Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کے تازہ بیان سے ڈاکٹر محمد سلیم شیخ یاد آگئے۔ حافظ صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں اور ملک میں انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ امیر جماعت اسلامی کا مطالبہ جائز ہے۔ انتخابی اصلاحات وقت کا ناگزیر تقاضا ہیں۔ میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور بانی تحریک انصاف سمیت ملک کی مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حالیہ انتخابی تجربے کے بعد اس مطالبے میں مزید شدت پیدا ہوئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا مطالبہ بھی اسی پس منظر میں محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس جانب پیش رفت کی تھی لیکن اس مقصد کے لیے اس نے اپنی افتاد طبع کے مطابق تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
اس کی وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ وہ ایوب خان کی طرح ملک کا پورا نظام ہی تبدیل کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ قریب قریب یک جماعتی نظام کے قیام کی خواہش مند تھی۔ اس مقصد کے لیے وہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم ( ای وی ایم) کا نفاذ چاہتی تھی۔ اس جماعت کے نقادوں اور انتخابی امور کے ماہرین کے مطابق اس نظام کے تحت مرضی کے انتخابی کا حصول ممکن تھا چناں چہ یہ بیل منڈھے چڑھنے میں ناکام رہی۔ خیر، اس جملہ معترضہ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو انتخابی اصلاحات کا مطالبہ اصولی طور پر جائز ہے لیکن کیا اس کا الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے سے بھی کوئی تعلق ہے؟ مطالبے کا یہ حصہ خالصتاً سیاسی پس نظر رکھتا ہے۔ اصلاحات تو پارلیمنٹ نے کرنی ہیں، یہ کام ان کے استعفے کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں، البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی بھی نوعیت کی اصلاحات کے لیے سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔ یہ کام مذاکرات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیا جماعت اسلامی حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات پر آمادہ ہو گی؟ سردست اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ جماعت کا سیاسی مقف بلکہ حکمراں جماعت کے لیے سخت رویہ پی ٹی آئی کی طرح ہی شدید ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سیاست تنا ؤکا انجام کیا ہو گا اور انتخابی اصلاحات ہوتی ہیں یا نہیں، یہ سوال الگ ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس نوعیت کی کوئی اصلاحات اگر ہوتی بھی ہیں تو کیا جماعت اسلامی کو اس کا کوئی فائدہ ہو سکے گا؟ دراصل یہی سوال تھا جس کی وجہ سے میری توجہ ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کی مبذول ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی میں سیاسیات کے بہت ہی صاحب مطالعہ پروفیسر ہیں جنھوں نے ان عوامل کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کی جڑیں مستحکم نہیں ہو سکیں نیز اصولی اور نظریاتی سیاست کو ملک میں اس طرح مقبولیت نہیں مل سکی جس کی ضرورت ہے بلکہ اسی مقصد کے لیے پاکستان قائم کیا گیا۔
حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے، ‘جمہوری سیاست اور سماج’۔ اس کتاب میں انھوں نے ان ہی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو گا کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کی مقبولیت اور عادلانہ نظام کے قیام کے لیے کیا انتخابی اصلاحات اولیت رکھتی ہیں یا ان بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں اسٹیٹس کو کی قوتیں پس منظر میں جا سکیں اور جماعت اسلامی جیسی نظریاتی قوتیں طاقت پکڑ سکیں؟ یہ بنیادی اصلاحات کیا ہیں؟ یہی ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کی کتاب کا اصل موضوع ہے۔
پاکستان میں جمہوریت جڑ کیوں نہیں پکڑ سکی، ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ اس کا بنیادی سبب اس ماحول کا نہ ہونا ہے جو جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس میں پیداواری رشتوں کی نوعیت، لسانی و علاقائی شناختیں، معاشی حالات اور تعلیمی ماحول اپنا کردار ادا کریں لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور نہ یہ ممکن ہے۔
ڈاکٹر صاحب اس سلسلے میں پاکستان کی قبائلی، جاگیردارانہ اور زمین دارانہ ثقافت کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی تحقیق اور ٹھوس حوالوں کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم حقیقت بن گئی تو پاکستان کے مغربی حصے سے تعلق رکھنے والے جاگیر داروں اور وڈیروں نے اپنا تمام تر وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس اس وقت تک اپنے مستقبل کے منصوبوں کا اعلان کر چکی تھی جن میں سے جاگیر داری کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد زرعی اصلاحات کا ارادہ رکھتے تھے لیکن آزادی کے ایک ہی برس کے بعد ان کی اور ان کے بعد لیاقت علی خان کی موت نے اصلاحات کا راستہ روک دیا اور ملک پر وہ قوتیں غالب آ گئیں جو اسٹیس کو چاہتی تھیں اور تبدیلی کی مخالف تھیں۔
ڈاکٹر صاحب نے برصغیر کی تاریخ کی روشنی میں بتایا ہے کہ جاگیر داری اور زمین داری ثقافت کا یہ ناگزیر تقاضا ہے کہ اس کے وارث طاقت کے مراکز سے طاقت حاصل کرتے رہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ طبقہ ہمیشہ اقتدار کے قریب رہتا ہے خواہ یہ جمہوری دور ہو یا مارشل لا کی آمرانہ حکومت۔ بادشاہوں کے زمانے میں یہ طبقہ بادشاہت کے استحکام کے لیے ہراول دستے کا کام کرتا تھا جس کے جواب میں انھیں جاگیروں سے نوازا جاتا تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جمہوری نظام متعارف ہوا تو برصغیر میں اس طبقے نے یہی کام با انداز دگر کیا۔ اس نظام میں اقتدار کا حصہ بننے کے لیے چوں کہ ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اس طبقے نے اس نظام کو انا اور عزت کی جنگ میں تبدیل کر دیا اور اس مقصد کے لیے انتخابی عمل میں بے پناہ وسائل جھونک دیے۔ پاکستان کے انتخابی منظر نامے کا یہی پہلو ہے جس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کوئی نظریاتی تحریک یا جماعت نہیں رکھتی۔ جماعت اسلامی ہو یا کوئی دوسری نظریاتی جماعت، اس کا مسئلہ یہی ہے۔
اسٹیٹس کو کی ان قوتوں کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟ بائیں بازو کی جماعتیں یا کمیونسٹ پارٹی تو ایک زمانے میں انقلاب کی باتیں کیا کرتی تھی۔ یہ انداز فکر روسی انقلاب کے پس منظر میں تھا لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بدقسمتی سے یہ قوتیں تو دم توڑ چکی ہیں البتہ دائیں بازو کی نظریاتی جماعت، یعنی جماعت اسلامی مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ انتخابی میدان میں بھی نتائج کی پروا کیے بغیر پورے جوش و خروش سے حصہ لیتی ہے۔ اتنی مضبوط قوت ارادی پر جماعت اسلامی داد کی مستحق ہے لیکن اپنے مقصد کے حصول کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے وسائل اور کارکنوں کی محنت کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کرے۔ یہ کام صرف انتخابی اصلاحات سے ممکن نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ان پہلوں پر توجہ کی بھی ضرورت ہو گی جس کی طرف ڈاکٹر محمد سلیم شیخ صاحب نے توجہ مبذول کرائی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ‘ پاکستان: جمہوری سیاست اور سماج ‘ کا مطالعہ ہر سنجیدہ سیاسی کارکن، صحافی اور طالب علم کے لیے ناگزیر ہے جو اس ملک میں تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ ہی انھیں بتائے گا کہ ‘ پرانا معاشرہ اور نئی ریاست’ کیا ہے؟ وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے قوم اپنے وسائل سے استفادہ نہیں کر پاتی۔ نظریاتی سیاست پاکستان میں جڑ کیوں نہیں پکڑ پاتی۔ ملک میں نظم و ضبط کیوں قائم نہیں ہو پاتا اور قانون شکنی کیوں ہوتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں ہے، کسی حکیم حاذق کی تشخیص ہے جس نے اس ملک کے ہر دکھ اور مرض کی نہ صرف نشان دہی کر دی ہے بلکہ اس کا علاج بھی بتا دیا ہے۔ اتنی اہم کتاب شائع کرنے پر قلم فانڈیشن کے علامہ عبد الستار عاصم بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنی روایت کے مطابق اسے نہایت خوب صورتی کے ساتھ شائع کیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کے تازہ بیان سے ڈاکٹر محمد سلیم شیخ یاد آگئے۔ حافظ صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں اور ملک میں انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ امیر جماعت اسلامی کا مطالبہ جائز ہے۔ انتخابی اصلاحات وقت کا ناگزیر تقاضا ہیں۔ میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور بانی تحریک انصاف سمیت ملک کی مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حالیہ انتخابی تجربے کے بعد اس مطالبے میں مزید شدت پیدا ہوئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا مطالبہ بھی اسی پس منظر میں محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس جانب پیش رفت کی تھی لیکن اس مقصد کے لیے اس نے اپنی افتاد طبع کے مطابق تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
اس کی وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ وہ ایوب خان کی طرح ملک کا پورا نظام ہی تبدیل کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ قریب قریب یک جماعتی نظام کے قیام کی خواہش مند تھی۔ اس مقصد کے لیے وہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم ( ای وی ایم) کا نفاذ چاہتی تھی۔ اس جماعت کے نقادوں اور انتخابی امور کے ماہرین کے مطابق اس نظام کے تحت مرضی کے انتخابی کا حصول ممکن تھا چناں چہ یہ بیل منڈھے چڑھنے میں ناکام رہی۔ خیر، اس جملہ معترضہ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو انتخابی اصلاحات کا مطالبہ اصولی طور پر جائز ہے لیکن کیا اس کا الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے سے بھی کوئی تعلق ہے؟ مطالبے کا یہ حصہ خالصتاً سیاسی پس نظر رکھتا ہے۔ اصلاحات تو پارلیمنٹ نے کرنی ہیں، یہ کام ان کے استعفے کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں، البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی بھی نوعیت کی اصلاحات کے لیے سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔ یہ کام مذاکرات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیا جماعت اسلامی حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات پر آمادہ ہو گی؟ سردست اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ جماعت کا سیاسی مقف بلکہ حکمراں جماعت کے لیے سخت رویہ پی ٹی آئی کی طرح ہی شدید ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سیاست تنا ؤکا انجام کیا ہو گا اور انتخابی اصلاحات ہوتی ہیں یا نہیں، یہ سوال الگ ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس نوعیت کی کوئی اصلاحات اگر ہوتی بھی ہیں تو کیا جماعت اسلامی کو اس کا کوئی فائدہ ہو سکے گا؟ دراصل یہی سوال تھا جس کی وجہ سے میری توجہ ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کی مبذول ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی میں سیاسیات کے بہت ہی صاحب مطالعہ پروفیسر ہیں جنھوں نے ان عوامل کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کی جڑیں مستحکم نہیں ہو سکیں نیز اصولی اور نظریاتی سیاست کو ملک میں اس طرح مقبولیت نہیں مل سکی جس کی ضرورت ہے بلکہ اسی مقصد کے لیے پاکستان قائم کیا گیا۔
حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے، ‘جمہوری سیاست اور سماج’۔ اس کتاب میں انھوں نے ان ہی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو گا کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کی مقبولیت اور عادلانہ نظام کے قیام کے لیے کیا انتخابی اصلاحات اولیت رکھتی ہیں یا ان بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں اسٹیٹس کو کی قوتیں پس منظر میں جا سکیں اور جماعت اسلامی جیسی نظریاتی قوتیں طاقت پکڑ سکیں؟ یہ بنیادی اصلاحات کیا ہیں؟ یہی ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کی کتاب کا اصل موضوع ہے۔
پاکستان میں جمہوریت جڑ کیوں نہیں پکڑ سکی، ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ اس کا بنیادی سبب اس ماحول کا نہ ہونا ہے جو جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس میں پیداواری رشتوں کی نوعیت، لسانی و علاقائی شناختیں، معاشی حالات اور تعلیمی ماحول اپنا کردار ادا کریں لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور نہ یہ ممکن ہے۔
ڈاکٹر صاحب اس سلسلے میں پاکستان کی قبائلی، جاگیردارانہ اور زمین دارانہ ثقافت کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی تحقیق اور ٹھوس حوالوں کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم حقیقت بن گئی تو پاکستان کے مغربی حصے سے تعلق رکھنے والے جاگیر داروں اور وڈیروں نے اپنا تمام تر وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس اس وقت تک اپنے مستقبل کے منصوبوں کا اعلان کر چکی تھی جن میں سے جاگیر داری کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد زرعی اصلاحات کا ارادہ رکھتے تھے لیکن آزادی کے ایک ہی برس کے بعد ان کی اور ان کے بعد لیاقت علی خان کی موت نے اصلاحات کا راستہ روک دیا اور ملک پر وہ قوتیں غالب آ گئیں جو اسٹیس کو چاہتی تھیں اور تبدیلی کی مخالف تھیں۔
ڈاکٹر صاحب نے برصغیر کی تاریخ کی روشنی میں بتایا ہے کہ جاگیر داری اور زمین داری ثقافت کا یہ ناگزیر تقاضا ہے کہ اس کے وارث طاقت کے مراکز سے طاقت حاصل کرتے رہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ طبقہ ہمیشہ اقتدار کے قریب رہتا ہے خواہ یہ جمہوری دور ہو یا مارشل لا کی آمرانہ حکومت۔ بادشاہوں کے زمانے میں یہ طبقہ بادشاہت کے استحکام کے لیے ہراول دستے کا کام کرتا تھا جس کے جواب میں انھیں جاگیروں سے نوازا جاتا تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جمہوری نظام متعارف ہوا تو برصغیر میں اس طبقے نے یہی کام با انداز دگر کیا۔ اس نظام میں اقتدار کا حصہ بننے کے لیے چوں کہ ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اس طبقے نے اس نظام کو انا اور عزت کی جنگ میں تبدیل کر دیا اور اس مقصد کے لیے انتخابی عمل میں بے پناہ وسائل جھونک دیے۔ پاکستان کے انتخابی منظر نامے کا یہی پہلو ہے جس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کوئی نظریاتی تحریک یا جماعت نہیں رکھتی۔ جماعت اسلامی ہو یا کوئی دوسری نظریاتی جماعت، اس کا مسئلہ یہی ہے۔
اسٹیٹس کو کی ان قوتوں کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟ بائیں بازو کی جماعتیں یا کمیونسٹ پارٹی تو ایک زمانے میں انقلاب کی باتیں کیا کرتی تھی۔ یہ انداز فکر روسی انقلاب کے پس منظر میں تھا لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بدقسمتی سے یہ قوتیں تو دم توڑ چکی ہیں البتہ دائیں بازو کی نظریاتی جماعت، یعنی جماعت اسلامی مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ انتخابی میدان میں بھی نتائج کی پروا کیے بغیر پورے جوش و خروش سے حصہ لیتی ہے۔ اتنی مضبوط قوت ارادی پر جماعت اسلامی داد کی مستحق ہے لیکن اپنے مقصد کے حصول کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے وسائل اور کارکنوں کی محنت کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کرے۔ یہ کام صرف انتخابی اصلاحات سے ممکن نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ان پہلوں پر توجہ کی بھی ضرورت ہو گی جس کی طرف ڈاکٹر محمد سلیم شیخ صاحب نے توجہ مبذول کرائی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ‘ پاکستان: جمہوری سیاست اور سماج ‘ کا مطالعہ ہر سنجیدہ سیاسی کارکن، صحافی اور طالب علم کے لیے ناگزیر ہے جو اس ملک میں تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ ہی انھیں بتائے گا کہ ‘ پرانا معاشرہ اور نئی ریاست’ کیا ہے؟ وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے قوم اپنے وسائل سے استفادہ نہیں کر پاتی۔ نظریاتی سیاست پاکستان میں جڑ کیوں نہیں پکڑ پاتی۔ ملک میں نظم و ضبط کیوں قائم نہیں ہو پاتا اور قانون شکنی کیوں ہوتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں ہے، کسی حکیم حاذق کی تشخیص ہے جس نے اس ملک کے ہر دکھ اور مرض کی نہ صرف نشان دہی کر دی ہے بلکہ اس کا علاج بھی بتا دیا ہے۔ اتنی اہم کتاب شائع کرنے پر قلم فانڈیشن کے علامہ عبد الستار عاصم بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنی روایت کے مطابق اسے نہایت خوب صورتی کے ساتھ شائع کیا ہے۔
ADVERTISEMENT
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کے تازہ بیان سے ڈاکٹر محمد سلیم شیخ یاد آگئے۔ حافظ صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں اور ملک میں انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ امیر جماعت اسلامی کا مطالبہ جائز ہے۔ انتخابی اصلاحات وقت کا ناگزیر تقاضا ہیں۔ میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور بانی تحریک انصاف سمیت ملک کی مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حالیہ انتخابی تجربے کے بعد اس مطالبے میں مزید شدت پیدا ہوئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا مطالبہ بھی اسی پس منظر میں محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس جانب پیش رفت کی تھی لیکن اس مقصد کے لیے اس نے اپنی افتاد طبع کے مطابق تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
اس کی وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ وہ ایوب خان کی طرح ملک کا پورا نظام ہی تبدیل کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ قریب قریب یک جماعتی نظام کے قیام کی خواہش مند تھی۔ اس مقصد کے لیے وہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم ( ای وی ایم) کا نفاذ چاہتی تھی۔ اس جماعت کے نقادوں اور انتخابی امور کے ماہرین کے مطابق اس نظام کے تحت مرضی کے انتخابی کا حصول ممکن تھا چناں چہ یہ بیل منڈھے چڑھنے میں ناکام رہی۔ خیر، اس جملہ معترضہ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو انتخابی اصلاحات کا مطالبہ اصولی طور پر جائز ہے لیکن کیا اس کا الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے سے بھی کوئی تعلق ہے؟ مطالبے کا یہ حصہ خالصتاً سیاسی پس نظر رکھتا ہے۔ اصلاحات تو پارلیمنٹ نے کرنی ہیں، یہ کام ان کے استعفے کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں، البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی بھی نوعیت کی اصلاحات کے لیے سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔ یہ کام مذاکرات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیا جماعت اسلامی حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات پر آمادہ ہو گی؟ سردست اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ جماعت کا سیاسی مقف بلکہ حکمراں جماعت کے لیے سخت رویہ پی ٹی آئی کی طرح ہی شدید ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سیاست تنا ؤکا انجام کیا ہو گا اور انتخابی اصلاحات ہوتی ہیں یا نہیں، یہ سوال الگ ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس نوعیت کی کوئی اصلاحات اگر ہوتی بھی ہیں تو کیا جماعت اسلامی کو اس کا کوئی فائدہ ہو سکے گا؟ دراصل یہی سوال تھا جس کی وجہ سے میری توجہ ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کی مبذول ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی میں سیاسیات کے بہت ہی صاحب مطالعہ پروفیسر ہیں جنھوں نے ان عوامل کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کی جڑیں مستحکم نہیں ہو سکیں نیز اصولی اور نظریاتی سیاست کو ملک میں اس طرح مقبولیت نہیں مل سکی جس کی ضرورت ہے بلکہ اسی مقصد کے لیے پاکستان قائم کیا گیا۔
حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے، ‘جمہوری سیاست اور سماج’۔ اس کتاب میں انھوں نے ان ہی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو گا کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کی مقبولیت اور عادلانہ نظام کے قیام کے لیے کیا انتخابی اصلاحات اولیت رکھتی ہیں یا ان بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں اسٹیٹس کو کی قوتیں پس منظر میں جا سکیں اور جماعت اسلامی جیسی نظریاتی قوتیں طاقت پکڑ سکیں؟ یہ بنیادی اصلاحات کیا ہیں؟ یہی ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کی کتاب کا اصل موضوع ہے۔
پاکستان میں جمہوریت جڑ کیوں نہیں پکڑ سکی، ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ اس کا بنیادی سبب اس ماحول کا نہ ہونا ہے جو جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس میں پیداواری رشتوں کی نوعیت، لسانی و علاقائی شناختیں، معاشی حالات اور تعلیمی ماحول اپنا کردار ادا کریں لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور نہ یہ ممکن ہے۔
ڈاکٹر صاحب اس سلسلے میں پاکستان کی قبائلی، جاگیردارانہ اور زمین دارانہ ثقافت کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی تحقیق اور ٹھوس حوالوں کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم حقیقت بن گئی تو پاکستان کے مغربی حصے سے تعلق رکھنے والے جاگیر داروں اور وڈیروں نے اپنا تمام تر وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس اس وقت تک اپنے مستقبل کے منصوبوں کا اعلان کر چکی تھی جن میں سے جاگیر داری کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد زرعی اصلاحات کا ارادہ رکھتے تھے لیکن آزادی کے ایک ہی برس کے بعد ان کی اور ان کے بعد لیاقت علی خان کی موت نے اصلاحات کا راستہ روک دیا اور ملک پر وہ قوتیں غالب آ گئیں جو اسٹیس کو چاہتی تھیں اور تبدیلی کی مخالف تھیں۔
ڈاکٹر صاحب نے برصغیر کی تاریخ کی روشنی میں بتایا ہے کہ جاگیر داری اور زمین داری ثقافت کا یہ ناگزیر تقاضا ہے کہ اس کے وارث طاقت کے مراکز سے طاقت حاصل کرتے رہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ طبقہ ہمیشہ اقتدار کے قریب رہتا ہے خواہ یہ جمہوری دور ہو یا مارشل لا کی آمرانہ حکومت۔ بادشاہوں کے زمانے میں یہ طبقہ بادشاہت کے استحکام کے لیے ہراول دستے کا کام کرتا تھا جس کے جواب میں انھیں جاگیروں سے نوازا جاتا تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جمہوری نظام متعارف ہوا تو برصغیر میں اس طبقے نے یہی کام با انداز دگر کیا۔ اس نظام میں اقتدار کا حصہ بننے کے لیے چوں کہ ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اس طبقے نے اس نظام کو انا اور عزت کی جنگ میں تبدیل کر دیا اور اس مقصد کے لیے انتخابی عمل میں بے پناہ وسائل جھونک دیے۔ پاکستان کے انتخابی منظر نامے کا یہی پہلو ہے جس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کوئی نظریاتی تحریک یا جماعت نہیں رکھتی۔ جماعت اسلامی ہو یا کوئی دوسری نظریاتی جماعت، اس کا مسئلہ یہی ہے۔
اسٹیٹس کو کی ان قوتوں کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟ بائیں بازو کی جماعتیں یا کمیونسٹ پارٹی تو ایک زمانے میں انقلاب کی باتیں کیا کرتی تھی۔ یہ انداز فکر روسی انقلاب کے پس منظر میں تھا لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بدقسمتی سے یہ قوتیں تو دم توڑ چکی ہیں البتہ دائیں بازو کی نظریاتی جماعت، یعنی جماعت اسلامی مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ انتخابی میدان میں بھی نتائج کی پروا کیے بغیر پورے جوش و خروش سے حصہ لیتی ہے۔ اتنی مضبوط قوت ارادی پر جماعت اسلامی داد کی مستحق ہے لیکن اپنے مقصد کے حصول کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے وسائل اور کارکنوں کی محنت کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کرے۔ یہ کام صرف انتخابی اصلاحات سے ممکن نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ان پہلوں پر توجہ کی بھی ضرورت ہو گی جس کی طرف ڈاکٹر محمد سلیم شیخ صاحب نے توجہ مبذول کرائی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ‘ پاکستان: جمہوری سیاست اور سماج ‘ کا مطالعہ ہر سنجیدہ سیاسی کارکن، صحافی اور طالب علم کے لیے ناگزیر ہے جو اس ملک میں تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ ہی انھیں بتائے گا کہ ‘ پرانا معاشرہ اور نئی ریاست’ کیا ہے؟ وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے قوم اپنے وسائل سے استفادہ نہیں کر پاتی۔ نظریاتی سیاست پاکستان میں جڑ کیوں نہیں پکڑ پاتی۔ ملک میں نظم و ضبط کیوں قائم نہیں ہو پاتا اور قانون شکنی کیوں ہوتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں ہے، کسی حکیم حاذق کی تشخیص ہے جس نے اس ملک کے ہر دکھ اور مرض کی نہ صرف نشان دہی کر دی ہے بلکہ اس کا علاج بھی بتا دیا ہے۔ اتنی اہم کتاب شائع کرنے پر قلم فانڈیشن کے علامہ عبد الستار عاصم بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنی روایت کے مطابق اسے نہایت خوب صورتی کے ساتھ شائع کیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کے تازہ بیان سے ڈاکٹر محمد سلیم شیخ یاد آگئے۔ حافظ صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں اور ملک میں انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ امیر جماعت اسلامی کا مطالبہ جائز ہے۔ انتخابی اصلاحات وقت کا ناگزیر تقاضا ہیں۔ میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور بانی تحریک انصاف سمیت ملک کی مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حالیہ انتخابی تجربے کے بعد اس مطالبے میں مزید شدت پیدا ہوئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا مطالبہ بھی اسی پس منظر میں محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس جانب پیش رفت کی تھی لیکن اس مقصد کے لیے اس نے اپنی افتاد طبع کے مطابق تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
اس کی وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ وہ ایوب خان کی طرح ملک کا پورا نظام ہی تبدیل کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ قریب قریب یک جماعتی نظام کے قیام کی خواہش مند تھی۔ اس مقصد کے لیے وہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم ( ای وی ایم) کا نفاذ چاہتی تھی۔ اس جماعت کے نقادوں اور انتخابی امور کے ماہرین کے مطابق اس نظام کے تحت مرضی کے انتخابی کا حصول ممکن تھا چناں چہ یہ بیل منڈھے چڑھنے میں ناکام رہی۔ خیر، اس جملہ معترضہ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو انتخابی اصلاحات کا مطالبہ اصولی طور پر جائز ہے لیکن کیا اس کا الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے سے بھی کوئی تعلق ہے؟ مطالبے کا یہ حصہ خالصتاً سیاسی پس نظر رکھتا ہے۔ اصلاحات تو پارلیمنٹ نے کرنی ہیں، یہ کام ان کے استعفے کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں، البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی بھی نوعیت کی اصلاحات کے لیے سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔ یہ کام مذاکرات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیا جماعت اسلامی حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات پر آمادہ ہو گی؟ سردست اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ جماعت کا سیاسی مقف بلکہ حکمراں جماعت کے لیے سخت رویہ پی ٹی آئی کی طرح ہی شدید ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سیاست تنا ؤکا انجام کیا ہو گا اور انتخابی اصلاحات ہوتی ہیں یا نہیں، یہ سوال الگ ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس نوعیت کی کوئی اصلاحات اگر ہوتی بھی ہیں تو کیا جماعت اسلامی کو اس کا کوئی فائدہ ہو سکے گا؟ دراصل یہی سوال تھا جس کی وجہ سے میری توجہ ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کی مبذول ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی میں سیاسیات کے بہت ہی صاحب مطالعہ پروفیسر ہیں جنھوں نے ان عوامل کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کی جڑیں مستحکم نہیں ہو سکیں نیز اصولی اور نظریاتی سیاست کو ملک میں اس طرح مقبولیت نہیں مل سکی جس کی ضرورت ہے بلکہ اسی مقصد کے لیے پاکستان قائم کیا گیا۔
حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے، ‘جمہوری سیاست اور سماج’۔ اس کتاب میں انھوں نے ان ہی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو گا کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کی مقبولیت اور عادلانہ نظام کے قیام کے لیے کیا انتخابی اصلاحات اولیت رکھتی ہیں یا ان بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں اسٹیٹس کو کی قوتیں پس منظر میں جا سکیں اور جماعت اسلامی جیسی نظریاتی قوتیں طاقت پکڑ سکیں؟ یہ بنیادی اصلاحات کیا ہیں؟ یہی ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کی کتاب کا اصل موضوع ہے۔
پاکستان میں جمہوریت جڑ کیوں نہیں پکڑ سکی، ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ اس کا بنیادی سبب اس ماحول کا نہ ہونا ہے جو جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس میں پیداواری رشتوں کی نوعیت، لسانی و علاقائی شناختیں، معاشی حالات اور تعلیمی ماحول اپنا کردار ادا کریں لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور نہ یہ ممکن ہے۔
ڈاکٹر صاحب اس سلسلے میں پاکستان کی قبائلی، جاگیردارانہ اور زمین دارانہ ثقافت کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی تحقیق اور ٹھوس حوالوں کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم حقیقت بن گئی تو پاکستان کے مغربی حصے سے تعلق رکھنے والے جاگیر داروں اور وڈیروں نے اپنا تمام تر وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس اس وقت تک اپنے مستقبل کے منصوبوں کا اعلان کر چکی تھی جن میں سے جاگیر داری کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد زرعی اصلاحات کا ارادہ رکھتے تھے لیکن آزادی کے ایک ہی برس کے بعد ان کی اور ان کے بعد لیاقت علی خان کی موت نے اصلاحات کا راستہ روک دیا اور ملک پر وہ قوتیں غالب آ گئیں جو اسٹیس کو چاہتی تھیں اور تبدیلی کی مخالف تھیں۔
ڈاکٹر صاحب نے برصغیر کی تاریخ کی روشنی میں بتایا ہے کہ جاگیر داری اور زمین داری ثقافت کا یہ ناگزیر تقاضا ہے کہ اس کے وارث طاقت کے مراکز سے طاقت حاصل کرتے رہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ طبقہ ہمیشہ اقتدار کے قریب رہتا ہے خواہ یہ جمہوری دور ہو یا مارشل لا کی آمرانہ حکومت۔ بادشاہوں کے زمانے میں یہ طبقہ بادشاہت کے استحکام کے لیے ہراول دستے کا کام کرتا تھا جس کے جواب میں انھیں جاگیروں سے نوازا جاتا تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جمہوری نظام متعارف ہوا تو برصغیر میں اس طبقے نے یہی کام با انداز دگر کیا۔ اس نظام میں اقتدار کا حصہ بننے کے لیے چوں کہ ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اس طبقے نے اس نظام کو انا اور عزت کی جنگ میں تبدیل کر دیا اور اس مقصد کے لیے انتخابی عمل میں بے پناہ وسائل جھونک دیے۔ پاکستان کے انتخابی منظر نامے کا یہی پہلو ہے جس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کوئی نظریاتی تحریک یا جماعت نہیں رکھتی۔ جماعت اسلامی ہو یا کوئی دوسری نظریاتی جماعت، اس کا مسئلہ یہی ہے۔
اسٹیٹس کو کی ان قوتوں کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟ بائیں بازو کی جماعتیں یا کمیونسٹ پارٹی تو ایک زمانے میں انقلاب کی باتیں کیا کرتی تھی۔ یہ انداز فکر روسی انقلاب کے پس منظر میں تھا لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بدقسمتی سے یہ قوتیں تو دم توڑ چکی ہیں البتہ دائیں بازو کی نظریاتی جماعت، یعنی جماعت اسلامی مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ انتخابی میدان میں بھی نتائج کی پروا کیے بغیر پورے جوش و خروش سے حصہ لیتی ہے۔ اتنی مضبوط قوت ارادی پر جماعت اسلامی داد کی مستحق ہے لیکن اپنے مقصد کے حصول کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے وسائل اور کارکنوں کی محنت کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کرے۔ یہ کام صرف انتخابی اصلاحات سے ممکن نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ان پہلوں پر توجہ کی بھی ضرورت ہو گی جس کی طرف ڈاکٹر محمد سلیم شیخ صاحب نے توجہ مبذول کرائی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ‘ پاکستان: جمہوری سیاست اور سماج ‘ کا مطالعہ ہر سنجیدہ سیاسی کارکن، صحافی اور طالب علم کے لیے ناگزیر ہے جو اس ملک میں تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ ہی انھیں بتائے گا کہ ‘ پرانا معاشرہ اور نئی ریاست’ کیا ہے؟ وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے قوم اپنے وسائل سے استفادہ نہیں کر پاتی۔ نظریاتی سیاست پاکستان میں جڑ کیوں نہیں پکڑ پاتی۔ ملک میں نظم و ضبط کیوں قائم نہیں ہو پاتا اور قانون شکنی کیوں ہوتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں ہے، کسی حکیم حاذق کی تشخیص ہے جس نے اس ملک کے ہر دکھ اور مرض کی نہ صرف نشان دہی کر دی ہے بلکہ اس کا علاج بھی بتا دیا ہے۔ اتنی اہم کتاب شائع کرنے پر قلم فانڈیشن کے علامہ عبد الستار عاصم بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنی روایت کے مطابق اسے نہایت خوب صورتی کے ساتھ شائع کیا ہے۔