Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کراچی میں ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب صبح و شام فرشتہ ¿اجل کے قدموں کی چاپ سنائی دیا کرتی تھی۔ آپ موٹر سائیکل پھٹپھٹاتے ہوئے لائینز ایریا یا جیکب لائن پہنچے، اطمینان کا سانس ابھی لیا نہیں کہ فائرنگ شروع ہو گئی اور آپ کولینے کے دینے پڑ گئے۔ ایسی کی کوئی افتاد تھی کہ مجھے اپنا موٹر سائیکل وہیں چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ جیسے تیسے دفتر پہنچا اور سوچا کہ آج تو کمال ہو گیا، آنکھوں دیکھی ایک ایسی کہانی قلم بند ہوگی کہ لوگ برسوں یاد رکھیں گے۔ اس زمانے میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور آفاق احمد کی ایم کیو ایم حقیقی کے درمیان اس طرح کے مقابلے عام تھے جن میں ان کے متعلقین بھی کام آتے لیکن اکثر راہ چلتے لوگ بھی، حتیٰ کہ بچے اور خواتین بھی نشانہ بن جایا کرتیں۔ اس شوٹ آو¿ٹ کی ”حکمت“ یہ بیان فرمائی گئی تھی کہ دومسلح گروپوں کو باہم متصادم کردیا گیا ہے، اب خیر ہی خیر ہے، کراچی میں امن کا راج ہوگا اور اس کی رونقیں بحال ہو جائیں گی۔ کوئی ایسی ہی افتاد تھی جس سے جان بچا کر نکلا ،دفتر پہنچ کراوسان بحال کیے ،پیڈ سنبھال کر لکھنے کے لیے ذہن بنانا ابھی شروع کیا ہی تھا کہ ایک صاحب ہانپتے کانپتے دفتر میں داخل ہوئے۔ ہیئت کذائی دیکھ کر انھیں پانی پیش کیا جیسے ہی ان کے اوسان بحال ہوئے، انھوں نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ میری جانب دیکھا اور سوال کیا، میرا کیا قصور تھا؟ انداز ایسا تھا جیسے ان کے سارے دکھوں اور مسائل کا ذمے دار ان ہی کا مخاطب ہے۔ حیرت سے میں نے ان کی جانب دیکھا اور نرمی سے پوچھا کہ آپ کا مسئلہ میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا۔ یہ بات سن کر وہ لحظہ خاموش ہوئے، پانی کا ایک گلاس اور پیا اور اس بار نرمی سے بات چھیڑی لیکن جیسے جیسے بات آگے بڑھتی گئی، ان کی تلخی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
حاصل بزنجو، اسیر آرزوئے جمہوریت
اردو گاہ کی دیواروں تلے جلال صوئیدان سے باتیں
وہ صاحب کبھی کراچی کے صاحبان ثروت کی بستی نارتھ ناظم آباد میںدرمیانے درجے کے تاجر تھے۔ زندگی اچھی بھلی گزر رہی تھی کہ شہر کے حالات بگڑ گئے۔حالات کا یہ بگاڑ ایسا تھا کہ کیا امیر کیا غریب، سب ہی اس کی لپیٹ میں آگئے ۔شاید ان کی دوکان کے آس پاس کوئی قتل ہو گیا تھا اور پولیس انھیں بات چیت کرنے کے بہانے اٹھاکر لے گئی تھی۔ چند منٹ کی یہ گواہی یا پوچھ گچھ برسوں پر پھیل گئی۔ پہلے کچھ دن وہ تھانے میں بند رکھے گئے پھر جیل میں بند کرد یے گئے۔بعد میں جب مشاہدے اور تجربے میں اضافہ ہو ا تومیںنے یہ جانا کہ ان جیسے سفید پوش پولیس کے غضب کا نشانہ بن کر زندگیاں تباہ کر بیٹھتے ہیں لیکن یہ بیان اتنا بھی سادہ نہیں۔ کسی مقام پر کوئی واقعہ رونما ہوجائے یاملک کے کسی حصے یا ایئر پورٹ جیسے اہم مقام پر کوئی دہشت گردی ہو جائے، ایسے میں پولیس کو یہ ذمہ داری تفویض کردی جاتی ہے یا وہ خود کو اس مکلف ٹھہرا کر گرفتاریاں ڈالنے لگتی ہے، ایسی شام کو ایک پریس ریلیز جاری ہوتا ہے جس میں خبر دی جاتی ہے کہ پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائی کر کے دو سو، تین سو یا چار سو دہشت گردوں کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کردیا ہے۔ اس روز بھی پولیس پر کوئی ایسی آزمائش ہی آئی ہوگی کہ اس شخص کا نام ایک طویل فہرست میں شامل کر کے اسے حوالہ زنداں کر دیا گیا۔
کھاتے پیتے لوگوں کا جیل جانابھی ایک طرح کی تفریح اور پکنک ہوتی ہے۔ کوئی پندرہ بیس برس ہوتے ہی، ڈیرہ اللہ یار میں ایک جاننے والے زمیندار کسی سیاسی انتقام کے چکر میں جیل میں بند کر دیے گئے۔ان سے ملنا بھی ایک تجربہ تھا۔ کوٹھڑی میں اگرچہ وہ زمین پر ہی سویا کرتے تھے لیکن اس مختصر سی کوٹھڑی میں زندگی کی آسائش کا تمام سامان موجود تھا۔ان سے رخصت لی تو وہ ہمیں چھوڑنے باہر گاڑی تک آگئے۔ جیل کا گیٹ کھولنے سے پہلے سنتری تقریباً رقوع میں جاکر ان کے اعزاز میںکورنش بجا لایا۔ایسی زندگی اور ایسی جیل کے بھی اپنے مزے ہیں لیکن گہری سانولی رنگت والے اس شخص جس کانام سلیم الدین یا شاید اور کچھ تھا، ااس جیسے لوگ جیل جاپہنچیں تو ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔
ابھی چند روز ہوتے ہیں جب وفاقی محتسب کے ادارے کی ششماہی رپورٹ کے کچھ حصے پڑھنے کو ملے۔اس طرح کی رپورٹس عام طور پر نہ سمجھ میں آنے والے اعداد و شمار ، پیچیدہ اور تیکنیکی انگریزی کا مرقع ہوتی ہے جسے نہایت نفاست کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ کر کے حکمرانوں کی خدمت میں پیش کردیاجاتا ہے۔قومی زبان میں مرتب کی جانے والی اس سادہ سی رپورٹ کو دیکھا تو برادرم محترم منور اقبال گوندل یاد آگئے۔ گوندل صاحب یاروں کے یار ہیں اور اپنی یادیں ایسے دل نشیں انداز میں بیان کیا کرتے ہیں کہ ہر واقعہ ایک سبق آموز کہانی بن جاتا ہے۔ انھوں نے ایک بار بتایا تھا کہ عین ان دنوں جب آتش جواں تھا، وہ کسی مسئلے سے دوچار ہوئے اور شاید ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوئے۔یہ ان زمانوں کی بات ہے جب ڈپٹی صاحبان صرف انتظامی افسر نہیں ہوا کرتے تھے، انصاف کی کرسی پر جلوہ افروز ہوکر اپنی سمجھ بوجھ یا سفارش کی پرچیوں کے زور پر انصاف فرمایا کرتے تھے ۔گوندل صاحب کی یاداشت میں یہ واقعہ آج بھی کل کی طرح تازہ ہے کہ جس عدالت سے ان کا پالا پڑا، اس کا انداز ہی مختلف تھا۔ انصاف کی کرسی پر اکڑی ہوئی گردن والا کوئی صاحب بہادر نہیں بلکہ دکھی، بے آسرا، بے زباں اور ہتھ کڑیوں میں جکڑے خاک زادوں سے خود مخاطب ہو نے والا ایک دھیما سا آدمی بیٹھا تھاجو انصاف کی بلٹ ٹرین پر بیٹھ کر فراٹے بھرنے کے بجائے سکون کے ساتھ مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتااور اطمینان ہو جاتا تو فیصلہ سنا دیتا۔ منور گوندل کا مسئلہ بھی شاید زور آوروں کے زور پر ہاتھ سے نکل چکا تھا کہ ایک صاحب درد کے ہاتھوں زور آوروں کی ساری زور آوری کے باوجود انجام کو پہنچا اور حق دار کو اس کا حق ملا۔”ہمارے صاحبان انصاف اگر ایسے ہو جائیں تو ہمارے ملک کے دکھ درد دور نہ ہوجائیں؟ “ ۔ یہ رپورٹ اسی ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ سے نکلی ہے جس کے کاندھوں پر ان دنوں وفاقی محتسب کی ذمہ داری ہے، میری مراد سید طاہر شہباز سے ہے۔ یہ رپورٹ میں نے دیکھی اور منور گوندل کے برسو ں پرانے جملے کو یاد کیا کیوں کہ اس رپورٹ کا سبب سے بڑا نکتہ وہ تقریباً ایک ہزار افراد تھے جو کراچی کے سلیم الدین کی طرح جیل کی دیواروں کے پیچھے جا پہنچے تھے لیکن خوش قسمتی سے وفاقی محتسب کے نوٹس میں آگئے اور انھیں آزادی کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے سانس لینے کا حق مل گیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو سلیم الرحمن کی طرح پہلے کسی کا کاروبار تباہ ہوتایا کسی کی بیوی بیمار ہو کر مر جاتی اور بچے آسرا ہو کر عبد الستا ایدھی کے سائے میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے۔
ایام نوجوانی میں وہ پہلی بار تھی جب میری سمجھ میں یہ آیا کہ ہمارے خوابوں کے دیس یعنی پاکستان میں لوگ ملک سے بے زار کیسے ہوتے ہیں؟ وہ اپنے ملک کو اپنا ملک کیوں نہیں سمجھتے، گھر کی چار دیواری کے اندر اپنی ذاتی چیزوں کی طرح پاکستان کی سڑکوں ، عمارتوں ، گلی کوچوں اور املاک کو اپنی املاک کیوں نہیں سمجھتے۔ایسا تب ہوتا ہے جب اپنے دیس میں دیس والوں کو جینے کا حق نہیں ملتا، ماں باپ کی موجودگی میں ان کے بچے یتیموں کی طرح پلتے ہیں، جرم بے گناہی میں ان کی آزادی سلب کر لی جاتی ،کسی وجہ سے جینے کا حق تک ان سے چھین لیا جاتا ہے یا روزگار کے امکانات ان سے دور کر دیے جاتے ہیں تو جو پبتا ان پر ٹوٹتی ہے، اس میں وہ جو بھی کر گزریں، اعتراض مشکل ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کا جملہ یاد آتا ہے جو کہا کرتے تھے کہ حب الوطنی غیر مشروط نہیں ہوتی۔تو بات یہ ہے کہ سروسز فراہم کرنے والے ادارے بجلی اور گیس جیسی سہولتوں کی فراہمی کے نالائق ادارے اگر لوگوں کا جینا حرام کردیں ، بچوں کی فیس یا بوڑھے والدین کے علاج کے لیے جمع پونجی یوں لے اڑیں تولوگوں کے دل پر کیا گزرے گی؟ ہمارے ہم وطن ان دنوں ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں اور بے بسی محسوس کرتے ہیں۔یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ان دنوں سب سے زیادہ شکائیتیں ایسے ہی مسائل کی ہیں۔بے بسی کے اس عالم میں وفاقی محتسب جیسا ریاست کا کوئی ادارہ اگر ان کی داد رسی کررہا ہے تو یہ بہت بڑی خدمت ہے کیوں کہ ریاست کے بڑے بڑے مسائل میں لوگوں کے یہ چھوٹے چھوٹے کام ہی عام آدمی کا رشتہ ریاست کے ساتھ مضبوط کرتے ہیں۔وفاقی محتسب کم سن بچوں کے مسائل پر بھی توجہ دے رہے ہیں، یہ خدمت تو صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی جو آنے والے نسلوں کو محرومی کے اندھیرے سے نکال کر امید اور روشنی کی طرف گامزن کر دے گی۔ میں پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس رپورٹ کے مطالعے کا موقع فراہم کرکے میرے لیے امید کے دیے روشن کیے۔
یہ کالم روزنامہ “ایکسپریس” پر بھی شائع ہوا۔
کراچی میں ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب صبح و شام فرشتہ ¿اجل کے قدموں کی چاپ سنائی دیا کرتی تھی۔ آپ موٹر سائیکل پھٹپھٹاتے ہوئے لائینز ایریا یا جیکب لائن پہنچے، اطمینان کا سانس ابھی لیا نہیں کہ فائرنگ شروع ہو گئی اور آپ کولینے کے دینے پڑ گئے۔ ایسی کی کوئی افتاد تھی کہ مجھے اپنا موٹر سائیکل وہیں چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ جیسے تیسے دفتر پہنچا اور سوچا کہ آج تو کمال ہو گیا، آنکھوں دیکھی ایک ایسی کہانی قلم بند ہوگی کہ لوگ برسوں یاد رکھیں گے۔ اس زمانے میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور آفاق احمد کی ایم کیو ایم حقیقی کے درمیان اس طرح کے مقابلے عام تھے جن میں ان کے متعلقین بھی کام آتے لیکن اکثر راہ چلتے لوگ بھی، حتیٰ کہ بچے اور خواتین بھی نشانہ بن جایا کرتیں۔ اس شوٹ آو¿ٹ کی ”حکمت“ یہ بیان فرمائی گئی تھی کہ دومسلح گروپوں کو باہم متصادم کردیا گیا ہے، اب خیر ہی خیر ہے، کراچی میں امن کا راج ہوگا اور اس کی رونقیں بحال ہو جائیں گی۔ کوئی ایسی ہی افتاد تھی جس سے جان بچا کر نکلا ،دفتر پہنچ کراوسان بحال کیے ،پیڈ سنبھال کر لکھنے کے لیے ذہن بنانا ابھی شروع کیا ہی تھا کہ ایک صاحب ہانپتے کانپتے دفتر میں داخل ہوئے۔ ہیئت کذائی دیکھ کر انھیں پانی پیش کیا جیسے ہی ان کے اوسان بحال ہوئے، انھوں نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ میری جانب دیکھا اور سوال کیا، میرا کیا قصور تھا؟ انداز ایسا تھا جیسے ان کے سارے دکھوں اور مسائل کا ذمے دار ان ہی کا مخاطب ہے۔ حیرت سے میں نے ان کی جانب دیکھا اور نرمی سے پوچھا کہ آپ کا مسئلہ میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا۔ یہ بات سن کر وہ لحظہ خاموش ہوئے، پانی کا ایک گلاس اور پیا اور اس بار نرمی سے بات چھیڑی لیکن جیسے جیسے بات آگے بڑھتی گئی، ان کی تلخی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
حاصل بزنجو، اسیر آرزوئے جمہوریت
اردو گاہ کی دیواروں تلے جلال صوئیدان سے باتیں
وہ صاحب کبھی کراچی کے صاحبان ثروت کی بستی نارتھ ناظم آباد میںدرمیانے درجے کے تاجر تھے۔ زندگی اچھی بھلی گزر رہی تھی کہ شہر کے حالات بگڑ گئے۔حالات کا یہ بگاڑ ایسا تھا کہ کیا امیر کیا غریب، سب ہی اس کی لپیٹ میں آگئے ۔شاید ان کی دوکان کے آس پاس کوئی قتل ہو گیا تھا اور پولیس انھیں بات چیت کرنے کے بہانے اٹھاکر لے گئی تھی۔ چند منٹ کی یہ گواہی یا پوچھ گچھ برسوں پر پھیل گئی۔ پہلے کچھ دن وہ تھانے میں بند رکھے گئے پھر جیل میں بند کرد یے گئے۔بعد میں جب مشاہدے اور تجربے میں اضافہ ہو ا تومیںنے یہ جانا کہ ان جیسے سفید پوش پولیس کے غضب کا نشانہ بن کر زندگیاں تباہ کر بیٹھتے ہیں لیکن یہ بیان اتنا بھی سادہ نہیں۔ کسی مقام پر کوئی واقعہ رونما ہوجائے یاملک کے کسی حصے یا ایئر پورٹ جیسے اہم مقام پر کوئی دہشت گردی ہو جائے، ایسے میں پولیس کو یہ ذمہ داری تفویض کردی جاتی ہے یا وہ خود کو اس مکلف ٹھہرا کر گرفتاریاں ڈالنے لگتی ہے، ایسی شام کو ایک پریس ریلیز جاری ہوتا ہے جس میں خبر دی جاتی ہے کہ پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائی کر کے دو سو، تین سو یا چار سو دہشت گردوں کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کردیا ہے۔ اس روز بھی پولیس پر کوئی ایسی آزمائش ہی آئی ہوگی کہ اس شخص کا نام ایک طویل فہرست میں شامل کر کے اسے حوالہ زنداں کر دیا گیا۔
کھاتے پیتے لوگوں کا جیل جانابھی ایک طرح کی تفریح اور پکنک ہوتی ہے۔ کوئی پندرہ بیس برس ہوتے ہی، ڈیرہ اللہ یار میں ایک جاننے والے زمیندار کسی سیاسی انتقام کے چکر میں جیل میں بند کر دیے گئے۔ان سے ملنا بھی ایک تجربہ تھا۔ کوٹھڑی میں اگرچہ وہ زمین پر ہی سویا کرتے تھے لیکن اس مختصر سی کوٹھڑی میں زندگی کی آسائش کا تمام سامان موجود تھا۔ان سے رخصت لی تو وہ ہمیں چھوڑنے باہر گاڑی تک آگئے۔ جیل کا گیٹ کھولنے سے پہلے سنتری تقریباً رقوع میں جاکر ان کے اعزاز میںکورنش بجا لایا۔ایسی زندگی اور ایسی جیل کے بھی اپنے مزے ہیں لیکن گہری سانولی رنگت والے اس شخص جس کانام سلیم الدین یا شاید اور کچھ تھا، ااس جیسے لوگ جیل جاپہنچیں تو ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔
ابھی چند روز ہوتے ہیں جب وفاقی محتسب کے ادارے کی ششماہی رپورٹ کے کچھ حصے پڑھنے کو ملے۔اس طرح کی رپورٹس عام طور پر نہ سمجھ میں آنے والے اعداد و شمار ، پیچیدہ اور تیکنیکی انگریزی کا مرقع ہوتی ہے جسے نہایت نفاست کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ کر کے حکمرانوں کی خدمت میں پیش کردیاجاتا ہے۔قومی زبان میں مرتب کی جانے والی اس سادہ سی رپورٹ کو دیکھا تو برادرم محترم منور اقبال گوندل یاد آگئے۔ گوندل صاحب یاروں کے یار ہیں اور اپنی یادیں ایسے دل نشیں انداز میں بیان کیا کرتے ہیں کہ ہر واقعہ ایک سبق آموز کہانی بن جاتا ہے۔ انھوں نے ایک بار بتایا تھا کہ عین ان دنوں جب آتش جواں تھا، وہ کسی مسئلے سے دوچار ہوئے اور شاید ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوئے۔یہ ان زمانوں کی بات ہے جب ڈپٹی صاحبان صرف انتظامی افسر نہیں ہوا کرتے تھے، انصاف کی کرسی پر جلوہ افروز ہوکر اپنی سمجھ بوجھ یا سفارش کی پرچیوں کے زور پر انصاف فرمایا کرتے تھے ۔گوندل صاحب کی یاداشت میں یہ واقعہ آج بھی کل کی طرح تازہ ہے کہ جس عدالت سے ان کا پالا پڑا، اس کا انداز ہی مختلف تھا۔ انصاف کی کرسی پر اکڑی ہوئی گردن والا کوئی صاحب بہادر نہیں بلکہ دکھی، بے آسرا، بے زباں اور ہتھ کڑیوں میں جکڑے خاک زادوں سے خود مخاطب ہو نے والا ایک دھیما سا آدمی بیٹھا تھاجو انصاف کی بلٹ ٹرین پر بیٹھ کر فراٹے بھرنے کے بجائے سکون کے ساتھ مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتااور اطمینان ہو جاتا تو فیصلہ سنا دیتا۔ منور گوندل کا مسئلہ بھی شاید زور آوروں کے زور پر ہاتھ سے نکل چکا تھا کہ ایک صاحب درد کے ہاتھوں زور آوروں کی ساری زور آوری کے باوجود انجام کو پہنچا اور حق دار کو اس کا حق ملا۔”ہمارے صاحبان انصاف اگر ایسے ہو جائیں تو ہمارے ملک کے دکھ درد دور نہ ہوجائیں؟ “ ۔ یہ رپورٹ اسی ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ سے نکلی ہے جس کے کاندھوں پر ان دنوں وفاقی محتسب کی ذمہ داری ہے، میری مراد سید طاہر شہباز سے ہے۔ یہ رپورٹ میں نے دیکھی اور منور گوندل کے برسو ں پرانے جملے کو یاد کیا کیوں کہ اس رپورٹ کا سبب سے بڑا نکتہ وہ تقریباً ایک ہزار افراد تھے جو کراچی کے سلیم الدین کی طرح جیل کی دیواروں کے پیچھے جا پہنچے تھے لیکن خوش قسمتی سے وفاقی محتسب کے نوٹس میں آگئے اور انھیں آزادی کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے سانس لینے کا حق مل گیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو سلیم الرحمن کی طرح پہلے کسی کا کاروبار تباہ ہوتایا کسی کی بیوی بیمار ہو کر مر جاتی اور بچے آسرا ہو کر عبد الستا ایدھی کے سائے میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے۔
ایام نوجوانی میں وہ پہلی بار تھی جب میری سمجھ میں یہ آیا کہ ہمارے خوابوں کے دیس یعنی پاکستان میں لوگ ملک سے بے زار کیسے ہوتے ہیں؟ وہ اپنے ملک کو اپنا ملک کیوں نہیں سمجھتے، گھر کی چار دیواری کے اندر اپنی ذاتی چیزوں کی طرح پاکستان کی سڑکوں ، عمارتوں ، گلی کوچوں اور املاک کو اپنی املاک کیوں نہیں سمجھتے۔ایسا تب ہوتا ہے جب اپنے دیس میں دیس والوں کو جینے کا حق نہیں ملتا، ماں باپ کی موجودگی میں ان کے بچے یتیموں کی طرح پلتے ہیں، جرم بے گناہی میں ان کی آزادی سلب کر لی جاتی ،کسی وجہ سے جینے کا حق تک ان سے چھین لیا جاتا ہے یا روزگار کے امکانات ان سے دور کر دیے جاتے ہیں تو جو پبتا ان پر ٹوٹتی ہے، اس میں وہ جو بھی کر گزریں، اعتراض مشکل ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کا جملہ یاد آتا ہے جو کہا کرتے تھے کہ حب الوطنی غیر مشروط نہیں ہوتی۔تو بات یہ ہے کہ سروسز فراہم کرنے والے ادارے بجلی اور گیس جیسی سہولتوں کی فراہمی کے نالائق ادارے اگر لوگوں کا جینا حرام کردیں ، بچوں کی فیس یا بوڑھے والدین کے علاج کے لیے جمع پونجی یوں لے اڑیں تولوگوں کے دل پر کیا گزرے گی؟ ہمارے ہم وطن ان دنوں ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں اور بے بسی محسوس کرتے ہیں۔یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ان دنوں سب سے زیادہ شکائیتیں ایسے ہی مسائل کی ہیں۔بے بسی کے اس عالم میں وفاقی محتسب جیسا ریاست کا کوئی ادارہ اگر ان کی داد رسی کررہا ہے تو یہ بہت بڑی خدمت ہے کیوں کہ ریاست کے بڑے بڑے مسائل میں لوگوں کے یہ چھوٹے چھوٹے کام ہی عام آدمی کا رشتہ ریاست کے ساتھ مضبوط کرتے ہیں۔وفاقی محتسب کم سن بچوں کے مسائل پر بھی توجہ دے رہے ہیں، یہ خدمت تو صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی جو آنے والے نسلوں کو محرومی کے اندھیرے سے نکال کر امید اور روشنی کی طرف گامزن کر دے گی۔ میں پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس رپورٹ کے مطالعے کا موقع فراہم کرکے میرے لیے امید کے دیے روشن کیے۔
یہ کالم روزنامہ “ایکسپریس” پر بھی شائع ہوا۔
کراچی میں ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب صبح و شام فرشتہ ¿اجل کے قدموں کی چاپ سنائی دیا کرتی تھی۔ آپ موٹر سائیکل پھٹپھٹاتے ہوئے لائینز ایریا یا جیکب لائن پہنچے، اطمینان کا سانس ابھی لیا نہیں کہ فائرنگ شروع ہو گئی اور آپ کولینے کے دینے پڑ گئے۔ ایسی کی کوئی افتاد تھی کہ مجھے اپنا موٹر سائیکل وہیں چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ جیسے تیسے دفتر پہنچا اور سوچا کہ آج تو کمال ہو گیا، آنکھوں دیکھی ایک ایسی کہانی قلم بند ہوگی کہ لوگ برسوں یاد رکھیں گے۔ اس زمانے میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور آفاق احمد کی ایم کیو ایم حقیقی کے درمیان اس طرح کے مقابلے عام تھے جن میں ان کے متعلقین بھی کام آتے لیکن اکثر راہ چلتے لوگ بھی، حتیٰ کہ بچے اور خواتین بھی نشانہ بن جایا کرتیں۔ اس شوٹ آو¿ٹ کی ”حکمت“ یہ بیان فرمائی گئی تھی کہ دومسلح گروپوں کو باہم متصادم کردیا گیا ہے، اب خیر ہی خیر ہے، کراچی میں امن کا راج ہوگا اور اس کی رونقیں بحال ہو جائیں گی۔ کوئی ایسی ہی افتاد تھی جس سے جان بچا کر نکلا ،دفتر پہنچ کراوسان بحال کیے ،پیڈ سنبھال کر لکھنے کے لیے ذہن بنانا ابھی شروع کیا ہی تھا کہ ایک صاحب ہانپتے کانپتے دفتر میں داخل ہوئے۔ ہیئت کذائی دیکھ کر انھیں پانی پیش کیا جیسے ہی ان کے اوسان بحال ہوئے، انھوں نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ میری جانب دیکھا اور سوال کیا، میرا کیا قصور تھا؟ انداز ایسا تھا جیسے ان کے سارے دکھوں اور مسائل کا ذمے دار ان ہی کا مخاطب ہے۔ حیرت سے میں نے ان کی جانب دیکھا اور نرمی سے پوچھا کہ آپ کا مسئلہ میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا۔ یہ بات سن کر وہ لحظہ خاموش ہوئے، پانی کا ایک گلاس اور پیا اور اس بار نرمی سے بات چھیڑی لیکن جیسے جیسے بات آگے بڑھتی گئی، ان کی تلخی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
حاصل بزنجو، اسیر آرزوئے جمہوریت
اردو گاہ کی دیواروں تلے جلال صوئیدان سے باتیں
وہ صاحب کبھی کراچی کے صاحبان ثروت کی بستی نارتھ ناظم آباد میںدرمیانے درجے کے تاجر تھے۔ زندگی اچھی بھلی گزر رہی تھی کہ شہر کے حالات بگڑ گئے۔حالات کا یہ بگاڑ ایسا تھا کہ کیا امیر کیا غریب، سب ہی اس کی لپیٹ میں آگئے ۔شاید ان کی دوکان کے آس پاس کوئی قتل ہو گیا تھا اور پولیس انھیں بات چیت کرنے کے بہانے اٹھاکر لے گئی تھی۔ چند منٹ کی یہ گواہی یا پوچھ گچھ برسوں پر پھیل گئی۔ پہلے کچھ دن وہ تھانے میں بند رکھے گئے پھر جیل میں بند کرد یے گئے۔بعد میں جب مشاہدے اور تجربے میں اضافہ ہو ا تومیںنے یہ جانا کہ ان جیسے سفید پوش پولیس کے غضب کا نشانہ بن کر زندگیاں تباہ کر بیٹھتے ہیں لیکن یہ بیان اتنا بھی سادہ نہیں۔ کسی مقام پر کوئی واقعہ رونما ہوجائے یاملک کے کسی حصے یا ایئر پورٹ جیسے اہم مقام پر کوئی دہشت گردی ہو جائے، ایسے میں پولیس کو یہ ذمہ داری تفویض کردی جاتی ہے یا وہ خود کو اس مکلف ٹھہرا کر گرفتاریاں ڈالنے لگتی ہے، ایسی شام کو ایک پریس ریلیز جاری ہوتا ہے جس میں خبر دی جاتی ہے کہ پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائی کر کے دو سو، تین سو یا چار سو دہشت گردوں کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کردیا ہے۔ اس روز بھی پولیس پر کوئی ایسی آزمائش ہی آئی ہوگی کہ اس شخص کا نام ایک طویل فہرست میں شامل کر کے اسے حوالہ زنداں کر دیا گیا۔
کھاتے پیتے لوگوں کا جیل جانابھی ایک طرح کی تفریح اور پکنک ہوتی ہے۔ کوئی پندرہ بیس برس ہوتے ہی، ڈیرہ اللہ یار میں ایک جاننے والے زمیندار کسی سیاسی انتقام کے چکر میں جیل میں بند کر دیے گئے۔ان سے ملنا بھی ایک تجربہ تھا۔ کوٹھڑی میں اگرچہ وہ زمین پر ہی سویا کرتے تھے لیکن اس مختصر سی کوٹھڑی میں زندگی کی آسائش کا تمام سامان موجود تھا۔ان سے رخصت لی تو وہ ہمیں چھوڑنے باہر گاڑی تک آگئے۔ جیل کا گیٹ کھولنے سے پہلے سنتری تقریباً رقوع میں جاکر ان کے اعزاز میںکورنش بجا لایا۔ایسی زندگی اور ایسی جیل کے بھی اپنے مزے ہیں لیکن گہری سانولی رنگت والے اس شخص جس کانام سلیم الدین یا شاید اور کچھ تھا، ااس جیسے لوگ جیل جاپہنچیں تو ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔
ابھی چند روز ہوتے ہیں جب وفاقی محتسب کے ادارے کی ششماہی رپورٹ کے کچھ حصے پڑھنے کو ملے۔اس طرح کی رپورٹس عام طور پر نہ سمجھ میں آنے والے اعداد و شمار ، پیچیدہ اور تیکنیکی انگریزی کا مرقع ہوتی ہے جسے نہایت نفاست کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ کر کے حکمرانوں کی خدمت میں پیش کردیاجاتا ہے۔قومی زبان میں مرتب کی جانے والی اس سادہ سی رپورٹ کو دیکھا تو برادرم محترم منور اقبال گوندل یاد آگئے۔ گوندل صاحب یاروں کے یار ہیں اور اپنی یادیں ایسے دل نشیں انداز میں بیان کیا کرتے ہیں کہ ہر واقعہ ایک سبق آموز کہانی بن جاتا ہے۔ انھوں نے ایک بار بتایا تھا کہ عین ان دنوں جب آتش جواں تھا، وہ کسی مسئلے سے دوچار ہوئے اور شاید ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوئے۔یہ ان زمانوں کی بات ہے جب ڈپٹی صاحبان صرف انتظامی افسر نہیں ہوا کرتے تھے، انصاف کی کرسی پر جلوہ افروز ہوکر اپنی سمجھ بوجھ یا سفارش کی پرچیوں کے زور پر انصاف فرمایا کرتے تھے ۔گوندل صاحب کی یاداشت میں یہ واقعہ آج بھی کل کی طرح تازہ ہے کہ جس عدالت سے ان کا پالا پڑا، اس کا انداز ہی مختلف تھا۔ انصاف کی کرسی پر اکڑی ہوئی گردن والا کوئی صاحب بہادر نہیں بلکہ دکھی، بے آسرا، بے زباں اور ہتھ کڑیوں میں جکڑے خاک زادوں سے خود مخاطب ہو نے والا ایک دھیما سا آدمی بیٹھا تھاجو انصاف کی بلٹ ٹرین پر بیٹھ کر فراٹے بھرنے کے بجائے سکون کے ساتھ مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتااور اطمینان ہو جاتا تو فیصلہ سنا دیتا۔ منور گوندل کا مسئلہ بھی شاید زور آوروں کے زور پر ہاتھ سے نکل چکا تھا کہ ایک صاحب درد کے ہاتھوں زور آوروں کی ساری زور آوری کے باوجود انجام کو پہنچا اور حق دار کو اس کا حق ملا۔”ہمارے صاحبان انصاف اگر ایسے ہو جائیں تو ہمارے ملک کے دکھ درد دور نہ ہوجائیں؟ “ ۔ یہ رپورٹ اسی ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ سے نکلی ہے جس کے کاندھوں پر ان دنوں وفاقی محتسب کی ذمہ داری ہے، میری مراد سید طاہر شہباز سے ہے۔ یہ رپورٹ میں نے دیکھی اور منور گوندل کے برسو ں پرانے جملے کو یاد کیا کیوں کہ اس رپورٹ کا سبب سے بڑا نکتہ وہ تقریباً ایک ہزار افراد تھے جو کراچی کے سلیم الدین کی طرح جیل کی دیواروں کے پیچھے جا پہنچے تھے لیکن خوش قسمتی سے وفاقی محتسب کے نوٹس میں آگئے اور انھیں آزادی کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے سانس لینے کا حق مل گیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو سلیم الرحمن کی طرح پہلے کسی کا کاروبار تباہ ہوتایا کسی کی بیوی بیمار ہو کر مر جاتی اور بچے آسرا ہو کر عبد الستا ایدھی کے سائے میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے۔
ایام نوجوانی میں وہ پہلی بار تھی جب میری سمجھ میں یہ آیا کہ ہمارے خوابوں کے دیس یعنی پاکستان میں لوگ ملک سے بے زار کیسے ہوتے ہیں؟ وہ اپنے ملک کو اپنا ملک کیوں نہیں سمجھتے، گھر کی چار دیواری کے اندر اپنی ذاتی چیزوں کی طرح پاکستان کی سڑکوں ، عمارتوں ، گلی کوچوں اور املاک کو اپنی املاک کیوں نہیں سمجھتے۔ایسا تب ہوتا ہے جب اپنے دیس میں دیس والوں کو جینے کا حق نہیں ملتا، ماں باپ کی موجودگی میں ان کے بچے یتیموں کی طرح پلتے ہیں، جرم بے گناہی میں ان کی آزادی سلب کر لی جاتی ،کسی وجہ سے جینے کا حق تک ان سے چھین لیا جاتا ہے یا روزگار کے امکانات ان سے دور کر دیے جاتے ہیں تو جو پبتا ان پر ٹوٹتی ہے، اس میں وہ جو بھی کر گزریں، اعتراض مشکل ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کا جملہ یاد آتا ہے جو کہا کرتے تھے کہ حب الوطنی غیر مشروط نہیں ہوتی۔تو بات یہ ہے کہ سروسز فراہم کرنے والے ادارے بجلی اور گیس جیسی سہولتوں کی فراہمی کے نالائق ادارے اگر لوگوں کا جینا حرام کردیں ، بچوں کی فیس یا بوڑھے والدین کے علاج کے لیے جمع پونجی یوں لے اڑیں تولوگوں کے دل پر کیا گزرے گی؟ ہمارے ہم وطن ان دنوں ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں اور بے بسی محسوس کرتے ہیں۔یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ان دنوں سب سے زیادہ شکائیتیں ایسے ہی مسائل کی ہیں۔بے بسی کے اس عالم میں وفاقی محتسب جیسا ریاست کا کوئی ادارہ اگر ان کی داد رسی کررہا ہے تو یہ بہت بڑی خدمت ہے کیوں کہ ریاست کے بڑے بڑے مسائل میں لوگوں کے یہ چھوٹے چھوٹے کام ہی عام آدمی کا رشتہ ریاست کے ساتھ مضبوط کرتے ہیں۔وفاقی محتسب کم سن بچوں کے مسائل پر بھی توجہ دے رہے ہیں، یہ خدمت تو صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی جو آنے والے نسلوں کو محرومی کے اندھیرے سے نکال کر امید اور روشنی کی طرف گامزن کر دے گی۔ میں پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس رپورٹ کے مطالعے کا موقع فراہم کرکے میرے لیے امید کے دیے روشن کیے۔
یہ کالم روزنامہ “ایکسپریس” پر بھی شائع ہوا۔
کراچی میں ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب صبح و شام فرشتہ ¿اجل کے قدموں کی چاپ سنائی دیا کرتی تھی۔ آپ موٹر سائیکل پھٹپھٹاتے ہوئے لائینز ایریا یا جیکب لائن پہنچے، اطمینان کا سانس ابھی لیا نہیں کہ فائرنگ شروع ہو گئی اور آپ کولینے کے دینے پڑ گئے۔ ایسی کی کوئی افتاد تھی کہ مجھے اپنا موٹر سائیکل وہیں چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ جیسے تیسے دفتر پہنچا اور سوچا کہ آج تو کمال ہو گیا، آنکھوں دیکھی ایک ایسی کہانی قلم بند ہوگی کہ لوگ برسوں یاد رکھیں گے۔ اس زمانے میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور آفاق احمد کی ایم کیو ایم حقیقی کے درمیان اس طرح کے مقابلے عام تھے جن میں ان کے متعلقین بھی کام آتے لیکن اکثر راہ چلتے لوگ بھی، حتیٰ کہ بچے اور خواتین بھی نشانہ بن جایا کرتیں۔ اس شوٹ آو¿ٹ کی ”حکمت“ یہ بیان فرمائی گئی تھی کہ دومسلح گروپوں کو باہم متصادم کردیا گیا ہے، اب خیر ہی خیر ہے، کراچی میں امن کا راج ہوگا اور اس کی رونقیں بحال ہو جائیں گی۔ کوئی ایسی ہی افتاد تھی جس سے جان بچا کر نکلا ،دفتر پہنچ کراوسان بحال کیے ،پیڈ سنبھال کر لکھنے کے لیے ذہن بنانا ابھی شروع کیا ہی تھا کہ ایک صاحب ہانپتے کانپتے دفتر میں داخل ہوئے۔ ہیئت کذائی دیکھ کر انھیں پانی پیش کیا جیسے ہی ان کے اوسان بحال ہوئے، انھوں نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ میری جانب دیکھا اور سوال کیا، میرا کیا قصور تھا؟ انداز ایسا تھا جیسے ان کے سارے دکھوں اور مسائل کا ذمے دار ان ہی کا مخاطب ہے۔ حیرت سے میں نے ان کی جانب دیکھا اور نرمی سے پوچھا کہ آپ کا مسئلہ میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا۔ یہ بات سن کر وہ لحظہ خاموش ہوئے، پانی کا ایک گلاس اور پیا اور اس بار نرمی سے بات چھیڑی لیکن جیسے جیسے بات آگے بڑھتی گئی، ان کی تلخی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
حاصل بزنجو، اسیر آرزوئے جمہوریت
اردو گاہ کی دیواروں تلے جلال صوئیدان سے باتیں
وہ صاحب کبھی کراچی کے صاحبان ثروت کی بستی نارتھ ناظم آباد میںدرمیانے درجے کے تاجر تھے۔ زندگی اچھی بھلی گزر رہی تھی کہ شہر کے حالات بگڑ گئے۔حالات کا یہ بگاڑ ایسا تھا کہ کیا امیر کیا غریب، سب ہی اس کی لپیٹ میں آگئے ۔شاید ان کی دوکان کے آس پاس کوئی قتل ہو گیا تھا اور پولیس انھیں بات چیت کرنے کے بہانے اٹھاکر لے گئی تھی۔ چند منٹ کی یہ گواہی یا پوچھ گچھ برسوں پر پھیل گئی۔ پہلے کچھ دن وہ تھانے میں بند رکھے گئے پھر جیل میں بند کرد یے گئے۔بعد میں جب مشاہدے اور تجربے میں اضافہ ہو ا تومیںنے یہ جانا کہ ان جیسے سفید پوش پولیس کے غضب کا نشانہ بن کر زندگیاں تباہ کر بیٹھتے ہیں لیکن یہ بیان اتنا بھی سادہ نہیں۔ کسی مقام پر کوئی واقعہ رونما ہوجائے یاملک کے کسی حصے یا ایئر پورٹ جیسے اہم مقام پر کوئی دہشت گردی ہو جائے، ایسے میں پولیس کو یہ ذمہ داری تفویض کردی جاتی ہے یا وہ خود کو اس مکلف ٹھہرا کر گرفتاریاں ڈالنے لگتی ہے، ایسی شام کو ایک پریس ریلیز جاری ہوتا ہے جس میں خبر دی جاتی ہے کہ پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائی کر کے دو سو، تین سو یا چار سو دہشت گردوں کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کردیا ہے۔ اس روز بھی پولیس پر کوئی ایسی آزمائش ہی آئی ہوگی کہ اس شخص کا نام ایک طویل فہرست میں شامل کر کے اسے حوالہ زنداں کر دیا گیا۔
کھاتے پیتے لوگوں کا جیل جانابھی ایک طرح کی تفریح اور پکنک ہوتی ہے۔ کوئی پندرہ بیس برس ہوتے ہی، ڈیرہ اللہ یار میں ایک جاننے والے زمیندار کسی سیاسی انتقام کے چکر میں جیل میں بند کر دیے گئے۔ان سے ملنا بھی ایک تجربہ تھا۔ کوٹھڑی میں اگرچہ وہ زمین پر ہی سویا کرتے تھے لیکن اس مختصر سی کوٹھڑی میں زندگی کی آسائش کا تمام سامان موجود تھا۔ان سے رخصت لی تو وہ ہمیں چھوڑنے باہر گاڑی تک آگئے۔ جیل کا گیٹ کھولنے سے پہلے سنتری تقریباً رقوع میں جاکر ان کے اعزاز میںکورنش بجا لایا۔ایسی زندگی اور ایسی جیل کے بھی اپنے مزے ہیں لیکن گہری سانولی رنگت والے اس شخص جس کانام سلیم الدین یا شاید اور کچھ تھا، ااس جیسے لوگ جیل جاپہنچیں تو ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔
ابھی چند روز ہوتے ہیں جب وفاقی محتسب کے ادارے کی ششماہی رپورٹ کے کچھ حصے پڑھنے کو ملے۔اس طرح کی رپورٹس عام طور پر نہ سمجھ میں آنے والے اعداد و شمار ، پیچیدہ اور تیکنیکی انگریزی کا مرقع ہوتی ہے جسے نہایت نفاست کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ کر کے حکمرانوں کی خدمت میں پیش کردیاجاتا ہے۔قومی زبان میں مرتب کی جانے والی اس سادہ سی رپورٹ کو دیکھا تو برادرم محترم منور اقبال گوندل یاد آگئے۔ گوندل صاحب یاروں کے یار ہیں اور اپنی یادیں ایسے دل نشیں انداز میں بیان کیا کرتے ہیں کہ ہر واقعہ ایک سبق آموز کہانی بن جاتا ہے۔ انھوں نے ایک بار بتایا تھا کہ عین ان دنوں جب آتش جواں تھا، وہ کسی مسئلے سے دوچار ہوئے اور شاید ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوئے۔یہ ان زمانوں کی بات ہے جب ڈپٹی صاحبان صرف انتظامی افسر نہیں ہوا کرتے تھے، انصاف کی کرسی پر جلوہ افروز ہوکر اپنی سمجھ بوجھ یا سفارش کی پرچیوں کے زور پر انصاف فرمایا کرتے تھے ۔گوندل صاحب کی یاداشت میں یہ واقعہ آج بھی کل کی طرح تازہ ہے کہ جس عدالت سے ان کا پالا پڑا، اس کا انداز ہی مختلف تھا۔ انصاف کی کرسی پر اکڑی ہوئی گردن والا کوئی صاحب بہادر نہیں بلکہ دکھی، بے آسرا، بے زباں اور ہتھ کڑیوں میں جکڑے خاک زادوں سے خود مخاطب ہو نے والا ایک دھیما سا آدمی بیٹھا تھاجو انصاف کی بلٹ ٹرین پر بیٹھ کر فراٹے بھرنے کے بجائے سکون کے ساتھ مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتااور اطمینان ہو جاتا تو فیصلہ سنا دیتا۔ منور گوندل کا مسئلہ بھی شاید زور آوروں کے زور پر ہاتھ سے نکل چکا تھا کہ ایک صاحب درد کے ہاتھوں زور آوروں کی ساری زور آوری کے باوجود انجام کو پہنچا اور حق دار کو اس کا حق ملا۔”ہمارے صاحبان انصاف اگر ایسے ہو جائیں تو ہمارے ملک کے دکھ درد دور نہ ہوجائیں؟ “ ۔ یہ رپورٹ اسی ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ سے نکلی ہے جس کے کاندھوں پر ان دنوں وفاقی محتسب کی ذمہ داری ہے، میری مراد سید طاہر شہباز سے ہے۔ یہ رپورٹ میں نے دیکھی اور منور گوندل کے برسو ں پرانے جملے کو یاد کیا کیوں کہ اس رپورٹ کا سبب سے بڑا نکتہ وہ تقریباً ایک ہزار افراد تھے جو کراچی کے سلیم الدین کی طرح جیل کی دیواروں کے پیچھے جا پہنچے تھے لیکن خوش قسمتی سے وفاقی محتسب کے نوٹس میں آگئے اور انھیں آزادی کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے سانس لینے کا حق مل گیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو سلیم الرحمن کی طرح پہلے کسی کا کاروبار تباہ ہوتایا کسی کی بیوی بیمار ہو کر مر جاتی اور بچے آسرا ہو کر عبد الستا ایدھی کے سائے میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے۔
ایام نوجوانی میں وہ پہلی بار تھی جب میری سمجھ میں یہ آیا کہ ہمارے خوابوں کے دیس یعنی پاکستان میں لوگ ملک سے بے زار کیسے ہوتے ہیں؟ وہ اپنے ملک کو اپنا ملک کیوں نہیں سمجھتے، گھر کی چار دیواری کے اندر اپنی ذاتی چیزوں کی طرح پاکستان کی سڑکوں ، عمارتوں ، گلی کوچوں اور املاک کو اپنی املاک کیوں نہیں سمجھتے۔ایسا تب ہوتا ہے جب اپنے دیس میں دیس والوں کو جینے کا حق نہیں ملتا، ماں باپ کی موجودگی میں ان کے بچے یتیموں کی طرح پلتے ہیں، جرم بے گناہی میں ان کی آزادی سلب کر لی جاتی ،کسی وجہ سے جینے کا حق تک ان سے چھین لیا جاتا ہے یا روزگار کے امکانات ان سے دور کر دیے جاتے ہیں تو جو پبتا ان پر ٹوٹتی ہے، اس میں وہ جو بھی کر گزریں، اعتراض مشکل ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کا جملہ یاد آتا ہے جو کہا کرتے تھے کہ حب الوطنی غیر مشروط نہیں ہوتی۔تو بات یہ ہے کہ سروسز فراہم کرنے والے ادارے بجلی اور گیس جیسی سہولتوں کی فراہمی کے نالائق ادارے اگر لوگوں کا جینا حرام کردیں ، بچوں کی فیس یا بوڑھے والدین کے علاج کے لیے جمع پونجی یوں لے اڑیں تولوگوں کے دل پر کیا گزرے گی؟ ہمارے ہم وطن ان دنوں ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں اور بے بسی محسوس کرتے ہیں۔یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ان دنوں سب سے زیادہ شکائیتیں ایسے ہی مسائل کی ہیں۔بے بسی کے اس عالم میں وفاقی محتسب جیسا ریاست کا کوئی ادارہ اگر ان کی داد رسی کررہا ہے تو یہ بہت بڑی خدمت ہے کیوں کہ ریاست کے بڑے بڑے مسائل میں لوگوں کے یہ چھوٹے چھوٹے کام ہی عام آدمی کا رشتہ ریاست کے ساتھ مضبوط کرتے ہیں۔وفاقی محتسب کم سن بچوں کے مسائل پر بھی توجہ دے رہے ہیں، یہ خدمت تو صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی جو آنے والے نسلوں کو محرومی کے اندھیرے سے نکال کر امید اور روشنی کی طرف گامزن کر دے گی۔ میں پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس رپورٹ کے مطالعے کا موقع فراہم کرکے میرے لیے امید کے دیے روشن کیے۔
یہ کالم روزنامہ “ایکسپریس” پر بھی شائع ہوا۔