پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمنٹ کی بالادستی دستی تو مہر تصدیق ثبت کر دی گئی البتہ ماضی میں کی گئی زیادتیوں کے ازالے کا راستہ نہ کھل سکا۔
پاکستان کی تاریخ میں بہت سے فیصلے اپنے اچھے یا برے اثرات کے تعلق سے قومی حافظے اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ اس فیصلے کو بھی ایسے فیصلوں میں ہی شمار کیا جائے گا۔
پی ڈی ایم کی زیر قیادت حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کیا تھا۔ اس کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی تھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو مقدمات کی سماعت اور بینچوں کی تشکیل کے ضمن میں حتمی اختیارات حاصل تھے جس کے نتیجے میں انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ پڑتی۔ اس سب سے واضح مثال سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کا طرز عمل تھا جو صرف وہی فیصلہ سنتے تھے جسے سننا چاہتے تھے اور ایسا بینچ بناتے تھے جو ان کی رائے سے قریب ہوتا۔
اسی طرح از خود نوٹس مقدمات کے فیصلے بھی نا انصافی کے ذریعہ بنتے تھے جس طرح سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کے تحت پاناما کیس ٹرائل کورٹ کی طرح سن کر نواز شریف کو تاحیات نااہل کر دیا اور انھیں انصاف کے حصول کے لیے اپیل کا حق بھی نہیں ملا۔
یہ بھی پڑھئے:
اسرائیل پر حماس کا تباہ کن حملہ کس انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے؟
سلمان باسط کا ناسٹیلجیا اور جنریشن گیپ
جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے سیاسی نقطہ نظر کے پیش نظر اس کیس کو التوا میں ڈالے رکھا۔ وہ اس سلسلے میں اس قدر سخت گیر تھے کہ وہ فل کورٹ بلانے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے تھے۔
اس مقدمے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ عدلیہ کے ذریعے پارلیمنٹ کے حق قانون سازی پر قدغن عاید ہو چکی تھی۔ اس فیصلے کے ذریعے ہمیشہ کے لیے طے کر دیا گیا کہ پارلیمنٹ اگر آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے قانون سازی کرتی ہے تو اس پر کوئی قدغن نہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ عدلیہ کا یہ طرز عمل جسٹس منیر کی تکلیف دہ روایت کا تسلسل تھا، خود عدلیہ نے جس کا آج خاتمہ کر دیا۔ مجموعی طور پر یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کی طرف ایک تاریخی قدم ہے۔
ججوں کی اکثریت نے فیصلہ دیا ہے کہ اس قانون کا اطلاق مؤثر بی ماضی نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو تاحیات نا اہل قرار دینے کے بعد انھیں اپیل کا حق نہ دے کر ان کی جو حق تلفی ہوئی تھی، اس کا ازالہ نہیں ہو سکا۔البتہ پارلیمنٹ کے اس فیصلے کے ذریعے کہ نا اہلی کی مدت صرف پانچ برس ہوگی۔ یہ قانون میاں نواز شریف کو انصاف کی فراہمی کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔
اس فیصلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس آف پاکستان تک محدود نہیں رہا۔ یہ فیصلہ بھی تین رکنی کمیٹی کرے گی۔ اسی طرح پاکستان کے عام سائلین کو مقدمے کی سماعت کے لیے برسوں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اس فیصلے کے صرف سیاسی اثرات ہی نہیں ہوں گے بلکہ اس کا عام آدمی سے یوں گہرا تعلق ہے کہ کراچی کے نسلہ ٹاور میں سپریم کورٹ نے جو از خود نوٹس لیا اس کے تحت ایک بہت بڑی عمارت گرا دی گئی لیکن از خود نوٹس ہونے کی وجہ سے متاثرین کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ان کے لیے اپیل کا حق سلب ہو گیا۔