Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
جماعت اسلامی کے مقتول رکن قومی اسمبلی‘ مر کزی رہنماء ڈاکٹر نذیر احمد شہید کا آٹھ جون کو اٹھاون واں یوم شہادت ہے‘ انہیں بھٹو دور میں اس وقت نا معلوم افراد نے قتل کردیا تھا جب وہ اپنے کلینک پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد ڈسٹرکٹ ڈیرہ غازی خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این ڈبلیو88 سے اس وقت کے جاگیر دار خاندانوں کا پس منظر رکھنے والے مضبوط امیداوروں کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے‘ انتخابی نتائج کے مطابق انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے32827 ووٹ لیے تھے۔ ان کے مدمقابل امیدواروں میں مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے امیدوار خواجہ قطب الدین نے30155‘ پیپلزپارٹی کے امیدوار منظور احمد لنڈ نے23625‘ جے یو آئی کے امیدوار عبدالستار نے21477 اور آزاد امیدوار محمد خان نے19090 ووٹ حاصل کیے تھے‘ ان انتخابات میں.پیپلز پارٹی، پی ڈی پی، مسلم لیگ (کنونشن)، جے یو پی ڈبلیو، ایم جے یو پی، نیپ امیدواروں نے بھی حصہ لیا تھا جماعت اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر نذیر احمد N.W- 88 ڈسٹرکٹ ڈیرہ غازی سے عام انتخابات 1970 سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ کنونشن، مرکزی جمعیت العلماء پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور آزاد امیدوار ان کے مدمقابل تھے‘ ڈاکٹر نذیر احمد قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک توانا آواز تھے‘ انہیں پولیس کی مدد سے کرائے کے قاتل کے ذریعے قتل کرایا گیا تھا‘ جولائی1977 کے بعد ملک میں مارشل نافذ ہوا اور بھٹو حکومت ختم ہوئی تو بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کیس میں گرفتار کرلیا گیا تھا‘ اسی کیس میں انہیں عدالت نے سزائے موت سنائی اور عدالتی حکم پر انہیں پھانسی کی سزا ہوئی‘ جن دنوں نواب محمد احمد کان قتل کی سماعت ہورہی تھی ان دنوں داکٹر نذیر احمد شہید کا قتل بھی زیر بحث آیا تھا تفتیش کاروں نے اس قتل کا الزام بھی بھٹو حکومت پر لگایا تھا کہ معزول وزیر اعظم، ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے دوران وفاقی تفتیش کاروں کو دوسرا حکم دیا تھاتفتیش کاروں کے مطابق دوسری ہلاکت میں پانچ مشتبہ افراد جن میں چار پولیس اہلکار اور ایک مبینہ قاتل شامل تھا‘ ڈاکٹر نذیر احمد کو اس وقت قتل کیا جب وہ اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے تھے تفتیش کاروں کے مطابق کہ اس وقت یہ حکم پنجاب کے گورنرکے ذریعہ منتقل کیا گیا تھا۔ تفتیش کاروں کے مطابق، ملزموں نے اعتراف کیا کہ بھٹو دور میں انہیں قتل کا حکم اس لئے دیا تھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد نے 1971 کی ہندوستانی – پاکستانی جنگ میں مشرقی پاکستان کے نقصان کا وزیر اعظم بھٹو پر لگایا گیا تھا اور اس بارے میں بہت زور دار تقریر کی تھی‘ واضح رہے کہ چندسال ان کے قتل کی تفتیش کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا تھا۔
جماعت اسلامی کے مقتول رکن قومی اسمبلی‘ مر کزی رہنماء ڈاکٹر نذیر احمد شہید کا آٹھ جون کو اٹھاون واں یوم شہادت ہے‘ انہیں بھٹو دور میں اس وقت نا معلوم افراد نے قتل کردیا تھا جب وہ اپنے کلینک پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد ڈسٹرکٹ ڈیرہ غازی خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این ڈبلیو88 سے اس وقت کے جاگیر دار خاندانوں کا پس منظر رکھنے والے مضبوط امیداوروں کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے‘ انتخابی نتائج کے مطابق انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے32827 ووٹ لیے تھے۔ ان کے مدمقابل امیدواروں میں مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے امیدوار خواجہ قطب الدین نے30155‘ پیپلزپارٹی کے امیدوار منظور احمد لنڈ نے23625‘ جے یو آئی کے امیدوار عبدالستار نے21477 اور آزاد امیدوار محمد خان نے19090 ووٹ حاصل کیے تھے‘ ان انتخابات میں.پیپلز پارٹی، پی ڈی پی، مسلم لیگ (کنونشن)، جے یو پی ڈبلیو، ایم جے یو پی، نیپ امیدواروں نے بھی حصہ لیا تھا جماعت اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر نذیر احمد N.W- 88 ڈسٹرکٹ ڈیرہ غازی سے عام انتخابات 1970 سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ کنونشن، مرکزی جمعیت العلماء پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور آزاد امیدوار ان کے مدمقابل تھے‘ ڈاکٹر نذیر احمد قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک توانا آواز تھے‘ انہیں پولیس کی مدد سے کرائے کے قاتل کے ذریعے قتل کرایا گیا تھا‘ جولائی1977 کے بعد ملک میں مارشل نافذ ہوا اور بھٹو حکومت ختم ہوئی تو بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کیس میں گرفتار کرلیا گیا تھا‘ اسی کیس میں انہیں عدالت نے سزائے موت سنائی اور عدالتی حکم پر انہیں پھانسی کی سزا ہوئی‘ جن دنوں نواب محمد احمد کان قتل کی سماعت ہورہی تھی ان دنوں داکٹر نذیر احمد شہید کا قتل بھی زیر بحث آیا تھا تفتیش کاروں نے اس قتل کا الزام بھی بھٹو حکومت پر لگایا تھا کہ معزول وزیر اعظم، ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے دوران وفاقی تفتیش کاروں کو دوسرا حکم دیا تھاتفتیش کاروں کے مطابق دوسری ہلاکت میں پانچ مشتبہ افراد جن میں چار پولیس اہلکار اور ایک مبینہ قاتل شامل تھا‘ ڈاکٹر نذیر احمد کو اس وقت قتل کیا جب وہ اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے تھے تفتیش کاروں کے مطابق کہ اس وقت یہ حکم پنجاب کے گورنرکے ذریعہ منتقل کیا گیا تھا۔ تفتیش کاروں کے مطابق، ملزموں نے اعتراف کیا کہ بھٹو دور میں انہیں قتل کا حکم اس لئے دیا تھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد نے 1971 کی ہندوستانی – پاکستانی جنگ میں مشرقی پاکستان کے نقصان کا وزیر اعظم بھٹو پر لگایا گیا تھا اور اس بارے میں بہت زور دار تقریر کی تھی‘ واضح رہے کہ چندسال ان کے قتل کی تفتیش کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا تھا۔
جماعت اسلامی کے مقتول رکن قومی اسمبلی‘ مر کزی رہنماء ڈاکٹر نذیر احمد شہید کا آٹھ جون کو اٹھاون واں یوم شہادت ہے‘ انہیں بھٹو دور میں اس وقت نا معلوم افراد نے قتل کردیا تھا جب وہ اپنے کلینک پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد ڈسٹرکٹ ڈیرہ غازی خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این ڈبلیو88 سے اس وقت کے جاگیر دار خاندانوں کا پس منظر رکھنے والے مضبوط امیداوروں کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے‘ انتخابی نتائج کے مطابق انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے32827 ووٹ لیے تھے۔ ان کے مدمقابل امیدواروں میں مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے امیدوار خواجہ قطب الدین نے30155‘ پیپلزپارٹی کے امیدوار منظور احمد لنڈ نے23625‘ جے یو آئی کے امیدوار عبدالستار نے21477 اور آزاد امیدوار محمد خان نے19090 ووٹ حاصل کیے تھے‘ ان انتخابات میں.پیپلز پارٹی، پی ڈی پی، مسلم لیگ (کنونشن)، جے یو پی ڈبلیو، ایم جے یو پی، نیپ امیدواروں نے بھی حصہ لیا تھا جماعت اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر نذیر احمد N.W- 88 ڈسٹرکٹ ڈیرہ غازی سے عام انتخابات 1970 سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ کنونشن، مرکزی جمعیت العلماء پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور آزاد امیدوار ان کے مدمقابل تھے‘ ڈاکٹر نذیر احمد قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک توانا آواز تھے‘ انہیں پولیس کی مدد سے کرائے کے قاتل کے ذریعے قتل کرایا گیا تھا‘ جولائی1977 کے بعد ملک میں مارشل نافذ ہوا اور بھٹو حکومت ختم ہوئی تو بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کیس میں گرفتار کرلیا گیا تھا‘ اسی کیس میں انہیں عدالت نے سزائے موت سنائی اور عدالتی حکم پر انہیں پھانسی کی سزا ہوئی‘ جن دنوں نواب محمد احمد کان قتل کی سماعت ہورہی تھی ان دنوں داکٹر نذیر احمد شہید کا قتل بھی زیر بحث آیا تھا تفتیش کاروں نے اس قتل کا الزام بھی بھٹو حکومت پر لگایا تھا کہ معزول وزیر اعظم، ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے دوران وفاقی تفتیش کاروں کو دوسرا حکم دیا تھاتفتیش کاروں کے مطابق دوسری ہلاکت میں پانچ مشتبہ افراد جن میں چار پولیس اہلکار اور ایک مبینہ قاتل شامل تھا‘ ڈاکٹر نذیر احمد کو اس وقت قتل کیا جب وہ اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے تھے تفتیش کاروں کے مطابق کہ اس وقت یہ حکم پنجاب کے گورنرکے ذریعہ منتقل کیا گیا تھا۔ تفتیش کاروں کے مطابق، ملزموں نے اعتراف کیا کہ بھٹو دور میں انہیں قتل کا حکم اس لئے دیا تھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد نے 1971 کی ہندوستانی – پاکستانی جنگ میں مشرقی پاکستان کے نقصان کا وزیر اعظم بھٹو پر لگایا گیا تھا اور اس بارے میں بہت زور دار تقریر کی تھی‘ واضح رہے کہ چندسال ان کے قتل کی تفتیش کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا تھا۔
جماعت اسلامی کے مقتول رکن قومی اسمبلی‘ مر کزی رہنماء ڈاکٹر نذیر احمد شہید کا آٹھ جون کو اٹھاون واں یوم شہادت ہے‘ انہیں بھٹو دور میں اس وقت نا معلوم افراد نے قتل کردیا تھا جب وہ اپنے کلینک پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد ڈسٹرکٹ ڈیرہ غازی خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این ڈبلیو88 سے اس وقت کے جاگیر دار خاندانوں کا پس منظر رکھنے والے مضبوط امیداوروں کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے‘ انتخابی نتائج کے مطابق انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے32827 ووٹ لیے تھے۔ ان کے مدمقابل امیدواروں میں مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے امیدوار خواجہ قطب الدین نے30155‘ پیپلزپارٹی کے امیدوار منظور احمد لنڈ نے23625‘ جے یو آئی کے امیدوار عبدالستار نے21477 اور آزاد امیدوار محمد خان نے19090 ووٹ حاصل کیے تھے‘ ان انتخابات میں.پیپلز پارٹی، پی ڈی پی، مسلم لیگ (کنونشن)، جے یو پی ڈبلیو، ایم جے یو پی، نیپ امیدواروں نے بھی حصہ لیا تھا جماعت اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر نذیر احمد N.W- 88 ڈسٹرکٹ ڈیرہ غازی سے عام انتخابات 1970 سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ کنونشن، مرکزی جمعیت العلماء پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور آزاد امیدوار ان کے مدمقابل تھے‘ ڈاکٹر نذیر احمد قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک توانا آواز تھے‘ انہیں پولیس کی مدد سے کرائے کے قاتل کے ذریعے قتل کرایا گیا تھا‘ جولائی1977 کے بعد ملک میں مارشل نافذ ہوا اور بھٹو حکومت ختم ہوئی تو بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کیس میں گرفتار کرلیا گیا تھا‘ اسی کیس میں انہیں عدالت نے سزائے موت سنائی اور عدالتی حکم پر انہیں پھانسی کی سزا ہوئی‘ جن دنوں نواب محمد احمد کان قتل کی سماعت ہورہی تھی ان دنوں داکٹر نذیر احمد شہید کا قتل بھی زیر بحث آیا تھا تفتیش کاروں نے اس قتل کا الزام بھی بھٹو حکومت پر لگایا تھا کہ معزول وزیر اعظم، ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے دوران وفاقی تفتیش کاروں کو دوسرا حکم دیا تھاتفتیش کاروں کے مطابق دوسری ہلاکت میں پانچ مشتبہ افراد جن میں چار پولیس اہلکار اور ایک مبینہ قاتل شامل تھا‘ ڈاکٹر نذیر احمد کو اس وقت قتل کیا جب وہ اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے تھے تفتیش کاروں کے مطابق کہ اس وقت یہ حکم پنجاب کے گورنرکے ذریعہ منتقل کیا گیا تھا۔ تفتیش کاروں کے مطابق، ملزموں نے اعتراف کیا کہ بھٹو دور میں انہیں قتل کا حکم اس لئے دیا تھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد نے 1971 کی ہندوستانی – پاکستانی جنگ میں مشرقی پاکستان کے نقصان کا وزیر اعظم بھٹو پر لگایا گیا تھا اور اس بارے میں بہت زور دار تقریر کی تھی‘ واضح رہے کہ چندسال ان کے قتل کی تفتیش کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا تھا۔