ہم اردو گاہ کی دیواروں کے نیچے تھے اور بات کر رہے تھے زبان کی۔ پاکستان میں کبھی پیتل کے برتن ہوا کرتے تھے، سونے کی طرح چمکتے اور لشکارے مارتے ہوئے لیکن اب نہیں ہوتے۔ ان کی جگہ ڈھیلا لجلجہ پلاسٹک لے چکا ہے۔ مایوسی میں ڈوبے ہوئے دلوں کی طرح جس کے رنگوں میں کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ اردو گاہ کی دیواروں تلے یہی روشنی تھی۔ بچپن کا وہ زمانہ یاد آ گیا جب ابا جی کیاری کے کنارے بیٹھ کر پیتل کے چمکتے ہوئے لوٹے سے پانی لے کر وضو بنایا کرتے تھے۔ انھیں اس برتن سے محبت بھی بہت تھی، کیوں نہ ہوتی،یہ برتن ان کے والد گرامی کے زمانے سے چلا آتا تھا۔
اردو گاہ کی قدیم اور فلک آسا دیواروں کے نیچے چھوٹی چھوٹی دوکانیں اور اسٹال بازار کو رونق دیتے ہیں۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ ایسے ہنر مندوں کے ٹھیے ہیں جو نسل در نسل اسی کام سے منسلک چلے آتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کے دیدہ زیب ظروف جنھیں، زمانوں پہلے ہم بھلا چکے ہیں، یہاں پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتے تھے۔ڈاکٹر جلال صوئیدان سے میں نے کہا کہ ذرا توقف کیجئے، میں اپنی یادوں کو آواز دے لوں۔
کچھ عرصہ قبل جب یہ مسافر آذربائیجان کے لیے رخت سفر باندھ رہا تھا، کسی نے کہا کہ ترکی کی طرح اس دیار کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے بھی لوگوں سے بات نہیں ہو پاتی، زبان آڑے آ جاتی ہے۔ استنبول کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو زبان یار من جیسے صوفیانہ مصرعے کی آڑ میں بات کا بتنگڑ بناتے ہیں۔ مجھے تواپنا مدعا بیان کرنے اور مقامیوں کی بات سمجھنے میں کبھی مشکل پیش نہ آئی۔ اردو گاہ کا دوکان دار اردو جانتا تھا اور نہ میں ترکی لیکن ہم دونوں کے درمیان اچھی خاصی بات چیت رہی، یہاں تک کہ پیسے کم کرانے میں بھی کچھ مشکل پیش نہ آئی۔ بس، اسی بات سے میں نے حوصلہ پکڑا اور جلال صوئیدان سے کہا کہ مشترکہ ثقافت، مشترکہ اقدار اور مشترکہ ظروف کی طرح ہماری زبانوں میں بھی بہت کچھ مشترک ہے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ پاکستان سے ترکی تک بلکہ ہر اس خطے کے جہاں سے شاہراہ ریشم گزرتی ہے، ماہرین لسانیات کچھ ایسے تجربات کریں جن کی مدد سے گویا ایک نئی اردو وجود میں آسکے تا کہ آنے والے دنوں میں جب یہ خطے سیاست اور اقتصاد کے نئے رشتوں میں منسلک ہوں تو یہ زبان ان رشتوں کو مزید مضبوط بنا دے۔
استنبول والے جس مقام کو اردو گاہ کہتے ہیں، اس کا اصل نام تو دائرہ امور عسکریہ ہے، آج کل کی زبان میں جی ایچ کیو یا چھاونی کہہ لیجئے۔ استنبول یونیورسٹی ورسٹی عثمانی دور کی اسی تاریخی عمارت میں قائم کی گئی۔ ہم چلتے چلتے سلیمانیہ جامعی یعنی سلیمان عالیشان کی مسجد تک آ پہنچے تھے۔ اس مسجدکو استنبول ماتھے کا جھومر کہئے، استقلال مارشی یعنی ترک قومی ترانے کے شاعر اور اقبال کے ہم عصر محمد عاکف ایر صوئے اپنے کلام کا آغاز جس کے عظیم مناروں اور منبر کے ذکر سے کیا کرتے تھے۔ اسی مسجد کے سائے میں چھوٹے چھوٹے بہت سے ریستوران لوبیا کے ایک لذیذ پکوان کے لیے معروف ہیں۔ ہم یہاں اسی پکوان کی خاطر آئے تھے لیکن مشترکہ زبان کے مشترکہ خواب کی برکت سے جانے کتنے پہر ہم نے یہاں بتا دیے۔
وہ استنبول کی نسبتاً گرم دوپہر تھی جب ڈاکٹر خلیل طوقار نے مجھے سلطان احمت کے علاقے میں ڈھونڈ نکالا اور ہم صدیوں میں سانس لیتی ہوئی گلیوں اور شاہراہوں سے گزرتے ہوئے استنبول یونیورسٹی پہنچے اور سامان کھینچتے ہوئے ان کے دفتر میں داخل ہوئے۔ اس سے پہلے کہ نعرہ مار کر میں کرسی پر ڈھیر ہو جاتا، تازہ ہوا کے جھونکے نے کیفیت بدل دی۔تازہ ہوا کا جھونکانیز ایک آواز۔ اس شہر کی ہوا میں بڑی خوبی ہے، اس کا ایک ہی جھونکا ساری تھکن اور پسینے سے پیدا ہونے والی بے زاری کو خوش گوار کیفیت میں بدل دیتا ہے۔ ویسے ایک کمال تو عثمانی عہد کی اُس کھڑکی کا بھی تھا جو خلیل طوقار کی نشست کے دائیں جانب کھلتی اور اس شہر کے آسمان اور اردو گاہ کی پرانی بیرکوں کا منظر فریم میں جڑی تصویر کی طرح پیش کرتی ہے۔ ممکن ہے، جسم و جاں کو تازگی بخش دینے والی یہ کیفیت میری یاداشت میں کہیں دب کر رہ جاتی اگر اس کے ساتھ ہی محبت، عشق اور سپردگی کے بے پناہ جذبوں کو زباں دینے والے یہ بول میرے کان میں نہ پڑتے کہ چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں مِلائی کے ۔ یوں یہ کلام صدیوں سے گایا جا رہا ہے لیکن ابو محمد قوال اور ان کے ساتھیوں کا اپنا انداز ہے۔ تازہ ہوا کا جھونکا اور ابو محمد کی تان، ساری تھکن اتر گئی۔ منظر ذہن میں تصویر کی طرح اتر آیا۔ ایک صاحب کمپیوٹر کے سامنے جھکے تقریباً جھوم رہے تھے۔ مسافرت میں یوں اچانک کوئی اپنی زبان، اپنی موسیقی اور ڈوب کر اس سے لطف اندوز ہونے والا مل جائے تو کیا کہنے۔ میری کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ ہیں پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان۔ تعارف ابھی جاری تھا کہ پروفیسر صوئیدان اٹھے اوراس مسافر کو گلے سے لگا لیا۔
ٍ اس حد تک تو میں انھیں جانتا تھا کہ ہمارے اورئینٹل کالج لاہور میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشی اور ڈاکٹر تحسین فراقی جیسے بزرگ اساتذہ کے سامنے انھوں نے زانوئے تلمذ تہہ کر رکھا ہے لیکن ان کے کام سے آگاہی مجھے اُس روز ہوئی۔ حضرت امیر خسرو کا یہ عقیدت مند یونیورسٹی سے نکلتا ہے تو صرف دوہی کام کرتا ہے ، اپنے بچوں کے ناز اٹھاتا ہے یا پھر کتابوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ یہ اسی چلہ کشی کا فیض ہے کہ اس شخص نے چند برس کے دوران میںاقبال کے تمام تر اردو کلام، ان کے خطبات یعنی
Reconstruction of Relegious Thougt in Islam کے علاوہ دیوان غالب کا ترکی زبان میں ترجمہ کر ڈالاہے۔ ان کے یہ کارنامے میں نے سنے تو ذہن میں اس سوال نے سر اٹھایا کہ اتنے بھاری بھرکم کام نے تو اس شخص کو تھکا ڈالا ہو گا۔ ڈاکٹر صوئیدان یہ سن کر مسکرائے اور کہا کہ اس مسئلے کا حل بھی میرے پاس ہے جب تھک جاتا ہوں تو اردو افسانے اور مزاح پاروںکا ترجمہ شروع کر دیتا ہوں۔
مجھے خوشی ہے کہ ترکی میں ہمارے سفارت کاروں کی نگاہ میں ایسے محنتی درویش بھی آگئے اور یوم آزادی پر پاکستان کے ایک اعلیٰ قومی اعزاز کے حق دار بنے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار ہوں یا ڈاکٹر جلال صوئیدان، ہمارے یہ دونوں دوست ترکی میں اردو کے سب سے بڑے خدمت گار اور چلتے پھرتے پاکستان ہیں۔