Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

دنیا کے تمام خطوں کی طرح خطہ برصغیر بھی مزاحمت کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں۔سامراجی اور طاغوتی قوتوں کا قلع قمع کرنے کے لئے قدرت نے یہاں بھی ایسی ایسی نابغہ روزگار شخصیات پیدا کی ہیں جن پہ بلا شبہ فخر کیا جا سکتا ہے۔
1857کی جنگ آزادی کو جب بھی یاد کیا جاےگا احمداللہ شاہ مدراسی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو گی ۔وہ انگریزوں کےسخت مخالفین میں سے تھے۔اسی لئے انھیں برصغیر سے بے دخل کرنے کے لئے چپاتی تحریک کا آغاز کیا۔
۔
مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی عرف ڈنکا شاہ کے والدمحمدعلی مصاحب ٹیپو سلطان اور چنیاپٹن(مدراس)کے نواب تھے۔
وہ اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کے ساتھ جب کہیں نکلتے تو ایک دستہ نقارہ اور ڈنکا پیٹتا ہواساتھ ساتھ چلتا تھا اسی لیے آپ کو ڈنکا شاہ اور نقارہ شاہ بھی کہاجاتا تھا۔
۔
عہد شباب ہی میں آپ پر فقر وتصوف کا غلبہ ہوا اور ریاضت ومجاہدہ کے لیے گھر بار چھوڑ کر حیدرآباد دکن اور مدراس وغیرہ سےہوتے ہوئے انگلستان پہنچ گئے،وہاں سے مصر گئے اور پھر حجاز پہنچ کر حج وزیارت کے بعد ترکی، ایران اور افغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان واپس آئے۔جہاں گوالیار میں محراب شاہ قلندر گوالیاری کی خدمت میں پہنچے ۔
احمداللہ شاہ نے ان سے فیض تلمذ حا صل کیا اور سلوک کی منازل طے کیں۔لیکن صوفی بزرگ نےخلافت اس شر ط کے ساتھ عطا کی کہ وہ اپنی جان کی بازی انگریز وں کے اقتدار کے ختم کرنے میں لگا دیں گے۔اس بیعت پر وہ تادم مرگ قائم رہے۔
چپاتی تحریک کو چلانے کے لیے نہ کوئی جلسہ بلایاگیا تھا نہ کوئی میٹنگ رکھی گئی نہ اس کے اصول و ضوابط مقرر کیے گئے ،نہ کوئی ممبر سازی کی گئی، نہ اس کے ساتھ کوئی بآواز یا خفیہ تحریری پیغام تھا۔ بس یہ جملہ تھا کہ یہ روٹی لو اور اس کو دوسرے لوگوں میں بانٹ دو۔۔ یہ کسی ذہین و فہیم ہندوستانی کا روٹی تقسیم کرکے نفسیاتی طور پر دباؤ بنانے کا ایک نایاب طریقہ تھا۔
چپاتی تحریک کے مجاہدین ڈھیر ساری چپاتیاں تیار کرتے اور اپنے حامیوں میں تقسیم کر دیتے۔اس تحریک کا نشان بھی چپاتی تھا۔چپاتیاں تقسیم کرنے کے دو مقاصد تھے۔پہلا یہ کہ جنگ کرنے والے مجاہدین کو کھانامل جاتا اور دوسرا جو شخص چپاتی اٹھاتا وہ اپنا حامی سمجھ لیا جاتا اور تحریک کا پیغام اس تک پہنچ جاتا۔اسی طرح پھر وہ شخص چپاتیاں تیار کرواکے آگے پہنچاتا۔
یہ ایک طرح سے مخبری اور جاسوسی سے بچنے کا رستہ تھا جو ڈنکا شاہ کےحامیوں کو انگریزوں کی پکڑ دھکڑ سے محفوظ رکھتا۔
ہندوستان کے انگریز کلکٹروں نے دلی کے فاتح لارڈکیننگ کو چپاتی کی خفیہ تحریک کی اطلاع دی۔ گڑگاؤں کا کلکٹر وہ پہلا شخص تھا جس کو چپاتی کے بانٹنے کا علم ہوا۔ بہادر شاہ کے حکیم احسن اللہ نے دوران مقدمہ بتایا کہ چپاتی کی تحریک اودھ سے شروع ہوئی۔
مالیسن کے مطابق چپاتی تحریک کے موجد اور پہلی جنگ آزادی کے روح رواں مولوی احمداللہ شاہ نے 1857ء کے آخری ایام میں کچھ عرصہ ٹھہر کر دیسی سپاہیوں کو سیاسی آزادی کے بارے میں وعظ دیا،۔ ڈنکا شاہ ہر صورت برصغیر کو انگریزوں سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔
اپنے اس عظیم مقصد کے لئے انھوں نے مجلس علما قائم کی اور اس مجلس کو وسیع کرنے کے لیےانھوں نے لکھنو کا سفر کیا۔
اسی دوران حریت کے بطلِ جلیل علامہ فضلِ حق خیرآبادی اور جنرل بخت خاں سے ملاقات کی،مجلس علما کو منظم کیا گیا۔علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جامع مسجد دہلی میں انگریزی مظالم اور اقتدار کے خلاف ولولہ انگیز تقریر کی،جہاد کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کو واضح کر کے فتوے جہاد پیش کیا جس پر علما نے اپنی تصدیقات ثبت فرمائیں۔
احمداللہ شاہ کا اثر روزبروز بڑھتا اور پھیلتا گیا۔ اس کے بعد مجلس علما آگرہ قائم کرکے آگرہ کے علما کو آپ نے مربوط ومنظم کیا،اس طرح علما آپ کے دست وبازو بن گئے۔
مولانا صاحب نے اپنے اثرورسوخ سے دیسی فوج کی تمام رجمنٹوں میں کمیٹیاں بنا دی تھی،قاصد تیار کئے اور سپاہیوں کی آدھی رہائش گاہوں پر آدھی رات کو خفیہ کانفرنسیں کرواتے۔ میلسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ نئے کارتوسوں کے بارے میں دیسی سپاہیوں کو معلومات مولانامدراسی نے ہی دی۔
آپ کے وعظ وبیان میں ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا۔جگہ جگہ آپ کے تبلیغی واصلاحی دورے ہوتے تھے۔آپ کی شہرت اور آپ کے تعلقات واثرات کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا۔بڑے بڑے علما وفضلاوادبا وشعرا آپ کے گرویدہ ہوگئے۔آپ کے عزائم اور آپ کی ہر دل عزیزی نے حکومت ِ وقت کو چوکنا کردیااور انگریزمخالف سرگرمیوں نے سرکاری کارندوں کے ہوش اڑا دیئے۔
انگریزوں پر ان کا ایسا خوف طاری ہو گیا تھاکہ گورنر جنرل نے انہیں پکڑوا نے کے لیے 50 ہزار روپے کے انعام کا اعلان کر دیا تھا۔
مولاناامیر علی شاہ (لکھنؤ) کی شہادت پر لکھنؤ آئے لیکن پھر فیض آبادچلے گئےجہاں حکومت نے آپ کو نظربند کردیا۔
انقلاب 1857ء رونما ہواتو جیل ٹوٹی تو آپ رِہاہوکر مع محبان وطن کے لکھنؤ آئے اور نصف لکھنؤ پر قبضہ کر لیا اور اپنا اقتدار بڑھانا شروع کیا۔ نواب واجد علی شاہ کے چھوٹے بیٹےبرجیس قدر کو تخت پر بٹھایا اور نگراں ملکہ اودھ حضرت محل تجویز ہوئیں۔کمپنی اور حضرت محل کے کئی محاذ پر بڑے بڑ ے مقابلے ہوئے۔جن میں مولانا کے فدائین نے شجاعت کے جوہر دکھائے۔انھوں نے لکھنؤ ریزیڈینسی پر قبضہ کر لیا جہاں انگریز ریزیڈینٹ افسر لارنس ہنری مارا گیااورانگریزوں کو بھاگنا پڑا۔
مولانااحمداللہ شاہ مدراسی نے دہلی وآگرہ کے بعد میرٹھ، پٹنہ،کلکتہ وغیرہ کے بھی دورے کئے اور انگریزوں کے خلاف مہم کا دائرہ کافی وسیع کرلیا۔
آخر میں قصبہ محمدی (شاہجہاں پور)میں مولانا احمداللہ شاہ ،شہزادہ فیروز شاہ، جنرل بخت خاں، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی وغیرہ نے اپنی حکومت قائم کرلی ۔شاہزادہ فیروز شاہ وزیر مقرر ہوئے اورجنرل بخت خاں کمانڈربنائے گئے۔خلافت راشدہ کی اتباع میں حکومت شرعیہ کا نقشہ قائم ہوا اور سکہ مولانا احمداللہ شاہ مدراسی کے نام کا جاری ہوا۔
ضلع شاہ جہان پور (پوائین )کے راجہ جگن ناتھ نے آپ کو تعاون کی پیشکش کی اوراپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ پوائین،اودھ اوربندھیل کھنڈکی سرحد پر واقع ہے جب مولانامدراسی پوائین پہنچے تو راجہ جگن ناتھ نے حویلی کا دروازہ بند کردیا اور اندر سے گولی چلا کر آپ کو شہید کردیا ۔آپ کے دست ِ راست شفیع اللہ خان رئیس نجیب آباد بھی موقع پر شہید ہوگئے۔ جگن ناتھ کے بھائی بلدیو سنگھ نے آپ کا سرقلم کرکے انگریزمجسٹریٹ کو پیش کیا اور 50ہزار کی رقم زرِ تعاون پائی ۔ سرمبارک عرصہ تک شاہجہاں پور کوتوالی میں لٹکا رہا۔آپ کے جسد خاکی کا مثلہ کرکے جلا دیا گیا اور بعدازاں موضع جہاں گنج کی ایک جھوٹی سی مسجد کے قریب ان کے سر کی تدفین کی گئی ۔مولانا مدراسی کی شہادت کے ساتھ ہی انقلاب 1857ء کا یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ مولانا مدراسی کی شہادت کے بعد انگریزوں کا عام تاثر یہ تھا کہ شمالی ہند میں ہمارا سب سے بڑا دشمن اور سب سے خطرناک انقلابی ختم ہو گیا۔
انگریز مؤ رخ جی ڈبلیو فارسٹر لکھتا ہے: یہ بتا دینا ضروری ہے کہ وہ عالم باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی تھا،روحانی طاقت کی وجہ سے صوفی تھا،جنگی مہارت کی وجہ سے سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ ظلم طبیعت میں نہ تھا،ہر انگریز اس کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
جبکہ ہولمز نے لکھا ہے کہ:باغیوں میں وہ ہی بادشاہت کے لیے سب سے زیادہ مستحق تھا۔
مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی نے تاحیات انگریزوں کی خلاف مزاحمت کی اور ان کو بار بار ناکام کیا ۔1857ء کی جنگ آزادی وسائل کی کمی مگر حوصلوں کی زیادتی سے لڑی گئی اور تاریخ میں احمداللہ شاہ مدراسی جیسی مثالیں نایاب ہیں۔

دنیا کے تمام خطوں کی طرح خطہ برصغیر بھی مزاحمت کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں۔سامراجی اور طاغوتی قوتوں کا قلع قمع کرنے کے لئے قدرت نے یہاں بھی ایسی ایسی نابغہ روزگار شخصیات پیدا کی ہیں جن پہ بلا شبہ فخر کیا جا سکتا ہے۔
1857کی جنگ آزادی کو جب بھی یاد کیا جاےگا احمداللہ شاہ مدراسی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو گی ۔وہ انگریزوں کےسخت مخالفین میں سے تھے۔اسی لئے انھیں برصغیر سے بے دخل کرنے کے لئے چپاتی تحریک کا آغاز کیا۔
۔
مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی عرف ڈنکا شاہ کے والدمحمدعلی مصاحب ٹیپو سلطان اور چنیاپٹن(مدراس)کے نواب تھے۔
وہ اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کے ساتھ جب کہیں نکلتے تو ایک دستہ نقارہ اور ڈنکا پیٹتا ہواساتھ ساتھ چلتا تھا اسی لیے آپ کو ڈنکا شاہ اور نقارہ شاہ بھی کہاجاتا تھا۔
۔
عہد شباب ہی میں آپ پر فقر وتصوف کا غلبہ ہوا اور ریاضت ومجاہدہ کے لیے گھر بار چھوڑ کر حیدرآباد دکن اور مدراس وغیرہ سےہوتے ہوئے انگلستان پہنچ گئے،وہاں سے مصر گئے اور پھر حجاز پہنچ کر حج وزیارت کے بعد ترکی، ایران اور افغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان واپس آئے۔جہاں گوالیار میں محراب شاہ قلندر گوالیاری کی خدمت میں پہنچے ۔
احمداللہ شاہ نے ان سے فیض تلمذ حا صل کیا اور سلوک کی منازل طے کیں۔لیکن صوفی بزرگ نےخلافت اس شر ط کے ساتھ عطا کی کہ وہ اپنی جان کی بازی انگریز وں کے اقتدار کے ختم کرنے میں لگا دیں گے۔اس بیعت پر وہ تادم مرگ قائم رہے۔
چپاتی تحریک کو چلانے کے لیے نہ کوئی جلسہ بلایاگیا تھا نہ کوئی میٹنگ رکھی گئی نہ اس کے اصول و ضوابط مقرر کیے گئے ،نہ کوئی ممبر سازی کی گئی، نہ اس کے ساتھ کوئی بآواز یا خفیہ تحریری پیغام تھا۔ بس یہ جملہ تھا کہ یہ روٹی لو اور اس کو دوسرے لوگوں میں بانٹ دو۔۔ یہ کسی ذہین و فہیم ہندوستانی کا روٹی تقسیم کرکے نفسیاتی طور پر دباؤ بنانے کا ایک نایاب طریقہ تھا۔
چپاتی تحریک کے مجاہدین ڈھیر ساری چپاتیاں تیار کرتے اور اپنے حامیوں میں تقسیم کر دیتے۔اس تحریک کا نشان بھی چپاتی تھا۔چپاتیاں تقسیم کرنے کے دو مقاصد تھے۔پہلا یہ کہ جنگ کرنے والے مجاہدین کو کھانامل جاتا اور دوسرا جو شخص چپاتی اٹھاتا وہ اپنا حامی سمجھ لیا جاتا اور تحریک کا پیغام اس تک پہنچ جاتا۔اسی طرح پھر وہ شخص چپاتیاں تیار کرواکے آگے پہنچاتا۔
یہ ایک طرح سے مخبری اور جاسوسی سے بچنے کا رستہ تھا جو ڈنکا شاہ کےحامیوں کو انگریزوں کی پکڑ دھکڑ سے محفوظ رکھتا۔
ہندوستان کے انگریز کلکٹروں نے دلی کے فاتح لارڈکیننگ کو چپاتی کی خفیہ تحریک کی اطلاع دی۔ گڑگاؤں کا کلکٹر وہ پہلا شخص تھا جس کو چپاتی کے بانٹنے کا علم ہوا۔ بہادر شاہ کے حکیم احسن اللہ نے دوران مقدمہ بتایا کہ چپاتی کی تحریک اودھ سے شروع ہوئی۔
مالیسن کے مطابق چپاتی تحریک کے موجد اور پہلی جنگ آزادی کے روح رواں مولوی احمداللہ شاہ نے 1857ء کے آخری ایام میں کچھ عرصہ ٹھہر کر دیسی سپاہیوں کو سیاسی آزادی کے بارے میں وعظ دیا،۔ ڈنکا شاہ ہر صورت برصغیر کو انگریزوں سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔
اپنے اس عظیم مقصد کے لئے انھوں نے مجلس علما قائم کی اور اس مجلس کو وسیع کرنے کے لیےانھوں نے لکھنو کا سفر کیا۔
اسی دوران حریت کے بطلِ جلیل علامہ فضلِ حق خیرآبادی اور جنرل بخت خاں سے ملاقات کی،مجلس علما کو منظم کیا گیا۔علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جامع مسجد دہلی میں انگریزی مظالم اور اقتدار کے خلاف ولولہ انگیز تقریر کی،جہاد کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کو واضح کر کے فتوے جہاد پیش کیا جس پر علما نے اپنی تصدیقات ثبت فرمائیں۔
احمداللہ شاہ کا اثر روزبروز بڑھتا اور پھیلتا گیا۔ اس کے بعد مجلس علما آگرہ قائم کرکے آگرہ کے علما کو آپ نے مربوط ومنظم کیا،اس طرح علما آپ کے دست وبازو بن گئے۔
مولانا صاحب نے اپنے اثرورسوخ سے دیسی فوج کی تمام رجمنٹوں میں کمیٹیاں بنا دی تھی،قاصد تیار کئے اور سپاہیوں کی آدھی رہائش گاہوں پر آدھی رات کو خفیہ کانفرنسیں کرواتے۔ میلسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ نئے کارتوسوں کے بارے میں دیسی سپاہیوں کو معلومات مولانامدراسی نے ہی دی۔
آپ کے وعظ وبیان میں ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا۔جگہ جگہ آپ کے تبلیغی واصلاحی دورے ہوتے تھے۔آپ کی شہرت اور آپ کے تعلقات واثرات کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا۔بڑے بڑے علما وفضلاوادبا وشعرا آپ کے گرویدہ ہوگئے۔آپ کے عزائم اور آپ کی ہر دل عزیزی نے حکومت ِ وقت کو چوکنا کردیااور انگریزمخالف سرگرمیوں نے سرکاری کارندوں کے ہوش اڑا دیئے۔
انگریزوں پر ان کا ایسا خوف طاری ہو گیا تھاکہ گورنر جنرل نے انہیں پکڑوا نے کے لیے 50 ہزار روپے کے انعام کا اعلان کر دیا تھا۔
مولاناامیر علی شاہ (لکھنؤ) کی شہادت پر لکھنؤ آئے لیکن پھر فیض آبادچلے گئےجہاں حکومت نے آپ کو نظربند کردیا۔
انقلاب 1857ء رونما ہواتو جیل ٹوٹی تو آپ رِہاہوکر مع محبان وطن کے لکھنؤ آئے اور نصف لکھنؤ پر قبضہ کر لیا اور اپنا اقتدار بڑھانا شروع کیا۔ نواب واجد علی شاہ کے چھوٹے بیٹےبرجیس قدر کو تخت پر بٹھایا اور نگراں ملکہ اودھ حضرت محل تجویز ہوئیں۔کمپنی اور حضرت محل کے کئی محاذ پر بڑے بڑ ے مقابلے ہوئے۔جن میں مولانا کے فدائین نے شجاعت کے جوہر دکھائے۔انھوں نے لکھنؤ ریزیڈینسی پر قبضہ کر لیا جہاں انگریز ریزیڈینٹ افسر لارنس ہنری مارا گیااورانگریزوں کو بھاگنا پڑا۔
مولانااحمداللہ شاہ مدراسی نے دہلی وآگرہ کے بعد میرٹھ، پٹنہ،کلکتہ وغیرہ کے بھی دورے کئے اور انگریزوں کے خلاف مہم کا دائرہ کافی وسیع کرلیا۔
آخر میں قصبہ محمدی (شاہجہاں پور)میں مولانا احمداللہ شاہ ،شہزادہ فیروز شاہ، جنرل بخت خاں، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی وغیرہ نے اپنی حکومت قائم کرلی ۔شاہزادہ فیروز شاہ وزیر مقرر ہوئے اورجنرل بخت خاں کمانڈربنائے گئے۔خلافت راشدہ کی اتباع میں حکومت شرعیہ کا نقشہ قائم ہوا اور سکہ مولانا احمداللہ شاہ مدراسی کے نام کا جاری ہوا۔
ضلع شاہ جہان پور (پوائین )کے راجہ جگن ناتھ نے آپ کو تعاون کی پیشکش کی اوراپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ پوائین،اودھ اوربندھیل کھنڈکی سرحد پر واقع ہے جب مولانامدراسی پوائین پہنچے تو راجہ جگن ناتھ نے حویلی کا دروازہ بند کردیا اور اندر سے گولی چلا کر آپ کو شہید کردیا ۔آپ کے دست ِ راست شفیع اللہ خان رئیس نجیب آباد بھی موقع پر شہید ہوگئے۔ جگن ناتھ کے بھائی بلدیو سنگھ نے آپ کا سرقلم کرکے انگریزمجسٹریٹ کو پیش کیا اور 50ہزار کی رقم زرِ تعاون پائی ۔ سرمبارک عرصہ تک شاہجہاں پور کوتوالی میں لٹکا رہا۔آپ کے جسد خاکی کا مثلہ کرکے جلا دیا گیا اور بعدازاں موضع جہاں گنج کی ایک جھوٹی سی مسجد کے قریب ان کے سر کی تدفین کی گئی ۔مولانا مدراسی کی شہادت کے ساتھ ہی انقلاب 1857ء کا یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ مولانا مدراسی کی شہادت کے بعد انگریزوں کا عام تاثر یہ تھا کہ شمالی ہند میں ہمارا سب سے بڑا دشمن اور سب سے خطرناک انقلابی ختم ہو گیا۔
انگریز مؤ رخ جی ڈبلیو فارسٹر لکھتا ہے: یہ بتا دینا ضروری ہے کہ وہ عالم باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی تھا،روحانی طاقت کی وجہ سے صوفی تھا،جنگی مہارت کی وجہ سے سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ ظلم طبیعت میں نہ تھا،ہر انگریز اس کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
جبکہ ہولمز نے لکھا ہے کہ:باغیوں میں وہ ہی بادشاہت کے لیے سب سے زیادہ مستحق تھا۔
مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی نے تاحیات انگریزوں کی خلاف مزاحمت کی اور ان کو بار بار ناکام کیا ۔1857ء کی جنگ آزادی وسائل کی کمی مگر حوصلوں کی زیادتی سے لڑی گئی اور تاریخ میں احمداللہ شاہ مدراسی جیسی مثالیں نایاب ہیں۔

دنیا کے تمام خطوں کی طرح خطہ برصغیر بھی مزاحمت کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں۔سامراجی اور طاغوتی قوتوں کا قلع قمع کرنے کے لئے قدرت نے یہاں بھی ایسی ایسی نابغہ روزگار شخصیات پیدا کی ہیں جن پہ بلا شبہ فخر کیا جا سکتا ہے۔
1857کی جنگ آزادی کو جب بھی یاد کیا جاےگا احمداللہ شاہ مدراسی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو گی ۔وہ انگریزوں کےسخت مخالفین میں سے تھے۔اسی لئے انھیں برصغیر سے بے دخل کرنے کے لئے چپاتی تحریک کا آغاز کیا۔
۔
مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی عرف ڈنکا شاہ کے والدمحمدعلی مصاحب ٹیپو سلطان اور چنیاپٹن(مدراس)کے نواب تھے۔
وہ اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کے ساتھ جب کہیں نکلتے تو ایک دستہ نقارہ اور ڈنکا پیٹتا ہواساتھ ساتھ چلتا تھا اسی لیے آپ کو ڈنکا شاہ اور نقارہ شاہ بھی کہاجاتا تھا۔
۔
عہد شباب ہی میں آپ پر فقر وتصوف کا غلبہ ہوا اور ریاضت ومجاہدہ کے لیے گھر بار چھوڑ کر حیدرآباد دکن اور مدراس وغیرہ سےہوتے ہوئے انگلستان پہنچ گئے،وہاں سے مصر گئے اور پھر حجاز پہنچ کر حج وزیارت کے بعد ترکی، ایران اور افغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان واپس آئے۔جہاں گوالیار میں محراب شاہ قلندر گوالیاری کی خدمت میں پہنچے ۔
احمداللہ شاہ نے ان سے فیض تلمذ حا صل کیا اور سلوک کی منازل طے کیں۔لیکن صوفی بزرگ نےخلافت اس شر ط کے ساتھ عطا کی کہ وہ اپنی جان کی بازی انگریز وں کے اقتدار کے ختم کرنے میں لگا دیں گے۔اس بیعت پر وہ تادم مرگ قائم رہے۔
چپاتی تحریک کو چلانے کے لیے نہ کوئی جلسہ بلایاگیا تھا نہ کوئی میٹنگ رکھی گئی نہ اس کے اصول و ضوابط مقرر کیے گئے ،نہ کوئی ممبر سازی کی گئی، نہ اس کے ساتھ کوئی بآواز یا خفیہ تحریری پیغام تھا۔ بس یہ جملہ تھا کہ یہ روٹی لو اور اس کو دوسرے لوگوں میں بانٹ دو۔۔ یہ کسی ذہین و فہیم ہندوستانی کا روٹی تقسیم کرکے نفسیاتی طور پر دباؤ بنانے کا ایک نایاب طریقہ تھا۔
چپاتی تحریک کے مجاہدین ڈھیر ساری چپاتیاں تیار کرتے اور اپنے حامیوں میں تقسیم کر دیتے۔اس تحریک کا نشان بھی چپاتی تھا۔چپاتیاں تقسیم کرنے کے دو مقاصد تھے۔پہلا یہ کہ جنگ کرنے والے مجاہدین کو کھانامل جاتا اور دوسرا جو شخص چپاتی اٹھاتا وہ اپنا حامی سمجھ لیا جاتا اور تحریک کا پیغام اس تک پہنچ جاتا۔اسی طرح پھر وہ شخص چپاتیاں تیار کرواکے آگے پہنچاتا۔
یہ ایک طرح سے مخبری اور جاسوسی سے بچنے کا رستہ تھا جو ڈنکا شاہ کےحامیوں کو انگریزوں کی پکڑ دھکڑ سے محفوظ رکھتا۔
ہندوستان کے انگریز کلکٹروں نے دلی کے فاتح لارڈکیننگ کو چپاتی کی خفیہ تحریک کی اطلاع دی۔ گڑگاؤں کا کلکٹر وہ پہلا شخص تھا جس کو چپاتی کے بانٹنے کا علم ہوا۔ بہادر شاہ کے حکیم احسن اللہ نے دوران مقدمہ بتایا کہ چپاتی کی تحریک اودھ سے شروع ہوئی۔
مالیسن کے مطابق چپاتی تحریک کے موجد اور پہلی جنگ آزادی کے روح رواں مولوی احمداللہ شاہ نے 1857ء کے آخری ایام میں کچھ عرصہ ٹھہر کر دیسی سپاہیوں کو سیاسی آزادی کے بارے میں وعظ دیا،۔ ڈنکا شاہ ہر صورت برصغیر کو انگریزوں سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔
اپنے اس عظیم مقصد کے لئے انھوں نے مجلس علما قائم کی اور اس مجلس کو وسیع کرنے کے لیےانھوں نے لکھنو کا سفر کیا۔
اسی دوران حریت کے بطلِ جلیل علامہ فضلِ حق خیرآبادی اور جنرل بخت خاں سے ملاقات کی،مجلس علما کو منظم کیا گیا۔علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جامع مسجد دہلی میں انگریزی مظالم اور اقتدار کے خلاف ولولہ انگیز تقریر کی،جہاد کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کو واضح کر کے فتوے جہاد پیش کیا جس پر علما نے اپنی تصدیقات ثبت فرمائیں۔
احمداللہ شاہ کا اثر روزبروز بڑھتا اور پھیلتا گیا۔ اس کے بعد مجلس علما آگرہ قائم کرکے آگرہ کے علما کو آپ نے مربوط ومنظم کیا،اس طرح علما آپ کے دست وبازو بن گئے۔
مولانا صاحب نے اپنے اثرورسوخ سے دیسی فوج کی تمام رجمنٹوں میں کمیٹیاں بنا دی تھی،قاصد تیار کئے اور سپاہیوں کی آدھی رہائش گاہوں پر آدھی رات کو خفیہ کانفرنسیں کرواتے۔ میلسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ نئے کارتوسوں کے بارے میں دیسی سپاہیوں کو معلومات مولانامدراسی نے ہی دی۔
آپ کے وعظ وبیان میں ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا۔جگہ جگہ آپ کے تبلیغی واصلاحی دورے ہوتے تھے۔آپ کی شہرت اور آپ کے تعلقات واثرات کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا۔بڑے بڑے علما وفضلاوادبا وشعرا آپ کے گرویدہ ہوگئے۔آپ کے عزائم اور آپ کی ہر دل عزیزی نے حکومت ِ وقت کو چوکنا کردیااور انگریزمخالف سرگرمیوں نے سرکاری کارندوں کے ہوش اڑا دیئے۔
انگریزوں پر ان کا ایسا خوف طاری ہو گیا تھاکہ گورنر جنرل نے انہیں پکڑوا نے کے لیے 50 ہزار روپے کے انعام کا اعلان کر دیا تھا۔
مولاناامیر علی شاہ (لکھنؤ) کی شہادت پر لکھنؤ آئے لیکن پھر فیض آبادچلے گئےجہاں حکومت نے آپ کو نظربند کردیا۔
انقلاب 1857ء رونما ہواتو جیل ٹوٹی تو آپ رِہاہوکر مع محبان وطن کے لکھنؤ آئے اور نصف لکھنؤ پر قبضہ کر لیا اور اپنا اقتدار بڑھانا شروع کیا۔ نواب واجد علی شاہ کے چھوٹے بیٹےبرجیس قدر کو تخت پر بٹھایا اور نگراں ملکہ اودھ حضرت محل تجویز ہوئیں۔کمپنی اور حضرت محل کے کئی محاذ پر بڑے بڑ ے مقابلے ہوئے۔جن میں مولانا کے فدائین نے شجاعت کے جوہر دکھائے۔انھوں نے لکھنؤ ریزیڈینسی پر قبضہ کر لیا جہاں انگریز ریزیڈینٹ افسر لارنس ہنری مارا گیااورانگریزوں کو بھاگنا پڑا۔
مولانااحمداللہ شاہ مدراسی نے دہلی وآگرہ کے بعد میرٹھ، پٹنہ،کلکتہ وغیرہ کے بھی دورے کئے اور انگریزوں کے خلاف مہم کا دائرہ کافی وسیع کرلیا۔
آخر میں قصبہ محمدی (شاہجہاں پور)میں مولانا احمداللہ شاہ ،شہزادہ فیروز شاہ، جنرل بخت خاں، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی وغیرہ نے اپنی حکومت قائم کرلی ۔شاہزادہ فیروز شاہ وزیر مقرر ہوئے اورجنرل بخت خاں کمانڈربنائے گئے۔خلافت راشدہ کی اتباع میں حکومت شرعیہ کا نقشہ قائم ہوا اور سکہ مولانا احمداللہ شاہ مدراسی کے نام کا جاری ہوا۔
ضلع شاہ جہان پور (پوائین )کے راجہ جگن ناتھ نے آپ کو تعاون کی پیشکش کی اوراپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ پوائین،اودھ اوربندھیل کھنڈکی سرحد پر واقع ہے جب مولانامدراسی پوائین پہنچے تو راجہ جگن ناتھ نے حویلی کا دروازہ بند کردیا اور اندر سے گولی چلا کر آپ کو شہید کردیا ۔آپ کے دست ِ راست شفیع اللہ خان رئیس نجیب آباد بھی موقع پر شہید ہوگئے۔ جگن ناتھ کے بھائی بلدیو سنگھ نے آپ کا سرقلم کرکے انگریزمجسٹریٹ کو پیش کیا اور 50ہزار کی رقم زرِ تعاون پائی ۔ سرمبارک عرصہ تک شاہجہاں پور کوتوالی میں لٹکا رہا۔آپ کے جسد خاکی کا مثلہ کرکے جلا دیا گیا اور بعدازاں موضع جہاں گنج کی ایک جھوٹی سی مسجد کے قریب ان کے سر کی تدفین کی گئی ۔مولانا مدراسی کی شہادت کے ساتھ ہی انقلاب 1857ء کا یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ مولانا مدراسی کی شہادت کے بعد انگریزوں کا عام تاثر یہ تھا کہ شمالی ہند میں ہمارا سب سے بڑا دشمن اور سب سے خطرناک انقلابی ختم ہو گیا۔
انگریز مؤ رخ جی ڈبلیو فارسٹر لکھتا ہے: یہ بتا دینا ضروری ہے کہ وہ عالم باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی تھا،روحانی طاقت کی وجہ سے صوفی تھا،جنگی مہارت کی وجہ سے سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ ظلم طبیعت میں نہ تھا،ہر انگریز اس کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
جبکہ ہولمز نے لکھا ہے کہ:باغیوں میں وہ ہی بادشاہت کے لیے سب سے زیادہ مستحق تھا۔
مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی نے تاحیات انگریزوں کی خلاف مزاحمت کی اور ان کو بار بار ناکام کیا ۔1857ء کی جنگ آزادی وسائل کی کمی مگر حوصلوں کی زیادتی سے لڑی گئی اور تاریخ میں احمداللہ شاہ مدراسی جیسی مثالیں نایاب ہیں۔

دنیا کے تمام خطوں کی طرح خطہ برصغیر بھی مزاحمت کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں۔سامراجی اور طاغوتی قوتوں کا قلع قمع کرنے کے لئے قدرت نے یہاں بھی ایسی ایسی نابغہ روزگار شخصیات پیدا کی ہیں جن پہ بلا شبہ فخر کیا جا سکتا ہے۔
1857کی جنگ آزادی کو جب بھی یاد کیا جاےگا احمداللہ شاہ مدراسی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو گی ۔وہ انگریزوں کےسخت مخالفین میں سے تھے۔اسی لئے انھیں برصغیر سے بے دخل کرنے کے لئے چپاتی تحریک کا آغاز کیا۔
۔
مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی عرف ڈنکا شاہ کے والدمحمدعلی مصاحب ٹیپو سلطان اور چنیاپٹن(مدراس)کے نواب تھے۔
وہ اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کے ساتھ جب کہیں نکلتے تو ایک دستہ نقارہ اور ڈنکا پیٹتا ہواساتھ ساتھ چلتا تھا اسی لیے آپ کو ڈنکا شاہ اور نقارہ شاہ بھی کہاجاتا تھا۔
۔
عہد شباب ہی میں آپ پر فقر وتصوف کا غلبہ ہوا اور ریاضت ومجاہدہ کے لیے گھر بار چھوڑ کر حیدرآباد دکن اور مدراس وغیرہ سےہوتے ہوئے انگلستان پہنچ گئے،وہاں سے مصر گئے اور پھر حجاز پہنچ کر حج وزیارت کے بعد ترکی، ایران اور افغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان واپس آئے۔جہاں گوالیار میں محراب شاہ قلندر گوالیاری کی خدمت میں پہنچے ۔
احمداللہ شاہ نے ان سے فیض تلمذ حا صل کیا اور سلوک کی منازل طے کیں۔لیکن صوفی بزرگ نےخلافت اس شر ط کے ساتھ عطا کی کہ وہ اپنی جان کی بازی انگریز وں کے اقتدار کے ختم کرنے میں لگا دیں گے۔اس بیعت پر وہ تادم مرگ قائم رہے۔
چپاتی تحریک کو چلانے کے لیے نہ کوئی جلسہ بلایاگیا تھا نہ کوئی میٹنگ رکھی گئی نہ اس کے اصول و ضوابط مقرر کیے گئے ،نہ کوئی ممبر سازی کی گئی، نہ اس کے ساتھ کوئی بآواز یا خفیہ تحریری پیغام تھا۔ بس یہ جملہ تھا کہ یہ روٹی لو اور اس کو دوسرے لوگوں میں بانٹ دو۔۔ یہ کسی ذہین و فہیم ہندوستانی کا روٹی تقسیم کرکے نفسیاتی طور پر دباؤ بنانے کا ایک نایاب طریقہ تھا۔
چپاتی تحریک کے مجاہدین ڈھیر ساری چپاتیاں تیار کرتے اور اپنے حامیوں میں تقسیم کر دیتے۔اس تحریک کا نشان بھی چپاتی تھا۔چپاتیاں تقسیم کرنے کے دو مقاصد تھے۔پہلا یہ کہ جنگ کرنے والے مجاہدین کو کھانامل جاتا اور دوسرا جو شخص چپاتی اٹھاتا وہ اپنا حامی سمجھ لیا جاتا اور تحریک کا پیغام اس تک پہنچ جاتا۔اسی طرح پھر وہ شخص چپاتیاں تیار کرواکے آگے پہنچاتا۔
یہ ایک طرح سے مخبری اور جاسوسی سے بچنے کا رستہ تھا جو ڈنکا شاہ کےحامیوں کو انگریزوں کی پکڑ دھکڑ سے محفوظ رکھتا۔
ہندوستان کے انگریز کلکٹروں نے دلی کے فاتح لارڈکیننگ کو چپاتی کی خفیہ تحریک کی اطلاع دی۔ گڑگاؤں کا کلکٹر وہ پہلا شخص تھا جس کو چپاتی کے بانٹنے کا علم ہوا۔ بہادر شاہ کے حکیم احسن اللہ نے دوران مقدمہ بتایا کہ چپاتی کی تحریک اودھ سے شروع ہوئی۔
مالیسن کے مطابق چپاتی تحریک کے موجد اور پہلی جنگ آزادی کے روح رواں مولوی احمداللہ شاہ نے 1857ء کے آخری ایام میں کچھ عرصہ ٹھہر کر دیسی سپاہیوں کو سیاسی آزادی کے بارے میں وعظ دیا،۔ ڈنکا شاہ ہر صورت برصغیر کو انگریزوں سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔
اپنے اس عظیم مقصد کے لئے انھوں نے مجلس علما قائم کی اور اس مجلس کو وسیع کرنے کے لیےانھوں نے لکھنو کا سفر کیا۔
اسی دوران حریت کے بطلِ جلیل علامہ فضلِ حق خیرآبادی اور جنرل بخت خاں سے ملاقات کی،مجلس علما کو منظم کیا گیا۔علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جامع مسجد دہلی میں انگریزی مظالم اور اقتدار کے خلاف ولولہ انگیز تقریر کی،جہاد کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کو واضح کر کے فتوے جہاد پیش کیا جس پر علما نے اپنی تصدیقات ثبت فرمائیں۔
احمداللہ شاہ کا اثر روزبروز بڑھتا اور پھیلتا گیا۔ اس کے بعد مجلس علما آگرہ قائم کرکے آگرہ کے علما کو آپ نے مربوط ومنظم کیا،اس طرح علما آپ کے دست وبازو بن گئے۔
مولانا صاحب نے اپنے اثرورسوخ سے دیسی فوج کی تمام رجمنٹوں میں کمیٹیاں بنا دی تھی،قاصد تیار کئے اور سپاہیوں کی آدھی رہائش گاہوں پر آدھی رات کو خفیہ کانفرنسیں کرواتے۔ میلسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ نئے کارتوسوں کے بارے میں دیسی سپاہیوں کو معلومات مولانامدراسی نے ہی دی۔
آپ کے وعظ وبیان میں ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا۔جگہ جگہ آپ کے تبلیغی واصلاحی دورے ہوتے تھے۔آپ کی شہرت اور آپ کے تعلقات واثرات کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا۔بڑے بڑے علما وفضلاوادبا وشعرا آپ کے گرویدہ ہوگئے۔آپ کے عزائم اور آپ کی ہر دل عزیزی نے حکومت ِ وقت کو چوکنا کردیااور انگریزمخالف سرگرمیوں نے سرکاری کارندوں کے ہوش اڑا دیئے۔
انگریزوں پر ان کا ایسا خوف طاری ہو گیا تھاکہ گورنر جنرل نے انہیں پکڑوا نے کے لیے 50 ہزار روپے کے انعام کا اعلان کر دیا تھا۔
مولاناامیر علی شاہ (لکھنؤ) کی شہادت پر لکھنؤ آئے لیکن پھر فیض آبادچلے گئےجہاں حکومت نے آپ کو نظربند کردیا۔
انقلاب 1857ء رونما ہواتو جیل ٹوٹی تو آپ رِہاہوکر مع محبان وطن کے لکھنؤ آئے اور نصف لکھنؤ پر قبضہ کر لیا اور اپنا اقتدار بڑھانا شروع کیا۔ نواب واجد علی شاہ کے چھوٹے بیٹےبرجیس قدر کو تخت پر بٹھایا اور نگراں ملکہ اودھ حضرت محل تجویز ہوئیں۔کمپنی اور حضرت محل کے کئی محاذ پر بڑے بڑ ے مقابلے ہوئے۔جن میں مولانا کے فدائین نے شجاعت کے جوہر دکھائے۔انھوں نے لکھنؤ ریزیڈینسی پر قبضہ کر لیا جہاں انگریز ریزیڈینٹ افسر لارنس ہنری مارا گیااورانگریزوں کو بھاگنا پڑا۔
مولانااحمداللہ شاہ مدراسی نے دہلی وآگرہ کے بعد میرٹھ، پٹنہ،کلکتہ وغیرہ کے بھی دورے کئے اور انگریزوں کے خلاف مہم کا دائرہ کافی وسیع کرلیا۔
آخر میں قصبہ محمدی (شاہجہاں پور)میں مولانا احمداللہ شاہ ،شہزادہ فیروز شاہ، جنرل بخت خاں، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی وغیرہ نے اپنی حکومت قائم کرلی ۔شاہزادہ فیروز شاہ وزیر مقرر ہوئے اورجنرل بخت خاں کمانڈربنائے گئے۔خلافت راشدہ کی اتباع میں حکومت شرعیہ کا نقشہ قائم ہوا اور سکہ مولانا احمداللہ شاہ مدراسی کے نام کا جاری ہوا۔
ضلع شاہ جہان پور (پوائین )کے راجہ جگن ناتھ نے آپ کو تعاون کی پیشکش کی اوراپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ پوائین،اودھ اوربندھیل کھنڈکی سرحد پر واقع ہے جب مولانامدراسی پوائین پہنچے تو راجہ جگن ناتھ نے حویلی کا دروازہ بند کردیا اور اندر سے گولی چلا کر آپ کو شہید کردیا ۔آپ کے دست ِ راست شفیع اللہ خان رئیس نجیب آباد بھی موقع پر شہید ہوگئے۔ جگن ناتھ کے بھائی بلدیو سنگھ نے آپ کا سرقلم کرکے انگریزمجسٹریٹ کو پیش کیا اور 50ہزار کی رقم زرِ تعاون پائی ۔ سرمبارک عرصہ تک شاہجہاں پور کوتوالی میں لٹکا رہا۔آپ کے جسد خاکی کا مثلہ کرکے جلا دیا گیا اور بعدازاں موضع جہاں گنج کی ایک جھوٹی سی مسجد کے قریب ان کے سر کی تدفین کی گئی ۔مولانا مدراسی کی شہادت کے ساتھ ہی انقلاب 1857ء کا یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ مولانا مدراسی کی شہادت کے بعد انگریزوں کا عام تاثر یہ تھا کہ شمالی ہند میں ہمارا سب سے بڑا دشمن اور سب سے خطرناک انقلابی ختم ہو گیا۔
انگریز مؤ رخ جی ڈبلیو فارسٹر لکھتا ہے: یہ بتا دینا ضروری ہے کہ وہ عالم باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی تھا،روحانی طاقت کی وجہ سے صوفی تھا،جنگی مہارت کی وجہ سے سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ ظلم طبیعت میں نہ تھا،ہر انگریز اس کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
جبکہ ہولمز نے لکھا ہے کہ:باغیوں میں وہ ہی بادشاہت کے لیے سب سے زیادہ مستحق تھا۔
مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی نے تاحیات انگریزوں کی خلاف مزاحمت کی اور ان کو بار بار ناکام کیا ۔1857ء کی جنگ آزادی وسائل کی کمی مگر حوصلوں کی زیادتی سے لڑی گئی اور تاریخ میں احمداللہ شاہ مدراسی جیسی مثالیں نایاب ہیں۔