Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
لاک ڈاؤن کے آغاز میں گھر پر قرنطینہ ہونے کے دوران وقت پاس اور معلومات فراہم کرنے کی خاطر میں نے اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زندگی کے تجربات شیئرکرنے کے لئے ایک سلسلہ شروع کیا انہیں ہر روز ایک واقعہ سناتا جس کا مقصد بچوں کی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکا ویژن وسیع کرنا تھا۔کل رات بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ دہم میں زیر تعلیم میری بیٹی فاطمہ کمرے میں داخل ہوئی اور میرے آگے سے ٹی وی ریموٹ پکڑتے ہوئے بولی بابا ”ہسٹری ٹائم“ شروع ”ٹی وی ٹائم“ ختم اور ہمیں آج کا واقعہ سنایئں میں سب کو بلاتی ہوں پھر میں نے سب بچوں کے اکٹھے ہونے پر انہیں سنانا شروع کیا!!
مانا شُرلی ہمارے پرانے محلے میں رہتا تھا اپنی اڑنگ تڑنگ باتوں کی وجہ سے محلہ میں کافی مشہور تھا ہر آنے جا نے والوں پر نقص نکالنا اور اپنے آپ کو عقل کل تصور کرنا اورہوائی قلعے تعمیر کرنااس مرد نا ہنجار کا شغل خاص تھا کسی زمانے میں جب دبئی چلوکا رواج نیا نیا تھا مانا بھی دبئی گیا تھا اور تین سال وہاں ملازمت کے دوران خوب پیسہ جمع کیا پھر وطن واپس لوٹ آیا بس یہی وہ دن تھا جب مانا گھر لوٹا تو ایسا لگنے لگا کہ اسے سُرخاب کے پر لگ چکے ہیں با ہر کے ملک سے کمائی اکھٹی کر کے لانے پر گھمنڈاور تکبر مانے میں کوٹ کوٹ کر بھر چکا تھا اور منہ زوری بڑھنے لگی تھی گو کہ دبئی سے واپس آئے ہوئے بھی اسے تین سال گزر چکے تھے لیکن وہیلا رہنا اور ہڈ آرام ہونا اس کا معمول بن چکا تھا مانے کا باپ چا چاباچھو بھی اکھڑ قسم کا بندہ تھا اور اپنے تیکھے مزاج کی وجہ سے گھر میں بھی نا پسند کیا جا تا تھا۔چاچا باچھومانے کے دیگر تین بھائیوں کے ساتھ مل کر کپڑے کا ایک کارخانہ چلاتا تھا اور اس کے بڑے بھائی باپ کے ساتھ مل کر کارخانہ چلاتے اور ترقی دینے کیلئے دن رات لگے رہتے کمیاں تو ہر بھائی میں کوئی نہ کوئی ضرور تھیں لیکن پھر بھی انکی محنت نظر آتی تھی اور کارخانہ ترقی کی پٹری پر چڑھ چکا تھا مگر چاچا باچھو کو مانہ ہی پیارا لگتا تھا اور من اور آنکھوں کو بھا تا تھا اور اس کی وجہ دو تھیں پہلی تو یہ مانہ اپنے دوسرے بھائیوں سے تھوڑا زیادہ پڑھا لکھا تھا اور پنڈ کے کھوتی سکول کی بجائے شہر کے پائلٹ سکول سے پڑھا ہوا تھا اور دوسری وجہ اس کی کمائی تھی یہی وجوہات تھیں کہ چاچا باچھو اپنے دبئی پلٹ بیٹے سے بہت متا ثر تھا۔جبکہ مانے کی ماں اور گھر کے باقی افراد کو گھر کے بڑے کا جانب دار رویہ،باتیں اور حرکتیں اچھی نہیں لگتی تھیں لیکن باپ کی غیر ضروری اجارا داری اور مانے سے لاڈلہ پن کی وجہ سے گھر عدم توازن کا شکارہورہا تھا اور جلتی پر تیل کا کام مانے کی حد سے زیادہ خود اعتمادی میں اضافہ ہو نا تھا اور اس کے نزدیک کے باقی بھائی کارخانہ چلانے میں نا اہل ہیں گھروالوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور کمائی میں خورد بردکر رہے ہیں۔مانے کے نزدیک سب بھائیوں میں سے کسی کو بھی ڈھنگ سے کام کرنا نہیں آتا اور کار خانہ جُو ں کا تُوں کھڑا ہے۔ترقی نظر نہیں آرہی بلکہ اُلٹا نقصان ہو رہاہے اور سب اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں ان کی جگہ میں جس دن بھی کارخانے کا سربرا ہ بنا تومیں یہ کر دوں گا اور میں وہ کر دوں گا دھیرے دھیرے مانے کا باپ بھی بلا سوچے سمجھے اپنے بیٹے کے شیشے میں اترنے لگا پھر چاچے باچھوکو مانے کے سارے بھائی حرام خور نظر آنے لگے۔ پھر کیا تھا ایک دن مانا اپنی مکر بازئیوں میں کامیاب ہو گیا اور اپنے ابے کو رام کر لیا۔اور پھر چاچے باچھو نے گھر والوں کی پسند نا پسند کی پرواہ کیے بغیر دیگر بیٹوں کوکھڈے لائن لگاتے ہوئے طاقت کے بل بوتے پر سپوت خاص مسٹر مانہ شُر لی کو کارخانہ کا کل وھم سربراہ مقرر کر دیا۔اور خود بڑھاپے کے دنوں میں آرام کر نے کے بجا ئے بطو ر خلیفہ کرسی پر براجمان ہو کر سارے معاملات دیکھنے لگا۔چاچے باچھوکے اس فیصلے سے گھر میں ادھم برپا ہو گیا لیکن کیا کیا جا سکتا تھا وہ اپنے مرتبے اور طاقت کا نا جائز فائدہ اٹھا رہا تھا جو بھی نا انصافی پر بات کرتا چاچا اس کا کارخانہ میں داخلہ بند کر دیتا ۔کپڑے کے کارخانہ میں صرف باچھوکا خون پسینہ ہی شامل نہ تھا بلکہ اس کی بیوی اور اولاد کا بھی اتنی ہمت اور کوشش شامل تھی کیونکہ سب نے گھر پر لگی ہوئی چھوٹی سی کھڈی پر کام شروع کیا تھا جو بعد میں بڑے کارخانہ کا روپ دھار گئی وہ بات الگ کے گھر کا بڑا نمائندہ ہونے کی وجہ سے اس مقام کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا تھا دوسری طرف مسٹر مانہ شُرلی کو اختیار ملنے کی دیر تھی کہ اس کی چال ڈھال میں عجیب سی اکڑ نمایا ں ہونے لگی اب وہ وقت آن پہنچا تھا کہ مانے کو اپنے دبنگ دعوں اور خوابوں کو پورا کرنا تھا کیونکہ مانے کے نزدیک انقلاب چٹکی مار کر آسکتا ہے یہ تو کسی بھی شخص کی نا اہلی ہوتی ہے کہ وہ کارخانے کا سربراہ بھی ہو اور تبدیلی نہ لا سکے! اب میں تبدیلی لا کر دیکھاوں گا اور راتوں رات اس کا رخانہ کو چاند پر پہنچا دوں گا
لیکن کسی کو کیا پتہ تھا کہ مانا جی کے کارخانہ کو آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچانے میں والے اقدمات نہ صرف کتنے ہوش اڑانے والے ہوں گے بلکہ کارخانہ کی چلتی گاڑی کو پٹری سے اتار کرگھر اور کارخانہ سے منسلک افراد کا سکون و امن تباہ کر دیں گے
مانہ اقربا پروری کے سخت خلاف تھا اور بڑے اصولوں کی باتیں کرتا تھا کہ کسی کو بھی عہدہ دینے سے پہلے معیار کا خیال ضرور رکھنا چاہیے
لیکن چارج سنبھالتے ہی مانے نے پہلا پلٹا مارا جسے انگریزی میں یو ٹرن بھی کہتے ہیں اور اپنے بیوی کے انگوٹھا چھاپ کزن کو کارخانہ کا اہم ترین شعبہ دے ڈالا ویسے تو سار ا کارخانہ ہی اہم ہوتا ہے لیکن یہ حصہ ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا تھا کزن جس کا نام دارو تھا کسی دور پنڈ کا رہنے والا تھا شکل صورت اور قابلیت کے لحاظ سے دارو ایک بڑا کارخانہ تو دور کی بات پنڈ میں چھوٹی ہٹی(دکان) چلانے کے قابل بھی نہیں تھالیکن بھائی صاحب جب قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہو تو نظام سکہ بھی حکمران بن جاتا ہے اور یہی کچھ دارو کے ساتھ ہوا اور وہ شہر میں چلتے ایک بڑے کارخانے کے اہم حصہ کا سربراہ بن گیا اور یہ مانے کی نظر کرم کی بدولت ہی ہوا تھا اگرچہ دارو کو آتا جاتا تو کچھ نہ تھا لیکن مانے شرُلی کا ہر دل عزیز بندہ تھا اور اسکی بڑی وجوہات میں سے ایک دارو کو کٹھ پتلی یا ایک ربورٹ کے طور پر استعمال کیا جانا تھا
جو چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی مانے کے مطابق کر سکے اور اگر کوئی قابل بندہ دارو کی جگہ آجاتا تو مانے کو کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا یہاں تک کے مانے کی سربراہی خطرے میں پڑ سکتی تھی اور وہ کارخانے کے تمام اختیارات کو اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا تھا دارو ایک نمائشی منیجر تھا
کلف والا سوٹ پہن کر کارخانہ آجاتا اور پہلے کھاتے سے آخری کھاتے تک گھومتارہتا اور بّٹربّٹردیکھتا کہ کارخانہ کیسے چلتا ہے اگر کسی ورکر یا انچارج سے کچھ پوچھ لیتا تو آگے سے ملنے والے ہر جواب پر کہتا ”ہیں جی“ ”اچھا جی“ اور سچ مان لیتا۔شروع شروع میں کارخانہ میں داخل ہوتے ہی دارو پر گبھراہٹ کی عجیب کفیت طاری ہوتی تھی ایک منظم کارخانہ اور ملازمین کو دیکھ کر ماتھے پر پسینہ آجاتا اور بات کرتے ہوئے آدھی بات ہلک میں اٹک جاتی یہ ایک کنفیوڈز قسم کی شخصیت تھی لیکن اصل مسلہ دارو کا ان پڑھ انگو ٹھا چھاپ اور غیر پیشہ ور ہونا تھا پھر ہولے ہولے آئے روز کارخانے میں نئے نئے گل کھلنے لگے اور نقصان پر نقصان ہو نے لگا شروع شروع میں تو مانہ یہ کہ کر جان چھڑاتا رہا کہابھی تو چارج سنبھالا ہے سب ٹھیک ہو جائے گا اور کارخانے کے بگڑے معاملات کے صیح ذمہ دار اس کے بھائی ہیں اب سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ہر قدم الٹا چل رہا تھا مال کی خرید و فروخت میں خرد برد ہونے لگی اور خام مال جان بوجھ کر مہنگا لیا جانے لگا کپڑے کی سیل پہلے سے کم اور خرچے بڑھنے لگے اور پھر درجنوں ملازموں کو نوکری سے فارغ کرنا پڑا۔گھر والوں میں بے بسی اور بے چینی بڑھنے لگی اگر کوئی بولتا تو اسے باچھو طاقت کے بل بوتے پر چپ کروا دیتا اصل میں چاچا باچھو اور اس کو مشورے دینے والے ساتھی بھی پریشان تھے کہ یہ کس کم عقل کو کارخانہ کی ذمہ دے دی یہ تو چند عرصہ میں نیاّ ڈبو دے گا لیکن چاچااپنی طاقت اور فیصلہ کو سچ کرنے کے لئے بظاہر مطمئن نظر آتا اور خاموش رہتا جو بھی مانے سے دارو کی شکایت کرتا کہ کس نااہل کو منیجر لگا دیا تو آگے سے وضاحت دیتے کہتا تم یہ دیکھو بیچارہ دارو آیا کہاں سے ہے دور کے پنڈ کا رہائیشی ہونا ہی اس کی قابلیت کے لئے کافی بڑی وجہ ہے اس دلیل پر ہر کوئی سر پٹا اٹھتا لیکن مانا دارو پر انگلی نہ اٹھنے دیتا پتہ نہیں بیوی کا ڈر تھا یا پھر اختیار کے چھن جانے کا ڈر؟ دوسری طرف مانے کے سارے دعوے آہستہ آہستہ جھوٹے ثابت ہونے لگے اور مسٹر مانہ شرُلی کاروباری معاملات میں اپنے دوستوں اور رفیقوں کو شراکت دار بنانے لگا اور انکو ٹھیکوں کی صورت میں نوازنے لگا اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لئے مانے کے دعوے پہلے سے اور زیادہ بلند ہو نے لگے اور گھر والے اور پڑوسی مانے کی بیوقوفیوں کا مذاق اڑانے لگے۔ایک کام مانے کا جو برا تھا خود انحصاری کی بجاے بڑے بینکوں سے کڑی شرائط پر قرض حاصل کرنا تھاجب اس سے بھی کام نہ بنا تو مانہ اور اس کا ابا دونوں قریبی دوست کارخانوں کے مالکان سے قرضہ لینے نکل پڑتے لیکن افسوس کارخانہ کی حالت جوں کی توں بلکہ بد تر ہونے لگی لیکن ابے اور مانے کا گٹھ جوڑ اور ہٹ دھرمی میں ذرہ بھی کمی واقع نہیں ہو رہی تھی جبکہ کارخانہ ملازمین اور گھر والوں کے اضطراب اور بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا لیکن مانے کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی بس اسے اپنی ضد پوری کرنے کا موقع مل چکا تھا اور ہر کسی کے سوالات میں وہ ایک ہی جواب دیتا گھبرانا نہیں اور مانہ جی ڈٹ کے کھڑے تھے اس تماشے کو قریبا دو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا کہ دوسرے شہر میں میرا تبادلہ ہو گیا بعد میں میرا رابطہ ان سے ختم ہو گیا لیکن سننے میں آیا کی ابھی مزید کچھ سال اس بد نظمی اور افرا تفری کو چلنا تھا
ابھی میں اس واقعہ کے اخلاقی درس کے پہلو پر بچوں سے بات کرنے ہی والا تھا کہ فاطمہ نے بات کو کاٹتے ہوئے کہا”بابا اس کا انجام یا درس جو بھی ہو لیکن اس سارے واقعہ میں مجھے تو ساری کی ساری اپنے ملک کی سیاسی صورتحال اور مماثلت نظر آرہی ہے“میں ایک دم چونکا اور دنگ رہ گیا کہ میٹرک میں پڑھنے والی اتنی کم عمر بچی میں سیاسی پختگی اور شعور کہاں سے آیا اور میں اسے کیا وضاحت دوں؟
لاک ڈاؤن کے آغاز میں گھر پر قرنطینہ ہونے کے دوران وقت پاس اور معلومات فراہم کرنے کی خاطر میں نے اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زندگی کے تجربات شیئرکرنے کے لئے ایک سلسلہ شروع کیا انہیں ہر روز ایک واقعہ سناتا جس کا مقصد بچوں کی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکا ویژن وسیع کرنا تھا۔کل رات بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ دہم میں زیر تعلیم میری بیٹی فاطمہ کمرے میں داخل ہوئی اور میرے آگے سے ٹی وی ریموٹ پکڑتے ہوئے بولی بابا ”ہسٹری ٹائم“ شروع ”ٹی وی ٹائم“ ختم اور ہمیں آج کا واقعہ سنایئں میں سب کو بلاتی ہوں پھر میں نے سب بچوں کے اکٹھے ہونے پر انہیں سنانا شروع کیا!!
مانا شُرلی ہمارے پرانے محلے میں رہتا تھا اپنی اڑنگ تڑنگ باتوں کی وجہ سے محلہ میں کافی مشہور تھا ہر آنے جا نے والوں پر نقص نکالنا اور اپنے آپ کو عقل کل تصور کرنا اورہوائی قلعے تعمیر کرنااس مرد نا ہنجار کا شغل خاص تھا کسی زمانے میں جب دبئی چلوکا رواج نیا نیا تھا مانا بھی دبئی گیا تھا اور تین سال وہاں ملازمت کے دوران خوب پیسہ جمع کیا پھر وطن واپس لوٹ آیا بس یہی وہ دن تھا جب مانا گھر لوٹا تو ایسا لگنے لگا کہ اسے سُرخاب کے پر لگ چکے ہیں با ہر کے ملک سے کمائی اکھٹی کر کے لانے پر گھمنڈاور تکبر مانے میں کوٹ کوٹ کر بھر چکا تھا اور منہ زوری بڑھنے لگی تھی گو کہ دبئی سے واپس آئے ہوئے بھی اسے تین سال گزر چکے تھے لیکن وہیلا رہنا اور ہڈ آرام ہونا اس کا معمول بن چکا تھا مانے کا باپ چا چاباچھو بھی اکھڑ قسم کا بندہ تھا اور اپنے تیکھے مزاج کی وجہ سے گھر میں بھی نا پسند کیا جا تا تھا۔چاچا باچھومانے کے دیگر تین بھائیوں کے ساتھ مل کر کپڑے کا ایک کارخانہ چلاتا تھا اور اس کے بڑے بھائی باپ کے ساتھ مل کر کارخانہ چلاتے اور ترقی دینے کیلئے دن رات لگے رہتے کمیاں تو ہر بھائی میں کوئی نہ کوئی ضرور تھیں لیکن پھر بھی انکی محنت نظر آتی تھی اور کارخانہ ترقی کی پٹری پر چڑھ چکا تھا مگر چاچا باچھو کو مانہ ہی پیارا لگتا تھا اور من اور آنکھوں کو بھا تا تھا اور اس کی وجہ دو تھیں پہلی تو یہ مانہ اپنے دوسرے بھائیوں سے تھوڑا زیادہ پڑھا لکھا تھا اور پنڈ کے کھوتی سکول کی بجائے شہر کے پائلٹ سکول سے پڑھا ہوا تھا اور دوسری وجہ اس کی کمائی تھی یہی وجوہات تھیں کہ چاچا باچھو اپنے دبئی پلٹ بیٹے سے بہت متا ثر تھا۔جبکہ مانے کی ماں اور گھر کے باقی افراد کو گھر کے بڑے کا جانب دار رویہ،باتیں اور حرکتیں اچھی نہیں لگتی تھیں لیکن باپ کی غیر ضروری اجارا داری اور مانے سے لاڈلہ پن کی وجہ سے گھر عدم توازن کا شکارہورہا تھا اور جلتی پر تیل کا کام مانے کی حد سے زیادہ خود اعتمادی میں اضافہ ہو نا تھا اور اس کے نزدیک کے باقی بھائی کارخانہ چلانے میں نا اہل ہیں گھروالوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور کمائی میں خورد بردکر رہے ہیں۔مانے کے نزدیک سب بھائیوں میں سے کسی کو بھی ڈھنگ سے کام کرنا نہیں آتا اور کار خانہ جُو ں کا تُوں کھڑا ہے۔ترقی نظر نہیں آرہی بلکہ اُلٹا نقصان ہو رہاہے اور سب اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں ان کی جگہ میں جس دن بھی کارخانے کا سربرا ہ بنا تومیں یہ کر دوں گا اور میں وہ کر دوں گا دھیرے دھیرے مانے کا باپ بھی بلا سوچے سمجھے اپنے بیٹے کے شیشے میں اترنے لگا پھر چاچے باچھوکو مانے کے سارے بھائی حرام خور نظر آنے لگے۔ پھر کیا تھا ایک دن مانا اپنی مکر بازئیوں میں کامیاب ہو گیا اور اپنے ابے کو رام کر لیا۔اور پھر چاچے باچھو نے گھر والوں کی پسند نا پسند کی پرواہ کیے بغیر دیگر بیٹوں کوکھڈے لائن لگاتے ہوئے طاقت کے بل بوتے پر سپوت خاص مسٹر مانہ شُر لی کو کارخانہ کا کل وھم سربراہ مقرر کر دیا۔اور خود بڑھاپے کے دنوں میں آرام کر نے کے بجا ئے بطو ر خلیفہ کرسی پر براجمان ہو کر سارے معاملات دیکھنے لگا۔چاچے باچھوکے اس فیصلے سے گھر میں ادھم برپا ہو گیا لیکن کیا کیا جا سکتا تھا وہ اپنے مرتبے اور طاقت کا نا جائز فائدہ اٹھا رہا تھا جو بھی نا انصافی پر بات کرتا چاچا اس کا کارخانہ میں داخلہ بند کر دیتا ۔کپڑے کے کارخانہ میں صرف باچھوکا خون پسینہ ہی شامل نہ تھا بلکہ اس کی بیوی اور اولاد کا بھی اتنی ہمت اور کوشش شامل تھی کیونکہ سب نے گھر پر لگی ہوئی چھوٹی سی کھڈی پر کام شروع کیا تھا جو بعد میں بڑے کارخانہ کا روپ دھار گئی وہ بات الگ کے گھر کا بڑا نمائندہ ہونے کی وجہ سے اس مقام کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا تھا دوسری طرف مسٹر مانہ شُرلی کو اختیار ملنے کی دیر تھی کہ اس کی چال ڈھال میں عجیب سی اکڑ نمایا ں ہونے لگی اب وہ وقت آن پہنچا تھا کہ مانے کو اپنے دبنگ دعوں اور خوابوں کو پورا کرنا تھا کیونکہ مانے کے نزدیک انقلاب چٹکی مار کر آسکتا ہے یہ تو کسی بھی شخص کی نا اہلی ہوتی ہے کہ وہ کارخانے کا سربراہ بھی ہو اور تبدیلی نہ لا سکے! اب میں تبدیلی لا کر دیکھاوں گا اور راتوں رات اس کا رخانہ کو چاند پر پہنچا دوں گا
لیکن کسی کو کیا پتہ تھا کہ مانا جی کے کارخانہ کو آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچانے میں والے اقدمات نہ صرف کتنے ہوش اڑانے والے ہوں گے بلکہ کارخانہ کی چلتی گاڑی کو پٹری سے اتار کرگھر اور کارخانہ سے منسلک افراد کا سکون و امن تباہ کر دیں گے
مانہ اقربا پروری کے سخت خلاف تھا اور بڑے اصولوں کی باتیں کرتا تھا کہ کسی کو بھی عہدہ دینے سے پہلے معیار کا خیال ضرور رکھنا چاہیے
لیکن چارج سنبھالتے ہی مانے نے پہلا پلٹا مارا جسے انگریزی میں یو ٹرن بھی کہتے ہیں اور اپنے بیوی کے انگوٹھا چھاپ کزن کو کارخانہ کا اہم ترین شعبہ دے ڈالا ویسے تو سار ا کارخانہ ہی اہم ہوتا ہے لیکن یہ حصہ ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا تھا کزن جس کا نام دارو تھا کسی دور پنڈ کا رہنے والا تھا شکل صورت اور قابلیت کے لحاظ سے دارو ایک بڑا کارخانہ تو دور کی بات پنڈ میں چھوٹی ہٹی(دکان) چلانے کے قابل بھی نہیں تھالیکن بھائی صاحب جب قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہو تو نظام سکہ بھی حکمران بن جاتا ہے اور یہی کچھ دارو کے ساتھ ہوا اور وہ شہر میں چلتے ایک بڑے کارخانے کے اہم حصہ کا سربراہ بن گیا اور یہ مانے کی نظر کرم کی بدولت ہی ہوا تھا اگرچہ دارو کو آتا جاتا تو کچھ نہ تھا لیکن مانے شرُلی کا ہر دل عزیز بندہ تھا اور اسکی بڑی وجوہات میں سے ایک دارو کو کٹھ پتلی یا ایک ربورٹ کے طور پر استعمال کیا جانا تھا
جو چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی مانے کے مطابق کر سکے اور اگر کوئی قابل بندہ دارو کی جگہ آجاتا تو مانے کو کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا یہاں تک کے مانے کی سربراہی خطرے میں پڑ سکتی تھی اور وہ کارخانے کے تمام اختیارات کو اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا تھا دارو ایک نمائشی منیجر تھا
کلف والا سوٹ پہن کر کارخانہ آجاتا اور پہلے کھاتے سے آخری کھاتے تک گھومتارہتا اور بّٹربّٹردیکھتا کہ کارخانہ کیسے چلتا ہے اگر کسی ورکر یا انچارج سے کچھ پوچھ لیتا تو آگے سے ملنے والے ہر جواب پر کہتا ”ہیں جی“ ”اچھا جی“ اور سچ مان لیتا۔شروع شروع میں کارخانہ میں داخل ہوتے ہی دارو پر گبھراہٹ کی عجیب کفیت طاری ہوتی تھی ایک منظم کارخانہ اور ملازمین کو دیکھ کر ماتھے پر پسینہ آجاتا اور بات کرتے ہوئے آدھی بات ہلک میں اٹک جاتی یہ ایک کنفیوڈز قسم کی شخصیت تھی لیکن اصل مسلہ دارو کا ان پڑھ انگو ٹھا چھاپ اور غیر پیشہ ور ہونا تھا پھر ہولے ہولے آئے روز کارخانے میں نئے نئے گل کھلنے لگے اور نقصان پر نقصان ہو نے لگا شروع شروع میں تو مانہ یہ کہ کر جان چھڑاتا رہا کہابھی تو چارج سنبھالا ہے سب ٹھیک ہو جائے گا اور کارخانے کے بگڑے معاملات کے صیح ذمہ دار اس کے بھائی ہیں اب سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ہر قدم الٹا چل رہا تھا مال کی خرید و فروخت میں خرد برد ہونے لگی اور خام مال جان بوجھ کر مہنگا لیا جانے لگا کپڑے کی سیل پہلے سے کم اور خرچے بڑھنے لگے اور پھر درجنوں ملازموں کو نوکری سے فارغ کرنا پڑا۔گھر والوں میں بے بسی اور بے چینی بڑھنے لگی اگر کوئی بولتا تو اسے باچھو طاقت کے بل بوتے پر چپ کروا دیتا اصل میں چاچا باچھو اور اس کو مشورے دینے والے ساتھی بھی پریشان تھے کہ یہ کس کم عقل کو کارخانہ کی ذمہ دے دی یہ تو چند عرصہ میں نیاّ ڈبو دے گا لیکن چاچااپنی طاقت اور فیصلہ کو سچ کرنے کے لئے بظاہر مطمئن نظر آتا اور خاموش رہتا جو بھی مانے سے دارو کی شکایت کرتا کہ کس نااہل کو منیجر لگا دیا تو آگے سے وضاحت دیتے کہتا تم یہ دیکھو بیچارہ دارو آیا کہاں سے ہے دور کے پنڈ کا رہائیشی ہونا ہی اس کی قابلیت کے لئے کافی بڑی وجہ ہے اس دلیل پر ہر کوئی سر پٹا اٹھتا لیکن مانا دارو پر انگلی نہ اٹھنے دیتا پتہ نہیں بیوی کا ڈر تھا یا پھر اختیار کے چھن جانے کا ڈر؟ دوسری طرف مانے کے سارے دعوے آہستہ آہستہ جھوٹے ثابت ہونے لگے اور مسٹر مانہ شرُلی کاروباری معاملات میں اپنے دوستوں اور رفیقوں کو شراکت دار بنانے لگا اور انکو ٹھیکوں کی صورت میں نوازنے لگا اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لئے مانے کے دعوے پہلے سے اور زیادہ بلند ہو نے لگے اور گھر والے اور پڑوسی مانے کی بیوقوفیوں کا مذاق اڑانے لگے۔ایک کام مانے کا جو برا تھا خود انحصاری کی بجاے بڑے بینکوں سے کڑی شرائط پر قرض حاصل کرنا تھاجب اس سے بھی کام نہ بنا تو مانہ اور اس کا ابا دونوں قریبی دوست کارخانوں کے مالکان سے قرضہ لینے نکل پڑتے لیکن افسوس کارخانہ کی حالت جوں کی توں بلکہ بد تر ہونے لگی لیکن ابے اور مانے کا گٹھ جوڑ اور ہٹ دھرمی میں ذرہ بھی کمی واقع نہیں ہو رہی تھی جبکہ کارخانہ ملازمین اور گھر والوں کے اضطراب اور بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا لیکن مانے کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی بس اسے اپنی ضد پوری کرنے کا موقع مل چکا تھا اور ہر کسی کے سوالات میں وہ ایک ہی جواب دیتا گھبرانا نہیں اور مانہ جی ڈٹ کے کھڑے تھے اس تماشے کو قریبا دو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا کہ دوسرے شہر میں میرا تبادلہ ہو گیا بعد میں میرا رابطہ ان سے ختم ہو گیا لیکن سننے میں آیا کی ابھی مزید کچھ سال اس بد نظمی اور افرا تفری کو چلنا تھا
ابھی میں اس واقعہ کے اخلاقی درس کے پہلو پر بچوں سے بات کرنے ہی والا تھا کہ فاطمہ نے بات کو کاٹتے ہوئے کہا”بابا اس کا انجام یا درس جو بھی ہو لیکن اس سارے واقعہ میں مجھے تو ساری کی ساری اپنے ملک کی سیاسی صورتحال اور مماثلت نظر آرہی ہے“میں ایک دم چونکا اور دنگ رہ گیا کہ میٹرک میں پڑھنے والی اتنی کم عمر بچی میں سیاسی پختگی اور شعور کہاں سے آیا اور میں اسے کیا وضاحت دوں؟