جاوید احمد غامدی نے دور جدید کے اہلِ عقل و خرد کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے.گرچہ ان پر تنقید و تنقیص کا غیر مختتم سلسلہ جاری ہے. علم کی دنیا میں کسی کی بات حرف آخر تصور نہیں کی جاتی بلکہ تنقیدی نظر غیر متعصب ہو تو نظریے و وجدان کی اصلاح کا ضامن ہوتی ہے.غامدی صاحب کے افکار بھی تنقید سے مبرا نہیں لیکن محسوس ہوتا ہے ناقدین کم البتہ ناقصین کی تعداد زیادہ ہے. باوجود اس کے تعلیم یافتہ طبقہ غامدی صاحب کے افکار سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہورہے ہیں.
جاوید احمد غامدی صاحب عالم اسلام کے مشہور اسکالر ہیں. اسلام اور دور جدید کے متنوع مسائل پر خوب بولتے بھی ہیں اور لکھتے بھی ہیں. ان کے لہجے میں شائستگی، متانت اور سنجیدگی پائی جاتی ہے. جاوید غامدی صاحب کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ان بندشوں سے لوگوں کو آزاد کرایا جو مذہب کے نام پر لوگوں پر مسلط کی گئی تھی. قرن اول میں جس دین کا نقشہ ملتا ہے وہ بے حد آسان ہے مگر پھر مختلف افکار و روایات نے بندشوں کو جنم دیا. جاوید غامدی صاحب امت کو جوڑنا چاہتے ہیں. وہ اپنی کہی ہوئی ہر بات منطق اور دلیل کی بنیاد پر رکھتے ہیں. جب عالم اسلام کسمپرسی کی حالت میں ہے؛ ایسے میں عوام جذباتی باتیں سننا پسند کرتے ہیں. ان حالات میں لوگوں کے جذبات کو صحیح رکھ دینا؛ آسان کام نہیں. ایسے فرد پر لبرل، سیکولر، تجدد پسند کا لیبل لگتا ہے لیکن جاوید غامدی صاحب کو اس کی فکر نہیں. وہ دین اسلام کو اسی طرح پیش کرتے ہیں جیسا کہ ان کے فہم کے مطابق انہیں قرآن و سنت میں ملا. جاوید احمد غامدی ایک ممتاز مذہبی محقق ، اسلامی اسکالر ، شاعر مصلح، عہد جدید کے فقیہ اور دانشور کی حیثیت سے ساری دنیا میں معروف ہے.
جاوید احمد غامدی کی پیدائش ۱۸ اپریل ۱۹۵۱ ء کو پاک پتن ( پنجاب، پاکستان ) میں ہوئی۔ جاوید احمد غامدی کی باضابطہ تعلیم کا آغاز ۱۹۵۸ء میں پاک پتن کے اسلامیہ ہائی اسکول سے شروع ہوا۔ جہاں سے اُنھوں نے ۱۹۶۷ء میں دسویں جماعت مکمل کیا۔ اس کے بعد لاہور آگئے ، لاہور میں پہلے اُنھوں نے بارہویں جماعت کیا، پھر اُنھوں نے ۱۹۷۲ء میں گورنمنٹ کالج لاہور (پاکستان) سے انگریزی زبان میں بی اے آنرس (پارٹ ون ) کیا۔ عصری علوم کے ساتھ ساتھ غامدی صاحب نے مختلف علماء سے وقتاً فوقتاً وہ تمام دینی علوم حاصل کئے جو مروجہ مدارس اسلامیہ میں پڑھائے جاتے ہیں اور جس کو پڑھ کر لوگ عالم کی سند لیتے ہیں۔ غامدی صاحب کی فکر پر مولانا امین احسن اصلاحی کی قرآنی فکر کا زبردست اثر ہوا۔ ان کی عمر جب ۲۲ سال کی ہوئی تو اُنھوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کی شاگردی حاصل کی، یہ ۱۹۷۳ء کی بات ہے۔ وہ ۱۹۹۷ ء تک مسلسل مولانا امین احسن اصلاحی سے استفادہ کرتے رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈاکٹر عافیہ، سینیٹر مشتاق نے امریکا میں کیا کیا، کیا کرنا چاہئے؟
کیا نئی کنگز پارٹی کے لیے حالات سازگار نہیں؟
ترقی پسند ادیب مجنوں گورکھپوری کا آج یوم وفات ہے
ترقی پسند ادیب مجنوں گورکھپوری کا آج یوم وفات ہے
جاوید احمد غامدی کے خلاف اگرچہ بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اس میں تنقید سے زیادہ تنقیص ہے. زیر تبصرہ کتاب “حیات غامدی” اس کمی کو پورا کرتی ہے. کتاب کے بارے میں پروفیسر محمد اسحاق کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ‘زیر نظر کتاب ”حیات غامدی” میں جاوید احمد غامدی کی علمی وفکری خدمات کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ ہندوستان کے مشہور صاحب قلم و سوانح نگار شاہ عمران حسن نے اسے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کی ترتیب میں اُنھوں نے بڑی محنت اور دقت نظری کا ثبوت فراہم کیا۔”(صفحہ 12) اگرچہ اس کتاب سے جاوید احمد غامدی صاحب کے فکر کا پورا تعارف تو نہیں ہوتا لیکن اس کی بنیاد فراہم ہوتی ہے. زیر تعارف 160صفحات پر مشتمل کتاب شاہ عمران حسن صاحب نے غامدی صاحب کی زندگی اور کارناموں پر مرتب کی ہے، کتاب اس طرح ترتیب دی گئی ہے کہ کتاب کی اکثر عبارتیں جاوید احمد غامدی صاحب کی اپنی کتابوں سے لی گئی ہے، اس کے باوجود اس خوبصورتی سے کتاب مرتب کی گئی ہے کہ کتاب کی روانی بھی برقرار ہے، اور جاوید احمد غامدی صاحب کو سمجھنے کے لیے کتاب بنیادفراہم کرتی ہے،کتاب کے مصنف شاہ عمران حسن لکھتے ہیں:”میری یہ کتاب جاوید احمد غامدی کی شخصیت کو جاننے کے لیے کوئی جامع کتاب نہیں ہے، تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری یہ کتاب ان کے مشن کا عمومی تعارف ثابت ہوگئی کیوں کہ میرے علم کی حد تک جاوید احمد غامدی پر اس قسم کا کوئی علمی اور تحریری کام اب تک نہیں ہوا ہے۔ اگر میں عام مسلمانوں کا ذہن اس جانب مبذول کر سکا کہ وہ جاوید احمد غامدی کے علم و تحقیق سے استفادہ کرنے لگیں تو اتنی سی ہی بات اس کتاب کی کامیابی کے لیے کافی ہوگی ۔ “(صفحہ 18)
شاہ عمران اس وجہ سے قابل مبارکباد ہے کیونکہ غامدی صاحب کی biography لکھتے ہوئے ان کی کوشش رہی ہے کہ کسی اور پر تنقید نہ ہو،اس بات کا لحاظ رکھنا کمال کا ہنر ہے جس کا عملی ثبوت شاہ عمران نے دیا ہے،کتاب کو پیش لفظ کے علاوہ 4 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے. کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے غامدی صاحب کا تعارف، خاندان، پیدائش، تعلیمی سلسلہ کے علاوہ غامدی صاحب کے فکری رہنما مولانا مودودی، مولانا حمید الدین فراہی، مولانا امین احسن اصلاحی کے بارے میں غامدی صاحب کے احساسات بیان کیے ہیں، غامدی صاحب کو مولانا مودودی کی فکر سے اختلاف تھا لیکن اس کے باوجود آپ کے دل میں مولانا کی عظمت تھی، ایک جگہ لکھتے ہیں: “مولانا مودودی کو میں نے پہلی مرتبہ اسی اجتماع کے موقع پر دیکھا۔ کیا دل نواز شخصیت تھی؛ لگتا تھا کہ اس کی صورت گری میں حسن فطرت ہر چیز کام آگئی ہے۔ بعد میں ان سے ملنے اور بہت قریب رہ کر ان کو دیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ علم و عمل حسن اخلاق، دانش و بصیرت اور جرات و عزیمت کے لحاظ سے جن شخصیتوں کے نام ان کے ساتھ لے سکتے ہیں، وہ انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں۔ یہ صرف میرا تاثر نہیں ہے۔ انھیں دیکھنے، ملنے، ان سے ہم کلام ہونے اور ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت جن لوگوں کو بھی حاصل ہوگئی ہے، وہ اس کی گواہی دیں گے ۔ “ (مقامات صفحہ ۱۹ ۲۰)” (صفحہ 38)
ایک اور جگہ اپنے تعلق کو اس طرح بیان کرتے ہیں :”یہ وصل وفصل میرے لیے زندگی کا ایک اہم تجربہ تھا۔ میں نے اس عرصے میں اپنے عہد کی ایک عظمت کو بہت قریب سے دیکھا، ان کے ساتھ کھڑے ہو کر نمازیں پڑھیں ، ان سے باتیں کیں، زندگی کے آداب سیکھے، صبر و حکمت کا درس لیا ، زبان و بیان کی بعض نزاکتیں سمجھیں۔” (صفحہ 39) کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ غامدی صاحب مولانا مودودی سے اختلاف کے باوجود مولانا کی کتنی عزت و احترام کرتے تھے، جماعت سے نکلنے کے بعد بھی مولانا کی عظمت ان کے دل میں ہے لکھتے ہیں: “مولانا نے امریکا جانے سے پہلے آخری ملاقات میں مجھ سے کہا تھا: میرے عزیز توقعات آپ سے وابستہ ہیں۔ اپنے ناقدین کی بات ہمیشہ توجہ کے ساتھ سنیے، پستی پر اتر آئیں تو ’مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا‘ کا طریقہ اختیار کیجیے، وہ آپ کو مشتعل کرنا چاہیں تو اُن کے افترا اور بہتان طرازی کے باوجود اشتعال میں آنے سے انکار کر دیجیے، اِس کے بعد خدا آپ کے ساتھ ہوگا اور آپ ان شاء اللہ اُنھیں اپنے میدان میں شکست دیں گے۔ زندگی کے نشیب و فراز میں مولانا کی یہ نصیحت ہمیشہ میرے پیش نظر رہی ہے۔ “مولانا امین احسن اصلاحی کو اپنا استاد ماننے تھے مولانا سے پہلی ملاقات کے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں:”مولانا کے ساتھ یہی ملاقاتیں ہیں جن سے پہلی مرتبہ شرح صدر ہوا کہ دین محض مان لینے کی چیز نہیں ہے، اسے سمجھا اور سمجھایا بھی جاسکتا ہے۔ یہ حقیقت واضح ہوئی کہ قرآن ایک قول فیصل ہے، دین و شریعت کی ہر چیز کے لے میزان ہے، پورے عالم کے لیے خدا کی حجت ہے۔ اس کی روشنی میں ہم حدیث، فقہ، فلسفہ وتصوف اور تاریخ وسیر، ہر چیز کا محاکمہ کر سکتے ہیں۔”(صفحہ 56)
جاوید احمد غامدی صاحب کی زندگی علوم و فنون میں گزری ہے مصنف نے کتاب کے دوسرے باب میں غامدی صاحب کی تصانیف و تالیف کا تجزیہ پیش کیا ہے اس سلسلے میں مصنف نے غامدی صاحب کے ہر کتاب کا الگ الگ تعارف کرایا ہے، جہاں غامدی صاحب نے تفسیر اور مذہبی علوم پر لکھا وہی شاعری بھی کی، مصنف نے کتاب کے ایک عنوان میں غامدی صاحب کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ غامدی صاحب بہترین خطیب ہیں۔ اس باب میں ان کی خطابت پر بھی بات کی گئی ہے.
کتاب کے تیسرے باب میں مصنف نے پانچ مضامین کو جمع کیا ہے پہلے مضمون ‘تجدید و احیائے دین’ میں مصنف کا ماننا ہے کہ گزشتہ پچاس سال میں تجدید و احیائے دین میں جن افراد نے اپنی زندگیوں کو وقف کیا ہے ان میں تین نام مولانا مودودی، مولانا وحیدالدین خان اور جاوید احمد غامدی اہمیت کے حامل ہیں. پھر انہوں نے جاوید احمد غامدی صاحب کے تجدیدی کام کو تفصیل سے بیان کیا ہے. دوسرے مضمون “تشریحات اسلام” میں مصنف نے عصر حاضر کے تناظر میں جاوید احمد غامدی نے اسلام سے متعلق مختلف موضوعات کی جو تشریحات کی ہیں؛ ان کو بیان کیا ہے. اس سلسلے میں جن تشریحات پر مصنف نے روشنی ڈالی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں : ختم نبوت، اسلام کی حکومت، خلافت کا قیام، مسئلہ قومیت، مسلمان، مرتد کی سزا، اجتہاد، اجماع، رویت ہلال، ضبط ولادت، یتیم پوتے کی وراثت، مسلم اور غیر مسلم، اعضا کی پیوندکاری. عنوانات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ غامدی صاحب نے دین کے وسیع پہلو پر اظہار خیال کیا ہے. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صوفیا کا اسلام کی خدمت میں رول رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تصوف جس چیز کی نمائندگی کرتا ہے وہ اس اسلام سے کافی مختلف ہے جو قرآن و سنت میں ملتا ہے. مصنف نے تیسرے مضمون “تصوف اور اسلام” کے حوالے سے غامدی صاحب کی آرا پیش کی ہے. مصنف لکھتے ہیں: “جاوید احمد غامدی کا شمار ان لوگوں میں سے کیا جا سکتا ہے جو علم تصوف کو اسلام سے الگ شعبہ مانتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ تصوف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ مسلم تہذیب کا ایک حصہ رہا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں : ”ہمارے خانقاہی نظام کی بنیاد جس دین پر رکھی گئی ہے، اس کے لیے ہمارے یہاں تصوف کی اصطلاح رائج ہے۔ یہ اُس دین کے اصول و مبادی سے بالکل مختلف ایک متوازی دین ہے ، جس کی دعوت قرآن مجید نے بنی آدم کو دی ہے۔ “(برہان صفحه ۱۸۱) (صفحہ 106)
تنقید و تحقیق کسی بھی محقق کا خاصا رہا ہے. جاوید احمد غامدی صاحب محقق ہیں. آپ کی زندگی تنقید و تحقیق میں گزری ہے. اس باب کے چوتھے مضمون “تنقید و تحقیق” میں ہمارے معاشرے کی تنقید و تحقیق کے تئیں رویہ کو بیان کیا ہے؛ لکھتے ہیں: “اس معاشرے میں ہر چیز گوارا کی جاتی ہے لیکن علم وتحقیق کا وجود کسی حال میں گوارانہیں کیا جاتا۔ لوگ بے معنی باتوں پر داد دیتے ، خرافات پر تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرتے ، جہالت کے گلے میں ہار ڈالتے اور حماقت کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں، مگر کسی علمی دریافت اور تحقیقی کارنامے کے لیے ، بالخصوص اگر وہ دین سے متعلق ہو تو ان کے پاس اینٹ پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔” (صفحہ 113) اس باب کے پانچوے مضمون “انسانی تعلقات” میں مصنف نے آپسی تعلقات کے حوالے سے جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا پیش کیے ہیں؛ لکھتے ہیں:”جب آپ انسانوں کے کے ساتھ معاملات کر رہے ہیں تو ان کی تکریم کے ساتھ ان کے حق اختلاف کو بھی مانیے، نہ صرف مانیے بلکہ اپنے آپ کو اس کی تربیت دیجئے. ” (صفحہ 118)
کتاب کے چوتھے اور آخری باب میں مصنف نے غامدی صاحب کی طرف سے برپا کی گئی اجتماعی کوششوں کا احاطہ کیا ہے اس سلسلے میں انہوں نے غامدی صاحب کے قائم کردہ ‘ادارہ المورد’ کا قیام پر روشنی ڈالی ہے. اس باب میں جاوید احمد غامدی کی سربراہی میں نکلنے والے ماہنامہ ‘اشراق’ کا بھی جائزہ لیا ہے، غامدی صاحب کے ساتھ جڑنے والے رفقاء (ڈاکٹر شہزاد سلیم، منظور الحسن، طالب محسن، نعیم احمد بلوچ، محمد رفیع مفتی، ساجد حمید، محمد سمیع مفتی، عمار خاں ناصر، کوکب شہزاد، محمد بلال محمد الیاس، ڈاکٹر محمد فاروق، عبدالستار غوری ) اور ان کے کاموں کا تذکرہ کیا ہے. ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کا تعارف پڑھتے پڑھتے آنسو آجاتے ہیں کہ کس طرح وہ مخلص انسان دہشت گردی کا شکار ہوئے اور شہید کیے گئے. اس بارے میں انہوں نے جاوید غامدی صاحب کی مخالفت میں جو لکھا گیا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے. شاہ عمران کی وسعتِ نظر کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ان کتابوں کا بھی تعارف ہی نہیں بلکہ ان کی لنک بھی دی ہے جو غامدی صاحب کی مخالفت میں لکھی گئی. کتاب میں کہیں کہیں تقرار کے باوجود کتاب اس لائق ہے کہ اس کو پڑھا جائے
یہ کتاب 2016 سے پہلے لکھی گئی ہے. تب سے اب تک غامدی صاحب کی فکر میں کافی وسعت آئی ہے. ضرورت ہے کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اس کا بھی احاطہ ہو. اعلیٰ طباعت اور مناسب قیمت( 160 روپے) پر زیر تبصرہ کتاب شائع ہوئی ہے. کتاب منگوانے کے لیے 009810862382 پر رابطہ قائم کریں.
مبصّر سے رابطہ 009906653927