سپریم کورٹ سے جاری کردہ خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دی ہیں اور چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ 6 جون کو سماعت کرے گا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل ہوں گے یعنی بدستور 3 ‘متنازع ججز’ ( جنہیں جج لکھتے ہوئے بھی اب گھن آنے لگی ہے) کے ٹولے کی بدمعاشی جاری رکھی جائے گی ۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈاکٹر عافیہ، سینیٹر مشتاق نے امریکا میں کیا کیا، کیا کرنا چاہئے؟
کیا نئی کنگز پارٹی کے لیے حالات سازگار نہیں؟
بدلتا خطہ نواز شریف کے لیے رحمت، عمران کے لیے زحمت کیسے بنا؟
رسمی تقاضوں کی خانہ پری کے لیئے اور کارروائی میں قانونی اعتبار شامل کرنے کی خاطر اس عدالت نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر تودیے ہیں مگر ہونا ہوانا وہی ہے جو ان 3 پیاروں کا ٹولہ چاہے گااس لیئے غلطی سے بھی حکومت کو اس عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیئے بلکہ عدالت میں ایک بار پھر حکومتی اعتراض نامہ پڑھ کے کارروائی کا بائیکاٹ کردینا ہی مناسب چارہء کار ہے ۔۔۔ اس سے پہلے کئی بار حکومت یہ بھنڈ کرچکی ہے کہ متنازع بینچ پہ اعتراض کے باوجود سرکاری وکیل اور اٹارنی جنرل نے ان مقدمات میں بڑے تفصیلی دلائل دے کے ان بینچوں کو انجانے میں معتبر کرکے باوزن کرڈالا اور حکومتی اعتراض کو بے وزن و بے معنی کرکے رکھ دیا تھا
میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب حالات نے بھی ثابت کردیا ہے کہ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے لئے پہلے لوکل اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینے کا قدم اٹھایا تھا اور چونکہ اب وہ اقتدار میں کسی بھی قیمت پہ واپسی چاہتے ہیں لہٰذا مایوسی کے عالم میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن گئے ہیں اور صآف لگتا یہ ہے اس کھیل میں کچھ فارمی اور کچھ یونیفارمی انڈوں کے ساتھ ساتھ بار اور بینچ کے بھی کچھ ‘مؤثر بڑے’ ان بیرونی طاقتوں کے ٹٹو بن چکے ہیں اور ہمارے اہل فکر و نظر اور انٹیلیجینشیا کے مفاہمت عامہ و مصلحت آمیز رویوں کے سبب ان بے شرموں کو اپنے اس گھناؤنے منصوبوے کو اب بہت زیادہ چھپائے رکھنے کی بھی ضرورت نہیں رہی ہیں- جہانتک عمران خان کا تعلق ہے تو انہوں نے وہی سیاسی روایت نبھائی ہے کہ کسی کی حمایت کا کھیل کھیلنا ہو تو آغاز اسی کو شدید گالیاں دے کرو تاکہ جب اس سے راہ رسم قائم کرنے کا مرحلہ عیاں ہوجائے تو اس کی تشریح بھی یہ کی جائے کہ “دیکھا ہماری استقامت نے ان طاقتوں کو بھی ہماراے سامنے جھکنے پہ مجبور کردیا “۔۔
بیرونی آشیرباد سے جاری اس غلیظ کھیل کو ناکام بنانا اسی صورت ممکن ہے کہ جب حکومت مزید بیوقوف بنے بغیر عدالتی ضابطوں کے نام پہ طوق غلامی پہننے سے صاف انکار کردے اور اپنی توانائیاں عدالت میں پیشیاں اور صفائیاں دینے کی حماقت میں ضائع کرنے کے بجائے زیادہ تندہی سے اس ساری سازش اور اسکے کرداروں کو بینقاب کرنے پہ کمربستہ ہوجائے اور اس کے لیئے اب درست راہ عمل یہی ہے کہ وہ ایک متنازع بینچ کا پاس لحاظ کرنے سے تائب ہوجائے اورحکومت اور اسکی مشینری اس کھیل کا قطعی طور پہ حصہ نہ بنے اور اس جعلی کارروائی میں ہرگز شریک نہ ہو اور پورا اہتمام کرے کہ پارلیمنٹ اس جانمبدار بینچ کے خلاف ایک بار پھر قرارداد بلکہ مذمتی قرارداد منظور کرے اور ساتھ ہی ساتھ سپریم کوٹ کے سامنے مؤثر و بامعنی دھرنا بھی دینے کا اعلان بھی کردے ورنہ یہ سازشی اپنے اہداف کو پانے میں کامیاب بھی ہوسکتے ہیں۔