پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے ملک بھر میں جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے مناظر حیرت انگیز ہیں۔ حیدر آباد اور اندرون سندھ کے دیگر شہروں کی بات الگ ہے لیکن صرف کراچی شہر نے کمال کر دکھایا ہے۔ کراچی سے اسپیشل ٹرین کے ذریعے جو قافلہ روانہ ہوا ہے اس میں شامل لوگوں کی تعداد حیرت انگیز ہے۔ بیس کوچز پر مشتمل اس ٹرین میں گنجائش سے کہیں زیادہ کارکن سوار ہیں جن کارکنوں کو ٹرین میں جگہ نہیں ملی، انھیں احتجاج کیا اور انجن کے سامنے مظاہرہ کر کے ٹرین کو شیڈیول کے مطابق روانہ نہیں ہونے دیا۔ استقبال کے لیے لاہور جانے کے لیے افراد کی اتنی بڑی تعداد کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے مقامی قیادت کو بسوں کا انتظام کرنا پڑا۔
کراچی کے بارے میں عمومی تاثر تو یہی ہے کہ مسلم لیگ ن کی وہاں نہ کوئی خاص تنظیم ہے اور نہ کارکن اور ووٹر۔ اگر یہ تاثر درست تھا تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ کراچی سے ایک ٹرین بھر کر روانہ ہو گئی اور ہزاروں دیگر کارکن متبادل انتظامات کے ساتھ عازم سفر ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں؟
یہ بھی پڑھئے:
غزہ: جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
ملکہ پکھراج نے کس کس کے قتل کی سازش کی؟
کیا عناد، انصاف پر حاوی رہے گا؟
اس کا ایک ہی راز ہے اور وہ راز یہ ہے کہ کراچی میں مسلم لیگ ن اپنا مؤثر وجود رکھتی ہے لیکن بعض وجوہ سے وہ اپنی پوری طاقت کا اظہار نہیں کر پاتی۔ میاں نواز شریف کی آمد کا موقع کراچی مسلم لیگ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا تھا جس میں یہ پوری اتری ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران میں پارٹی میں نئے خون اور پرانے ساتھیوں نے بڑی محنت سے کام کیا ہے۔ ان میں علی اکبر گجر، ناصر الدین محمود اور خواجہ طارق نذیر سمیت کئی دوسرے برجوش اور سمجھ دار کارکنوں اور راہنماؤں نے سردھڑ کی بازی لگا کر پارٹی کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ اس کی کارکردگی میں بھی اضافہ کیا۔ جلا وطنی کے خاتمے کے بعد میاں صاحب کی وطن واپسی کے موقع پر ان مخلص کارکنوں کی محنت دنیا کے سامنے آگئی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پارٹی کی قیادت ان کارکنوں کے خلوص ، محنت اور بصیرت پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں کام کرنے کی آزادی دے اور گروہ بندی پیدا کرنے والوں کی لگام کھینچ کر رکھے تو ان ہی انتخابات میں ان ہونی ہو سکتی ہے۔