ADVERTISEMENT
تین برس پہلے کی بات ہے میرا بہاولپور جانا ہوا شدید گرمی کا موسم تھا پنڈلیوں تک کی ہاف پینٹ پہن رکھی تھی ایسے ہی نور محل جانے کا پروگرام بنا اور میں اسی حلیے فیملی کے ساتھ نور محل پہنچ گیا یہ بہاولپور کے نواب کی رہائش گاہ تھی جسکا انتظام حفاظت آرمی کے سپرد ہے میں اندر جانے کو تھا کہ گیٹ پر کھڑے فوجی نے روک لیا کہا آپ کا لباس ڈریس کوڈ کے مطابق نہیں ہے آپ نہیں جاسکتے میں نے بہتیرا کہا لیکن وہ نہ مانے اور میں ایک طرف درختوں کے سائے میں کھڑا رہا بچے اندر چلے گئے.
ہائی کورٹ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کا اپنا وقار ہوتا ہے جج کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کرسکتا اور کوئی اسے رائے کے اظہار کی آزادی پر قدغن بھی نہیں کہتا کہ طے شدہ بات ہے کہ ہر جگہ کا اپنا طور طریقہ ہوتا ہے آپ عدالت میں ٹھمکے لگائیں تو جج جوتے لگوا کرمزاج درست کروا دے گا آپ کو ایوان صدر اچھا لگے تو کیا آپ وہاں جا کر کسی لونڈیا کے ساتھ رقص فلمبند کروا سکتے ہیں؟ لیکن یہ بدبخت تیس ہزار روپے میں مسجد کا تقدس بھی خرید لیتے ہیں انہیں عکس بندی کے لئے مسجد کے علاوہ کوئی جگہ نہ ملی۔ حیرت تو مجھے ہود بھائی کے “ہودیوں” پر ہے جو یہاں وہاں سے توجیحات لا کر اس لچر پن کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان لوگوں کو نکیل ڈالنی ہوگی بنا کسی حیل و حجت کے اس فعل کی مذمت کرنی ہوگی مسجد میں ناچنے والوں کے گھروں کے سامنے مظاہرے کرنے ہوں گے انہیں زمین پر ناک رگڑ کر معافی مانگنی ہوگی میں تیس ہزار روپے میں مسجد کا تقدس خریدنے والوں سے پوچھتا ہوں کیا وہ تیس لاکھ میں اپنے گھر کی خوابگاہ کو بیت الخلاء بنانے کی اجازت دیں گے؟ بخدا یہ ہاں کریں میں اپنا گھر بیچ کر یہ ڈیل کرنے کو تیار ہوں.