• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال فاروق عادل کے خاکے

وہ دھیرے سے دل میں اتر جانے والا

آوازہ: فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
June 8, 2020
in فاروق عادل کے خاکے, محشر خیال
0
فارق عادل
137
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM
آصف فرخی

بادل امنڈ گھمنڈ کر آرہے تھے ، کوئی کوئی بوند گرتی تھی لیکن اتنی بھرپور کہ جہاںگرتی بھگوتی چلی جاتی اورجسم میں سردی کی لہر دوڑ جاتی۔ گاڑی سے اتر کر میں نے سامان پر ایک نگاہ ڈالی اور اسے سمیٹ کر ڈیپارچر کی طرف بڑھنے ہی کو تھا کہ بادل اس زور سے کڑکا، گویا آسمان ہی پھٹ پڑے گا، عین اسی لمحے میں نے اپنے کاندھے پر ایک نرم ہاتھ کا لمس محسوس کیا ، اس سے پہلے کہ میں پلٹ کر دیکھتا ، السلام علیکم کی جانی پہچانی دھیمی سی آواز کانوں سے ٹکرائی پھر کہا کہ عطا الحق قاسمی کی کشش نے آپ کو بھی کھینچ لیا؟یہ آصف فرخی تھے۔ یہ شخص ایسے ہی دھیمے سے دستک دیتااور خاموشی کے ساتھ دل میں اتر جایا کرتا۔
ہماری نسل عصری اعتبار سے تو آصف فرخی سے زیادہ قریب تھی لیکن ہم لوگ ان کے بجائے ان کے والدکو زیادہ جانتے تھے۔ ڈاکٹراسلم فرخی ہماری جامعہ کے رجسٹرار تھے اور یونیورسٹی کے طلبہ کو اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ان سے واسطہ پڑتاہی رہتا تھا۔ اس روایت کی اصل تو جانے کیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اہل زبان بزرگ کم عمروں اور نوجوانوںکو ایک خاص لہجے میں تم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو لطف آجاتا ہے، جامعہ کے طلبہ کو وہ ہمیشہ اسی طرح پکاراکرتے، گویا گھر کے ہی بچے ہوں۔ پھر جب معلوم ہوا کہ ان کا شمار ملک کے بڑے ادیبوں اور دانش وروں میں بھی ہوتا ہے تو ان سے قربت کچھ زیادہ محسوس ہونے لگی۔ کوئی یہی زمانہ رہا ہوگاجب معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صرف وہی نہیں، ان کا بیٹا بھی ہے اور صرف ڈاکٹر ہی نہیں ادب کے کوچے میں بھی قدم رکھتا ہے تو ہم لوگ ذرا ٹھٹکے۔ اس باب میں ہمارا مشاہدہ ذرا مختلف تھا۔ شہر میں ایک بڑے ادیب کو ہم جانتے تھے جن کی خدمات کا دائرہ بڑا وسیع اور متنوع تھا۔ ان کے علمی مرتبے اور حیثیت کی وجہ سے ان کا احترام بھی بہت کیا جاتا تھا۔ ان کے صاحبزادے نے موقع کو غنیمت جانا اور دیکھتے ہی دیکھتے ادیبوں کے کوچے میں انھوں نے بھی قدم رکھ دیا۔پس جب ادب میں آصف فرخی کی دل چسپی کی خبر کان میں پڑی تو ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہم نے سوچا کہ ایک بڑے ادیب کا یہ بیٹا بھی باپ کے قد سے اپنے قد میں اضافے کا متمنی ہے۔
اس شخص کے بارے میں ہمارا یہ رویہ کچھ عرصہ برقرار رہا، یہاں تک کہ”دنیا زاد“ وجود میں آگیا۔ پاکستان میں ادبی پرچوں کی روایت بڑی توانا رہی ہے۔ادب لطف اور مخزن جیسے پرچے تو اس زمانے تک کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکے تھے جب کہ دبستان سرگودھا اور لاہور کے ترجمان”اوراق“ اور”فنون“ بھی اپنے عہد سے نکل کر تاریخ میں جگہ بنا رہے تھے۔ اس کے علاوہ کراچی سمیت ملک کے دیگر ادبی مراکز سے نکلنے والے پرچے یا تو بند ہو چکے تھے یا آخری دموں پر تھے۔ اس طرح کے ہمت شکن زمانے میں ”دنیا زاد“ تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا اور ذہن میں ڈائینو سار کی تصویر ابھری۔
ادبی رسالہ اشتہار کے زوراورمدیر کی محنت پر چلا کرتا تھا لیکن حالات بدلے اور آمدن کے یہ ذرایع مسدود ہو ئے تو پانچ سات سو صفحات پر مشتمل رسالے کی اشاعت بھی ممکن نہ رہی۔ اس طرح ہمارے ملک کی یہ توانا ادبی روایت عظیم الجثہ جانور کی طرح اپنے ہی بوجھ تلے دب کر دم توڑ گئی، ایسے ماحول میں کم صفحات کے ایک ہلکے پھلکے پرچے کااجرا بڑی ذہانت کی بات تھی جسے بھاری بھرکم پرچوں کے مقابلے میں نسبتاً کم محنت کے ساتھ چلایا جاسکتا تھا۔ دنیا زاد کے مدیر کے بارے میں میری رائے میں چپکے سے ایک بڑی تبدیلی رونما ہو گئی۔
احمد ندیم قاسمی ہوں یا ڈاکٹر وزیر آغا، یہ دونوں بزرگ نئی نسل کے ادیبوں کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے اور حتی المقدور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے لیکن یہ دونوں اتنے بڑے نام تھے کہ لوگ انھیں اپنی کوئی تحریر بھیجتے ہوئے دس دفعہ سوچتے، اس کے بعد بھی کسی کی ہمت پڑتی کسی کی نہ پرتی ۔کچھ ایسا ہی معاملہ ان کے دیگر ہم عصروں کا بھی تھا لیکن دنیا زاد کا معاملہ مختلف تھا۔ لکھنے والوں کا واسطہ اپنے عہد کے ایک ایسے نوجوان سے تھا جس کے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ، نیز بحث بھی۔ ”دنیا زاد“ اور اس کے مدیر کی ایک بڑی خدمت تو یہی تھی۔دوسری خدمت یہ تھی مشرق کے اساطیری ادب کو گھول کر پئے ہوئے اس شخص کی بڑی گہری نگاہ دنیا کی تازہ ادبی تحریکوں،تجربات اور نظریات پر بھی تھی جنھیں وہ بڑے تواتر کے ساتھ تراجم کی صورت میں اردو کے ادبی ذخیرے کا حصہ بنارہے تھے۔ ڈاکٹر آصف فرخی کا یہ کارنامہ اردو ادب سے محبت کرنے والے تادیر بھلانہ پائیں گے۔
آصف فرخی بظاہر لیے دیے سے آدمی دکھائی دیتے لیکن ان کے مزاج میں کوئی ایسا جادو تھا کہ ان سے بلاوجہ اپنائیت سی محسوس ہوتی۔ اب پرانی باتیں یاد آتی ہیں تو لگتا ہے کہ ان کے اس جادو کا طوطا طبیعت کے دھیمے پن، خیر خواہی کے امڈتے ہوئے جذبے اور بے غرض مشورے کے پنجرے میںبندتھا۔ یوں لگتا ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے جب شام ڈھلے فون کی گھنٹی بجی،میں حسب معمول پیشہ ورانہ تقاضوں کے تحت ڈیڈ لائن کے مطابق کوئی رپورٹ مکمل کرنے میں مصروف تھا۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف آصف تھے، بڑے ڈرامائی انداز میں کہاکہ کب تک برادر کب تک؟ ان کے تقاضے یاد آگئے۔ وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے کہ آپ کی تحریریں فقط صحافتی تحریریں نہیں ہوتیں، ان کے گلے میں افسانہ بولتا ہے، آپ افسانہ کیوں نہیں لکھتے؟بے پناہ مصروفیت کے باوجود ان کی آواز مسرت کی پھوار بن کر رگ و پے میں اتر گئی لیکن اس کے باوجود ان جان بنتے ہوئے میں نے سوال کیا کہ اس غریب سے کیا قصور ہوگیا ڈاکٹر صاحب!ایک قہقہہ بلند ہوا اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ یوں نہیں مانیں گے۔ میں واقعی مان کر نہیں دیا ۔ فون کی گھنٹی اب بھی بجتی ہے، لوگوں سے بات اب بھی ہوتی ہے لیکن وہ دھیرے سے دل میں اتر جانے والی آواز اب سنائی نہیں دیتی ، اب صرف یادوںکا سہاراہی باقی ہے۔

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM
Tags: آصف فرخیادبدنیا زاد
Previous Post

ٹرمپ کا امریکہ اور مودی کا بھارت

Next Post

چپاتی تحریک اور ڈنکا شاہ

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
چپاتی تحریک اور ڈنکا شاہ

چپاتی تحریک اور ڈنکا شاہ

محشر خیال

مریم نواز
محشر خیال

مریم نواز سے وابستہ اصل امید

عمران خان
محشر خیال

قریشی صاحب کا ٹوٹا تارا اور عمران خان

مولانا فضل الرحمان
محشر خیال

مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کی خواتین

عمران خان
محشر خیال

عمران خان بچاؤ کا آخری طریقہ

تبادلہ خیال

وفاقی محتسب
تبادلہ خیال

وفاقی محتسب۔چا لیس سال کا سفر

پختون خوا میپ
تبادلہ خیال

پختونخوا میپ: ایک جماعت تین سربراہ

کراچی
تبادلہ خیال

کراچی: ٹوٹا کیسے، بچائیں کیسے؟

سیاست
تبادلہ خیال

سیاست چھوڑ دی میں نے، کیا واقعی سچ؟

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions