• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال فاروق عادل کے خاکے

سَوکھا کرنے والے | فاروق عادل

بغیرکسی ارادے کے وہ پاؤں پر کچھ ایسا زور دیتے کہ لگتا یہ قدم والہانہ رقص کے لیے اٹھے ہیں۔ اس منظر میں ذرا سی شوخی، سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹوں کی گولائی اور سیگریٹ کا کش دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتا

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
August 12, 2020
in فاروق عادل کے خاکے
0
سَوکھا کرنے والے | فاروق عادل
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

”عبادت کرو اس گھر کے رب کی، نہ اس گھر کی“۔ اس جملے میں جانے کیا قیامت پوشیدہ تھی کہ دل کی کیفیت بدل گئی۔زائرین مکہ کی مصروفیات ہوتی ہی کیا ہیں، حاضری، بھوک لگنے پر کچھ کھا لینا، نیند آجانے پر ذرا سا سو لینا۔ ہمارا معمول بھی یہی تھا لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ ممتاز مفتی کی لبیک میں نے پڑھ رکھی تھی۔ حرم کعبہ میں حاضری، اس کی کیفیات اور حضوری کا جو نقشہ اس بزرگ نے اس کتاب میں کھینچ رکھا ہے، اس کی کوئی صورت نہیں بنتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محرومی اور بے بسی بلکہ اس سے بھی بڑھ کربدقسمتی کے احساس سے طبیعت بوجھل ہو گئی۔ دوپہر کا وقت تھا، ہم لوگ مسجد حرام سے نکلے اور قریبی بازار کی غیر معروف اور الجھی ہوئی گلیوں کے اختتام پر نسبتاًغیر اہم سے ریستوران میں جا بیٹھے۔ اس جگہ کی خوبی یہ تھی کہ کم پیسوں میں زیادہ کھانا ملتا، بھیڑ بھڑکے سے محفوظ ماحول میںآپس میں بات ہو جاتی اور توفیق ارزاں ہوتی تو ارض مقدس کے مسافر اپنے مشاہدات اور کیفیات پر تنقیدی نگاہ ڈال لیتے۔

یہ بھی پڑھئے:

فیضی کا فیض

دلی کا درویش

وہ دھیرے سے دل میں اتر جانے والا

Ad (2024-01-27 16:31:23)

یہاں آئے کئی روز بیت چکے تھے۔ یہ پہلی بار تھی جب صحیح معنوں میں یہ مصرع سمجھ میں آیا کہ گردوں نے گھڑی عمر ایک اور گھٹا دی۔ کیا عجب کیفیت تھی کہ دائیںبائیں لگی ہوئی گھڑیوں کی سوئیاں جیسے ہی قدم آگے بڑھا نے کا اعلان کرتیں، دل مٹھی میں آجاتا اور خیال ہوتا رخصت کی گھڑی کچھ اور قریب تو آگئی لیکن فضیلت اور برکت کی برستی بارش کی کتنی بوندیں ہمارے حصے میں آئیں؟ محرومی کے اسی بوجھ کے تلے دبتے چلے جانے پرمیری زباںسے جانے کیا نکلا کہ اطہر ہاشمی صاحب نے برتن میز کے وسط کی طرف کھسکاتے ہوئے یہ جملہ ادا کیا، اس کے بعد دل کی کیفیت بدل گئی۔

معوذ نےان کے اُٹھ جانے کی خبر دی تو  کچھ دیر کے لیے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا پھر رفتہ رفتہ مکہ مکرمہ کے ا س سادہ سے ریستوران کا منظر ابھرا جہاں اس نا تراشیدہ کی بے چینی کو بھانپ کر اُس کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ عبادت کرو اس گھر کے رب کی، نہ کہ اس گھر کی، اس کے بعد اسرار کے پردے اٹھتے چلے گئے

یہ واقعہ 1994ءکا ہے، اس سے لگ بھگ عشرہ پہلے کی بات ہوگی، یار عزیز اشفاق احمد کاشف اور میں نے جیب خرچ اور گھر کے سودا سلف سے بچی ہوئی ریز گاری کو نوٹوں سے بدلوایا اور لاہور کی راہ لی جہاں وحدت کالونی کے کسی ہال میں اشفاق احمد خطاب کرنے والے تھے۔ ان دنوں ابھی نہ زاویہ کے عنوان سے پر وگرام ہوتے تھے اور نہ اس نام کی کتاب ظہور میں آئی تھی جس کے ہر باب کا اختتام اس جملے پر ہوتا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ ان دنوں اشفاق صاحب فرمایا کرتے تھے، ”لوگوں کو سَوکھا کیا کرو“۔ اشفاق صاحب کا یہ سخن میں سنتا تو سوچتاکہ وہ لوگ کیسے ہوتے ہوں گے جو لوگوں کو سوکھا کیا کرتے ہوں گے۔ اس سفر میں ہاشمی صاحب کو دیکھا تو گھتی سلجھ گئی۔
بزرگی ہاشمی صاحب کی شخصیت کا ایک خاص وصف تھا۔ ہمارے ہاں بزرگی کا مطلب حد سے بڑھی ہوئی سنجیدگی، خشکی اور کسی قدر تحکم میں پوشیدہ ہے لیکن ہاشمی صاحب کے مزاج میں ایک خاص محبوبانہ ادا تھی۔ انتقال سے قبل ان کی جو تصویریں دیکھنے کو ملیں، ان میں بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے دھواں اڑاتی ہوئی سیگریٹ اور قلم ہاتھ میں لیے کاغذوں کے پلندے پر جھکے ،سفید بکھرے ہوئے لیکن گھنے بالوں والے ایک بزرگ دکھائی دیتے جن کے ہونٹوں پر تڑپتا ہوا تبسم کوئی پیغام دیتا لیکن یہ آتش جوانی کے بعد پختگی کے زمانے میں بھی اپنی ان ہی محبوبانہ اداؤں سے پہچانا جاتا تھا۔
ٍ کھدر کی چار جیبوں والی بوشرٹ اور سیاہ پینٹ ان کا پسندیدہ لباس تھا۔ اس لباس میں اونچا لمباقد، بھرا ہواجثہ، کلین شیو چہرہ اور لمبی قلمیں، اس پر ان کے چلنے کاانداز، کچھ زیادہ ہی سرو قامت لگتے۔کمال اعتماد کے ساتھ ناک کی سیدھ میں چلتے لیکن اس چال کا بھی ایک انداز تھا، ایک قدم اٹھا کر دوسرا رکھنے کے مختصر سے وقفے میں ایک اداتھی۔ بغیرکسی ارادے کے وہ پاؤں پر کچھ ایسا زور دیتے کہ لگتا یہ قدم کسی والہانہ رقص کے لیے اٹھے ہیں۔ اس منظر میں ذرا سی شوخی، سیٹی بجانے کے انداز میں ان کے ہونٹوں کی گولائی اور سیگریٹ کا کش دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتا۔ دفتر میں دوران کار بھی ایسا ہی موڈ رہتا، سیٹی بجانے کا انداز تو گویا ان کا ٹریڈ مارک تھا۔ کوئی خبر مکمل کر کے ان کے سپرد کرتا تو اسی انداز میں شاباش دیتے ہوئے کہتے کہ ارے میاں! آج تم نے فلاں لفظ یا اصطلاح کا ترجمہ خوب کیا۔ کوئی سال بھر پہلے کی بات ہے، ایم کیو ایم کے بانی خبروں کا موضوع بن گئے۔ میں نے ان کی شخصیت اور سیاسی کیریئر کے بارے ایک طویل مضمون لکھا جو قسطوں میں شائع ہوا۔ پہلی قسط کی اشاعت پر سب سے پہلے ان ہی کافون آیا، چھوٹتے ہی کہا، لطف آگیا میاں!

کسی سے غلطی سرزدہو جاتی تو سینئر بلکہ استاد کے درجے پر فائز صحافیوں کی طرح جونیئرز کے لتے نہ لیتے بلکہ ذرا مختلف سی مسکراہٹ کے ساتھ گھور کر دیکھتے ہوئے کہتے،ابے تم نے پھر غلط کاری کردی۔ ان کی ڈانٹ بس اتنی ہی ہوتی۔ سعودی عرب میں ایک زمانے میں حج کے موقع پر حجاج کو حالات حاضرہ اور مناسک حج سے آگاہ رکھنے کے لیے مختلف زبانوں اخبار نکالے جاتے تھے۔ 1994ءمیں ہم لوگوں نے بھی ہاشمی صاحب کی سربراہی میں دو ماہ تک اردو اخبار شائع کیا۔ اس دوران کوئی خبر بناتے ہوئے عازمین حج کے لیے میں نے فرزندان توحید کی ترکیب لکھ دی تو ٹھٹکے، سیگریٹ سلگائی اور اس کا دھواں چھوڑتے ہوئے کہا کہ” تو فاروق میاں! صاحبِ تو حید کو تم نے صاحبِ اولاد خوب بنایا“۔ یہ سبق ایسا ذہن نشین ہوا کہ کبھی دوبارہ غلطی نہ ہوئی۔

اشفاق صاحب تصوف کی اصطلاح میں صاحبِ حال کا ذکر فرمایا کرتے تھے، اگر دنیا میں ان خوبیوں کے لوگ واقعی پائے جاتے ہیں تو وہ ہاشمی صاحب جیسے ہی ہوا کرتے ہوں گے۔

جونیئرز کے تجربات میں وسعت اور ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے۔ ریاض ڈیلی کے اردوحج ایڈیشن کی اشاعت ختم ہونے میں ابھی چند روز باقی تھے کہ ایک روز مجھ سے کہا کہ اٹھومیاں۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا، وہ مجھے لیے لیے طلعت وفا یعنی چیف ایڈیٹر کے کمرے میں جا پہنچے اور اس سے کہا کہ حج ایڈیشن کامیابی سے نہ نکل پاتا اگر فاروق ہماری ٹیم میں نہ ہوتا، اچھا ہواگر تم اسے پاکستان میں اپنے گروپ کا نمائندہ بنا لو۔ میرے لیے یہ ایک خوش گوار تجربہ تھا۔ پاکستان آ کر معلوم ہوا کہ ایک دو نہیں درجنوں لوگوں کے لیے انھوں نے اسی طرح از خود سوچا اور ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔
معوذ نے منہ اندھیرے جب ان کے اُٹھ جانے کی خبر دی تو سچ یہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا پھر رفتہ رفتہ مکہ مکرمہ کے ا س سادہ سے ریستوران کا منظر ابھرا جہاں اس نا تراشیدہ کی بے چینی کو بھانپ کر اُس کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ عبادت کرو اس گھر کے رب کی، نہ کہ اس گھر کی، اس کے بعد اسرار کے پردے اٹھتے چلے گئے اور اس گناہ گار پر عنایات کی ایسی بارش ہوئی کہ وہ نہال ہو گیا۔اللہ ان کی قبرکو نور سے بھر دے۔ اشفاق صاحب تصوف کی اصطلاح میں صاحبِ حال کا ذکر فرمایا کرتے تھے، اگر دنیا میں ان خوبیوں کے لوگ واقعی پائے جاتے ہیں تو وہ ہاشمی صاحب جیسے ہی ہوا کرتے ہوں گے۔

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: اشفاق احمداطہر ہاشمیخاکہیاد رفتگاں
Previous Post

جذام کے مریضوں کے لیے روشنی کی کرن ڈاکٹر رتھ فاؤ کی برسی آج ہے | عقیل عباس جعفری

Next Post

مسجد میں شوٹنگ پر ہودیوں کی بے ہودگی| احسان کوہاٹی

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
مسجد میں شوٹنگ پر ہودیوں کی بے ہودگی| احسان کوہاٹی

مسجد میں شوٹنگ پر ہودیوں کی بے ہودگی| احسان کوہاٹی

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions