Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
انکل سام کا دیس پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کی موت کے بعد سیاسی اور سماجی انتشار کا شکار نظر آ رہا ہے۔امریکہ میں سفید اور سیاہ فام کے قدیم تعصب کے باوجود مختلف ریاستوں میں سینکڑوں امریکی شہری سڑکوں پر ہیں اور گرفتار پولیس اہلکار اور اس کے ساتھیوں کو سخت سزا دینے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ انہی ہنگاموں کے بیچ صدر ٹرمپ اور امریکی فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان کش مکش نے بھی جنم لیا ہے۔ فوجی قیادت نے اپنے ہی ملک کے شہریوں کا سامنا کرنے سے انکار کیا جس کے بعد صدر ٹرمپ کو انتشار زدہ علاقوں میں فوجی دستوں کی تعیناتی کے حکم سے پسپا ہونا پڑا۔
امریکہ کے حالیہ واقعات اور حکومتی رویوں اور اقدامات کا موازنہ مختلف ممالک کی حکومتوں اور عوام کے طرزِ عمل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک جانب ان مظاہروں کی چنگاری سے امریکہ کی تباہی کے مژدے سنانے والے افراد وافر مقدار میں موجود ہیں، وہیں ایسے عقل پسندوں کی تعداد بھی کم نہیں جن کے خیال میں ایک سیاہ فام کے قتل پر سینکڑوں امریکیوں کا سڑکوں پر نکل آنا ہی امریکی نظام اور معاشرتی اقدار کی پائداری کی دلیل ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ کو فی الحال اپنے اندرون سے بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے اور امریکہ کی بربادی یا پسپائی کے خواب دیکھنے والوں کو ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا۔
ایک دلچسپ موازنہ اس ہنگام میں ٹرمپ کے امریکہ اور نریندر مودی کے بھارت کا کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومتوں کے تحت دونوں ممالک کے حالات میں کئی حیرت انگیز مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں حکمران پاپولزم کی سیاست کرتے ہوئے، رائج نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں۔ دونوں کی سیاست کا خمیر کسی مخصوص گروہ کے لیے نفرت کے جذبے سے اٹھا ہے۔ دونوں نے اقتدار کا ہما سر پر سجانے کے معا بعد ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کا براہ راست اثر ان ممالک کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر پڑے اور یوں اکثریت کا دل جیتنے کی کوشش پر ان کے اقتدار کی کشتی تیر رہی ہے۔ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کے مخالفین کو امید ہے کہ وہ اپنی متعصبانہ حماقتوں اور نفرت انگیز سیاست کے ذریعے نہ صرف خود اپنے اقتدار بلکہ اپنے معاشروں اور معاشرتی اقدار کی قبر بھی کھود رہے ہیں۔
تاہم بھارت اور امریکہ کے حالات اور حالیہ واقعات کا قدرے گہرا تجزیہ تصویر کے کچھ نئے رخ ہمارے سامنے لاتا ہے۔ معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے کے الفاظ میں ٹرمپ کا وائٹ ہاوٴس تک پہنچ پانا دراصل امریکی جمہوریت میں کسی خامی(Fault) کا نتیجہ ہے۔ امریکی سماج اور نظام اس خامی کی پشت پر موجود نہیں ہے اور جونہی یہ خامی درست ہوگی، سیاسی میدان سے ٹرمپ فیکٹر کا خاتمہ ہوجائے گا۔جبکہ دوسری جانب نریندر مودی جیسے متعصب اور جرائم پیشہ افراد کا ایوان اقتدار میں پہنچنا سسٹم کی کسی خامی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سسٹم کے اندر سرایت کر جانے والی نفرت، تعصب اور شدت پسندی کا ثمر ہے ۔ پچھلے ستر سالوں کے اندر بھارتی نظام، اداروں اور سماج کے اندر مخصوص طبقات کے خلاف جو نفرت اور تعصب انڈیلا گیا ہے وہ ارتقاپذیر ہوکر اب نریندر مودی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ ایک فرد ہے، جس کی موجودگی اگرچہ امریکی نظام اور سماج کے لیے خطرات کی حامل ہے تاہم اس فرد کے جاتے ہی نظام ایک بار پھر اپنی سابقہ روش پر چلنا شروع ہوجائے گا۔
ٹرمپ کو اپنے نظام ، اداروں اور سماج سے وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو ان کی حماقتوں کی ساتھی بن کر ملک و قوم کے لیے کسی بڑے سانحے کا سبب بنے۔ اس کی ایک مثال حالیہ انتشار کے دنوں میں ہم نے دیکھی جب امریکی فوج نے نہ صرف ٹرمپ کے احکامات ماننے سے انکار کیا بلکہ صدر کو ان کی حدود اور ان کا مقام یاد دلانے کی بھی کوشش کی۔ ہر چند ماہ بعد حساس اور اہم عہدوں پر فائز اہلکاروں کی برطرفی یا استعفے اداروں کے اندر موجود اسی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں جس کا محرک ٹرمپ کی ذات اور ان کے احمقانہ اقدامات ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے سب سے پہلے امریکہ (America First)کے سراب میں ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا، وہ بھی اب اپنے فیصلے پر رنجیدہ ہیں۔ ۲۰۲۰ کے انتخابات میں ٹرمپ کی قصرصدارت سے بے دخلی خارج از امکان نہیں۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے ساتھ عدم اتفاق اور ان کا دم چھلا بننے سے انکار کی ایک اور مثال ہمارے سامنے موصوف کی میڈیا کے ساتھ جنگ کی صورت میں موجود ہے۔ صدر کی ہر دوسری تیسری ٹویٹ میں سی این این یا کسی دوسرے ٹیلیویژن چینل اور اخبار کو امریکہ کی ترقی کا دشمن قرار دے کر دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ خود ٹوئٹر کے ساتھ بھی ان کا پھڈا چل رہا ہے۔
دوسری جانب اگر انہی پیمانوں پر ہم بھارتی معاشرے، نظام اور اداروں کا جائزہ لیں تو صورت حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ نفرت اور تعصب کی سیاست اکیلے مودی کا نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کا سوچا سمجھا ایجنڈا ہے۔ امت شاہ جیسے درجنوں پارٹی رہنما بغیر کسی حیل و حجت کے مودی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں کانگریس سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ نفرت کی سیاست کے آگے بند باندھنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ تاہم موجودہ پارٹی صدر راہول گاندھی خود اس مشن پر ہیں کہ ہندو قوم پرستوں کی چاپلوسی کرکے انھیں بی جے پی سے توڑا اور کانگرس کے ووٹ بنک کا حصہ بنایا جا سکے۔ کانگرس کی صفوں میں یہ خیال عام ہے کہ ان کے مسترد ہونے کی اصل وجہ ماضی میں اقلیتی گروہوں کو ہندووٴں سے زیادہ اہمیت دینا ہے۔ چنانچہ سیاسی اشرافیہ کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت مفقود ہے۔
بھارتی فوج، جسے جمہوریت کا محافظ گردانا جاتا ہے بھی اس ایجنڈے کا کل پرزا نظر آرہی ہے۔ آئے روز پاکستان کو دھمکیاں، کشمیر کے اندر فسطائیت اورغیرجمہوری اقدامات پر خاموشی ہی جنرل بپن راوت کے وہ اعلیٰ عسکری کارنامے ہیں جن کے اعتراف میں ان کو ریٹائر کرنے کی بجائے ان کے لیے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا نیا عہدہ تخلیق کر کے دے دیا گیا۔
رہا بھارتی میڈیا، تو اس کے بارے میں تو ہر کس و ناکس جانتا ہے کہ وہ دنیا کا غیرسنجیدہ ترین میڈیا ہے۔ ذرائع ابلاغ شروع ہی سے بی جے پی کا خصوصی میدان رہا ہے۔ چنانچہ مودی جی نے آتے ہی میڈیا کو اپنی مٹھی میں کرنے کے لیے گاجر یا چھڑی (Carrot or Stick)کی پالیسی اپنائی۔ حامی عناصر کو خصوصی مراعات دی گئیں جبکہ مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اشتہارات کے فنڈز میں کمی اور پابندیوں جیسے حربے آزمائے گئے۔ چنانچہ میڈیا اداروں اور معروف صحافیوں کی اکثریت اب مودی جی کے گن گاتی اور مسلم مخالف، اقلیت مخالف اور پاکستان مخالف اقدامات اور بیانات پر ان کی گڈی چڑھائے رکھتی ہے۔
بھارت اور امریکہ کی موجودہ حکومتیں اپنی پالیسی سازی میں جتنی حماقتیں کر لیں، معروضی حالات، سماجی شعور ، ادارہ جاتی ساخت اور سیاسی بلوغت کا فرق ان دونوں کی صورت حال کو یکسر مختلف بناتا ہے۔ چنانچہ امریکہ یا دنیا کو ٹرمپ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا بھارت اور جنوبی ایشیا کے امن کو مودی جی اوران کے بغل بچوں سے ہے۔
انکل سام کا دیس پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کی موت کے بعد سیاسی اور سماجی انتشار کا شکار نظر آ رہا ہے۔امریکہ میں سفید اور سیاہ فام کے قدیم تعصب کے باوجود مختلف ریاستوں میں سینکڑوں امریکی شہری سڑکوں پر ہیں اور گرفتار پولیس اہلکار اور اس کے ساتھیوں کو سخت سزا دینے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ انہی ہنگاموں کے بیچ صدر ٹرمپ اور امریکی فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان کش مکش نے بھی جنم لیا ہے۔ فوجی قیادت نے اپنے ہی ملک کے شہریوں کا سامنا کرنے سے انکار کیا جس کے بعد صدر ٹرمپ کو انتشار زدہ علاقوں میں فوجی دستوں کی تعیناتی کے حکم سے پسپا ہونا پڑا۔
امریکہ کے حالیہ واقعات اور حکومتی رویوں اور اقدامات کا موازنہ مختلف ممالک کی حکومتوں اور عوام کے طرزِ عمل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک جانب ان مظاہروں کی چنگاری سے امریکہ کی تباہی کے مژدے سنانے والے افراد وافر مقدار میں موجود ہیں، وہیں ایسے عقل پسندوں کی تعداد بھی کم نہیں جن کے خیال میں ایک سیاہ فام کے قتل پر سینکڑوں امریکیوں کا سڑکوں پر نکل آنا ہی امریکی نظام اور معاشرتی اقدار کی پائداری کی دلیل ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ کو فی الحال اپنے اندرون سے بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے اور امریکہ کی بربادی یا پسپائی کے خواب دیکھنے والوں کو ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا۔
ایک دلچسپ موازنہ اس ہنگام میں ٹرمپ کے امریکہ اور نریندر مودی کے بھارت کا کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومتوں کے تحت دونوں ممالک کے حالات میں کئی حیرت انگیز مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں حکمران پاپولزم کی سیاست کرتے ہوئے، رائج نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں۔ دونوں کی سیاست کا خمیر کسی مخصوص گروہ کے لیے نفرت کے جذبے سے اٹھا ہے۔ دونوں نے اقتدار کا ہما سر پر سجانے کے معا بعد ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کا براہ راست اثر ان ممالک کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر پڑے اور یوں اکثریت کا دل جیتنے کی کوشش پر ان کے اقتدار کی کشتی تیر رہی ہے۔ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کے مخالفین کو امید ہے کہ وہ اپنی متعصبانہ حماقتوں اور نفرت انگیز سیاست کے ذریعے نہ صرف خود اپنے اقتدار بلکہ اپنے معاشروں اور معاشرتی اقدار کی قبر بھی کھود رہے ہیں۔
تاہم بھارت اور امریکہ کے حالات اور حالیہ واقعات کا قدرے گہرا تجزیہ تصویر کے کچھ نئے رخ ہمارے سامنے لاتا ہے۔ معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے کے الفاظ میں ٹرمپ کا وائٹ ہاوٴس تک پہنچ پانا دراصل امریکی جمہوریت میں کسی خامی(Fault) کا نتیجہ ہے۔ امریکی سماج اور نظام اس خامی کی پشت پر موجود نہیں ہے اور جونہی یہ خامی درست ہوگی، سیاسی میدان سے ٹرمپ فیکٹر کا خاتمہ ہوجائے گا۔جبکہ دوسری جانب نریندر مودی جیسے متعصب اور جرائم پیشہ افراد کا ایوان اقتدار میں پہنچنا سسٹم کی کسی خامی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سسٹم کے اندر سرایت کر جانے والی نفرت، تعصب اور شدت پسندی کا ثمر ہے ۔ پچھلے ستر سالوں کے اندر بھارتی نظام، اداروں اور سماج کے اندر مخصوص طبقات کے خلاف جو نفرت اور تعصب انڈیلا گیا ہے وہ ارتقاپذیر ہوکر اب نریندر مودی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ ایک فرد ہے، جس کی موجودگی اگرچہ امریکی نظام اور سماج کے لیے خطرات کی حامل ہے تاہم اس فرد کے جاتے ہی نظام ایک بار پھر اپنی سابقہ روش پر چلنا شروع ہوجائے گا۔
ٹرمپ کو اپنے نظام ، اداروں اور سماج سے وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو ان کی حماقتوں کی ساتھی بن کر ملک و قوم کے لیے کسی بڑے سانحے کا سبب بنے۔ اس کی ایک مثال حالیہ انتشار کے دنوں میں ہم نے دیکھی جب امریکی فوج نے نہ صرف ٹرمپ کے احکامات ماننے سے انکار کیا بلکہ صدر کو ان کی حدود اور ان کا مقام یاد دلانے کی بھی کوشش کی۔ ہر چند ماہ بعد حساس اور اہم عہدوں پر فائز اہلکاروں کی برطرفی یا استعفے اداروں کے اندر موجود اسی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں جس کا محرک ٹرمپ کی ذات اور ان کے احمقانہ اقدامات ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے سب سے پہلے امریکہ (America First)کے سراب میں ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا، وہ بھی اب اپنے فیصلے پر رنجیدہ ہیں۔ ۲۰۲۰ کے انتخابات میں ٹرمپ کی قصرصدارت سے بے دخلی خارج از امکان نہیں۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے ساتھ عدم اتفاق اور ان کا دم چھلا بننے سے انکار کی ایک اور مثال ہمارے سامنے موصوف کی میڈیا کے ساتھ جنگ کی صورت میں موجود ہے۔ صدر کی ہر دوسری تیسری ٹویٹ میں سی این این یا کسی دوسرے ٹیلیویژن چینل اور اخبار کو امریکہ کی ترقی کا دشمن قرار دے کر دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ خود ٹوئٹر کے ساتھ بھی ان کا پھڈا چل رہا ہے۔
دوسری جانب اگر انہی پیمانوں پر ہم بھارتی معاشرے، نظام اور اداروں کا جائزہ لیں تو صورت حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ نفرت اور تعصب کی سیاست اکیلے مودی کا نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کا سوچا سمجھا ایجنڈا ہے۔ امت شاہ جیسے درجنوں پارٹی رہنما بغیر کسی حیل و حجت کے مودی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں کانگریس سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ نفرت کی سیاست کے آگے بند باندھنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ تاہم موجودہ پارٹی صدر راہول گاندھی خود اس مشن پر ہیں کہ ہندو قوم پرستوں کی چاپلوسی کرکے انھیں بی جے پی سے توڑا اور کانگرس کے ووٹ بنک کا حصہ بنایا جا سکے۔ کانگرس کی صفوں میں یہ خیال عام ہے کہ ان کے مسترد ہونے کی اصل وجہ ماضی میں اقلیتی گروہوں کو ہندووٴں سے زیادہ اہمیت دینا ہے۔ چنانچہ سیاسی اشرافیہ کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت مفقود ہے۔
بھارتی فوج، جسے جمہوریت کا محافظ گردانا جاتا ہے بھی اس ایجنڈے کا کل پرزا نظر آرہی ہے۔ آئے روز پاکستان کو دھمکیاں، کشمیر کے اندر فسطائیت اورغیرجمہوری اقدامات پر خاموشی ہی جنرل بپن راوت کے وہ اعلیٰ عسکری کارنامے ہیں جن کے اعتراف میں ان کو ریٹائر کرنے کی بجائے ان کے لیے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا نیا عہدہ تخلیق کر کے دے دیا گیا۔
رہا بھارتی میڈیا، تو اس کے بارے میں تو ہر کس و ناکس جانتا ہے کہ وہ دنیا کا غیرسنجیدہ ترین میڈیا ہے۔ ذرائع ابلاغ شروع ہی سے بی جے پی کا خصوصی میدان رہا ہے۔ چنانچہ مودی جی نے آتے ہی میڈیا کو اپنی مٹھی میں کرنے کے لیے گاجر یا چھڑی (Carrot or Stick)کی پالیسی اپنائی۔ حامی عناصر کو خصوصی مراعات دی گئیں جبکہ مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اشتہارات کے فنڈز میں کمی اور پابندیوں جیسے حربے آزمائے گئے۔ چنانچہ میڈیا اداروں اور معروف صحافیوں کی اکثریت اب مودی جی کے گن گاتی اور مسلم مخالف، اقلیت مخالف اور پاکستان مخالف اقدامات اور بیانات پر ان کی گڈی چڑھائے رکھتی ہے۔
بھارت اور امریکہ کی موجودہ حکومتیں اپنی پالیسی سازی میں جتنی حماقتیں کر لیں، معروضی حالات، سماجی شعور ، ادارہ جاتی ساخت اور سیاسی بلوغت کا فرق ان دونوں کی صورت حال کو یکسر مختلف بناتا ہے۔ چنانچہ امریکہ یا دنیا کو ٹرمپ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا بھارت اور جنوبی ایشیا کے امن کو مودی جی اوران کے بغل بچوں سے ہے۔
انکل سام کا دیس پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کی موت کے بعد سیاسی اور سماجی انتشار کا شکار نظر آ رہا ہے۔امریکہ میں سفید اور سیاہ فام کے قدیم تعصب کے باوجود مختلف ریاستوں میں سینکڑوں امریکی شہری سڑکوں پر ہیں اور گرفتار پولیس اہلکار اور اس کے ساتھیوں کو سخت سزا دینے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ انہی ہنگاموں کے بیچ صدر ٹرمپ اور امریکی فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان کش مکش نے بھی جنم لیا ہے۔ فوجی قیادت نے اپنے ہی ملک کے شہریوں کا سامنا کرنے سے انکار کیا جس کے بعد صدر ٹرمپ کو انتشار زدہ علاقوں میں فوجی دستوں کی تعیناتی کے حکم سے پسپا ہونا پڑا۔
امریکہ کے حالیہ واقعات اور حکومتی رویوں اور اقدامات کا موازنہ مختلف ممالک کی حکومتوں اور عوام کے طرزِ عمل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک جانب ان مظاہروں کی چنگاری سے امریکہ کی تباہی کے مژدے سنانے والے افراد وافر مقدار میں موجود ہیں، وہیں ایسے عقل پسندوں کی تعداد بھی کم نہیں جن کے خیال میں ایک سیاہ فام کے قتل پر سینکڑوں امریکیوں کا سڑکوں پر نکل آنا ہی امریکی نظام اور معاشرتی اقدار کی پائداری کی دلیل ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ کو فی الحال اپنے اندرون سے بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے اور امریکہ کی بربادی یا پسپائی کے خواب دیکھنے والوں کو ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا۔
ایک دلچسپ موازنہ اس ہنگام میں ٹرمپ کے امریکہ اور نریندر مودی کے بھارت کا کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومتوں کے تحت دونوں ممالک کے حالات میں کئی حیرت انگیز مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں حکمران پاپولزم کی سیاست کرتے ہوئے، رائج نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں۔ دونوں کی سیاست کا خمیر کسی مخصوص گروہ کے لیے نفرت کے جذبے سے اٹھا ہے۔ دونوں نے اقتدار کا ہما سر پر سجانے کے معا بعد ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کا براہ راست اثر ان ممالک کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر پڑے اور یوں اکثریت کا دل جیتنے کی کوشش پر ان کے اقتدار کی کشتی تیر رہی ہے۔ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کے مخالفین کو امید ہے کہ وہ اپنی متعصبانہ حماقتوں اور نفرت انگیز سیاست کے ذریعے نہ صرف خود اپنے اقتدار بلکہ اپنے معاشروں اور معاشرتی اقدار کی قبر بھی کھود رہے ہیں۔
تاہم بھارت اور امریکہ کے حالات اور حالیہ واقعات کا قدرے گہرا تجزیہ تصویر کے کچھ نئے رخ ہمارے سامنے لاتا ہے۔ معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے کے الفاظ میں ٹرمپ کا وائٹ ہاوٴس تک پہنچ پانا دراصل امریکی جمہوریت میں کسی خامی(Fault) کا نتیجہ ہے۔ امریکی سماج اور نظام اس خامی کی پشت پر موجود نہیں ہے اور جونہی یہ خامی درست ہوگی، سیاسی میدان سے ٹرمپ فیکٹر کا خاتمہ ہوجائے گا۔جبکہ دوسری جانب نریندر مودی جیسے متعصب اور جرائم پیشہ افراد کا ایوان اقتدار میں پہنچنا سسٹم کی کسی خامی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سسٹم کے اندر سرایت کر جانے والی نفرت، تعصب اور شدت پسندی کا ثمر ہے ۔ پچھلے ستر سالوں کے اندر بھارتی نظام، اداروں اور سماج کے اندر مخصوص طبقات کے خلاف جو نفرت اور تعصب انڈیلا گیا ہے وہ ارتقاپذیر ہوکر اب نریندر مودی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ ایک فرد ہے، جس کی موجودگی اگرچہ امریکی نظام اور سماج کے لیے خطرات کی حامل ہے تاہم اس فرد کے جاتے ہی نظام ایک بار پھر اپنی سابقہ روش پر چلنا شروع ہوجائے گا۔
ٹرمپ کو اپنے نظام ، اداروں اور سماج سے وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو ان کی حماقتوں کی ساتھی بن کر ملک و قوم کے لیے کسی بڑے سانحے کا سبب بنے۔ اس کی ایک مثال حالیہ انتشار کے دنوں میں ہم نے دیکھی جب امریکی فوج نے نہ صرف ٹرمپ کے احکامات ماننے سے انکار کیا بلکہ صدر کو ان کی حدود اور ان کا مقام یاد دلانے کی بھی کوشش کی۔ ہر چند ماہ بعد حساس اور اہم عہدوں پر فائز اہلکاروں کی برطرفی یا استعفے اداروں کے اندر موجود اسی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں جس کا محرک ٹرمپ کی ذات اور ان کے احمقانہ اقدامات ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے سب سے پہلے امریکہ (America First)کے سراب میں ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا، وہ بھی اب اپنے فیصلے پر رنجیدہ ہیں۔ ۲۰۲۰ کے انتخابات میں ٹرمپ کی قصرصدارت سے بے دخلی خارج از امکان نہیں۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے ساتھ عدم اتفاق اور ان کا دم چھلا بننے سے انکار کی ایک اور مثال ہمارے سامنے موصوف کی میڈیا کے ساتھ جنگ کی صورت میں موجود ہے۔ صدر کی ہر دوسری تیسری ٹویٹ میں سی این این یا کسی دوسرے ٹیلیویژن چینل اور اخبار کو امریکہ کی ترقی کا دشمن قرار دے کر دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ خود ٹوئٹر کے ساتھ بھی ان کا پھڈا چل رہا ہے۔
دوسری جانب اگر انہی پیمانوں پر ہم بھارتی معاشرے، نظام اور اداروں کا جائزہ لیں تو صورت حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ نفرت اور تعصب کی سیاست اکیلے مودی کا نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کا سوچا سمجھا ایجنڈا ہے۔ امت شاہ جیسے درجنوں پارٹی رہنما بغیر کسی حیل و حجت کے مودی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں کانگریس سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ نفرت کی سیاست کے آگے بند باندھنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ تاہم موجودہ پارٹی صدر راہول گاندھی خود اس مشن پر ہیں کہ ہندو قوم پرستوں کی چاپلوسی کرکے انھیں بی جے پی سے توڑا اور کانگرس کے ووٹ بنک کا حصہ بنایا جا سکے۔ کانگرس کی صفوں میں یہ خیال عام ہے کہ ان کے مسترد ہونے کی اصل وجہ ماضی میں اقلیتی گروہوں کو ہندووٴں سے زیادہ اہمیت دینا ہے۔ چنانچہ سیاسی اشرافیہ کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت مفقود ہے۔
بھارتی فوج، جسے جمہوریت کا محافظ گردانا جاتا ہے بھی اس ایجنڈے کا کل پرزا نظر آرہی ہے۔ آئے روز پاکستان کو دھمکیاں، کشمیر کے اندر فسطائیت اورغیرجمہوری اقدامات پر خاموشی ہی جنرل بپن راوت کے وہ اعلیٰ عسکری کارنامے ہیں جن کے اعتراف میں ان کو ریٹائر کرنے کی بجائے ان کے لیے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا نیا عہدہ تخلیق کر کے دے دیا گیا۔
رہا بھارتی میڈیا، تو اس کے بارے میں تو ہر کس و ناکس جانتا ہے کہ وہ دنیا کا غیرسنجیدہ ترین میڈیا ہے۔ ذرائع ابلاغ شروع ہی سے بی جے پی کا خصوصی میدان رہا ہے۔ چنانچہ مودی جی نے آتے ہی میڈیا کو اپنی مٹھی میں کرنے کے لیے گاجر یا چھڑی (Carrot or Stick)کی پالیسی اپنائی۔ حامی عناصر کو خصوصی مراعات دی گئیں جبکہ مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اشتہارات کے فنڈز میں کمی اور پابندیوں جیسے حربے آزمائے گئے۔ چنانچہ میڈیا اداروں اور معروف صحافیوں کی اکثریت اب مودی جی کے گن گاتی اور مسلم مخالف، اقلیت مخالف اور پاکستان مخالف اقدامات اور بیانات پر ان کی گڈی چڑھائے رکھتی ہے۔
بھارت اور امریکہ کی موجودہ حکومتیں اپنی پالیسی سازی میں جتنی حماقتیں کر لیں، معروضی حالات، سماجی شعور ، ادارہ جاتی ساخت اور سیاسی بلوغت کا فرق ان دونوں کی صورت حال کو یکسر مختلف بناتا ہے۔ چنانچہ امریکہ یا دنیا کو ٹرمپ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا بھارت اور جنوبی ایشیا کے امن کو مودی جی اوران کے بغل بچوں سے ہے۔
انکل سام کا دیس پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کی موت کے بعد سیاسی اور سماجی انتشار کا شکار نظر آ رہا ہے۔امریکہ میں سفید اور سیاہ فام کے قدیم تعصب کے باوجود مختلف ریاستوں میں سینکڑوں امریکی شہری سڑکوں پر ہیں اور گرفتار پولیس اہلکار اور اس کے ساتھیوں کو سخت سزا دینے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ انہی ہنگاموں کے بیچ صدر ٹرمپ اور امریکی فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان کش مکش نے بھی جنم لیا ہے۔ فوجی قیادت نے اپنے ہی ملک کے شہریوں کا سامنا کرنے سے انکار کیا جس کے بعد صدر ٹرمپ کو انتشار زدہ علاقوں میں فوجی دستوں کی تعیناتی کے حکم سے پسپا ہونا پڑا۔
امریکہ کے حالیہ واقعات اور حکومتی رویوں اور اقدامات کا موازنہ مختلف ممالک کی حکومتوں اور عوام کے طرزِ عمل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک جانب ان مظاہروں کی چنگاری سے امریکہ کی تباہی کے مژدے سنانے والے افراد وافر مقدار میں موجود ہیں، وہیں ایسے عقل پسندوں کی تعداد بھی کم نہیں جن کے خیال میں ایک سیاہ فام کے قتل پر سینکڑوں امریکیوں کا سڑکوں پر نکل آنا ہی امریکی نظام اور معاشرتی اقدار کی پائداری کی دلیل ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ کو فی الحال اپنے اندرون سے بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے اور امریکہ کی بربادی یا پسپائی کے خواب دیکھنے والوں کو ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا۔
ایک دلچسپ موازنہ اس ہنگام میں ٹرمپ کے امریکہ اور نریندر مودی کے بھارت کا کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومتوں کے تحت دونوں ممالک کے حالات میں کئی حیرت انگیز مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں حکمران پاپولزم کی سیاست کرتے ہوئے، رائج نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں۔ دونوں کی سیاست کا خمیر کسی مخصوص گروہ کے لیے نفرت کے جذبے سے اٹھا ہے۔ دونوں نے اقتدار کا ہما سر پر سجانے کے معا بعد ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کا براہ راست اثر ان ممالک کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر پڑے اور یوں اکثریت کا دل جیتنے کی کوشش پر ان کے اقتدار کی کشتی تیر رہی ہے۔ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کے مخالفین کو امید ہے کہ وہ اپنی متعصبانہ حماقتوں اور نفرت انگیز سیاست کے ذریعے نہ صرف خود اپنے اقتدار بلکہ اپنے معاشروں اور معاشرتی اقدار کی قبر بھی کھود رہے ہیں۔
تاہم بھارت اور امریکہ کے حالات اور حالیہ واقعات کا قدرے گہرا تجزیہ تصویر کے کچھ نئے رخ ہمارے سامنے لاتا ہے۔ معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے کے الفاظ میں ٹرمپ کا وائٹ ہاوٴس تک پہنچ پانا دراصل امریکی جمہوریت میں کسی خامی(Fault) کا نتیجہ ہے۔ امریکی سماج اور نظام اس خامی کی پشت پر موجود نہیں ہے اور جونہی یہ خامی درست ہوگی، سیاسی میدان سے ٹرمپ فیکٹر کا خاتمہ ہوجائے گا۔جبکہ دوسری جانب نریندر مودی جیسے متعصب اور جرائم پیشہ افراد کا ایوان اقتدار میں پہنچنا سسٹم کی کسی خامی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سسٹم کے اندر سرایت کر جانے والی نفرت، تعصب اور شدت پسندی کا ثمر ہے ۔ پچھلے ستر سالوں کے اندر بھارتی نظام، اداروں اور سماج کے اندر مخصوص طبقات کے خلاف جو نفرت اور تعصب انڈیلا گیا ہے وہ ارتقاپذیر ہوکر اب نریندر مودی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ ایک فرد ہے، جس کی موجودگی اگرچہ امریکی نظام اور سماج کے لیے خطرات کی حامل ہے تاہم اس فرد کے جاتے ہی نظام ایک بار پھر اپنی سابقہ روش پر چلنا شروع ہوجائے گا۔
ٹرمپ کو اپنے نظام ، اداروں اور سماج سے وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو ان کی حماقتوں کی ساتھی بن کر ملک و قوم کے لیے کسی بڑے سانحے کا سبب بنے۔ اس کی ایک مثال حالیہ انتشار کے دنوں میں ہم نے دیکھی جب امریکی فوج نے نہ صرف ٹرمپ کے احکامات ماننے سے انکار کیا بلکہ صدر کو ان کی حدود اور ان کا مقام یاد دلانے کی بھی کوشش کی۔ ہر چند ماہ بعد حساس اور اہم عہدوں پر فائز اہلکاروں کی برطرفی یا استعفے اداروں کے اندر موجود اسی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں جس کا محرک ٹرمپ کی ذات اور ان کے احمقانہ اقدامات ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے سب سے پہلے امریکہ (America First)کے سراب میں ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا، وہ بھی اب اپنے فیصلے پر رنجیدہ ہیں۔ ۲۰۲۰ کے انتخابات میں ٹرمپ کی قصرصدارت سے بے دخلی خارج از امکان نہیں۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے ساتھ عدم اتفاق اور ان کا دم چھلا بننے سے انکار کی ایک اور مثال ہمارے سامنے موصوف کی میڈیا کے ساتھ جنگ کی صورت میں موجود ہے۔ صدر کی ہر دوسری تیسری ٹویٹ میں سی این این یا کسی دوسرے ٹیلیویژن چینل اور اخبار کو امریکہ کی ترقی کا دشمن قرار دے کر دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ خود ٹوئٹر کے ساتھ بھی ان کا پھڈا چل رہا ہے۔
دوسری جانب اگر انہی پیمانوں پر ہم بھارتی معاشرے، نظام اور اداروں کا جائزہ لیں تو صورت حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ نفرت اور تعصب کی سیاست اکیلے مودی کا نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کا سوچا سمجھا ایجنڈا ہے۔ امت شاہ جیسے درجنوں پارٹی رہنما بغیر کسی حیل و حجت کے مودی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں کانگریس سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ نفرت کی سیاست کے آگے بند باندھنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ تاہم موجودہ پارٹی صدر راہول گاندھی خود اس مشن پر ہیں کہ ہندو قوم پرستوں کی چاپلوسی کرکے انھیں بی جے پی سے توڑا اور کانگرس کے ووٹ بنک کا حصہ بنایا جا سکے۔ کانگرس کی صفوں میں یہ خیال عام ہے کہ ان کے مسترد ہونے کی اصل وجہ ماضی میں اقلیتی گروہوں کو ہندووٴں سے زیادہ اہمیت دینا ہے۔ چنانچہ سیاسی اشرافیہ کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت مفقود ہے۔
بھارتی فوج، جسے جمہوریت کا محافظ گردانا جاتا ہے بھی اس ایجنڈے کا کل پرزا نظر آرہی ہے۔ آئے روز پاکستان کو دھمکیاں، کشمیر کے اندر فسطائیت اورغیرجمہوری اقدامات پر خاموشی ہی جنرل بپن راوت کے وہ اعلیٰ عسکری کارنامے ہیں جن کے اعتراف میں ان کو ریٹائر کرنے کی بجائے ان کے لیے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا نیا عہدہ تخلیق کر کے دے دیا گیا۔
رہا بھارتی میڈیا، تو اس کے بارے میں تو ہر کس و ناکس جانتا ہے کہ وہ دنیا کا غیرسنجیدہ ترین میڈیا ہے۔ ذرائع ابلاغ شروع ہی سے بی جے پی کا خصوصی میدان رہا ہے۔ چنانچہ مودی جی نے آتے ہی میڈیا کو اپنی مٹھی میں کرنے کے لیے گاجر یا چھڑی (Carrot or Stick)کی پالیسی اپنائی۔ حامی عناصر کو خصوصی مراعات دی گئیں جبکہ مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اشتہارات کے فنڈز میں کمی اور پابندیوں جیسے حربے آزمائے گئے۔ چنانچہ میڈیا اداروں اور معروف صحافیوں کی اکثریت اب مودی جی کے گن گاتی اور مسلم مخالف، اقلیت مخالف اور پاکستان مخالف اقدامات اور بیانات پر ان کی گڈی چڑھائے رکھتی ہے۔
بھارت اور امریکہ کی موجودہ حکومتیں اپنی پالیسی سازی میں جتنی حماقتیں کر لیں، معروضی حالات، سماجی شعور ، ادارہ جاتی ساخت اور سیاسی بلوغت کا فرق ان دونوں کی صورت حال کو یکسر مختلف بناتا ہے۔ چنانچہ امریکہ یا دنیا کو ٹرمپ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا بھارت اور جنوبی ایشیا کے امن کو مودی جی اوران کے بغل بچوں سے ہے۔