• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

کل کا کراچی آج تک

وہ دن جب احمد فراز نے کراچی کے دکھوں کو زبان دی اور محمود فاروقی مرحوم کے توسط سے میں نے اس شہر کے زخم دیکھے | فاروق عادل کا کالم آوازہ

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
September 21, 2020
in محشر خیال
2
کل کا کراچی آج تک
113
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

وہ پوری رات ہم نے آنکھوں میں گزاردی، سبب اس کا کوئی مجبوری نہیں بلکہ ذوق و شوق کی وہ کیفیت تھی ، لڑکپن میں جس کی آبیاری استاد محترم پروفیسر سید ارشاد حسین نقوی اور پرو فیسرڈاکٹر خورشید رضوی کی مبارک صحبت میں ہوئی۔کراچی کے مشاعروں کی شہرت سن رکھی تھی ۔ ایک مشاعرے کی تحریری جھلکیاں تو آج بھی حافظے کا حصہ ہیں جن میں ابوالاثر حفیظ جالندھری ، احمد ندیم قاسمی اور دیگراساتذہ فن نے اپنے کلام سے سرفراز کرنے کے علاوہ لوگوں کو جملے بازی کی تہذیب سے بھی آشنا کیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:

سمرقند کی ایک رات

ریاست، شہری اور محتسب

حاصل بزنجو، اسیر آرزوئے جمہوریت

بیچ میں کچھ برس ایسے بھی آئے جن میں تہذیبی سرگرمیاں تعطل کا شکار رہیں۔ اتنے برسوں کے بعد جب مشاعرے کا اہتمام ہوا تو سچی بات یہ ہے کہ شہر میں خوشی اور جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی۔یہ وہی مشاعرہ ہے جس میں احمد فراز نے اپنی وہ معروف غزل پہلی بار پڑھی تھی  ؎

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

اس روز اس غزل نے اس لیے بھی دل میں جگہ نہیں بنائی کہ اس کے کہنے والے احمد فراز تھے بلکہ اس کا سبب ایک اور بھی تھا۔مشاعرہ جما ہوا تھا اور ہندوستان کی ایک شاعرہ کا ترنم سامعین کو مسحور کیے ہوئے تھا کہ اچانک اس میں کچھ خلل پڑ گیا۔ معلوم ہوا کہ ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق تشریف لائے ہیں۔ اُن کی آمدکا اعلان ہوا تو خوش دلی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا گیا کہ اہل سیاست نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تہذیبی اور ادبی سرگرمیوں میں خود کو شریک کرنا ضروری سمجھا ہے۔ ان کے استقبال کا غلغلہ ابھی ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ ایک اور ہنگامے نے مشاعرے میں کھنڈت ڈال دی۔ یہ افرا تفری دیر تک جاری رہی لیکن مشاعرے کے سامعین بڑے صبر کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔اس مشاعرے کے سامعین بھی بڑے باذوق تھے، ان میں سے بیشتر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آئے تھے۔گویا یہ ایک ایسا تہذیبی واقعہ تھا جس کی تربیت اور روایت کی منتقلی کے لیے تمام اہل خانہ کی موجودگی ضروری تھی۔ کراچی والے بیٹھنے کے لیے چاندنیاں اور تازہ دم ہو جانے کے چائے قہوے کے تھرماس بھی اپنے گھروں سے لائے تھے۔ جلد ہی معلوم ہوا گیا یہ ہنگامہ ”مجذوب“ شاعر جون ایلیا کے ایک جملے سے شروع ہوا جوعظیم احمد طارق کی آمد پر ان کی زبان سے بے ساختہ پھلسا اور ان کی جان کو خطرے میں ڈال گیا۔ اس ہنگامہ آرائی میں منتظمین کو کچھ اور نہ سوجھا تو انھوں نے احمد فراز کو مدعو کر لیا۔ اپنے دیس کے اس البیلے شاعر کو سننے کا یہ کوئی پہلا موقع نہ تھا لیکن دو تہائی بیتی ہوئی رات کی خنکی میں جب انھوں نے اپنے پرسکون ،ہموار اور مخمور لہجے میں پہلا مصرعہ ادا کیا ع

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

تو یقین جانئے جیسے بھڑکتے ہوئے شعلوں پر شبنم کی پھوار برس گئی ہو، پھر یہ مشاعرہ ایسا جما کہ فجر کی آذانوں کے بعد تک جاری رہا۔ یہ اسی دن کی بات ہے ابھی نیند پوری نہیں ہوئی تھی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور اس کے بعد میں نیند آرام چھوڑ کر ایئر پورٹ کی طرف بھاگا۔ لاہورسے میرے رشتے کے بھائی محمو دفاروقی آرہے تھے۔ محمود فاروقی سے خون کا رشتہ تو تھا ہی لیکن ان سے میرا ایک اور بھی رشتہ تھا۔ وہ بڑے صاحب ذوق تھے، ان کے پاس کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا۔بہت سی ایسی کتابیں جن کا میں نے صرف نام ہی سن رکھا تھا، ان کے ہاں ہی دیکھیں اور پڑھیں۔ شاعری سے بھی شغف تھا لیکن اس روز ان سے جو ملاقات ہوئی، اس میں؛ میں نے ان کا ایک اور گن بھی دیکھا۔اپنی کاروباری مصروفیات سے نمٹ کر مجھ سے کہنے لگے کہ گاڑی میں پیٹرول ڈلواؤ اور نکل پڑو، میں اس شہر کو یوں دیکھنا چاہتا ہوں جیسے کوئی کسی کو بے دھیانی میں پکڑتا ہے۔

یہ آوارہ گردی کوئی دو روز تک جاری رہی۔واپسی پر یہ کہتے ہوئے مجھے سے گلے ملے کہ بھاگ اوئے محمود! پوچھا کہ خیریت بھائی جان؟کہنے لگے کہ اس شہر میں کوئی آسیب ہے جو اسے ویران کیے دیتا ہے۔اُس رات کا مشاعرہ، اس میں ہونے والاہنگامہ اور شہر والوں کے صبر کے بے مثال مظاہرے نے اس شہر کے مزاج کے کچھ پہلو مجھ پر آشکار کیے تھے۔ اس کے فوراًبعد محمود بھائی کا یہ تبصرہ، میں چکرا کر رہ گیا ۔ یہ دیکھ کرانھوں نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا کہ آؤ دیکھتے ہیں۔ یہ ان زمانوں کی بات ہے جب کراچی کا نیا ایئر پورٹ یعنی جناح انٹر نیشنل ابھی پرانا نہیں ہوا تھا ۔ وہ مجھے اسی نئے ایئر پورٹ کے کچھ ایسے گوشوں میں لے گئے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ ایک روز قبل ہاکی اسٹیڈیم ہمارا جانا ہوا تھا۔یہ عمارت ایک زمانے میں شہر کاحسن سمجھی جاتی تھی ،سمیع اللہ کلیم اللہ کی ہاکیاں جب حریفوں کو ڈاج دیتے ہوئے گول پر گول کیا کرتی تھیں، یہاں کراچی والوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے مگر وہ پہلی بار تھی جب میں نے دیکھا کہ وہ شاندار اسٹیڈیم جس کی رونقیں شہر کے اجتماعی حافظے میں آج بھی زندہ ہیں، کسمپرسی کا شکار تھا، کئی جگہ سے اس کی چار دیواری کے بلاک گرے ہوئے تھے اور بیٹھنے والی سیڑھیاں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔محمود بھائی نے ایک ایک کر کے شہر کے بعض دیگر اہم علاقوں اور عمارتوں کے مناظر کا ذکر کیا اور کہا کہ جانتے ہو ، اس کا مطلب کیا ہو تا ہے؟ پھر کہا، بے اعتنائی۔ یہ شہر بے اعتنائی کا شکار ہے۔ میں شہر والوں کو کچھ نہیں کہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اختیار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ اس شہر کو Ownنہیں کرتے۔وہ شہر اور اس کے وسائل سے مستفید تو ہوتے ہیں لیکن اس کا حق اسے لوٹانے پر یقین نہیں رکھتے۔

ابھی کچھ دیر ہوتی ہے جب فیس بک پر میں نے لبنیٰ کی ایک پوسٹ دیکھی ۔ لبنیٰ میری بھتیجی اور شعر و ادب کی طالب علم ہے، کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتی ہے کہ انسان سوچتا رہ جاتا ہے۔ جانے کیا سوچ کر اس نے اپنی پوسٹ میں احمد فراز کی وہ پوری غزل لکھ دی جسے سننے کا اتفاق مجھے تب ہوا جب وہ پہلی بار کسی مشاعرے میں پڑھی گئی تھی۔ اس طرح کراچی کے ان دنوں کی یاد تازہ ہو گئی جس نے آج کے کراچی کے لیے بنیاد کا کام دیا۔ اس غزل کا ایک شعر تو ایسا ہے جو بالکل کراچی کے حسب حال ہے   ؎

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

ADVERTISEMENT

بات یہ ہے کہ قومی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خراب حالوں نے اس شہر کو پکارا اور اس شہر نے بڑی وارفتگی کے ساتھ لبیک کہا اور خود کو برباد کیا۔ لوگ اسے پکارتے گئے، اپنا کام نکالتے گئے لیکن پلٹ کر کسی نے بھی شہر والوں کی طرف نہ دیکھا۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں کے دوران میں اس شہر پر جو بیتی، آج کا کراچی اسی کا نتیجہ ہے۔ اپنے دیس کی اس بستی میں ایسے مہذب لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد بستی ہے جو اچھے شعر کے انتظار میں صبر کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ سکتے ہیں تو ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دل سے اٹھنے والے کسی درد کے بے تابانہ اظہار پرجون ایلیا جیسے درویش کو دس فٹ اونچے اسٹیج سے اٹھا کر زمین پر پٹخ سکتے ہیں۔ ایسے مزاج کے شہر کو اگر یوں نظر انداز کر دیا جائے جس کے مظاہر ان دنوں عام دکھائی دیتے ہیں تو نتیجہ اچھا نہیں نکلتا ، اس لیے سونے والے انگڑائی لے کر بیدار ہو جائیں اور پورے خلوص اور تندہی کے ساتھ کراچی کو اس کیفیت سے نکالیں ، اسی میں سب کا بھلاہے۔

Tags: آوازہاحمد فرازسنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیںفاروق عادلکراچیکراچی کے مسائلکراچی کے مشاعرے
Previous Post

کبھی ہم بھی خوبصورت تھے،عمر حیات محل چنیوٹ

Next Post

کیا نواز شریف اب برطانیہ میں سیاسی پناہ لیں گے؟

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
کیا نواز شریف اب برطانیہ میں سیاسی پناہ لیں گے؟

کیا نواز شریف اب برطانیہ میں سیاسی پناہ لیں گے؟

Comments 2

  1. نعیم الرحمٰن says:
    2 years ago

    فاروق عادل بھائی کاعمدہ کالم کراچی کی یادیں اورتہذیبی روایات جوایم کیوایم دور میں برقرار رہیں یہ بھی درست ہے کہ کراچی اپنوں کی بےاعتنائی کاشکارہے

    Reply
    • آوازہ ڈیسک says:
      2 years ago

      سلامت رہئے برادع محترم

      Reply

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

محشر خیال

خیبر پختونخوا
محشر خیال

خیبر پختونخوا بجٹ میں کوئی میگا پروجیکٹ کیوں نہیں؟

عامر لیاقت حسین
فاروق عادل کے خاکے

عامر لیاقت ایسے کیوں تھے؟

لوڈ شیڈنگ
محشر خیال

لوڈ شیڈنگ سے فوری نجات کی ایک قابل عمل تجویز

پاکستان
محشر خیال

پاکستان کا دارالحکومت پاکستان سے باہر منتقل کرنے کی سازش

تبادلہ خیال

نشہ
تبادلہ خیال

بلوچستان میں نشے کی تباہ کاری

کشمیر
تبادلہ خیال

کشمیر میں بھارت کے انسانیت کشی اور ڈرامہ کرفیو

پنشنرز
تبادلہ خیال

پنشنرز کی دہائیوں طویل خدمات کا صلہ کیا ملا؟

عمران خان
تبادلہ خیال

حکیم سعید ، ڈاکٹر اسرار اور عمران خان

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.