ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کی رہائی کے سلسلے میں پاکستانی وفد کی امریکا میں سرگرمیوں کی کچھ تفصیلات بالآخر سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے بیشتر حوصلہ افزا ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کی ایک گفتگو سے پاکستانی وفد کی سرگرمیوں کے کئی مقاصد سامنے آئے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی قریب دو دہائی سے امریکا میں تقریباً قید تنہائی کا شکار ہیں۔ اتنی طویل قید انسان پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس وفد کے امریکا جانے کا ایک مقصد ڈاکٹر صاحبہ سے ٹوٹے ہوئے سماجی رابطوں کا احیا تھا۔ وفد کی کوششوں کے نتیجے میں امریکا میں مقیم پاکستانی برادری اور مسلمانوں نے یقین دلایا ہے کہ اب وہ ڈاکٹر صاحبہ سے ملتے رہا کریں گے۔ یہ ایک بڑی اور مثبت پیش رفت ہے۔ سماجی رابطوں کی بحالی ڈاکٹر صاحبہ کی تنہائی دور کر کے ان کی نفسیاتی صحت کی بحالی میں مدد کرے گی۔
صادق سنجرانی کیا کر رہے ہیں؟
سینیٹر مشتاق احمد خان کے مطابق امریکا آنے سے قبل انھوں نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن اور سینیٹ کے سربراہ کو خطوط لکھیں۔ وہ خود بھی ان دونوں شخصیات کو لکھ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ممکن ہو تو سینیٹر صاحب کو چاہیے کہ اپنی امریکا موجودگی سے فایدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سینیٹ کے سربراہ سمیت دیگر امریکی حکام سے ملاقاتیں بھی کریں۔
یہ بھی پڑھئے:
دورہ امریکا: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی طرف کتنی پیش رفت ہوئی؟
بدلتا خطہ نواز شریف کے لیے رحمت، عمران کے لیے زحمت کیسے بنا؟
پرویز خٹک نے عمران خان کا ساتھ کس منصوبے کے تحت چھوڑا؟
کنجی اسلام آباد میں کیسے؟
سینیٹر مشتاق احمد خان کا مؤقف یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کنجی اسلام آباد میں ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امریکی حکومت سے رہائی کی درخواست کرے جس کی منظوری یقینی ہے۔ سینیٹر صاحب ڈآکٹر صاحبہ کی رہائی کے ضمن میں بعض مواقع ضائع ہو جانے پر رنجیدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے وقت پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ کی رہائی کی شرط رکھ کر اسے منوا لیتا۔ ان کے خیال میں اب بھی اس سلسلے میں بعض مواقع موجود ہیں۔
شہباز شریف کا مثبت کردار
سینیٹر صاحب کے مطابق حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکی حکام سے کبھی بات چیت نہیں کی۔ یہ دعویٰ کتنا درست یا غلط ہے، اس کی تصدیق تو صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے، اگر حکومت پاکستان اس سلسلے میں کوئی وضاحت جاری کرے۔ تاہم ڈاکٹر صاحبہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کی ایک گفتگو سے واضح ہوا کہ پاکستانی وفد کے دورہ امریکا سے حکومت لاتعلق نہیں ہے۔ فوزیہ صدیقی کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی مداخلت اور تعاون کے نتیجے میں ہی انھیں امریکی ویزا مل سکا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کوششوں کے ضمن میں یہ اطلاع خوش آیند ہے کہ پاکستانی وفد کے دورہ امریکا سے حکومت لاتعلق نہیں ہے۔
عمران خان کی وعدہ خلافی
سینیٹر مشتاق احمد خان کے مؤقف سے متعلق ایک بات توجہ طلب ہے۔ ایک یہ کہ ڈاکٹر صاحبہ کی رہائی ممکن ہے اگر حکومت پاکستان سنجیدگی اختیار کرے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عرصے کے دوران میں کئی حکومتوں بدلیں لیکن کسی بھی حکومت کے ایجنڈے پر یہ معاملہ کیوں نہیں آیا؟ خاص طور پر عمران خان کی حکومت جنھوں نے اقتدار میں آنے سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انھیں رہا کرائیں گے۔ خیر، عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد سوائے انتقام لینے اور سی پیک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کوئی دوسرا کام کیا ہی نہیں لہٰذا وہ تو ناقابل ذکر ہیں۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مسئلہ حکومت کے ایجنڈے پر کیوں نہ آ سکا؟ اس وضاحت کے بغیر یہ جاننا ممکن نہیں کہ کہا حکومت آئندہ بھی اس سلسلے میں سنجیدہ ہو گی یا نہیں؟
سراج الحق کیا کریں؟
ڈاکٹر عافیہ کے سلسلے میں ہمارے یہاں سیاسی سطح پر بیان بازی وغیرہ کا سلسلہ تو جاری رہتا ہے لیکن قومی اتفاق رائے کی صورت پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش سامنے کبھی نہیں آئی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق پی ٹی آئی کو سیاسی تنہائی سے نکالنے کے لیے متحرک رہتے ہیں، کیا یہ ممکن ہوسکے گا کہ وہ اس سلسلے میں بھی متحرک ہوں اور قومی جماعتوں پر مشتمل ایک ایسی گول میز کانفرنس منعقد کریں جس میں وزیراعظم کی شرکت بھی یقینی ہو۔
پوائنٹ اسکورنگ
اس کانفرنس سے قبل یہ جاننا ضروری ہو گا کہ حکومت کے ایجنڈے پر آج تک یہ اہم مسئلہ نہیں آیا تو اس میں اصل رکاوٹ کیا ہے؟ یہ رکاوٹ جانے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہو سکے گی۔ اگر جماعت اسلامی یا ڈاکٹر عافیہ کی رہائی میں دلچسپی رکھنے والی جماعتیں اس رکاوٹ سے آگاہ ہیں اور اس کے باوجود سارا ملبہ حکومت پر ڈال رہی ہیں تو اسے پوائنٹ اسکورنگ تو سمجھا جاسکتا ہے مسئلے کے حل کی جانب پیش نہیں کیونکہ صرف حکومت کو مطعون کر کے ڈاکٹر صاحبہ کی رہائی ممکن نہیں بنائی جاسکتی البتہ اس میں تاخیر ضرور ہوسکتی ہے۔ مطعون کرنے کے ضمن میں بعض جماعتوں کے سوشل میڈیا بریگیڈیئر کو بھی معقول طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہیے جو گروہی مفادات کے لیے فضا کو کشیدہ کر رہا ہے۔ ایسا ماحول اتفاق رائے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
ایک سنگیں غلطی کی نشان دہی اور ایک مشورہ
کسی بھی مسئلے کے حل کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن ڈاکٹر عافیہ جیسے مسئلے کے حل کے ضمن میں سب سے اہم قانونی طریقہ ہی ہے۔ اس سلسلے میں بعض اہل دانش کا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کے حامیوں سے حکمت عملی کے ضمن میں کچھ کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق اگر ماضی میں اگر جہادی سرگرمیوں کے لیے شہرت رکھنے والے طبقات پیش منظر پر ہوں گے تو یہ معاملہ پیچیدہ ہو جائے گا۔ یہ مکتب فکر اس معاملے میں ڈاکٹر صاحبہ کی بہن فوزیہ صدیقی کو بھی کسی حد تک قصور وار سمجھتا ہے۔ ان کے مطابق فوزیہ صاحبہ کے علم میں بہت کچھ ہے لیکن وہ اپنی حکمت عملی کو درست کرنے میں اب تک ناکام رہی ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مسئلہ پاکستان میں بظاہر دینی مکتبہ فکر نے فطری طور پر اپنا مسئلہ بنا لیا ہے جب کہ سیکیولر مکتب فکر اس سے لا تعلق دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس مکتب فکر کو بھی اس پلیٹ فارم پر لانے کی ضرورت ہے، اس طرح اس سلسلے میں نہ صرف قومی اتفاق رائے پیدا ہو گا بلکہ پہلے سے پراگندہ سیاسی ماحول میں بھی رواداری پیدا ہو گی جس سے دیگر مسائل کے حل میں ںھی مدد ملے گی۔