• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال فاروق عادل کے سفر نامے

اردو گاہ کی دیواروں تلے جلال صوئیدان سے باتیں

مجھے خوشی ہے کہ ترکی میں ہمارے سفارت کاروں کی نگاہ میں ایسے محنتی درویش بھی آگئے اور یوم آزادی پر پاکستان کے ایک اعلیٰ قومی اعزاز کے حق دار بنے

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
August 18, 2020
in فاروق عادل کے سفر نامے
0
اردو گاہ کی دیواروں تلے جلال صوئیدان سے باتیں
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

ہم اردو گاہ کی دیواروں کے نیچے تھے اور بات کر رہے تھے زبان کی۔ پاکستان میں کبھی پیتل کے برتن ہوا کرتے تھے، سونے کی طرح چمکتے اور لشکارے مارتے ہوئے لیکن اب نہیں ہوتے۔ ان کی جگہ ڈھیلا لجلجہ پلاسٹک لے چکا ہے۔ مایوسی میں ڈوبے ہوئے دلوں کی طرح جس کے رنگوں میں کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ اردو گاہ کی دیواروں تلے یہی روشنی تھی۔ بچپن کا وہ زمانہ یاد آ گیا جب ابا جی کیاری کے کنارے بیٹھ کر پیتل کے چمکتے ہوئے لوٹے سے پانی لے کر وضو بنایا کرتے تھے۔ انھیں اس برتن سے محبت بھی بہت تھی، کیوں نہ ہوتی،یہ برتن ان کے والد گرامی کے زمانے سے چلا آتا تھا۔ 

اردو گاہ کی قدیم اور فلک آسا دیواروں کے نیچے چھوٹی چھوٹی دوکانیں اور اسٹال بازار کو رونق دیتے ہیں۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ ایسے ہنر مندوں کے ٹھیے ہیں جو نسل در نسل اسی کام سے منسلک چلے آتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کے دیدہ زیب ظروف جنھیں، زمانوں پہلے ہم بھلا چکے ہیں، یہاں پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتے تھے۔ڈاکٹر جلال صوئیدان سے میں نے کہا کہ ذرا توقف کیجئے، میں اپنی یادوں کو آواز دے لوں۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

کچھ عرصہ قبل جب یہ مسافر آذربائیجان کے لیے رخت سفر باندھ رہا تھا، کسی نے کہا کہ ترکی کی طرح اس دیار کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے بھی لوگوں سے بات نہیں ہو پاتی، زبان آڑے آ جاتی ہے۔ استنبول کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو زبان یار من جیسے صوفیانہ مصرعے کی آڑ میں بات کا بتنگڑ بناتے ہیں۔ مجھے تواپنا مدعا بیان کرنے اور مقامیوں کی بات سمجھنے میں کبھی مشکل پیش نہ آئی۔ اردو گاہ کا دوکان دار اردو جانتا تھا اور نہ میں ترکی لیکن ہم دونوں کے درمیان اچھی خاصی بات چیت رہی، یہاں تک کہ پیسے کم کرانے میں بھی کچھ مشکل پیش نہ آئی۔ بس، اسی بات سے میں نے حوصلہ پکڑا اور جلال صوئیدان سے کہا کہ مشترکہ ثقافت، مشترکہ اقدار اور مشترکہ ظروف کی طرح ہماری زبانوں میں بھی بہت کچھ مشترک ہے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ پاکستان سے ترکی تک بلکہ ہر اس خطے کے جہاں سے شاہراہ ریشم گزرتی ہے، ماہرین لسانیات کچھ ایسے تجربات کریں جن کی مدد سے گویا ایک نئی اردو وجود میں آسکے تا کہ آنے والے دنوں میں جب یہ خطے سیاست اور اقتصاد کے نئے رشتوں میں منسلک ہوں تو یہ زبان ان رشتوں کو مزید مضبوط بنا دے۔

استنبول والے جس مقام کو اردو گاہ کہتے ہیں، اس کا اصل نام تو دائرہ امور عسکریہ ہے، آج کل کی زبان میں جی ایچ کیو یا چھاونی کہہ لیجئے۔ استنبول یونیورسٹی ورسٹی عثمانی دور کی اسی تاریخی عمارت میں قائم کی گئی۔ ہم چلتے چلتے سلیمانیہ جامعی یعنی سلیمان عالیشان کی مسجد تک آ پہنچے تھے۔ اس مسجدکو استنبول ماتھے کا جھومر کہئے، استقلال مارشی یعنی ترک قومی ترانے کے شاعر اور اقبال کے ہم عصر محمد عاکف ایر صوئے اپنے کلام کا آغاز جس کے عظیم مناروں اور منبر کے ذکر سے کیا کرتے تھے۔ اسی مسجد کے سائے میں چھوٹے چھوٹے بہت سے ریستوران لوبیا کے ایک لذیذ پکوان کے لیے معروف ہیں۔ ہم یہاں اسی پکوان کی خاطر آئے تھے لیکن مشترکہ زبان کے مشترکہ خواب کی برکت سے جانے کتنے پہر ہم نے یہاں بتا دیے۔
وہ استنبول کی نسبتاً گرم دوپہر تھی جب ڈاکٹر خلیل طوقار نے مجھے سلطان احمت کے علاقے میں ڈھونڈ نکالا اور ہم صدیوں میں سانس لیتی ہوئی گلیوں اور شاہراہوں سے گزرتے ہوئے استنبول یونیورسٹی پہنچے اور سامان کھینچتے ہوئے ان کے دفتر میں داخل ہوئے۔ اس سے پہلے کہ نعرہ مار کر میں کرسی پر ڈھیر ہو جاتا، تازہ ہوا کے جھونکے نے کیفیت بدل دی۔تازہ ہوا کا جھونکانیز ایک آواز۔ اس شہر کی ہوا میں بڑی خوبی ہے، اس کا ایک ہی جھونکا ساری تھکن اور پسینے سے پیدا ہونے والی بے زاری کو خوش گوار کیفیت میں بدل دیتا ہے۔ ویسے ایک کمال تو عثمانی عہد کی اُس کھڑکی کا بھی تھا جو خلیل طوقار کی نشست کے دائیں جانب کھلتی اور اس شہر کے آسمان اور اردو گاہ کی پرانی بیرکوں کا منظر فریم میں جڑی تصویر کی طرح پیش کرتی ہے۔ ممکن ہے، جسم و جاں کو تازگی بخش دینے والی یہ کیفیت میری یاداشت میں کہیں دب کر رہ جاتی اگر اس کے ساتھ ہی محبت، عشق اور سپردگی کے بے پناہ جذبوں کو زباں دینے والے یہ بول میرے کان میں نہ پڑتے کہ چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں مِلائی کے ۔ یوں یہ کلام صدیوں سے گایا جا رہا ہے لیکن ابو محمد قوال اور ان کے ساتھیوں کا اپنا انداز ہے۔ تازہ ہوا کا جھونکا اور ابو محمد کی تان، ساری تھکن اتر گئی۔ منظر ذہن میں تصویر کی طرح اتر آیا۔ ایک صاحب کمپیوٹر کے سامنے جھکے تقریباً جھوم رہے تھے۔ مسافرت میں یوں اچانک کوئی اپنی زبان، اپنی موسیقی اور ڈوب کر اس سے لطف اندوز ہونے والا مل جائے تو کیا کہنے۔ میری کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ ہیں پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان۔ تعارف ابھی جاری تھا کہ پروفیسر صوئیدان اٹھے اوراس مسافر کو گلے سے لگا لیا۔
ٍ اس حد تک تو میں انھیں جانتا تھا کہ ہمارے اورئینٹل کالج لاہور میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشی اور ڈاکٹر تحسین فراقی جیسے بزرگ اساتذہ کے سامنے انھوں نے زانوئے تلمذ تہہ کر رکھا ہے لیکن ان کے کام سے آگاہی مجھے اُس روز ہوئی۔ حضرت امیر خسرو کا یہ عقیدت مند یونیورسٹی سے نکلتا ہے تو صرف دوہی کام کرتا ہے ، اپنے بچوں کے ناز اٹھاتا ہے یا پھر کتابوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ یہ اسی چلہ کشی کا فیض ہے کہ اس شخص نے چند برس کے دوران میںاقبال کے تمام تر اردو کلام، ان کے خطبات یعنی
Reconstruction of Relegious Thougt in Islam کے علاوہ دیوان غالب کا ترکی زبان میں ترجمہ کر ڈالاہے۔ ان کے یہ کارنامے میں نے سنے تو ذہن میں اس سوال نے سر اٹھایا کہ اتنے بھاری بھرکم کام نے تو اس شخص کو تھکا ڈالا ہو گا۔ ڈاکٹر صوئیدان یہ سن کر مسکرائے اور کہا کہ اس مسئلے کا حل بھی میرے پاس ہے جب تھک جاتا ہوں تو اردو افسانے اور مزاح پاروںکا ترجمہ شروع کر دیتا ہوں۔
مجھے خوشی ہے کہ ترکی میں ہمارے سفارت کاروں کی نگاہ میں ایسے محنتی درویش بھی آگئے اور یوم آزادی پر پاکستان کے ایک اعلیٰ قومی اعزاز کے حق دار بنے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار ہوں یا ڈاکٹر جلال صوئیدان، ہمارے یہ دونوں دوست ترکی میں اردو کے سب سے بڑے خدمت گار اور چلتے پھرتے پاکستان ہیں۔

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: ابو محمد قوالاستنبول یونیورسٹیاقبالامیر خسروپاکستانی افسانہتحسین فراقیجلال صوئیدانخلیل طوقارسلطان احمتغالب
Previous Post

اسرائیل سے مرعوبیت کیوں؟

Next Post

جنرل محمد ضیا ء الحق جاں بحق ہوئے

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
جنرل محمد ضیا ء الحق جاں بحق ہوئے

جنرل محمد ضیا ء الحق جاں بحق ہوئے

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions