.ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملنے کے لیے سینیٹر مشتاق احمد خان کی قیادت میں ایک وفد امریکا پہنچا اور ابتدا میں کچھ نامکمل یا مبہم اطلاعات سامنے آئیں تو کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس موضوع پر میں نے “آوازہ” تبصرے کیے تو برادر محترم عنایت اللہ اسماعیل نے مشورہ دیا کہ مجھے اس سلسلے میں سینیٹر مشتاق احمد خان سے براہ راست بات کرنی چاہیے۔ انھوں نے اس سلسلے میں رابطہ کاری کے فرائض ادا کیے۔ یوں ٹیلی فون پر سنیٹر صاحب سے ” آوازہ” کے لیے کسی قدر تفصیلی بات ہوئی۔ سینیٹر صاحب نے امریکا میں اپنی مصروفیات اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں اپنی جن کوششوں سے آگاہ کیا، اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کے اس بیان کی بہت شہرت ہوئی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کنجی پاکستان میں ہے۔ آوازہ کے اس سوال پر انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی چار طریقوں سے ممکن ہے۔
رہائی کے لیے چار مؤثر طریقے
1- جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کراس ویل کی جس جیل میں بند ہیں، وہ بنیادی طور پر ایک اسپتال ہے جس کا نام فیڈرل میڈیکل سنٹر ہے۔ انھیں وہاں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ علیل ہیں۔ اگر ہماری حکومت بھی انھیں علیل تسلیم کرتے ہوئے اس مقدمے کی مدعی بن جائے تو صورت حال بدل سکتی ہے۔ مدعی بننے کے لیے ضروری ہوگا کہ حکومت اس مقدمے کا تمام تر ریکارڈ حاصل کر کے امریکی حکومت سے ان کی رہائی کے لیے بات چیت کرے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کے مطابق ایسی صورت میں کوئی وجہ نہیں کہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو۔
2- سینیٹر صاحب نے بتایا کہ اس مقدمے کی فرانزک رپورٹ ڈاکٹر عافیہ کے حق میں ہے جس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس سلسلے میں ضروری ہو گا کہ حکومت مدعی کی حیثیت سے مقدمے کے گواہوں تک رسائی حاصل کرے۔ امریکی فوجیوں سے رابطے کی صورت میں یہ امر یقینی ہے کہ ماضی میں ڈاکٹر عافیہ کے خلاف گواہی دینے والے فوجی اس بار سچ بول دیں۔ کچھ گواہ واپس بھی ہو سکتے ہیں ، اس طرح مقدمے کی بنیاد ہی ختم ہو جائے گی اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔
3- سینیٹر صاحب کے مطابق امریکی صدر اپنے انتخاب کے بعد حلف اٹھانے کی مدت کے درمیانی عرصے کے دوران میں کسی بھی مجرم کی سزا معاف کر کے اسے رہا کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ یہ موقع سر دست ضائع ہو چکا ہے۔
4- سینیٹر صاحب کے مطابق چوتھا طریقہ Swap of interest کا ہے۔ پاکستان جس وقت افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا تھا، اس موقع پر بھی یہ مسئلہ اٹھایا جاتا تو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ممکن ہوتی۔ بظاہر یہ موقع بھی ضائع ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
حکومت نے یہ مسئلہ کبھی کیوں نہیں نہیں اٹھایا؟
جماعت اسلامی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی میں دلچسپی رکھنے والے حلقوں کی طرف سے الزام عاید کیا جاتا ہے کہ حکومت نے گزشتہ بیس برس میں کبھی بھی یہ مسئلہ دو طرفہ بنیادوں پر نہیں اٹھایا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے جیو ٹی وی پر ممتاز صحافی سلیم صافی کو انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی سفارتی سرگرمیوں میں بھی یہ مسئلہ کبھی نہیں اٹھایا۔ میں نے اپنے تجزیوں میں سوال اٹھایا تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران میں اگر کسی حکومت نے بھی یہ مسئلہ نہیں اٹھایا تو ممکن ہے کہ اس میں کوئی سنجیدہ وجہ حائل رہی ہو۔ سینیٹر صاحب سے میں نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اس کی وجہ تلاش کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟
سینیٹر صاحب نے اس کی ایک سادہ سی وجہ بتائی کہ ہماری حکومتیں امریکا سے ڈرتی ہیں اس لیے ان میں یہ مسئلہ اٹھانے کی ہمت اور جرات ہی نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے ویزا کیوں دلایا؟
ڈاکٹر عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی نے امریکا سے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ انھیں امریکی ویزا دلانے میں بنیادی کردار وزیر اعظم شہباز شریف نے ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ انھیں ویزا دلائے۔ وزیر اعظم نے اگر ویزا دلانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اس کی وجہ یہ تھی۔
مسنگ پرسنز کے لیے تحریک
سینیٹر مشتاق احمد خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے علاوہ بھی اپنے مستقبل کے منصوبوں پر مختصر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے بتایا کہ وطن واپسی پر وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے علاوہ مسنگ پرسنز کے معاملے تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنے دورہ امریکا کے دوران میں اسی موضوع پر وائس آف امریکا کو بھی انٹرویو دیا۔ سفیر پاکستان کی دعوت پر ان سے ملاقات کے علاوہ دیگر اہم شخصیات، ممتاز مسلمان قائدین اور ممتاز پاکستانیوں سے بھی ملاقاتیں کی۔
سینیٹر صاحب کے امریکا سے آنے والے اس بیان پر میں نے تنقید کی تھی کہ ان کے مطابق وہ اس وقت( ڈاکٹر عافیہ سے پہلی ملاقات کے بعد) صدمے کی کیفیت میں ہیں ، صدمے سے نکلنے کے بعد وہ قوم کو جگائیں گے۔ اس بارے میں میرے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی حالت زار دیکھ کر شدید صدمے میں آ گئے تھے اور فوری طور پر بات کرنا ان کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔
سینیٹر صاحب سے یہ گفتگو اس وقت ہوئی جب وہ وائس آف امریکا کو انٹرویو دینے کے بعد واشنگٹن میں امریکی سفیر کی دعوت پر ان سے ملاقات کے لیے جارہے تھے ۔ سینیٹر صاحب نے بتایا کہ انھوں نے یہ سفر اپنے خرچ پر ذاتی حیثیت میں کیا ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کی اس گفتگو سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں سرگرمیوں کے بارے میں مختلف سوالات کا جواب ملتا ہے لیکن اب بھی کچھ سوالات تشنہ جواب ہیں۔ سینیٹر صاحب نے مجھے دعوت دی کہ وطن واپسی پر وہ مجھ سے اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو کریں گے۔ اگر ضروری ہوا تو میں بھی اس موضوع پر مزید تبصرہ کروں گا۔