہاں سے نکلتاتھا۔اس وقت آئی ایس پی آرپاکستان کی نظریاتی سرحدوں کامحافظ ہے۔یہاں سے پہلے ”مجاہد”نکلاپھراس کانام بدل کے”ہلال” کردیاگیا۔خالدبن مجید نے بتایا کہ اس ادارے میں انگریز کے وقت کے آرکائیوتھے۔سیکنڈ ورلڈوارکے رول تھے۔تصویریں تھیں۔تراشے تھے۔اخبارات تھے۔پھرجس دن پاکستان بنا،ایک ایک اخبار،مہینے کے بنڈل بناکے تیارمجلد،ہمارے ملکی اورغیرملکی اہم جرائدکی فائلیں،65ء اور71ء کی جنگوں کی اخباری رپورٹیں،تصویریں ،انٹرویوز،آپ کے فوجی علم پہ دنیاکے میں چھپی ہرکتاب،ہرانسائیکلوپیڈیا،نایاب نسخے۔پوری ایک لائبریری تھی یہاں ۔ ساتھ آڈیو،وڈیوسینٹر، کرنل منصورکاقائم کیاہوا۔پھراس کاکیابنا؟کدھرگیاوہ سرمایہ؟؟ میں نے پوچھاتوخالدبن مجیدکے چہرے پہ کرب آگیا ، جیسے اسے اپنی ماں کی موت یاد آگئی ہو۔اس نے بتایاسر،جسے آپ قومی سرمایہ مان رہے ہیں،تھابھی وہ قومی ورثہ۔وہ سارے کاساراآٹھ روپے کلوکے حساب سے ردی میں فروخت کردیاگیا۔بتیس ہزارروپے میں یہ پوراخزانہ ساراآرکائیوبک گیا۔میں نے پوچھایہ قومی جرم کس نے کیا۔جواب ملایہی جوآپ کے سربراہ ہیں۔اورکون کرسکتاہے ایسابیوپار؟کب کی بات ہے؟ اسی مشرف دورکی بات ہے،آپ کی پوسٹنگ سے چھ مہینے پہلے کی۔یہ جوکیفے ٹیریااورکانفرنس روم ہے۔جگ مگ جگ مگ بتیوں والا۔یہاں پوری لائبریری اورآرکائیوزتھا۔
اس المناک واقعے کے بعد ”بندہ” سے کوئی اوراقتباس لکھناممکن نہیں۔المیہ یہ ہے کہ اتنی حقیقت بیانی کرنے والے ابدال بیلابھی اس فوجی سربراہ کانام نہ لکھ سکے۔پاکستان کاانتہائی گراں قدرسرمایہ کہاں کہاں اورکتناارزاں بیچاگیا۔
ابدال بیلاکی آب بیتی”بندہ” میں ایسے بے شمارچشم کشاواقعات بیان ہوئے ہیں۔مصنف کااسلوب تحریراتناسادہ اوردلنشین ہے کہ قاری کو ہزارصفحات کی کتاب ختم ہونے کاعلم نہیں ہوتا۔ابدال بیلاکی آپ بیتی کے دوسراحصہ”رستہ” بھی جلد شائع ہونے والاہے۔جس کے بعدان کے آباواجداد کے ذکرسے بھرپور”دروازہ کھلتاہے” ۔اوران کی اپنی زندگی کی الف لیلہ مکمل ہوجائے گی۔