Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
10 اگست 2017 ء کو پاکستان میں رہ کر جذام کاعلاج کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ کراچی میں انتقال کر گئیں۔ وہ جذام کے مریضوں کے لیے روشنی کی کرن اور پاکستان کی مدر ٹریسا کے نام سے معروف تھیں۔
ان کا پورا نام رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ تھا۔ وہ جرمنی کے شہر لیپزگ میں 9 ستمبر 1929ء کو پیدا ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر وہ اپنے خاندان کے ہمراہ مغربی جرمنی منتقل ہو گئیں جہاں ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک مشنری تنظیم ڈاکٹرز آف ہارٹس آف میری میں شمولیت اختیار کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے پاکستان میں جذام کے مریضوں سے متعلق ایک دستاویزی فلم دیکھی جس کے بعد انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔
مارچ 1960ء میں کراچی پہنچ کر انھوں نے ایک چھوٹا سا کلینک قائم کیا جسے میری ویدر لیپروسی سینٹر کا نام دیا گیا۔ ان ہی دنوں ایک پاکستانی ڈاکٹر آئی اے گل ان کے ساتھ کام میں شامل ہو گئے۔ 1963ء میں ایک باقاعدہ کلی ک خرید کر یہ مرکز وہاں منتقل کر دیا گیا جہاں پاکستان کے علاؤہ افغانستان کے مریضوں کا بھی علاج کیا جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ کراچی کے علاوہ پورے ملک میں جذامی مریضوں کے علاج کے مراکز قائم ہوتے چلے گئے۔ ان کے علاج سے بلا مبالغہ لاکھوں مریضوں نے اس موذی مرض سے شفا پائی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 1988ء میں انھیں باقاعدہ پاکستان کی شہریت دے دی گئی۔ آئندہ برس انھیں ہلال پاکستان اور 2019ء میں انھیں نشان قائد اعظم عطا کیا گیا۔
ان کے انتقال پر حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں 19 توپوں کی سلامی دی گئی۔ ان کی آخری رسومات میں صدر ممنون حسین، گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی شرکت کی۔ انھیں کراچی گورا قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
10 اگست 2017 ء کو پاکستان میں رہ کر جذام کاعلاج کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ کراچی میں انتقال کر گئیں۔ وہ جذام کے مریضوں کے لیے روشنی کی کرن اور پاکستان کی مدر ٹریسا کے نام سے معروف تھیں۔
ان کا پورا نام رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ تھا۔ وہ جرمنی کے شہر لیپزگ میں 9 ستمبر 1929ء کو پیدا ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر وہ اپنے خاندان کے ہمراہ مغربی جرمنی منتقل ہو گئیں جہاں ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک مشنری تنظیم ڈاکٹرز آف ہارٹس آف میری میں شمولیت اختیار کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے پاکستان میں جذام کے مریضوں سے متعلق ایک دستاویزی فلم دیکھی جس کے بعد انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔
مارچ 1960ء میں کراچی پہنچ کر انھوں نے ایک چھوٹا سا کلینک قائم کیا جسے میری ویدر لیپروسی سینٹر کا نام دیا گیا۔ ان ہی دنوں ایک پاکستانی ڈاکٹر آئی اے گل ان کے ساتھ کام میں شامل ہو گئے۔ 1963ء میں ایک باقاعدہ کلی ک خرید کر یہ مرکز وہاں منتقل کر دیا گیا جہاں پاکستان کے علاؤہ افغانستان کے مریضوں کا بھی علاج کیا جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ کراچی کے علاوہ پورے ملک میں جذامی مریضوں کے علاج کے مراکز قائم ہوتے چلے گئے۔ ان کے علاج سے بلا مبالغہ لاکھوں مریضوں نے اس موذی مرض سے شفا پائی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 1988ء میں انھیں باقاعدہ پاکستان کی شہریت دے دی گئی۔ آئندہ برس انھیں ہلال پاکستان اور 2019ء میں انھیں نشان قائد اعظم عطا کیا گیا۔
ان کے انتقال پر حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں 19 توپوں کی سلامی دی گئی۔ ان کی آخری رسومات میں صدر ممنون حسین، گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی شرکت کی۔ انھیں کراچی گورا قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
10 اگست 2017 ء کو پاکستان میں رہ کر جذام کاعلاج کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ کراچی میں انتقال کر گئیں۔ وہ جذام کے مریضوں کے لیے روشنی کی کرن اور پاکستان کی مدر ٹریسا کے نام سے معروف تھیں۔
ان کا پورا نام رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ تھا۔ وہ جرمنی کے شہر لیپزگ میں 9 ستمبر 1929ء کو پیدا ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر وہ اپنے خاندان کے ہمراہ مغربی جرمنی منتقل ہو گئیں جہاں ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک مشنری تنظیم ڈاکٹرز آف ہارٹس آف میری میں شمولیت اختیار کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے پاکستان میں جذام کے مریضوں سے متعلق ایک دستاویزی فلم دیکھی جس کے بعد انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔
مارچ 1960ء میں کراچی پہنچ کر انھوں نے ایک چھوٹا سا کلینک قائم کیا جسے میری ویدر لیپروسی سینٹر کا نام دیا گیا۔ ان ہی دنوں ایک پاکستانی ڈاکٹر آئی اے گل ان کے ساتھ کام میں شامل ہو گئے۔ 1963ء میں ایک باقاعدہ کلی ک خرید کر یہ مرکز وہاں منتقل کر دیا گیا جہاں پاکستان کے علاؤہ افغانستان کے مریضوں کا بھی علاج کیا جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ کراچی کے علاوہ پورے ملک میں جذامی مریضوں کے علاج کے مراکز قائم ہوتے چلے گئے۔ ان کے علاج سے بلا مبالغہ لاکھوں مریضوں نے اس موذی مرض سے شفا پائی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 1988ء میں انھیں باقاعدہ پاکستان کی شہریت دے دی گئی۔ آئندہ برس انھیں ہلال پاکستان اور 2019ء میں انھیں نشان قائد اعظم عطا کیا گیا۔
ان کے انتقال پر حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں 19 توپوں کی سلامی دی گئی۔ ان کی آخری رسومات میں صدر ممنون حسین، گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی شرکت کی۔ انھیں کراچی گورا قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
10 اگست 2017 ء کو پاکستان میں رہ کر جذام کاعلاج کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ کراچی میں انتقال کر گئیں۔ وہ جذام کے مریضوں کے لیے روشنی کی کرن اور پاکستان کی مدر ٹریسا کے نام سے معروف تھیں۔
ان کا پورا نام رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ تھا۔ وہ جرمنی کے شہر لیپزگ میں 9 ستمبر 1929ء کو پیدا ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر وہ اپنے خاندان کے ہمراہ مغربی جرمنی منتقل ہو گئیں جہاں ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک مشنری تنظیم ڈاکٹرز آف ہارٹس آف میری میں شمولیت اختیار کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے پاکستان میں جذام کے مریضوں سے متعلق ایک دستاویزی فلم دیکھی جس کے بعد انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔
مارچ 1960ء میں کراچی پہنچ کر انھوں نے ایک چھوٹا سا کلینک قائم کیا جسے میری ویدر لیپروسی سینٹر کا نام دیا گیا۔ ان ہی دنوں ایک پاکستانی ڈاکٹر آئی اے گل ان کے ساتھ کام میں شامل ہو گئے۔ 1963ء میں ایک باقاعدہ کلی ک خرید کر یہ مرکز وہاں منتقل کر دیا گیا جہاں پاکستان کے علاؤہ افغانستان کے مریضوں کا بھی علاج کیا جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ کراچی کے علاوہ پورے ملک میں جذامی مریضوں کے علاج کے مراکز قائم ہوتے چلے گئے۔ ان کے علاج سے بلا مبالغہ لاکھوں مریضوں نے اس موذی مرض سے شفا پائی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 1988ء میں انھیں باقاعدہ پاکستان کی شہریت دے دی گئی۔ آئندہ برس انھیں ہلال پاکستان اور 2019ء میں انھیں نشان قائد اعظم عطا کیا گیا۔
ان کے انتقال پر حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں 19 توپوں کی سلامی دی گئی۔ ان کی آخری رسومات میں صدر ممنون حسین، گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی شرکت کی۔ انھیں کراچی گورا قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔