.بجٹ 2023-24 ہمارے یہاں خوف کا استعارہ ہے بجٹ سے پہلے بجٹ کے اثرات قوم کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ اس بار کہا جا رہا ہے کہ بدترین حالات میں بہترین بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ حکومت کو تو یہ کہنا ہی چاہیے لیکن یہ تبصرہ حکومت کا نہیں پاکستان کے مختلف چیمبرز آف کامرس کے عہدے داروں کا ہے۔ اگر یہ تبصرہ درست ہے تو اس کا ثبوت تب ملے گا جب عوام کے اخراجات میں کمی ہوگی یا ان کی زندگی میں کوئی سہولت آئے گی تاہم یہ حقیقت ہے کہ بجٹ سے پہلے اس مالی سال کے بجٹ کے اثرات آئے۔ یہ اثرات بعض اشیائے ضروریہ کے اخراجات میں کمی تھی جن میں خوردنی تیل، گھی، آٹا دالیں، پیٹرولیم مصنوعات اور بنیادی ضرورت کی بعض دیگر چیزیں ہیں۔
بجٹ سے پہلے اشیائے ضرورت کے نرخوں میں کمی دراصل بجٹ کی پہلی قسط تھی۔ وفاقی وزیر خزانہ کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسری قسط بجٹ کی منظوری کے بعد اس وقت ملے گی جب ان اور بعض دیگر اشیائے ضرورت کے نرخوں میں مزید کمی ہوگی۔
یہ کیسے ممکن ہوا؟ اس کا ایک سبب حکومت کی مینجمنٹ اور آنے والے دنوں میں ممکنہ انتخابات ہیں جو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت عوام کو سہولت مہیا کرنے کے ضمن کچھ بڑے اقدامات کرے۔ روسی تیل اور وسط ایشیائی ریاستوں سے گیس کی درآمد شروع ہو جانے کے بعد یہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ یہ صورت حال اس حکومت کے لیے وہ آسانی پیدا کر سکتی ہے جو انتخابات میں جانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
مجیب دھاڑے : میں نے کہا کہ ہلاکتیں 30 لاکھ ہیں تو بس 30 لاکھ ہی ہیں
ممتاز عالم دین علامہ عقیل عباس کمیلی کا آج یوم وفات ہے
فارمیشن کمانڈر:نومئی کے علاوہ ریاست کے خلاف تین مزید سنگین جرائم.
ڈاکٹرعافیہ: رہائی کے چار مؤثر طریقے، جانئے سینٹر مشتاق احمد خان سے
اس بجٹ کی خوبیوں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں اضافہ ہے لیکن یہ بجٹ اس سوال کا جواب فراہم نہیں کرتا کہ غیر سرکاری ملازمین کی آمدن میں اگر اضافہ نہیں ہوتا تو ان۔کی زندگی میں آسانی کیسے پیدا ہوگی؟
پاکستان میں بجلی کے بحران کے پس منظر میں یہ ایک پرانا مطالبہ تھا کہ سولر انرجی پیدا کرنے والی مصنوعات پر ٹیکس ختم کیا جائے۔ اس بجٹ میں یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے جو قابل تعریف ہے۔ اس سے یقیناً عوام کے اخراجات میں کمی ہوگی۔
بند ڈبے میں فروخت ہونے دودھ اور دیگر مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ملک میں دودھ اور اس کی دیگر مصنوعات کا جو معیار ہے، اس کی وجہ سے عوام ڈبہ بند اشیا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ ٹیکس عوام پر مالی دباؤ کا ذریعہ بنے گا۔
بجٹ میں محصولات میں اضافے کے لیے بڑا ہدف رکھا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ہدف غیر حقیقی ہے تاہم اسحاق ڈار کا خیال ہے کہ یہ ہدف حاصل ہو جائے گا،اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ خوش آئند ہے لیکن زیادہ بہتر ہوتا کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے کا اہتمام کیا جاتا۔
یہ فیصلہ درست ہے کہ حکومت نے بارٹر ٹریڈ اور دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارت میں اضافے کو ترجیح دی ہے۔ اس پالیسی کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
بجٹ سے قبل ذرائع ابلاغ پر ہمیشہ ماہرین معیشت ہفتہ دس دن سے تبصرے شروع کر دیتے ہیں جو ذرائع ابلاغ کی ضرورت ہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کی معلومات ناقص ہوتی ہیں اور تبصروں میں سیاسی عزائم کی جھلک ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر وہ جس قسم کی باتیں کرتے ہیں، اس سے مارکیٹ میں بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کے لیے یہ صورت حال خطرناک ہے۔ اس سے گریز ضروری ہے۔
حرف آخر یہ کہ الیکشن ہو یا کوئی اور وجہ،اگر عوام کی زندگی میں کوئی آسانی پیدا ہوئی ہے تو محدود سطح پر ہی سہی یہ بجٹ اچھا ہے۔