ADVERTISEMENT
اس بار عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے خون میں نہا کر گزارا۔ یہ ستم ہم پر پہلی بار نہیں ٹوٹا۔ ایک بار کراچی کے نشتر پارک میں عین اس وقت دھماکہ ہوا جب لاکھوں فرزندان اسلام ٰصلوٰ ةو سلام میں مصروف تھے۔ شہدا کی تعداد پچاس سے زاید تھی۔ اسی تکلیف دہ واقعے کے آس پاس اسی نوعیت کا واقعہ فیصل آباد میںبھی رونما ہوا۔ یہاں بھی بڑی تعداد میں شہادتیں ہوئیں۔ یہ واقعات کیا واضح کرتے ہیں، کیا پاکستان میں بسنے والے عوام کی برداشت جواب دے گئی ہے اور اب وہ ذرا سا اختلاف برداشت کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے ہیں؟ یہ مفروضہ ایک حد تک قابل توجہ ہو سکتا ہے لیکن بہتر ہو کہ کچھ بات اس کے پس منظر پر بھی کر لی جائے۔
یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں فرقہ دارانہ تقسیم ہمیشہ سے رہی ہے اور اس تقسیم کی بنیاد یعنی فرقہ دارانہ سطح پر قائم ہونے والی جماعتوں کی وجہ سے اس میں شدت بھی پیدا ہو جاتی رہی ہے اور بنیادی عقیدے پر فرقے کو اہمیت دینے والوں کے ہاں تنگ نظری کی فراوانی اور برداشت کی کمی ہمیشہ دیکھی گئی ہے لیکن اسی معاشرے میں اس مرض کا توڑ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ پاکستانی عوام نے فرقہ داریت کی بنیاد پر باہم دست و گریباں رہنے والوں سے خود کو ہمیشہ فاصلے پر رکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جس زمانے میں قتل و غارت گری اور خونریزی عروج پر رہی، اس زمانے میں بھی عامة الناس میں ایسا تنا ؤکبھی پیدا نہیں ہوا۔ ساری نفرت اور جنگ و جدل صرف ان لوگوں تک ہی محدود رہی جن کے دل و دماغ میں نفرت بھری ہوئی تھی۔ اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے سماج میں اہل نفرت محاورے کے مطابق مٹھی بھر بھی نہیں ہیں۔ اس وضاحت کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لڑائی عوام کے درمیان نہیں اور مسلمانوں کا عظیم سواد اعظم بھی اس سے لاتعلق ہے تو پھر وہ بد بخت کون ہیں جو انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے ہیں؟
یہ بھی پڑھئے:
الجھانا چاہیں تو کوئی چھوٹی سی اور معمولی سی بات بھی الجھائی جاسکتی ہے لیکن سچ یہی ہے کہ یہ کچھ ایسا پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت پلے سے باندھ کر رکھ لینی چاہیے کہ خون ریزی کی حد تک بڑھی ہوئی فرقہ دارانہ کشیدگی کی بنیادیں دو ہیں۔ ان میں ایک کا تعلق ایران میں بادشاہت کے انہدام کے بعد پیدا ہونے والی نظریاتی تبدیلیوں سے ہے جن کی وجہ سے خلیج فارس کا سارا پڑوسی خطہ خلجان میں مبتلا ہو گیا اور ایک آویزش پیداہوئی جس کے تباہ کن اثرات سے بہ مشکل ہی جان بر ہو پائے۔ اب یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔
اس سے بھی زیادہ مشکل اور پیچیدہ چیلنج جس سے ہم دوچار ہوئے وہ
سرد جنگ کے گرم جنگ میں بدلنے کے نتائج تھے۔ یہی جنگ تھی جس نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس جنگ کاتعلق چوں کہ عقیدے کے ساتھ بنا دیا گیا تھا اس لیے جنگ کے حکمت کاروں کو کچھ ایسے مسلمانوں کی ضرورت بھی پڑی جو اپنے سوا سب کو بے دین بلکہ غیر مسلم سمجھیں۔ زیادہ واضح الفاظ میں یہ وہی لوگ ہیں جنھیں تکفیری کہا جاتا ہے۔ یہ تکفیری دو طرح سے بر سر عمل ہیں ۔ ان میں کچھ لوگ سوسائٹی کے اندر ہمارے آپ کے درمیان موجود ہیں اور معلوم بھی نہیں چلتا کہ یہ لوگ باتوں ہی باتوں میں کوئی ایسا زہر چھوڑ جاتے ہیں، کچے ذہن جس سے آسانی کے ساتھ مسموم ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ ایسے لوگوں کی ایک قابل لحاظ تعداد نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ میں جگہ بنانے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ یہ اپنے مقصد کے ساتھ بڑی مضبوطی کے ساتھ جمے رہنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بڑے لچک دار بھی ہوتے ہیں۔ اس کی مثال امریکی صحافی ڈینیل پرل کے مبینہ قاتل کی مثال سے سمجھی جا سکتی ہے۔ ڈینیل پرل سے جب اس کی ملاقات ہوئی تو وہ ایک کلین شیوڈ سوٹڈ بوٹس نوجوان تھا لیکن فی الاصل وہ ایک مختلف حلیے کا آدمی تھا جیسا بعد میں قید کے دوران وہ دیکھا بھی گیا۔ ایسے لوگ معاشرے کے اندر رہ کر کام کر رہے ہیں جن پر نگاہ رکھنی نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ بھی ناگزیر ہے کہ انھیں ایسے مناصب تک پہنچنے سے روکا جائے جہاں سے یہ اثر انداز ہو کر خطرناک ذہن سازی کر سکیں۔ یہ کام اس احتیاط کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے لوگ بے روزگار بھی نہ ہونے پائیں کیوں کہ ایسی صورت میں یہ مزید خطرناک ہو جائیں گے۔
ایسے لوگوں کی ایک بڑی جماعت ان جنگجو گروہوں میں شامل ہے جو کبھی افغانستان میں لڑتے رہے ہیں اور عمران خان کے دور حکومت میں انھیں پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں لا بسایا گیا ہے۔ یہی لوگ ہیں اور ان کے ساتھی ہیں جو اس وقت امت مسلمہ کے فرزندوں پرتکفیر کا گمراہ کن فتوی لگا کر ان کی جانوں کے درپے ہیں۔
اس مسئلے سے نمٹنے کی دو سطح پر ضرورت ہے۔ اول یہ کہ ریاست کی رٹ اتنی مضبوط کر دی جائے کہ کوئی گروہ ملک کی حدود کے اندر ہتھیار اٹھانے کی ہمت تک نہ کر سکے اور جو ایسا کرے، اسے نہایت بے رحمی سے کچل دیا جائے ۔ اس پالیسی کا ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہونا چاہئے کہ ریاستی سطح پر ہم گڈ بیڈ اور اثاثے والے مائینڈ سیٹ سے خود کو آزاد کر لیں۔
ٍ اس حکمت عملی کا دوسرے پہلو کا تعلق انگیجمنٹ سے ہے۔ مختلف سطحوں پر بر سر عمل ان تکفیری گروہوں کے اندر نہایت مہارت کے ساتھ نہایت پختہ سوچ رکھنے والے ایسے نظریاتی لوگوں کو داخل کر دیا جائے جو ان کی قلب ماہیت کا کام کریں۔ یہ ایک نازک کام ہے جسے صرف سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہی انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام عام کیا جائے۔ ہمارے یہاں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت کام ہوا ہے جیسے حال ہی میں ہمارے علامہ عبد الستار عاصم صاحب نے سیرت پر آپا بشری رحمن مرحومہ کی ایک کتاب سیرت محبوب رب العالمین شائع کی ہے جبکہ پروفیسر محمد عبد القیوم صاحب کی پیغمبر اسلام شائع ہوئی ہے۔ یہ دونوں بہت قیمتی کتب ہیں جو نہایت محبت کے ساتھ خوب صورتی سے شائع کی گئی ہیں۔ ان کتب کا قاری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات ، غزوات، سیاست اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کے مبارک طرز عمل سے آگاہ کرتا ہے۔ اللہ آپا بشری رحمن مرحومہ اور پروفیسر صاحب کے لیے ان کی یہ محنت توشہ آخرت بنا دے اور لوگ ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کام برکت اور سعادت کے لیے بھی ضروری ہے لیکن آج کے حالات میں ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں اسے پیش نظر رکھ کر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے پہلو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جن کی مدد سے فساد فی الارض کا خاتمہ ہو سکے۔ تکفیری گروہوں کو سمجھانے کے لیے سیرت میں بہت کچھ ہے جیسے ایک صحابی کاواقعہ جنھوں نے جنگ کے دوران ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا جس نے کلمہ پڑھ لیا تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ فرما کر کہ کیا تم لوگوں نے قتل کیے جانے والے کا سینہ چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس نے موت کے خوف سے کلمہ پڑھا ہے۔ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف یہی ایک واقعہ فتنہ تکفیریت کے خاتمے کے لیے کافی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت پر کام کرنے والے علما اور محققین وقت کی ضرورت کے مطابق اس خاص پہلو کو پیش نظر رکھ کر کام کریں۔ اس پہلو سے کام اللہ کی بارگاہ میں زیادہ مقبول ہو گا اور خیر و برکت کا باعث بنے گا۔