اس موضوع پہ جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے ۔ معاملہ اتنا گنجلک ہے کہ کسی کے لیے بھی سمجھنا آسان نہیں ۔
بس ایک کلیہ یاد کر لیجیے۔ جو بھی راستہ اختیار کریں ، ماں اور بچے کی زندگی اور صحت اہم ہے ۔
ایسی نارمل ڈلیوری کا کیا فائدہ جس کے بعد .عورت پیشاب و پاخانے پہ کنٹرول ہی نہ رکھ سکے ۔ اور ایسے سیزیرین کا کیا فائدہ جس میں کوئی اور پیچیدگی ہو جائے ۔
اکثر لوگوں کو سیزیرین کے ساتھ وابستہ فیس یہ سمجھنے پر مجبور کرتی ہے کہ ضرور اس فیصلے میں ڈاکٹر کا فائدہ ہو گا۔
ہو بھی سکتا ہے__ دنیا میں کونسی چیز آپ کو مفت میں ملتی ہے ؟
یہ بھی پڑھئے:
کیا زرداری نواز شریف کے قلعے میں نقب لگا پائیں گے؟
آڈیو لیکس کیس، تین کا ٹولہ چھ جون کو کیا کرنے والا ہے۔ جانئے
اہم لیکن متنازع اسلامی مفکر جاوید احمد غامدی کی حیات و خدمات کا جائزہ
ڈاکٹر عافیہ، سینیٹر مشتاق نے امریکا میں کیا کیا، کیا کرنا چاہئے؟
لیکن اگر اختتام اچھا ہے تو اس کو قبول کیجیے ۔ نارمل ڈلیوری کوئی ایسی چیز نہیں جس کے لیے عورت اپنی جان پر کھیل جائے۔ اگر اپنی جان کی پرواہ نہیں تو ان بچوں کا ضرور سوچ کیا کریں جنہیں زندگی کی دوڑ میں ماں کا ساتھ چاہیے۔ زچگی میں ماؤں کی اموات کی شرح پاکستان میں تقریباً سب سے زیادہ ہے ۔
وجہ ؟
وہی پرانی کہ نارمل فطرت کا حصہ ہے ۔
نارمل ڈلیوری کے لیے یہ اصول پرانا ہو چکا ۔ یہ فطرت کا حصہ تب تک تھا جب تک سائنس نے ترقی نہیں کی اور بے شمار عورتیں زچگی میں موت کو گلے لگاتیں ۔
اب آپ ہاتھ میں فون پکڑے کبھی نیویارک بات کرتے ہیں اور کبھی ٹمبکٹو__ کبھی کینیڈا میں رہنے والوں کو دیکھتے ہیں تو کبھی افریقہ جا پہنچتے ہیں ۔ سمارٹ فون ، انٹر نیٹ ، کمپیوٹر کیا فطرت کے اصول ہیں ؟
شاید نہیں لیکن زندگی کا ایک ایسا حصہ ، جس کے بغیر جینا ممکن نہیں ۔
تو کہنا یہ ہے کہ زچگی، بچے، حمل کے معاملات میں بھی اپنے آپ کو educate کریں ، سمجھیں کہ اس دور میں کیسے ہر چیز سے نمٹا جا سکتا ہے ؟
اپنے آپ کو صدیوں پرانے دستور کے ڈبے میں بند نہ کریں ! عورت کا ہاتھ تھام کر اس کے ساتھ چلیں ۔
آپ نقصان میں نہیں رہیں گے ۔