• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

سنگ خارا کی چٹان اور اہل دانش

عمران خان نے یہ کیوں کہا کہ مجھ سے مک مکا کر لو ورنہ طوفان پاکستان کو ادھیڑ کر رکھ دے گا؟ سینیٹر عرفان صدیقی کا تجزیہ

سینیٹر عرفان صدیقی by سینیٹر عرفان صدیقی
June 10, 2024
in تصویر وطن
0
سنگ خارا کی چٹان اور اہل دانش
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
گذشتہ ہفتے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں، پاکستان کے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے، عمران خان صاحب ( جو وڈیو لنک پر موجود تھے) سے کہا کہ ”آپ لوگ ڈائیلاگ کیوں نہیں کرتے؟ ڈائیلاگ سے کئی راستے نکلتے ہیں۔ مسئلوں کا حل نکلتا ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ مل بیٹھیں۔ یہ کوئی ایک دوسرے کے دشمن تو نہیں۔ اور بات چیت تو دشمنوں سے بھی کرنا پڑتی ہے۔ جائیں جاکر ارکانِ پارلیمنٹ سے بات کریں۔”
خان صاحب نے جب ملک کے ”گھمبیر حالات” اور ”بحرانی کیفیت” کا ذکر کیا تو مسٹر جسٹس مندوخیل بولے__ ”آپ کی باتوں نے تو مجھے خوف زدہ کردیا ہے۔ حالات اگر اِتنے ہی خطرناک ہیں تو ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔ جب آگ لگی ہو تو یہ نہیں دیکھتے کہ کیا پاک ہے اور کیا ناپاک، سب سے پہلے آگ کو بجھانا ہوتا ہے۔ اگر اس آگ سے کچھ نقصان ہوگیا تو سیاستدان ذمہ دار ہوں گے، جج نہیں۔” کچھ اہلِ فکرودانش بھی اسی طرح کے مشورے دے رہے ہیں تاہم وہ بے لچک رویہ رکھنے والی پی۔ٹی۔آئی اور لچک دار سیاسی موقف رکھنے والی جماعتوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔
اب تک یہ واضح ہوچکا ہے کہ سیاسی رابطوں یا مذاکرات کے حوالے سے، پی ٹی آئی دو نکات پر یکسُو ہے۔ پہلا یہ کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ وہ صرف فوج سے بات کرے گی جو  اُس کے خیال میں ”حقیقی مقتدرہ” ہے۔ اس ضمن میں چیف آف آرمی سٹاف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کو نامزد بھی کردیاگیا ہے۔ تین چار دِن قبل اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ  میں کہا ”ہم سیاستدانوں سے نہیں، وہاں بات کریں گے جہاں اصل طاقت موجود ہے۔ میں تو وزیراعظم شوکت عزیز سے نہیں، صرف جنرل مشرف کے نمائیندوں سے بات کرتا تھا۔” یہ جج صاحبان کے مشورے کا باضابطہ ردِّ عمل تھا جو پی۔ٹی۔آئی کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی بھی ہے۔ خان صاحب نے برسوں قبل ایک بیانیے کا بیج بویا تھا کہ ”زرداری اور نوازشریف دونوں کرپٹ ہیں۔ یہ چور اور ڈاکو ہیں انہوں نے باریاں لی ہوئی ہیں۔” خان صاحب  کی پُشت پناہ ”مقتدرہ” نے دِل وجان سے اِس بیج کی نگہداشت اورپرداخت کی۔ یہاں تک کہ یہ اُن کے لئے ایک شجرِ ثمردار بن گیا۔ خان صاحب آج تک اسی کے شیریں پھل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اُن کی چھبیس سالہ سیاسی زندگی کا نچوڑ یہ ہے کہ جو کچھ ملے گا، جرنیلوں کی بارگاہِ خاص سے ملے گا۔ سو  ایروں غیروں سے ہاتھ ملانا، کارِلاحاصل ہے۔
اِسی ”مقتدرہ” کی اشیرباد سے انہوں نے حکومت بنائی، اسی کے زور پر پارلیمنٹ میں اپنے ارکان اور اتحادیوں کو قابو میں رکھا، اِسی کے زور پر اپنے سیاسی مخالفین کو غیظ وغضب کے کولہو میں پیلتے رہے۔ انتہا یہ کہ پارلیمنٹ ہائوس کا ایک آراستہ پیراستہ کمرہ اُسی ”مقتدرہ” کے ایک اہلکار کے لئے وقف رکھا جو پارلیمان کی پوری کارروائی کنٹرول کرتا تھا۔ آج ”حمودالرحمن کمشن رپورٹ” کی دُہائی دینے والے یہ سب کچھ بھول چکے ہیں۔ ‘سائفر’ کی تمام تر ذمہ داری جنرل باجوہ کے سر ڈالی گئی لیکن تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد، نامرادی کے بے آب ورنگ موسموں میں دو بار  دست بستہ اُسی جنرل باجوہ کے حضور پیش ہوکر عرضی گزاری کہ ”پی ڈی ایم کی حکومت ختم کردو۔ میں تمہیں تاحیات آرمی چیف بنادوں گا۔” تب کہاں تھی حمودالرحمن کمشن رپورٹ؟ آج بھی وہ ایک ہاتھ میں یہ رپورٹ اور دوسرے ہاتھ میں اپنے سارے سیاسی اثاثے کی پوٹلی تھامے، اُسی دہلیز پہ بیٹھے، اُن زخموں کی چارہ گری مانگ رہے ہیں جو اُنہوں نے خود اپنے اَنگ اَنگ پر لگائے اور مسلسل لگا رہے ہیں۔ اُدھر سے دِلداری کا ہلکا سا اشارا بھی ملے تو وہ حمودالرحمن کمشن رپورٹ کے پُرزے ہوا میں اُڑاتے براہِ راست یحیٰی خان کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھانے پہنچ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان میں نظریاتی جماعتوں کی ناکامی کی بنیادی وجوہات
پاکستان میں فٹ بال جیت گیا، کرکٹ ہار گئی
عمران سیریز کی سفلی دنیا کا وہ مرد بزرگ جس نے علی عمران کو زیر کیا
کالے بھونڈ __ جسٹس اطہر من اللہ کا معنی خیز استعارہ
اہلِ دانش، شعوری یا غیرشعوری طورپر، نظرانداز کررہے ہیں کہ معاملات کے سدھار میں ایک بڑی اَڑچَن، 9 مئی بھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اِسے بھی معمول کا سیاسی احتجاج قرار دے کر بھلا دیاجائے۔ فوج اِس پر آمادہ نہیں۔خان صاحب کی دِلداری میں فوج کی  حسّاسیت کو نظرانداز کردینا قرینِ انصاف نہیں۔ جزا وسزا کا بنیادی فلسفہ، محض مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا نہیں ہوتا، اصل مدعا اِس جرم کو روکنا اور اس کے ارتکاب کا ارادہ کرنے والے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اگر کسی بھی خوبصورت دلیل یا دلکش جواز پر 2023 کے 9مئی پر مٹی ڈال دی گئی تو کل کوئی بھی سرکش گروہ لوحِ تاریخ پر اپنی مرضی کا 9 مئی رقم کرسکتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ، کم ازکم اپنے عوام کی حد تک بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے خاصے حسّاس ہیں۔ لیکن 2011 میں برطانیہ اور 2021 میں امریکہ نے، قانون توڑنے والے فسادیوں کو سرسری سماعت کی عدالتوں کے ذریعے کڑی سزائیں دیں۔ عمومی روایت کے برعکس وکلاء نے بھی برق رفتار عدالتی عمل کی حمایت کی۔ مقصود یہ تھاکہ آئیندہ کسی کو ایسی سرکشی کا حوصلہ نہ ہو۔
ایک  اور پہلو یہ بھی ہے کہ خان صاحب 9 مئی کے الائو کو بھڑکتا رکھنے میں ہی اپنی سیاسی بقا خیال کرتے ہیں۔ جسٹس مندوخیل کا مشورہ اپنی جگہ لیکن خان صاحب نے چند ہی دِن پہلے، سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ایک فتنہ ساماں تصویری ٹویٹ کے ذریعے، 9 مئی کے الائو  پر منوں تیل ڈال دیا ہے۔ آگ بجھانے یا ٹھنڈی کرنے، ملک کو سیاسی استحکام کی راہ پر ڈالنے اور نظام کو مضبوط کرنے کو خان صاحب اپنی جماعت کے لئے پیام ِمرگ خیال کرتے ہیں۔ ان کا سوشل میڈیا مسلسل زہر میں بجھے تیروں کی بوچھاڑ کئے جارہا ہے اور وہ اُس سے محظوظ ہوتے ہوئے شاباش دے رہے ہیں۔
ایک تاثر یہ پیدا کیاجارہا ہے کہ خان صاحب سے معاملات طے نہ کئے گئے تو ”بحران” ایک ہلاکت آفریں طوفان میں بدل جائے گا جو خدانخواستہ پاکستان کو اُدھیڑ کر  رَکھ دے گا۔ خان صاحب نے بھی اپنے ٹویٹ کے ذریعے یہی پیغام دیا ہے کہ مجھ سے مُک مکا کرلو ورنہ ایک اور” سقوطِ ڈھاکہ” فصیلِ شہر سے لگا کھڑا ہے۔ اسی بے سروپا مفروضے پر ایمان لاتے ہوئے کچھ اہلِ دانش اپنی پروازِ تخیل کے زور پر تصوراتی قیامت سے ڈرا  رہے ہیں۔ انشاء اللہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ تمام ریاستی ادارے آئینی تقاضوں کے مطابق کام کررہے ہیں۔ معیشت کی بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ سمندرپارپاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی 3.243 ارب ڈالر کی ریکارڈ رقم موجودہ حکومت پر اعتماد کی مظہر ہے۔ ایک معتبر ادارے کی سروے رپورٹ بتا  رہی ہے کہ عوام میں امید کا گراف بہتر ہو رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح 39 فی صد سے کم ہوکر 11 فی صد تک آچکی ہے۔ خان صاحب کے لئے ملک کے کسی حصے میں اضطراب واحتجاج کی کوئی لہر نہیں۔ بحران صرف یہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی خود اپنے ہاتھوں سے بُنے فولادی جال میں پھنس چکی ہے اور  پَرلے درجے کی بے حکمتی کے سبب مسلسل پھنستی چلی جارہی ہے۔ خودشکنی کی آخری حدوں کوچھوتی اِس بے ہنری کا مداوا  مشکل ہے۔ بس دعا ہی دی جاسکتی ہے۔ نہ جانے صاحبانِ فکرودانش کو سامنے کھڑی سنگ خارا کی چٹان کیوں دکھائی نہیں دے رہی؟ اور اگر دِکھائی دے رہی ہے تو وہ تیشۂِ فرہاد لے کر اُس سے جوئے شیر بہالانے کے بجائے انہیں کیوں نشانہ بنارہے ہیں جو دروازے کھلے رکھے، مسلسل بات چیت پر آمادگی ظاہر کرتے رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: آئی ایس آئیآوازہایم کیو ایمپی ٹی آئیحمود الرحمان کمیشنعرفان صدیقیعمران خانمسلم لیگ ن
Previous Post

پاکستان میں نظریاتی جماعتوں کی ناکامی کی بنیادی وجوہات

Next Post

محی الدین وانی، یہ جادوگر کہاں سے آیا؟

سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی

عرفان صدیقی استاد ہیں، ادیب ہیں، شاعر یا کالم نگار؟ یہ بحث اب پرانی ہوئی۔ قدرت نے انھیں یہ سب خوبیاں عطیہ کی ہیں لیکن ایک انعام اس سے بھی بڑا ہے۔ ہمارے یہاں ادیب اور شاعر حضرات اپنے سیاسی نظریات چھپاتے ہیں لیکن عرفان صاحب نے ان مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے میں بھی کسی عذر سے کام نہیں لیا۔ یہ طرز عمل ہمارے ان بزرگوں کی پیروی میں تھا جنھوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا تعلق رکھا اور اپنی آدرشوں کے لیے جدوجہد کے لیے سیاسی راستہ بھی اختیار کیا۔ عرفاں صاحب ہماری اسی تہذیب کی زندہ نشانی ہیں۔

Next Post
محی الدین وانی، یہ جادوگر کہاں سے آیا؟

محی الدین وانی، یہ جادوگر کہاں سے آیا؟

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions