قاہرہ میں آٹھویں فتویٰ کانفرنس قاہرہ میں منعقد ہوئی ۔ کانفرنس کا موضوع ’’ فتویٰ اور موجودہ ہزاریے کے چیلنجز‘‘ ہے۔ کانفرنس میں 100 سے زائد ممالک سے علماء کرام کی شرکت کر رہے ہیں ۔ کانفرنس کے منتظمین کے مطابق یہ کانفرنس پائیدار امن، بقائے باہمی اور نفرت کا باعث بننے والی تقاریر کے سدباب کے حوالے سے انتہائی موثر فورم ثابت ہوگا۔ نگران وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی انیق احمد نے کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہہمارا دین ہر دور کیلئے ہے اور ہر زمانے کیلئے ہے ۔ علما کیلئے ضروری ہے کہ وہ مستقبل میں اٹھنے والے سوالات پر گہری نگاہ رکھیں۔ اسلام دشمن ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو مشکوک کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم اس دور میں امت مسلمہ کو درپیش منفرد اور کثیرا لجہتی چیلنجوں کا ادراک کریں کیونکہ تیسرے ہزاریے میں ہمارے جینے، بات چیت کرنے اور اپنے عقائد کے مطابق زندگیاں گزارنے کے طریقوں میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ فتویٰ مسلمانوں کے لیے عقیدے، عمل اور روزمرہ کی زندگی کے معاملات سمیت مختلف معاملات میں رہنمائی کا کام کرتا ہے ۔
انہوں نے قرآن حکیم کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زندگی کی پیچیدگیاں سامنے آجائیں تو اہل علم سے رجوع کیا جائے ۔ نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں ’’فتویٰ اور موجودہ ہزاریے کے چیلنجز‘‘ کے موضوع کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ فتویٰ جاری کرنے کے طریقہ کار میں اسلام بنیادی اصولوں کی اہمیت پر زور دیتا ہے ، ان بنیادی اصولوں میں قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں جن پر فتوے کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔ فتویٰ کے اجراء کے معاملے پر ہمیں ان بنیادی اصولوں پر لازمی طور پر قائم رہنا چاہیئے ۔ ان بنیادی اصولوں کی مکمل تفہیم سے ہی فتوے اپنی اہمیت اور صداقت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان فلسطین کے ساتھ اسرائیل کے خلاف جنگ میں شریک کیوں نہیں؟
ایس ایم ظفر تاریخ کے مجرم کیوں ہیں؟
نواز شریف کا استقبال: مسلم لیگ کراچی نے تاریخ بنا دی
انیق احمد نے کہا کہ فتویٰ کمیٹیوں کو ہمیشہ اسلامی ریاست کے فقہ کے حوالے سے مقاصد پر غور کرنا چاہیے کہ ان کے احکام ان عظیم مقاصد کے ساتھ کس طرح مطابقت رکھتے ہیں، اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیئے کہ وہ امت مسلمہ کی بھلائی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالیں،عہد حاضر میں سب سے بڑا چیلنج تیز رفتار ترقی ہے ۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے معلومات تک رسائی اور ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے طریقے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں ۔
انٹرنیٹ جہاں قیمتی اسلامی معلومات کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوتا ہے وہاں بعض غیر اخلاقی چیزیں بھی سامنے آتی ہیں ۔ فتویٰ کمیٹیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق سوشل میڈیا کے استعمال، آن لائن پرائیویسی، اور ٹیکنالوجی کے ذمہ دارانہ استعمال سے متعلق سوالات کا جواب دینا چاہیے۔مثال کے طور پر، آن لائن ہراساں کرنے اور سائبر کرائم کے مسئلے پر غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ مسائل بڑھ گئے ہیں، مسلم علماء اور فتویٰ کمیٹیوں کو چاہیے کہ وہ افراد اور اقوام کو نقصان پہنچانے والوں کی رہنمائی کریں کہ ایسے حالات سے کیسے نمٹا جائے، انہوں نے کہا کہ حسن سلوک کے قرآنی اصولوں پر زور دیا جائے۔ صبر اور درگذر کا طرز عمل اختیار کیا جائے ۔ وزیر مذہبی امور نے ڈیجیٹل دنیا کےعصری اور معاشی چیلنجوں کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ فتویٰ کے طریقہ کار کو اسلامی مالیات، عالمی تجارت اور اقتصادی انصاف جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنایا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مالیاتی لین دین اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ فتویٰ کمیٹیاں بعض مالیاتی آلات کی اجازت اور سرمایہ کاری کے طریقوں جیسے مسائل پر رہنمائی فراہم کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید دور میں امت مسلمہ کو درپیش حکمرانی کے مسائل بھی کثیر الجہتی ہیں اور ان پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ فتویٰ کمیٹیاں حکمرانی، سماجی انصاف اور قانون کی حکمرانی سے متعلق مسائل کو حل کرکے اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ وہ ایسے فتوے جاری کر سکتے ہیں جو مسلم اکثریتی ممالک میں گڈ گورننس، احتساب اور شفافیت کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
انہوں نے مبینہ طور پر انتہا پسندانہ نظریات اور بنیاد پرستی کے رحجان کو بھی مسلمانوں کے لیے ایک چیلنج قرار دیا اور کہا کہ فتویٰ کے ادارے اس صورتحال سے نمٹنے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر، فتویٰ کمیٹیاں واضح اور معقول فتوے جاری کر کے اسلام کی مبینہ طور پر انتہا پسندانہ تشریحات کو رد کر کے امن، رواداری اور اعتدال کا متبادل بیانیہ پیش کیا جا سکتا ہے۔
وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ ایک اور اہم مسئلہ جدید دور میں بائیو ایتھکس کا ہے۔ میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے پیچیدہ اور اخلاقی سوالات کو جنم دیا ہے۔ فتویٰ کمیٹیوں کو اعضاء کی پیوند کاری، کلوننگ، اور انسانی جان کی دیکھ بھال جیسے مسائل پر رہنمائی فراہم کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پرعلما ایسے فتوے جاری کر سکتے ہیں جو اس طرح کی طبی پیشرفت سے پیدا ہونے والے اخلاقی مسائل کا سدباب کر سکیں تاکہ انسانی جان کا تقدس برقرار رہ سکے ۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی عالمی چیلنجز ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فتویٰ کمیٹیوں کو اسلامی اخلاقیات کی نظر سے ماحولیاتی مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، وہ یہ کر سکتے ہیں کہ ایسے فتوے جاری کئے جائیں تاکہ کرہ ارض کے تحفظ کے لئے ذمہ دارانہ اور پائیدار طرز عمل اختیار کیا جائے ۔ مسائل سے نمٹنے کے لئے انہوں نے تجاویز اور سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان عصری چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے فتویٰ کمیٹیوں میں ایسے علماء کو شامل کرنا چاہیے جو اسلامی فقہ اور عصری مسائل دونوں میں مہارت رکھتے ہوں۔
انہوں نے تجویز دی کہ مختلف شعبوں کے ماہرین کے مابین تعاون کے ذریعہ فتوی کو مزید موثر بنایا جاسکتا یے ۔ خاص طور پر نوجوان نسل تک فتوی کوپہنچانے کے لیے مواصلات کے جدید آلات کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آن لائن پلیٹ فارم، پوڈکاسٹ، اور ویبنارز مستند اور قابل رسائی فتوے پھیلانے کے لیے بااثر ذرائع ہو سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی غلط معلومات اور غلط تشریحات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نجی و اجتماعی فتویٰ اداروں کو مقامی سطح پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔عالمی سطح پرتقویٰ کے ساتھ فتویٰ کا اشتراک ہونا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو اپنے رب کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے اپنا تعلق قائم کرنے کے قابل بنایا جا سکے، مفتی کے لیے محض اللہ کے قانون سے آگاہ کرنا کافی نہیں ہے۔ اسے ایک مبلغ ، داعی ،مربی اور ایک حکیم استاد ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس دور میں رہ رہے ہیں۔ جہاں طاقتور قومیں ’’عالمگیریت‘‘ کی چھتری تلے اپنا عالمی نظریہ دیگر تمام اقوام پر مسلط کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مسلم دنیا کا بیشتر حصہ اس حوالے سے دو انتہاؤں کا شکار ہے۔ فتویٰ مراکز کو جہاں ممکن ہو ان اقدار کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے پوری انسانیت کو فائدہ پہنچے ۔جدید چیلنجز کے حل کے لیے امت کا اتحاد سب سے اہم ہے ہمیں دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک اجتماعی ادارے کے طور پر اکٹھا ہونا چاہیے۔
اس سلسلے میں میں اسلامی دنیا کے نامور مفتیوں اور علماء کے سالانہ اجلاسوں کے قیام کی تجویز پیش کرتا ہوں، جس میں مسلم ممالک کے رہنماؤں اور حکمرانوں سے ملاقاتیں کی جائیں۔ یہ اجتماعات، ترجیحاً حج کے موقع پر، امت مسلمہ کو درپیش اہم ترین مسائل کا جائزہ لینے اور ان پر گفتگو کرنے کا ایک پلیٹ فارم فراہم کر سکتے ہیں۔ حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساری امت جسد واحد کی طرح ہے۔
جب کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم وہ تکلیف محسوس کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تیسرے میلینئم میں مسلمانوں کو درپیش چیلنجز پیچیدہ ہیں، لیکن ہمارا ایمان ہمیں ان سے نمٹنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو بروقت اور رہنمائی فراہم کرنے میں فتویٰ اداروں کا اہم کردار ہے ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ فتوے ایک بدلتی ہوئی دنیا میں روشن خیالی کا ذریعہ رہیں۔ انہوں نے کانفرنس کے منتظمین اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ان نازک مسائل کو حل کرنے کی ایک عمدہ کوشش کی ہم سب مل کر، ترقی پذیر دنیا میں اسلام کی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے تیسرے میلینئم کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دریں اثناءوفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی انیق احمد نے مصر کے وزیر اوقاف ڈاکٹر محمد مختار گوما اور مفتی اعظم ڈاکٹر شوقی علام سے الگ الگ ملاقات کیاور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔