بالآخر مولانا راغب نعیمی کے صبر کا بندھن بھی ٹوٹ گیا۔ ایسے معاملات جن کے ساتھ جذبات وابستہ ہوں اور جذبات بھی دینی یا ملی، ایسے مواقع پر لوگ خاموش رہتے ہیں۔ نجی سطح پر بات کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بات زباں سے پھسل گئی تو اس کے بعد وعدے وعید لے لیے گئے کہ اب یہ بات دائرے سے باہر نہ جائے گی۔ وہ بڑے لوگ ہوتے ہیں جو کوئی کوتاہی دیکھتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ اس کا اعلان کرتے ہیں۔ مولانا راغب نعیمی نے اس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ دیکھا بلکہ بھگتا اس کا برملا اظہار کر کے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی مولانا محمد حسین نعیمی جیسی بلند پایہ ہستی کی جانشینی کا حق رکھتے ہیں۔
اصلاح کے راستے اسی جرات مندانہ طرز عمل سے کھلتے ہیں۔یہ محض اتفاق رہا ہو گا کہ اس بار عید میلاد کے موقع پر کہیں آتے جاتے وہ کسی بے ہنگم ہجوم میں پھنس گئے اور تادیر کرب میں مبتلا رہے۔ ایک اعتبار سے یہ بہتر ہی ہوا کہ اس تجربے سے عام آدمی کے محسوسات اور دکھوں کی تائید مولانا راغب نعیمی جیسے اہل علم اور اختیار رکھنے والی شخصیت کی زبان سے ہو گئی۔ ہمارے تہواروں پر جب لوگ باگ سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ چکے ہیں اور اب ان لوگوں کو نہ گلا پھاڑ کر ہو ہا کرنے سے کوئی روک سکتا ہے اور نہ کاروبار زندگی میں جو خلل واقع ہو چکا ہے، بحال کیا جا سکتا یے۔ اس طرز عمل کے اسباب کیا ہیں؟
یہ بہت حساس موضع ہے جس کے ساتھ جذبات وابستہ ہیں۔ اس کا جائزہ نہایت احتیاط کے ساتھ تاریخ کی روشنی میں لیے جانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک تاریخ کا معاملہ ہے سرتاج اولیا حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ سے لے کر تمام اکابر صوفیا کے ملفوظات و تعلیمات سے گزر جائیے، محفل سماع کا ذکر آپ کو ضرور ملے گا۔ سماع کیا ہے اور اس کی حدود کیا ہیں، ہر بزرگ نے ان کا تعین کر دیا ہے جس سے ان کے فہم دینی کے علاوہ ان کا ذوق بھی جھلکتا ہے۔ اس قسم کے جو فرق سامنے آتے ہیں، ان بزرگوں کے احترام اور مرتبے کو سامنے رکھتے ہوئے نہایت ذمے داری کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی زیادہ اہمیت نہیں کیوں کہ ہر بزرگ نے اس سلسلے میں آداب محفل سماع کے حدود کی نشان دہی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کی ہے۔ گویا مرکزی دھارا ایک ہی ہے، فرق اگر ہے تو علاقے اور حالات کا ہے۔ مزید وضاحت اس کی یہ ہے کہ اس سرگرمی کا براہ راست تعلق تہذیب نفس کے ساتھ ہے اور تہذیب نفس ایک ایسا عمل ہے جس میں ہنگامے سے زیادہ نفاست کی ضرورت ہے۔
اس نازک تہذیبی اور تربیتی سرگرمی کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے مولانا جلال الدین رومی علیہ رحمہ کی مثال کو پیش نظر رکھا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ روایت ہے کہ وہ کسی لوہار کی بھٹی پر تشریف رکھتے تھے جہاں وہ لوہا پگھلا کر ایک دھن یا ردھم کے ساتھ چوٹ لگاتا تھا۔ اس ردھم نے آپ پر کیفیت طاری کر دی یعنی ان کا قلب جاری ہو گیا۔ یہیں سے رقص درویش کی بنیاد پڑی جسے آج دنیا میں نہایت ذوق و شوق اور عقیدت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ یہ سرگرمی کہنے کو رقص ہے لیکن دراصل جذب و مستی کی کیفیت ہی کا مظاہرہ ہے جس کی ابتدا تلاوت اور عبادت سے ہوتی ہے، اس کے بعد درویش مرشد اور روحانی پیشوا کی اجازت اور نہایت کڑے ڈسپلن کے ساتھ اس سرگرمی میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اس سرگرمی میں نہایت محدود درجے پر دف اور دیگر باوقار آلات کے استعمال کے ساتھ اگر کچھ پڑھا جاتا ہے تو نہایت دھیمے اور مدب انداز میںاور اس کا تعلق بھی سلاسل تصوف کے اورداد و وضائف سے ہوتا ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی اسے طوفان بدتمیزی قرار دے کر مسترد نہیں کر سکتا۔ ہمارے ترک بھائی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے معاملے میں ہماری طرح حساس ہیں اور حاضر و موجود کے معاملات میں ہمارے عقاید ہی کے پیرو ہیں لہٰذا ایسی محافل میں اس التزام کے ساتھ شرکت کی جاتی ہے کہ آواز اتنی بلند نہ ہو کہ بے ادبی کے مرتکب قرار پا کر راندہ درگاہ ہو جائیں۔ حضور داتا صاحب علیہ الرحمہ سے لے کر دیگر تمام اولیائے کرام حتی کہ مولانا مودودی جیسے عالم دین کے ہاں بھی سماع کا جو تصور ملتا ہے، اس میں احترام کے ان ہی تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہمارے یہاں ہر قید و بند سے آزاد جو دھمال پائی جاتی ہے، اس کی بنیاد کیا ہے؟
دھمال کی تاریخ اور اس کی بنیاد پر تو کوئی بڑا صاحب علم ہی اظہار خیال کر سکتا ہے لیکن رقص درویش اور دھمال کی کیفیات میں ایک فرق کی نشان دہی ضرور کی جا سکتی ہے۔ رقص درویش میں ٹھہرا اور دھیمے انداز میں جذب کی کیفیت ہے جب کہ ہماری سرگرمی یعنی دھمال میں بلند آہنگ جذبات کی آندھی کے ساتھ فنا ہو جانے کی کیفیت ہے۔ دونوں کیفیات مبارک اور پسندیدہ ہیں جہاں تک ہماری دھمال اور اس سے ملتی جلتی سرگرمی کا معاملہ ہے، یہ ان حدود سے تجاوز کرتی دکھائی دیتی ہے جس کا تعین ہمارے اولیائے کرام اور بزرگوں نے کر دیا ہے۔
ایسا کیوں ہوا ہو گا؟ اس سوال کا حتمی جواب تو باقاعدہ تحقیق کے بعد ہی مل سکتا ہے لیکن جہاں تک احوال و آثار سے دکھائی دیتا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ جذب و مستی سے منسوب یہ سرگرمی رفتہ رفتہ عدم توجہی کا شکار ہوتی چلی گئی یوں یہ سرگرمی کچھ ایسے طبقات کے ہاتھوں میں آ گئی اور ان ہی تک محدود ہو کر رہ گئی جس کی نہ تربیت ہوئی تھی اور نہ تصوف اور جذب و مستی کی کیفیات سے جن کا کوئی تعلق تھا۔
ہمارے سماج سے اس کی مثال حضرت عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر علیہ رحمہ کے مزار پر ہر شام ہونے والی دھمال سے لی جا سکتی ہے۔ آپ کے مزار پر جو نقارے اور دیگر آلات موجود ہیں، روایت کے مطابق سیکڑوں برس قدیم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں بھی سماع کی روایت ہی رہی ہوگی اور وہ بھی اتنی ہی پرانی ہو گی جساس میں حضرت کے مریدین شریک ہوا کرتے ہوں گے لیکن ان دنوں جو لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں، ان کی علمی حیثیت اور حضرت کے ساتھ روحانی نسبت معرض سوال میں ہے۔ اس مثال سے ایک بار پھر یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں کے ہاں سماع کی جو روایت تھی، وہ اصل لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جن کا اس روایت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لہٰذا ایک نہایت متبرک اور سنجیدہ سرگرمی غیر ذمے دار لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جو نا مطلوب تھی۔
کچھ ایسا معاملہ ہی اہم تہواروں کے موقع پر سڑکوں پر نکل کر جذبات اور عقیدت کے اظہار کا یے۔ عقیدت کا اظہار مطلوب و مقصود ہے لیکن جیسا مولانا راغب نعیمی صاحب نے فرمایا ہے، طوفان بدتمیزی نا مقبول اور ناقابل برداشت ہے۔ انھوں نے نشان دہی کی ہے کہ فلمی گانوں کی طرز پر نعت کا کان پھاڑ دینے والی آواز میں پڑھا جانا بھی سوہان روح ہے۔ یہ نشان دہی درست ہے۔ اس نشان دہی کا ایک روحانی پہلو بھی ہے۔ ہمارا ایمان ہے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کرتے ہیں اور صلوٰة و سلام بھیجتے تو وہ ان تک پہنچتا ہے اور یہ بھی کہ آپ ایسی محافل میں تشریف رکھتے ہیں۔ اگر ہمارا یہ ایمان ہے تو پھر یہ جرات ہم کیسے کر لیتے ہیں کہ ہماری آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند ہو جائے۔ یہ عمل تو تباہی کی طرف لے جانے والا ہے۔ مولانا راغب نعیمی نے جو آواز بلند کی ہے، میرے خیال میں اسی پس منظر میں کی ہے۔
یہ بحث ہمیں ایک اور نتیجے پر بھی پہنچاتی ہے۔ یہی کہ مرور ایام سے ہمارے یہاں تربیت کے پیمانے کمزور ہو گئے ہیں اور ہم خوشی غمی منانے کے سلیقوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اصلاح احوال کے لیے ظاہر ہے کہ ایک بڑی اصلاحی تحریک کی ضرورت ہے۔ جہاں تک سماع اور دھمال کا تعلق ہے، اگر چند اہل علم اور چند اہل ذوق جمع ہو بیٹھیں اور جذب مستی کے حالیہ مظاہر کو از سر نو سماع کے ساتھ منسلک کرنے کی سعی کریں تو بہت سا بگاڑ قابو میں آ سکتا ہے۔ یہ چیز کسی نظم و ضبط میں آ گئی تو یوں سمجھئے کہ سڑکوں پر دکھائی دینے والا طوفان بدتمیزی بھی عقیدت کے دھیمے اور باوقار مظاہرے میں بدل جائے گا، ان شااللہ۔بس، احتیاط یہ رہے کہ اس نازک موقع پر سماع کی اصل روایت ہمارے پیش نظر رہے۔ اس روایت کی بنیاد رکھنے والے اگر حضرت امیر خسرو تھے تو اُن کی پشت پر حضرت نظام الدین اولیا علیہ رحمة کا ہاتھ تھا۔ تھوڑی وضاحت اگر مزید کی جائے تو یہ ہوگی کہ ہماری روایت میں محفل سماع میں شرکت نسبت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ ہمارے یہاں نسبت کا معاملہ کمزور بلکہ ختم ہوا تو وہ خرابی پیدا ہوئی جس پر ہم آج دکھی ہیں۔ ترکوں نے نسبت کا دامن تھامے رکھا تو وہ اس طوفان بدتمیزی سے محروم رہے۔