ADVERTISEMENT
دراصل جنگ جنوری فروری ہی میں شروع ہوچکی تھی لیکن یہ جنگ لمیٹڈ وار تھیوری کے تحت لڑی جارہی تھی ،جوجنگی سٹریٹجی پاکستان کے ملٹری پلانرنےتیارکی تھی وہ اپنے اہداف پورے کررہی تھی لیکن گیم اس وقت الٹ گیا جب انڈیانےسات ماہ کی لمیٹتڈ وارکوٹرن دےکرلاہورمیں فوجیں داخل کردیں جو پنڈی کے ملٹری پلانرکے سان گمان میں بھی نہ تھا کیونکہ اس کی انھوں نے تیاری نہیں کی تھی ۔ وجہ وزیرخارجہ بھٹواورسیکرٹری خارجہ عزیزاحمدکی جانب سے کرائی جانے والی یقین دہانیاں تھیں کہ انڈیا انٹرنیشنل بارڈرکراس نہیں کرے گا ( یادرہےکہ یہ وہی عزیزاحمدہیں جنھیں پاورمیں آنےکے بعد بھٹونے پاکستان کا مکمل وزیرخارجہ بنادیاتھا)۔
1965میں پاکستان جدیدترین امریکی اسلحےکی وجہ سے انڈیاپرفوجی برتری رکھتاتھا ، اس کے پاس اس وقت F104جیسے جدیدترین جنگی طیارےتھے جن سے سوویت یونین جیسی سپرپاوربھی خوفزدہ تھی اورامریکا انھیں ویتنام وار میں استعمال کررہا تھا ۔پاکستان کے پاس B-52 جسیے خوفناک بمبار بھی تھے جوتباہی وبربادی کے لیے دنیا میں مانے جاتے تھے ۔ یہ بمبار طیارے جہاں جاتے وہاں ٹنوں بم گرا کراس علاقے کو تباہ وبربادکرنے میں ثانی نہیں رکھتے تھے ۔پاکستان کا آرمرڈ ڈویزن اتنا بڑا تھا کہ انڈیا اس کا پاسنگ نہ تھا۔ اس وقت کے ایک غیرملکی ملٹری آبزور نے 1964میں اپنی فیملی اسلام آباد سے بنکاک اس خوف سے منتقل کردی کہ اگر پاکستان کا آرمرڈ ڈویژن حرکت میں آگیا توانڈیا کی اتنی طاقت نہیں کہ اسے دہلی تک پہنچنے سے روک سکے اس لئے کہ انڈٰیا کا آرمرڈ ڈویزن پاکستان کے مقابلے میں بہت کمزورتھا۔ زہن نشین رہے کہ پاکستان کے پاس وہ جدید اسلحہ تھا جودنیا میں امیرکا کے بعد صرف اسرائل اور پاکستان کے پاس تھا اوراس نے سوویت یونین جیسی سپرپاورسے لڑنا تھا تو پھرانڈیا کس شمار میں تھا۔
دوسری بات کہ اس وقت پاکستان معیشت کے لحاظ سے ایشیا میں جاپان کے بعد دوسرا ترقی یافتہ ملک تھا۔ یہ منظرنامہ ذہن مین رکھیں کہ ایک تو پاکستان کی ملٹری پاورسوویت یونین جیسی سپرپاورسے لڑنےکےبرابرتھی، دوسرے پاکستان جاپان کے بعد معاشی طورپر ایشیا میں سب سے طاقتور تھا۔ انڈیا پاکستان سے دونوں لحاظ سےپسماندہ ملک تھا ۔
دو بڑے فیکٹرزنے جنرلوں کو انڈیا کے خلاف ملٹری ایڈونچرازم پر اکسایا۔ پہلا معرکہ درہ حاجی پیر، آزادکشمیر میں ہوا جس میں انڈیا کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پہلی لمیٹڈوار تھی جو پاکستان جیت گیا، اس کے بعد پاکستان نے اپریل میں دوسری محدود جنگ کارگل پر شروع کی ، اس میں بھی انڈیا کو شکست ہوگئی ، دو جنگوں کے بعد پاکستان نے شاید جولائی میں رن کچھ میں فوج داخل کردی ، وہ علاقہ خالی تھا ۔ محدود انڈین ارمی ، سرپرائزپاکستانی ملٹری اٹیک کے سامنے نہ ٹھہرسکی ، رن کچھ کی جنگ بھی پاکستان نے جیت لی ۔ چار ماہ کی محدود جنگوں میں کامیابی اور فتح کے خمارنےجنرلوں کو کشمیر اڈونچرپراکسایا،ایک بڑا ملٹری اپریشن شروع کرنے کاپلان بنایاگیا جسے آپریشن جبرالٹرکا نام دیا گیا ،اس کے تحت پاک ارمی نےچھمب جوڑیاں کے راستے جموں شہرمیں داخل ہونا تھا اور سری نگر سے انڈیاکے واحدراستےکوکاٹ دیناتھا،اپریشن جبرالٹرکی کمان جنرل اخترملک کررہے تھے،ارمرڈکورکےساتھ انھوں نے چھمب کےبعدجوڑیاں پربھی قبضہ کرلیابعدازاں اکھنورکے پاس پہنچ گئے کہ یقنیی فتح کے پیش نظرکمان بدل کریحیی خان کے سپردکردی گئی ،پھر پاک ارمی توی ریورمیں پھنس کررہ گئی، اسی صلے میں بعدازاں ایوب خان نےیحیحیٰ خان کو آرمی چیف بنادیا۔
چونکہ پاکستان کا جدیدامریکی اسلحہ کی وجہ سے انڈیاپرپریشربہت زیادہ تھاتودہلی نے خدشہ محسوس کیاکہ یہ جموں شہرپرقبضہ کرکے سرینگربھی لےسکتے ہیں تو انڈیا نے پاکستان کے نازک مقامات پرحملہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ کشمیرمیں پاکستان کی فوجی پیش قدمی روکی جاسکے۔
چھ ستمبر لاہور فرنٹ
مسلسل سات ماہ کی محدود جنگ اورپاکستان کی پیش قدمی کے بعد انڈیا نے پاکستان کے کمزور پواینٹ پر جوابی فرنٹ کھولنے کا فیصلہ کیا کیونکہ لاہور کی سائیڈ سے پاکستان کی پوزیشن بہت کمزور ہے کہ یہ شہر تین اطراف سے انڈیا میں گھرا ہوا، صرف شاہدرہ شٰٰیخوپورہ سائیڈ سے پاکستان سے جڑا ہواہے۔ دوسری طرف یہ پاکستان ہی نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان کا بھی ایک اہم شہرتھا،انڈین آرمی جنرل چوہدری کی قیادت میں سرپرایزاٹیک کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں دورتک داخل ہوگئی ،کوئی مزاحمت نہ ہوئی واہگہ کے بعد، جلوموڑ،پھر باٹاپوراور بیدیاں نہر کراس کرکے شالامارباغ تک انڈین آرمی موجود تھی ، برکی جہاں اج موجودہ ڈی ایچ اے موجودہے وہاں بھی انڈین آرمی نے اپنا پرچم لہرادیا۔ کمان جنرل چوہدری کے ہاتھ تھی لیکن اس سے ایک خوفناک سٹریٹجک غلطی ہوگئی، جب اس نے شالامارباغ تک پاکستانی فوج نہ دیکھی تو انڈین ارمی کو پیش قدمی روک دینے کا ارڈرجاری کردیا۔ جنرل چوہدری یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ میں نے لاہور کویوں خالی دیکھ کراسے پاکستان کی ویسی ہی فوجی چال سمجھا جیساکہ فیلڈمارشل منٹگمری نے جرمن ارمی کے ساتھ کیا تھا کہ پیش قدمی کرتی ہوئی جرمن فوج کا مقابلہ کرنے کی بجائے شہرخالی کردیااورجب جرمن فوج شہرمیں داخل ہوگئی توکٹ آف کرکے اس کاگھیراؤکیااورہتھیارڈالنے پرمجبورکردیا،چنانچہ جنرل چوہدری نے انڈین آرمی کوواپسی کا آرڈردیکربی اربی نہرپر مورچےلگانےکا آرڈردیا ورنہ اصل پلان لاہورجیمخانہ پہنچناتھا۔سب جانتے ہیں کہ لارنس گارڈن ، شالامارباغ سے کتنی دیر کی ڈرائیونگ پرہے ، اسی سال جب جنوری میں لاہور گیا تھا توبذریعہ اوبر لبرٹی مارکٹ سے شاہ حیسن تک سفربیس منٹ میں مارننگ نو بجے طے ہواتھا جبکہ اج کی ابادی اور ٹریفک اج سے پینالیس سال پہلے کچھ نہ تھی اور وہ بھی ملٹری موومنٹ کے سامنے، دراصل جنرل چوہدری اگلے دس منٹ میں جم خانہ اور پنجاب اسمبلی مال روڈپہنچ سکتا تھا لیکن اس کی اسٹریٹجک غلطی سے لاہورانڈیا کے قبضے میں جانے سے بچ گیا، یاد رہے کہ شالامار باغ سے بیدیاں نہر واپسی اورجم خانہ لاہور تک ایڈوانسمنٹ نہ کرنے کا فیصلہ جنرل چوہدری کااپنا تھا اس میں پاکستان آرمی کا کوئی رول نہیں ، یہ اتنی بڑی فوجی غلطی تھی کہ انڈین پریس میڈیا نے اج تک جنرل چوہدری کو معاف نہیں کیا،اس پرکتابوں کی کتابیں لکھی جاچکی ہیں ، جنرل چوہدری کےتمام اعزازات چھین لئے گئے ۔
جب انڈین ارمی بیدیاں نہر پرخود ہی واپس چلی گئی تب پاکستان کو انڈین حملے کا پتہ چلااور میجرعزیزبھٹی کی کمان میں پہلامعرکہ ہوا، پاکستان جنگ 1965کو لاہورپر حملے سے شمارکرتا ہے اور وہ بھی بیدیاں نہرپر جنگ سے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لاہورمعرکہ فروری سے شروع ہونے والی جنگ ہی کا ایک حصہ تھا۔ مارننگ دس بجے پاک ائیرفورس نےانڈین ارمی پر زبردست فضائی حملہ کیا۔ ہم صرف یہ کریڈٹ دے سکتے ہیں کہ پاک فوج کے جوان بی اربی نہرپرجوانمردی سے لڑے اورانڈین ارمی کودوبارہ لاہور کی طرف پیش قدمی نہ کرنے دی لیکن پاکستان جنگ کے آخری دن تک باٹاپوراور جلوموڑ انڈیاسے واپس نہ لے سکاتھا۔
واقعات یہ بھی ہیں کہ بڑے بڑےافسر اور صوبائی انتظامیہ لاہور سے فرار ہوچکی تھی ، انھیں یقین ہوچکا تھا کہ انڈٰیا لاہور پر قبضہ کرنے ہی والا ہے لیکن جنرل چویدری کی غلط فوجی حکمت عملی لاہور کو بچاگئی، دوسری طرف سیالکوٹ شہر سے بھی انڈین ارمی گھوم کر چلی گئی ، پھر شہر سے باہر جاکر مورچے لگاکر پاک ارمی کا اتنظارکرتی رہی ،اس صورتحال نے پاکستان کو پریشانی سے دوچار کر دیا، کشمیر کا فرنٹ ٹھنڈا ہوگیا اورلاہورسیالکوٹ کو بچانے کے لالے پڑگئے ۔ لاہور کو بچانے کےلئےکھیم کرن پرحملہ کیاگیا تاکہ انڈین ملٹری پریشر بڑھ سکے لیکن جب پاک ارمی نے کھیم کرن سے اگے پیش قدمی کی توانڈیا نے نہرکابندتوڑدیاجس سے پاکستان کے جدیدترین امریکن ٹینک مٹی اورپانی میں پھنس گئے جس پرانڈین ارمی نے قبضہ کرلیا،
اس جنگ میں انڈیا کا فوجی اورجانی نقصان پاکستان سے کم ہوا اور پاکستان سیزفایرہونے تک انڈین ارمی کولاہوراورسیالکوٹ کے دیہی علاقوں سے باہر نہیں نکال سکاتھا، پاکستان امریکا اوریورپ سے جنگ بندی کی منتیں کررہا تھا لیکن سب نے انگوٹھا دکھادیا۔ امیرکا نے فاضل پرزوں کی سپلائی بندکردی جس سے پاکستان کے جنگی جہازاور ٹینگ لڑنے کے قابل نہ رہے، بالاخرسوویت یونین نے دونوں ملکوں میں سیزفائرکرواکے پاکستان کی عزت بچائی۔لیکن معاہدہ تاشقند میں لکھا گیا کہ دونوں ملک 5 اگست 1965کی پوزیشن پر واپس جائیں اس میں چھ ستمبر کا کہیں ذکرنہیں ۔اور پاکستان کو یہ معاہدہ ماننا پڑا۔
بھٹو نے شورمچادیا کہ ایوب خان نے جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں ہار دی اور ہم ہزارسال تک انڈیا سے جنگ لڑیں گے ۔ پنجاب زخم خوردہ تھا، پنجابی جو لاہور اور سیالکوٹ کی جنگ نہ لڑسکے لیکن وہ انڈیا سے ایک ہزار سال کی جنگ لڑنے بھٹو کے پیچھے چل پڑے بالکل اسی طرح جیسے اس سے پچاس سال پہلے علامہ اقبال سے متاثر ہو کر کراندلس کو اپنا وطن سمجھ بیٹھے تھے لیکن افسوس کہ اسپین کا تو ویزا بھی عام پنجابی نوجوان کو نہیں ملتا ،سمگلروں کو پیسے کھلانے پڑتے ہیں ۔