فقیر ایپی، آزادی کا مجاہد، غدار اور ہیرو

فقیر ایپی، تاریخ کا ایک گم شدہ کردار، آزادی کی منزل پانے کے لیے جس کا کردار اہم لیکن پاکستان کے اندر پختونستان کی ریاست بھی اسی نے بنائی

ADVERTISEMENT

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون سے سرینگر ہائی وے کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع آئی جے پی روڈ سے ملانے والی اُداس سی رابطہ سڑک کے آغاز پر ایک بورڈ نصب ہے جس کے ذریعے اطلاع دی گئی ہے کہ اِس سڑک کا نام فقیر ایپی روڈ ہے۔

فقیر ایپی کون تھے، شاید یہ کم ہی لوگ جانتے ہیں۔

ایک پشتون دانشور ڈاکٹر عبد الحئی نے طنزیہ پیرائے میں اِس سوال کا جواب یوں دیا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون تھے؟ پھر گلہ کیا ہے کہ تاریخ میں انھیں اُن کے جائز مقام سے محروم رکھا گیا ہے۔

تاریخ میں جائز مقام کے ملنے یا نہ ملنے کی بحث اپنی جگہ اہم اور دلچسپ ہونے کے ساتھ ایک وسیع پسِ منظر رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود تاریخ اپنے سنجیدہ قاری کو یہ بھی بتاتی ہے کہ بیسویں صدی کے نصف اول میں جب برصغیر کا گوشہ گوشہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا تھا، ایپی فقیر اُس زمانے میں کچھ ایسے غیر معروف بھی نہیں تھے۔

برصغیر کے غیر ملکی حکمراں اُن سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی انتظامات کر رہے تھے کیونکہ برصغیر کو افغانستان سے علیحدہ کرنے کے لیے سنہ 1893 میں وجود میں آنے والی ڈیورنڈ لائن کے اس طرف ایپی فقیر کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے حاجی میرزا علی خان اُن کے لیے ایک ایسے چیلنج کی حیثیت سے ابھرے تھے جس کا علاج آسان نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جرمنی کی نازی تحریک کے بانی ایڈوولف ہٹلر کی سوانح سے شہرت پانے والے معروف چیک مصنف میلان ہانیر لکھتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جو لوگ سلطنتِ برطانیہ کے دشمن کی حیثیت سے اُبھرے، فقیر ایپی اُن میں بے مثل حیثیت رکھتے ہیں۔

اس مصنف نے فقیر ایپی کو ’سلطنت کا تنہا دشمن‘ قرار دے کر اُن کی حربی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

سنہ 1892 تا سنہ 1897 کے دوران شمالی وزیرستان کے ایک بڑے قبیلے اتمان زئی کی ایک شاخ بنگال خیل میں پیدا ہونے والے میرزا علی خان کوئی سیاسی شخصیت تھے اور نہ ان کا کوئی عسکری پس منظر تھا بلکہ وہ ایک عام سی مذہبی شخصیت تھے جو اس زمانے کی روایت کے مطابق دینی تعلیم کے حصول کے بعد بنوں اور رزمک کے درمیان ایپی کے مقام پر ایک مسجد کے پیش امام بنے۔

ایپی

ایپی نامی یہی مقام اُن کے نام کا ایسا حصہ بنا کہ لوگ اُن کا اصل نام تک بھول گئے۔ مؤرخ کے مطابق میرزا علی خان کے ابتدائی حالات زندگی کسی اسرار کی طرح تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہیں۔ ممکن ہے ان کی آئندہ زندگی بھی دنیا کی نگاہوں سے اسی طرح اوجھل رہتی اگر بنوں کے علاقے میں ایک ہندو مسلم اختلاف پیدا نہ ہوتا۔

تاریخی طور پر برصغیر کے اکثر علاقوں میں ان دو مذہبی فرقوں کے درمیان عام طور پر اختلاف کی ایک بڑی وجہ ایسی خواتین رہی ہیں جنھوں نے اسلام قبول کر کے کسی مسلمان سے شادی کر لی۔

عاقل عبید خیلوی کی تصنیف ’تاریخ بنوں‘ کے مطابق یہ سنہ 1936 کا واقعہ ہے جب میوہ رام نامی ایک ہندو کی بیٹی رام کوری (جس کا مسلمان نام اسلام بی بی رکھا گیا) نے اسلام قبول کر کے علاقہ جھنڈو خیل کے رہنے والے امیر نور علی شاہ کے ساتھ نکاح کر لیا۔

بنوں کے بڑے بوڑھے آج بھی اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مذہب کی تبدیلی اور نکاح کے اس واقعے کے بعد دونوں مذہبی فرقوں کے مابین کشیدگی پیدا ہو گئی، جلسے جلوس معمول بن گئے اور مقامی امن و امان تہہ و بالا ہو گیا۔

یوں یہ معاملہ تھانہ کہچری تک پہنچا اور عدالت نے اس نومسلم خاتون کو اس کے ورثا کے حوالے کر دیا۔ ان قبائلی علاقوں کی تاریخ میں یہ واقعہ ایک قسم کی بغاوت کا نکتہ آغاز بن گیا کیونکہ اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں کا خیال تھا کہ اس مقدمے میں انگریز انتظامیہ اور عدالت نے انصاف کے تقاضوں کا خیال رکھنے کے بجائے ہندو اقلیت کا ساتھ دیا ہے۔

یوں مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ فقیر ایپی کی شخصیت اسی واقعے کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آئی۔

ایپی

اسلام بی بی کے واقعے کے بعد جھنڈو خیل کے مقام پر اِرد گرد کے قبائل کی سرکردہ شخصیات کا ایک خفیہ اجلاس منعقد ہوا جس میں انگریز انتظامیہ کو خبردار کیا گیا کہ اگر نومسلم خاتون کو اس کے شوہر کے حوالے نہ کیا گیا تو اُن کے خلاف مسلح جدوجہد کی جائے گی۔

انتظامیہ کی طرف سے مثبت جواب نہ ملنے پر ایپی فقیر نے گرویک نامی مقام کو مرکز بنا کر مسلح تحریک شروع کر دی جس میں ارد گرد کے قبائل بھی شریک ہوگئے لیکن گورویک جانے سے قبل خیسورہ کے مقام پر ہونے والی جنگ کی اہمیت غیر معمولی ہے کیونکہ اس جنگ کے بعد فقیر ایپی دشمن پر اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔

اس جنگ کی بہت سی تفصیلات مقامی اور مغربی مؤرخین کے تاریخی تذکروں میں محفوظ ہیں لیکن پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سینہ بہ سینہ بھی بہت سی روایات چلی آتی ہیں جن کی تصدیق مقامی بزرگ اور ملک کرتے ہیں۔

قبائلی علاقوں کے تاریخی واقعات کے بارے میں لکھنے والے مولانا جہانزیب نے ان جنگوں کا اپنی تحریروں میں ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فقیر ایپی نے دُو بدو جنگ لڑنے کے بجائے خطے کے جغرافیائی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے چھاپہ مار جنگ کا طریقہ اختیار کیا۔

انگریزی فوج کے ساتھ ان کی پہلی لڑائی 25 نومبر 1936 کو ہوئی۔ تین دن تک جاری رہنے والی اس لڑائی کا بنیادی ہدف فقیر ایپی کی گرفتاری تھا لیکن یہ مقصد حاصل نہ ہو سکا۔

مقامی روایت کے مطابق اس لڑائی میں انگریزی فوج کے افسروں سمیت دو سو سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے جن میں میجر ٹینڈال اور کیپٹن بائیڈ بھی شامل تھے۔ دوسرے روز کی لڑائی میں جانی نقصان اس سے بھی زیادہ ہوگیا جب کہ تیسرے روز ہلاکتوں کی تعداد سات سو بھی زائد بتائی جاتی ہے۔

نور

اس کے مقابلے میں فقیر ایپی کے لشکر کو ہونے والے جانی نقصان کی تعداد بہت کم رہی۔ اس جنگ میں مقامی چھاپہ ماروں پر قابو پانے کے لیے فضا سے بمباری بھی کی گئی۔

بتایا جاتا ہے کہ اس جنگ میں ایپی فقیر کے صرف 35 ساتھی مارے گئے تاہم بمباری کی وجہ سے مقامی مسجد شہید ہو گئی اور فقیر کا حجرہ مسمار ہو گیا۔

آئندہ دو برسوں کے دوران ایپی فقیر اور انگریزوں کے مابین مزید کئی جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں انگریز فوج کی طرف سے چونکہ فضائی طاقت کا استعمال بھی کیا جاتا تھا جس سے مقامی آبادی کو نقصان پہنچتا تھا، اس لیے انھوں نے اس علاقے کو چھوڑ کر ڈیورنڈ لائن کے قریب گورویک کے علاقے کو اپنا مرکز بنا لیا۔

یہ ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ تھا جس کی غاروں اور ڈھلوانی چٹانوں نے ایپی فقیر اور ان کے لشکر کو تحفظ فراہم کیا اور اُن کے دشمنوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ گورویک کے مرکز سے ہونے والی لڑائیوں میں ان کی کامیابی نے یہ تاثر مزید پختہ کیا کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں۔

مغربی تذکرہ نگاروں اور اس علاقے میں برطانوی حکومت کی طرف سے مختلف خدمات انجام دینے والے سرکاری اہلکاروں کی یاداشتوں کے مطابق قبائلی علاقے میں اُن کی طاقت اور عظمت کے غیر معمولی تاثر کو سینہ بہ سینہ پھیلنے والی داستانوں نے بھی اہم کرادر ادا کیا جن کا اُس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (این ڈبلیو ایف پی) کے بارے میں 24 جون 1937 کو ارسال کی جانے والی برطانوی حکام کی انٹیلیجنس رپورٹ میں نہایت دلچسپ تذکرہ کیا گیا۔

رپورٹ میں لکھا ہے کہ قبائلی علاقوں کے عوام کا پختہ یقین ہے کہ فقیر ایپی کو قدرت نے غیر معمولی طاقت عطا کر رکھی ہے، اُس کے چھاپہ مار ساتھی راہ چلتے ہوئے کسی درخت کو کاٹ کر لکڑی کی چھڑی اسے پیش کرتے ہیں تو وہ اپنی روحانی طاقت سے اسے بندوق میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اگر وہ کسی ٹوکری میں پڑی ہوئی چند روٹیوں کو کپڑے سے ڈھانک دے تو یہ ٹوکری پورے لشکر کی بھوک مٹانے کے لیے کافی ہوتی ہے، اسی طرح لڑاکا جہازوں سے اُن پر گرائے جانے والے بم کاغذ کے ٹکروں یا روئی کے گالوں میں بدل جاتے ہیں۔

فقیر ایپی

اس طرح کے تصورات اور قصے کہانیوں کی وجہ سے انھیں اپنے علاقے میں تقدس حاصل ہو گیا اور انھیں ایک جنگجو کے علاوہ دیومالائی روحانی شخصیت کا درجہ بھی دیا جانے لگا۔

اس طرح اُن کے ساتھیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا لیکن اُن کے جنگجو ساتھیوں کی اصل تعداد کیا تھی، اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان کی تعداد تین ہزار تک رہی ہے جبکہ میلان ہانیر کے مطابق ان کے ساتھیوں کی تعداد ایک ہزار سے کبھی زیادہ نہیں رہی لیکن ان کے جتنے ساتھی بھی تھے، بہت پُرعزم، مبالغے کی حد تک وفادار اور بہادر تھے۔

اپنے ساتھیوں کے علاوہ اُن کے ساتھ قبائلی علاقوں کے عوام کا تعلق بھی ایسا ہی غیر متزلزل تھا۔

’تاریخ بنوں‘ میں منڈان نامی علاقے کے رہنے والے ایک سرکاری سکول ٹیچر کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے پابندی تھی کہ مقامی لوگ ایپی فقیر کی کسی طرح سے بھی کوئی مدد نہ کریں۔

حکام کو اگر معلوم ہوجاتا کہ کسی نے اُن کے ساتھ کوئی تعاون کیا ہے تو اسے سخت سزائیں دی جاتیں۔ اِن صاحب کی تنخواہ 19 روپے ماہانہ تھی اور انھوں نے اپنے اخراجات کو محدود کر کے اس تنخواہ کا تقریباً نصف یعنی نو روپے ہر ماہ فقیر ایپی کو عطیہ کی صورت میں دنیا شروع کر دیے۔

مخبری کی وجہ سے یہ راز فاش ہو گیا اور ان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئیں لیکن تاریخ بنوں کے مطابق وہ صاحب اِس کے باوجود فقیر کو عطیات دینے سے باز نہ آئے۔

میلان ہانیر نے اُن کی لڑائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے سوویت یونین کے ساتھ افغان چھاپہ ماروں کی اُس جنگ کا ذکر بھی کیا ہے جو جہاد افغانستان کے نام سے معروف ہوئی۔

ایپی

وہ لکھتے ہیں کہ فقیر ایپی کی حربی حکمت عملی نہایت سادہ اور مقامی روایت کے مطابق تھی۔ اُن کے ساتھی کم تھے اور اسلحہ اس سے بھی کم یعنی چند سو بندوقیں اور ماؤزر، چند مشین گنیں اور کبھی کبھار ایک یا دو پرانی توپیں۔ اُن کے پاس کمیونیکیشن کے جدید ذرائع یعنی ریڈیو اور وائر لیس کا نظام بھی نہیں تھا، وہ اس مقصد کے لیے ہمیشہ مقامی مخبروں اور پیغامبروں پر اعتماد کرتے۔

ان تمام لڑائیوں میں انھوں نے اسی اسلحے کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا جس کی تعداد ایک وقت میں 40 ہزار افسروں اور جوانوں تک جا پہنچی تھی لیکن فوج کی اتنی بڑی تعداد ان پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکی اور نہ انھیں گرفتار کرنا ہی ممکن ہوا۔

اتنی بڑی فوجی قوت کے مقابلے میں ان کی طاقت کا راز کیا تھا؟ مؤرخ کے مطابق اُن کے بااعتماد ساتھی جو اُن کی حفاظت کے لیے جان کی بازی تک لگا دیتے اور فقیر ایپی اپنی حکمت عملی کو ہمیشہ خفیہ رکھتے۔

یش قدمی نیز پسپائی وغیرہ کے فیصلے ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھتے، صورتحال پر گہری نگاہ اور بروقت فیصلہ اُن کی حکمت عملی کی بنیاد تھا۔ ان کے جنگی حربوں میں قبائلی روایت کے عین مطابق ضد، عدم مفاہمت، دشمن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اور ہر اصول کو پامال کر دینا شامل تھا۔

وہ قبائلی عسکری روایت کے مطابق گھات لگا کر حملہ کرتے، دشمن کے فوجیوں کو قید کر لیتے اور جسمانی اذیت پہنچاتے۔

اس حکمت عملی کی وجہ سے ان کے دشمنوں کے دلوں میں ان کا خوف سرایت کر چکا تھا۔ یہ عین وہی حکمت عملی تھی، سوویت یونین کے خلاف افغانوں کی مزاحمت منظم کرتے وقت جس سے استفادہ کیا گیا۔

فقیر ایپی جنھوں نے چند برس پہلے ہندو مسلم جھگڑے میں مسلمانوں اور پختونوں کی روایتی غیرت کی تحفظ کے لیے بندوق اٹھائی تھی، بتدریج ’اسلام کے سپاہی‘ اور غیر ملکی قبضے سے قبائلی علاقوں کی آزادی کے پُرعزم اور سب سے بڑے مجاہد کی حیثیت اختیار کر گئے۔

یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا جس کی وجہ سے اس خطے اور خاص طور پر افغانستان میں اتحادیوں (یعنی برطانیہ اور اُن کے اتحادیوں) کے علاوہ محوری طاقتیں (یعنی جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک) سرگرم عمل تھیں۔ اس دوران افغانستان اور محوری طاقتیں چاہتی تھیں کہ برطانیہ کو کمزور کیا جائے اور اس کی افواج کو قبائلی علاقوں تک محدود رکھا جائے تاکہ وہ افغانستان کا رخ نہ کر سکیں۔

اس پس منظر میں فقیر ایپی اور ان کی مہم جوئی محوری طاقتوں اور افغانستان کے لیے مفید تھی چنانچہ ایپی فقیر کے ساتھ ان کے روابط استوار ہو گئے اور انھیں کچھ مدد بھی ملی۔

اس سلسلے میں برطانوی انٹیلیجنس رپورٹوں میں بہت کچھ درج ہے لیکن میلان کے مطابق اس کا بڑا حصہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے کیونکہ فقیر ایپی کی ساری جدوجہد اپنے بل بوتے پر تھی۔

ان طاقتوں کے ساتھ ان کے مختلف اوقات میں روابط ہوئے، کچھ وعدے وعید بھی ہوئے لیکن عملاً ایک بڑی جنگ لڑنے کے لیے یہ سب کچھ ناکافی تھا، گویا قبائلی علاقوں کو غیر ملکی قابضین سے آزاد کرانے کے لیے انھوں نے اپنی جنگ تنہا لڑی اور دشمن کو اپنے قریب تک نہیں پھٹکنے دیا لیکن تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد صورتحال میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوگئی۔

ایپی

تقسیم ہند سے قبل ایپی فقیر کے افغانستان کے ساتھ روابط اُستوار ہو چکے تھے۔ اسی طرح خان عبد الغفار خان المعروف باچا خان کی سُرخ پوش تحریک سے وابستہ بعض لوگوں کے ساتھ بھی اُن کا رابطہ تھا۔

وزیرستان کے ایک معروف قبائلی ملک اور مؤرخ لائق شاہ درپہ خیل مرحوم نے اپنی کتاب ’وزیرستان‘ میں اِن واقعات کی تفصیل بیان کی ہے اور بقول اُن کے وہ اِن میں سے بعض واقعات کے عینی شاہد بھی ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد افغانستان اور باچا خان کے ساتھیوں کے علاوہ کانگریس کے بعض لوگوں نے بھی ان کے ساتھ رابطہ کیا جن کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے قائم کیے گئے نئے ملک اور اس کی قیادت کے ساتھ ان کی مفاہمت نہ ہو سکی۔

ان رابطوں کے نتیجے میں فقیر ایپی نے اپنا ایک وفد بھی افغانستان روانہ کیا جس کا وہاں سرکاری طور پر استقبال کیا گیا اور وفد کو توپوں کی سلامی دی گئی۔ یہ سرگرمیاں ایپی فقیر کو پاکستان سے بدظن کرنے کا باعث بنیں اور وہ سمجھنے لگے کہ پاکستان کا قیام انگریزوں کی خواہش کے تحت عمل میں آیا ہے اور اس کی قیادت انگریزوں ہی کی وفادار بلکہ درحقیقت انگریز ہی ہے۔

اُن کے اس تاثر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قیام پاکستان کے بعد بھی شمال مغربی سرحدی صوبے کے انگریز گورنر اور چیف سیکریٹری برقرار رہے تھے جبکہ وانا اور میران شاہ سمیت دیگر فوجی چھاونیوں اور سکاؤٹ قلعوں پر بھی یونین جیک لہراتا رہا تھا۔

لائق شاہ کے مطابق فقیر ایپی اس وقت تقریباً تنہا تھے اور کوئی ایسا شخص اُن کے قریب نہ تھا جو انھیں اس پیچیدہ صورت حال میں کوئی دانش مندانہ مشورہ دے سکتا چنانچہ وہ اس پراپیگنڈے کا شکار ہو گئے۔

یہ عناصر انھیں یقین دلانے میں کامیاب رہے تھے کہ وہ اگر پختونستان کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کر دیں تو اس کے نتیجے میں خالصتاً ایک اسلامی ریاست بھی وجود میں آ جائے گی اور پختونوں کو اپنا آزاد وطن بھی مل جائے گا۔

انھیں بتایا گیا کہ اس آزاد ریاست کے قیام کی صورت میں سوویت یونین، افغانستان اور انڈیا اس کی بھرپور مد کریں گے۔ پختونستان کے قیام پر آمادہ کرنے کے سلسلے میں میران شاہ کے وزیر قبلیے سے تعلق رکھنے والے ان کے ایک خلیفہ عبدالطیف کا کردار بھی بہت اہم تھا۔

یہ منصوبہ کامیاب رہا اور لائق شاہ درپہ خیل کے اپنے الفاظ میں: ’آخر میں یہ کہ فقیر ایپی ان سیاسی بازی گروں کے دکھائے گئے سبز باغوں کے جھانسے میں آ گئے اور پاکستان کے خلاف ایک آزاد مملکت کا اعلان کر دیا اور اس کی ماسکو، کابل اور دلی نے خوب تشہیر شروع کردی۔‘

لائق شاہ درپہ خیل لکھتے ہیں کہ آزاد پختونستان نامی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد افغان حکومت نے اس نام نہاد ریاست کے لیے عملہ اور اس کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے مالی وسائل فراہم کیے۔ ایک پرنٹنگ پریس لگوایا جب کی انڈیا کی طرف سے بڑی مقدار میں پاکستان مخالف تخریبی مواد پہنچایا گیا۔

پاکستان کے سابق قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ممتاز صحافی سمیع اللہ خان کی تحقیق کے مطابق اس زمانے افغان حکومت کے تعاون سے گورویک میں اسلحہ سازی کا کارخانہ بھی قائم کیا گیا جس سے بندوقیں وغیرہ تیار کی جاتی تھیں۔ ان مشینوں پر کام کرنے والا عملہ لاہور اور بعض دیگر مقامات سے بلایا گیا تھا۔

اُسی زمانے میں کابل میں انڈیں سفارتخانے کی معرفت فقیر ایپی کے انڈیا کے ساتھ براہ راست تعلقات بھی اُستوار ہو گئے اور فقیر ایپی نے انڈین قیادت کے ساتھ خط و کتابت بھی شروع کر دی۔ لائق شاہ نے اس سلسلے کا ایک دلچسپ خط اپنی کتاب میں نقل کیا ہے جو انھوں نے انڈیا کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو لکھا:

’بخدمت جناب والا شان، پنڈت جواہر لعل نہرو‘

بادشاہ ہند، دام اقبالہ

گزارش بحضور انور ایں کہ مسمی اول حسن (فقیر ایپی کا نمائندہ) آن جناب سے بہت خوش ہو کر واپس آیا۔ میں بہت مشکور ہوں کہ جناب نے زبانی گفتگو کی۔ گزارش ہے کہ پاکستان نے یعنی انگریز نے بہت عرصے سے کشمیر میں تکلیف بنا رکھی ہے۔ خدا مجھے اور آپ کو توفیق دے کہ ہم اہالیان کشمیر کو اس آفت سے نجات دلائیں۔ خدا کے فضل سے اب پاکستان کمزور ہو گیا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جوں ہی آپ کی مدد پہنچ جاوے تو میں سرحدی لوگوں کو ایک دم لڑائی پر مجبور کر دوں گا کیونکہ کافی عرصہ سے پاکستان یعنی انگریز نے سرحد کے لوگوں کو بھوکا مارا اور ننگا کر رکھا ہے۔ جس وقت اپنے وطن میں آپ کا امداد پہنچ جاوے تب وہ معمولی تنخواہ پر میرے ساتھ شامل ہو سکیں گے اور آپ ہندوستان کی طرف سے حملہ کر دیں گے۔ اس بار اوّل حسن آپ کے پاس آ رہا ہے کیونکہ کابل کے بادشاہ نے سب سفیروں پر سخت پہرہ بٹھایا ہے، اس لیے آپ کے سفیر تک پہنچنا مشکل ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اوّل حسن آپ کے اختیار سے کابل میں آپ کے سفیر کے پاس جا سکے، تب وہاں سب کام تسلی بخش ہوگا۔ اوّل حسن آپ کی خدمت میں ضروری باتیں بیان کر دے گا۔

تسلیمات

فقط

ایپی

ایپی فقیر کے انڈیا کے ساتھ تعلق کے ضمن میں بعض ایسے شواہد ملتے ہیں کہ پنڈت جواہد لعل نہرو نے ان رابطوں کے لیے فوج کے ذریعے کوئی نظام قائم کر دیا تھا۔ اس نظام کا اندازہ ایپی فقیر کے انڈین فوج کے ایک جرنیل کے نام ایک خط سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ مجھے امید ہے کہ آپ آئندہ بھی میرے ملک کی حالت سے پنڈت جی کو باخبر رکھیں گے تاکہ ہمارے کام میں کوئی نقصان نہ ہو۔

ایپی فقیر ایک طرف پختونستان کے استحکام کے لیے انڈیا اور افغانستان سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے تھے جبکہ دوسری طرف زمینی حقائق بدل چکے تھے اور اب لوگ بظاہر ماضی کی طرح ماورائی قوتیں رکھنے والے ایپی فقیر کی باتوں کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔

فقیر ایپی

،تصویر کا کیپشنفقیر ایپی کا مزار تحصیل دتہ خیل میں واقع ہے جہاں ان کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد آج بھی حاضری دیتی ہے

بدلے ہوئے حالات، پاکستان کی حدود کے اندر ایک اور ریاست کے قیام کی ‘باغیانہ کوشش’ کے خلاف حکومت پاکستان کی طرف سے طاقت کے استعمال اور انڈیا اور افغانستان کے طرز عمل نے انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان دونوں ملکوں کی سرگرمیاں اسلام یا پختونوں کے مفاد میں نہیں بلکہ ایک سازش ہیں تاکہ مسلمانوں کے نئے ملک کو کمزور کیا جاسکے۔

اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد انھوں نے رزمک کے علاقے ملک اژدر میں ایک جلسے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ افغانستان حکومت نے اب تک مجھے مغالطے میں رکھا ہوا تھا اور اسلام کے نام پر مجھے فریب دیا تھا۔

انھوں نے اپنے چاہنے والوں کو ہدایت کی کہ افغان حکومت اگر آئندہ میرے نام پر پاکستان کے خلاف کوئی منصوبہ بنائے تو اس سے کبھی تعاون نہ کیا جائے۔

یہ پس منظر تھا جس سے شرمندہ اور پاکستان کے سفارتی دباؤ سے مجبور ہو کر 7 ستمبر 1948 کو افغانستان نے ایپی فقیر کو ایک کھلی وارننگ دی کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہر قسم کی سرگرمیوں سے باز آ جائیں۔

فقیر ایپی 16 اپریل 1960 کو دمہ کے مرض میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کا مزار تحصیل دتہ خیل میں واقع ہے جہاں ان کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد آج بھی حاضری دیتی ہے۔

یہ مضمون بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر ش

bbc/urdu.com

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں