پانچ اگست کو ہندوستان میں ہندو انتہاپسندوں کے ہاتھوں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی بنیاد گذاری کی تقریب بڑے فخر اور گھمنڈ کے ساتھ انڈیا کے وزیر اعظم کی جانب سے ہوئی. پانچ اگست کا انتخاب بہت ہی معنی خیز تھا. یہ انتخاب اس امر کا اظہر من الشمس ثبوت ہے کہ ہندوستان کی انتہا پسند حکومت نہ صرف کشمیریوں کے بلکہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق پامال کرنے جارہی ہے اور اس پر اسے فخر بھی ہے.
اس سے متعلق میرے ساتھ کیا گیا انٹرویو ترکی کی سرکاری خبر ایجنسی آناطولی ایجنسی میں شائع ہوا.
استنبول کی آیا صوفیہ مسجد سلطان محمد فاتح کی اپنی ذاتی ملکیت تھی. انھوں نے اس عمارت کو استنبول میں مقیم رومی عیسائیوں کے پوپ کے ساتھ مفاہمت اور سمجھوتہ سے لیا تھا اور بعد میں اسے مسجد بنانے کے لیے وقف کیا تھا. ١٩٣٤ء میں ترکی حکومت نے اسے اپنے موقف کے مطابق میوزیم بنایا. اور اب ہماری حکومت نے اس میوزیم کو پھر سے مسجد بنایا. یعنی ایک عمارت کو اس کے پرانے مالک سلطان محمد فاتح کی خواہش کے مطابق میوزیم سے پھر سے مسجد میں تبدیل کیا. یہ ہماری حکومت کا قانونی حق تھا. اس صورتحال کو جانتے ہوئے استنبول میں موجود رومی عیسائیوں کے پوپ نے نہ ہی اعتراض کیا اور نہ ہی احتجاج. کیونکہ اس کو بھی یہ علم ہے کہ تاریخ میں یہ عمل مشترکہ فیصلے پر ہوا تھا اور اس عمارت کی ملکیت سلطان محمد فاتح کے زمانے سے اس کے وقف کے ہاتھ میں ہے. پھر ایک ہفتے بعد وہ اور ہمارے صدر محترم رجب طیب ایردوغان صاحب نے ترکی کے شہر طرابزون میں موجود رومی عیسائیوں کے تاریخی گرجاگھر اور مشن سکول کی مرمت کے بعد افتتاح کیا اور پوپ صاحب نے ہماری حکومت کو داد و تحسین دیتے ہوئے کہا کہ ترکی حکومت نے ہمیں اپنے کھوئے ہوئے حقوق واپس کیے.
مزید بر آں یونان ہی میں ایک پادری نے ایک تقریب میں بہت سے لوگوں کے سامنے یہ اعلان کیا کہ کہ آپ سب کو ترکوں کا از تہ دل شکرگزار ہونا چاہیے. اگر وہ لوگ نہ ہوتے اور آیاصوفیہ ہمارے ہاتھ میں ہوتی تو ہم لوگ یا یہ عمارت گرا چکے ہوتے یا اسے شراب خانہ بناچکے ہوتے. ترکوں نے صدیوں سے اس عمارت کی حفاظت کی. پھر اس نے کہا کہ آپ کو ترک حکومت کی داد دینا چاہیے اب وہاں ننگی تفنگی خواتیں کی بجائے عبادت کے لیے لوگ ادب سے داخل ہوں گے. یعنی خدا کے گھر میں خدا کی عبادت کریں گے.
اس کے باوجود تمام یورپ، امریکہ اور کچھ مسلم ممالک میں اس کے خلاف کچھ لوگوں کی چیخیں نکلنے لگیں اور سب سراپا احتجاج بن گئے.
اب میں یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں. بعد میں میوزیم بننے والی مسجد کے پھر سے مسجد بننے پر اس قدر آتش زیر پا ہونے والے مغربی لوگ، ان کے کچھ عرب آلہ کار اور مسلم ممالک کے مذہبی رواداری کے علم بردار کچھ افراد اب زبردستی سے شہید کی گئی مسجد کی زمین پر مندر بنانے پر کیوں خاموش ہیں؟ آپ سب کی مذہبی رواداری، بین المذاہب مفاہمت اور انسانی حقوق کا ادراک کیا گہری نیند میں سویا ہوا ہے یا وہ ادراک صرف اسلام کے خلاف جاگ جاتا ہے.
میں نے آیا صوفیہ کے مسئلے پر خاموش رہنا چاہا تھا. مگر ان لوگوں کی رام مندر کے مسئلے پر خاموشی دیکھ کر مجھ سے خاموش نہیں رہا گیا. اگر واقعی آپ سب حق پرست ہیں تو رام مندر کے مسئلے پر بھی احتجاج کریں. وگرنہ مجھے آپ سب کے خلوص پر شک پڑے گا.
http://v.aa.com.tr/1935464