• مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

بندیال کے خیر میں پنہاں شر

وہ کون سا جن تھا جس کی بوتل کا ڈھکن کھولا گیا تو وہ خود اپنے سرپرست پر حملہ آور ہو گیا؟ نو مئی کے بعد قوم کیا مثبت رجحان قوی ہوا؟ آوازہ کا دھماکا خیز تجزیہ

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
June 3, 2023
in محشر خیال
0
بندیال کے خیر میں پنہاں شر
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

ڈاکٹر فاروق عادل
خیر، جسٹس بندیال کا اور قوم کا

جسٹس بندیال نے ایک شر میں سے خیر برآمد کر لیا ہے۔ شر میں سے خیر کی تلاش کرنے کی صلاحیت اللہ اپنے مقبول ترین بندوں کو عطا کرتا ہے۔ صوفیا اور صلحا جیسے اس کے برگزیدہ بندے جن کی زندگی کا مقصد ہی مخلوق خدا کی خدمت اور ان کی بھلائی ہوتا ہے۔ مولانا ظفر احمد انصاری گو سیاست دان تھے اور تحریک پاکستان میں قائد اعظم علیہ رحمہ کے بااعتماد ترین ساتھی۔ اللہ نے انھیں طویل زندگی عطا فرمائی اور انھوں نے اسی کی دہائی تک سیاست کے مرکزی دھارے میں رہےے ہوئے خیر ہی بانٹا۔ بھٹو دور میں تحریک ختم نبوت اور 1977ء کی تحریک جیسے بحرانوں میں وہ اس خوبی کے ساتھ بروئے کار آئے کہ اندھیرے میں روشنی کی کرنیں جگمگا اٹھیں۔ جنرل ضیا انتخابات سے خوفزدہ تھے۔ مولانا انصاری بیچ میں نہ آتے تو شاید 1985ء کے انتخابات بھی نہ ہو پاتے۔ انھوں نے غیر جماعتی انتخابات کا خاکہ پیش کر کے جنرل ضیا کو یہ کڑوا گھونٹ بھرنے پر آسانی سے آمادہ کیا پھر اس کے بعد راستے کھلتے چلے گئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ شر میں سے خیر برآمد کرنے کی جیسی صلاحیت وہ رکھتے ہیں ، کوئی نہیں رکھتا۔ مولانا انصاری کے بعد لگتا ہے کہ یہ نایاب صلاحیت ہمارے بندیال صاحب کو ودیعت ہوئی ہے۔

بندیال صاحب کو خوشی ہے کہ 9 مئی کے شر کی وجہ سے لوگوں کی توجہ بھٹک گئی ہے اور اب وہ یا ان کی عدالت تنقید کا ویسے ہدف نہیں رہی جیسے کچھ دن پہلے تھی۔ بندیال صاحب کی یہ مسرت اپنی جگہ اہم ہے لیکن سنجیدہ اہل فکر کی پریشانی کی نوعیت مختلف ہے۔

یہ بھی پڑھئے:

دورہ امریکا: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی طرف کتنی پیش رفت ہوئی؟

ADVERTISEMENT

پرویز خٹک نے عمران خان کا ساتھ کس منصوبے کے تحت چھوڑا؟

عمران خان مودی سے زیادہ خطرناک کیسے؟

پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمٰن ایک روشن خیال دانش ور ہیں۔ شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے جو مناظر ہم آپ دیکھ رہے ہیں کچھ ایسے مناظر ہی انھوں نے بھی دیکھے اور ایک نتیجہ اخذ کیا۔ نتیجہ تو خیر ایسا ہے جسے لوگ اس لیے بھی زبان پر لانے سے جھجھک رہے ہیں کہ کہیں اپنی زبان ہی کالی نہ ہو جائے۔ البتہ برادر رفعت سعید کی بات دوسری ہے جنھوں نے سوشل میڈیا پر بڑا دلچسپ اور ذو معنی تبصرہ کیا ہے کہ عمران خان کی ایک فاش غلطی نے پورے فوجی بنا دیا۔ رفعت بے تکلف بات کرنے والے کھلے ڈلہے صحافی ہیں جیسا انھوں نے سوچا بے دھڑک کہہ ڈالا۔ ان کے مقابلے میں ڈاکٹر عزیز محتاط آدمی ہیں۔ اسلام آباد کے بعض علاقوں سے وہ گزرے اور انھوں نے جو مناظر دیکھے، انھیں دیکھ کر کہا:
‘ شاہراہ دستور پر لگی قد آور تصاویر تو مستقبل کی کوئی اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔’

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

یہ کہانی کیا ہو سکتی ہے؟ اسے زبان پر لائیں یا نہ لائیں، کون پاکستانی ہو گا جو ان خدشات اور ان کے مضمرات کو سمجھ نہ سکے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو قومی ذرائع ابلاغ پر بھی اپنے انداز میں زیر بحث ہے۔ اہل دانش کا خیال ہے کہ اس دن جو کچھ ہوا اور اس کے ردعمل میں ریاست جس طرح متحرک ہوئی، ان کے نتیجے میں جمہوریت کا سفر کچھ مزید طویل ہو گیا ہے۔ یہ پریشانی اس وجہ سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ عمران خان کے چار برس اور انھیں لانے کے لیے اختیار کیے گئے طور طریقوں کے باوجود آئین اور جمہوریت کی حکمرانی کے ضمن قوم ایک وسیع تر اتفاق رائے پر جمع تھی اور سیاسی جماعتیں میثاق جمہوریت کی بنیاد پر بالغ نظری سے اپنا کردار ادا کرتی آ رہی تھیں کہ بیچ میں 9 مئی آ گیا۔ یوں خطرہ محسوس ہوا کہ ہم ایک دائرے کا چکر کاٹنے کے بعد ایک بار پھر وہیں جا کھڑے ہوئے ہیں، جہاں سفر کے آغاز کے لیے نئی کوششوں اور نئے جتن کرنے کی ضرورت ہو گی۔

جیسے بیان کیا گیا، اگر صورت حال بالکل اسی طرح ہو تو سچی بات ہے کہ اس پر صرف قوم کو نہیں بلکہ اداروں کو بھی پریشان ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ 2014 سے 2018 اور اس کے بعد کے چند برسوں کے دوران میں جو خرابی پیدا ہوئی، اداروں نے اس کی اصلاح کے لیے جان مار کر کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف یہ کہ سیاست سے لاتعلقی کی منزل پر پہنچے بلکہ اپنے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے انھوں نے آئین کو بھی شامل کر دیا۔ یہ ایک بہت بڑی جست تھی جس سے واپسی ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑا قومی نقصان ہو گا لیکن اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ صورت حال اس سے کافی مختلف ہے۔

بعض سیاسی مظاہر بوتل کے جن کی طرح ہوتے ہیں۔ طاقت ور قوتیں جنھیں موم کی ناک سمجھ کر پالتی پوستی ہیں اور پھر کسی مناسب وقت پر بوتل کا ڈھکن کھول دیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جن کی پرورش اور تربیت ہی درست نہیں ہوئی۔ ماضی قریب میں اس قسم کا تجربہ ایم کیو ایم کی صورت میں ہوا تھا۔ خواہش تو یہی تھی کہ مارشل لا کی مخالفت کرنے والی قوتوں سے نمٹ کر اس سے جان آسانی کے ساتھ چھڑا لی جائے گی لیکن وہ تو ایسا جن تھا جس نے پورے صوبے میں لسانی منافرت کو ہوا دے کر خون ریزی کو عام کر دیا، اس کے بعد اپنے خالقوں کو بھی آنکھیں دکھانے لگی، یوں اس سے نمٹنے میں 30 برس لگ گئے۔

ایم کیو ایم کے بعد دوسرا ہول ناک تجربہ پی ٹی آئی کا ثابت ہوا۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی طرح اس کے لیے بھی ریاست کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ اس جماعت کے کمیونیکیشن سسٹم اور نظام تربیت پر جب تحقیق ہو گی تو صحیح معنوں میں معلوم ہو سکے گا کہ اس جماعت کا برین واشنگ سسٹم کیا تھا جس کے ذریعے لوگوں کو کامن سینس سے محروم کر کے کاٹھ کا الو بنا دیا جاتا اور سکھایا جاتا کہ بانی پاکستان کے زیادہ بڑا لیڈر اس جماعت کا سربراہ ہے۔ بانی پاکستان نہ اس کی مقبولیت کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ اس کے فہم کا۔ اس شخص کی حرمت ریاست سمیت تمام مقدسات سے زیادہ مقدس ہے لہٰذا جو کوئی بھی اس کے تقدس کو چیلنج کرے، اسے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ 9 مئی کا سانحہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے۔

اس گروہ کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کے خالقوں کو یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ یہ لوگ نہ تو کسی فہم و فراست کے مالک ہیں اور نہ کوئی ایسی مثبت صلاحیت رکھتے ہیں جسے بروئے کار لا کر وہ اس ملک کو کچھ دے سکیں۔ اس کے ہاتھوں معیشت کی تباہی کے بعد یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ یہ لوگ پاکستان کے آئین اور دفاع کے بارے میں کوئی ایسا ایجنڈا ضرور رکھتے ہیں جو قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ۔ اسی سبب سے حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصت کیا۔ اقتدار سے رخصتی کے بعد اس کے تخریبی رجحانات مزید کھل کر سامنے آئے۔ یوں یہ سمجھ میں آیا کہ عمومی بلکہ فطری طریقوں کے ذریعے اس گروہ سے نجات بھی ممکن نہ ہو گی، اس لیے ضروری ہے کہ جس طریقے سے اسے تخلیق کیا گیا، اسی طریقے سے اسے عدم کی راہ پر بھی گامزن کر کے کاروبار مملکت ان لوگوں کے سپرد کر دیا جائے، قوم جن پر اعتماد کرے اور اپنی پیشہ دارانہ زمہ داریوں کی طرف لوٹ جایا جائے۔ 9 مئی کے اندوہ ناک واقعات کے باوجود میری اطلاع کے مطابق ابھی تک فیصلہ یہی ہے اور یہی رہے گا۔

9 مئی کے بعد کچھ دیگر معاملات کے بارے میں کچھ تبدیلی ضرور رونما ہوئی ہے ۔ پی ٹی آئی کے غیر سیاسی طرز عمل اور ریاستی اور دفاعی اداروں پر حملے نے کچھ اور چیزیں بھی واضح کی ہیں۔ ایک تو یہ احساس قوی ہوا کہ یہ جماعت ٹرمپ کی جماعت کی طرح تشدد پر یقین رکھتی ہے اور اس کے نزدیک اپنے اقتدار کے مقابلے میں کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس روز ہونے والی دہشت گردی نے اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ اس کی ریاست مخالف سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے خصوصی اقدامات ناگزیر ہیں۔ ان اقدامات کی ضرورت خاص طور پر اس لیے بھی ہے کہ موجودہ نظام انصاف کے تحت مجرموں کو سزا دینا ممکن نہیں رہا۔ یہ قریب قریب ایسی ہی صورت حال تھی جیسی امریکا میں کیپیٹل ہل پر چڑھائی کی صورت میں سامنے آئی یا برطانیہ میں یوروپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے خلاف فسادات کی صورت میں۔ ان دونوں معاشروں یہ فسادات اتنے بڑے پیمانے پر ہوئے تھے کہ ضرورت محسوس ہوئی کہ مجرموں سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دی جائیں پھر ایسا ہی ہوا۔ اس قسم کی غیر معمولی صورت حال میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ 9 مئی کے بعض مجرموں سے نمٹنے کے لیے یہاں اگر فوجی عدالتوں کا سہارا لیا جارہا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے اور یہ صرف پاکستان میں نہیں ہو رہا، دنیا بھر میں اس کی نظیریں موجود ہیں۔ بندیال صاحب کو 9 مئی کے فسادات کہ وجہ سے خود یا عدالت پر عوامی تنقید کی کمی یا خاتمے کی صورت میں خیر دکھائی دیا تھا لیکن خیر کا حقیقی پہلو یہ ہے کہ ریاست بہ حیثیت مجموعی ملک کو غیر مستحکم کرنے والے عوامل کے خاتمے پر یکسو ہو گئی ہے اور یہی اصل خیر ہے۔

(یہ کالم We News پر شائع ہو چکا ہے)

Tags: الطاف حسینایم کیو ایمجسٹس بندیالجنرل ضیاختمِ نبوتعمران خانقائد اعظم
Previous Post

دورہ امریکا: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی طرف کتنی پیش رفت ہوئی؟

Next Post

بدلتا خطہ نواز شریف کے لیے رحمت، عمران کے لیے زحمت کیسے بنا؟

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
بدلتا خطہ نواز شریف کے لیے رحمت، عمران کے لیے زحمت کیسے بنا؟

بدلتا خطہ نواز شریف کے لیے رحمت، عمران کے لیے زحمت کیسے بنا؟

محشر خیال

آمد نواز شریف کی اور ایک نئی جماعت کی
محشر خیال

آمد نواز شریف کی اور ایک نئی جماعت کی

نواز شریف کی واپسی اور عمار مسعود کی کالم آرائی
Aawaza

نواز شریف کی واپسی اور عمار مسعود کی کالم آرائی

مصر کے بازار میں پاکستانی شاہ کار
محشر خیال

مصر کے بازار میں پاکستانی شاہ کار

مسجد کس کے قبضے میں ہے؟
محشر خیال

جڑانوالہ: مسجد کس کے قبضے میں ہے؟

تبادلہ خیال

یوم دفاع کیسے منائیں؟
تبادلہ خیال

یوم دفاع منانے کے چھ طریقے

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست
تبادلہ خیال

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو
تبادلہ خیال

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو

باجوہ! اللہ تجھے پولیس کی حفاظت میں رکھے
تبادلہ خیال

جنرل باجوہ! اللہ تجھے پولیس کی حفاظت میں رکھے

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • ٹیکنالوجی
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions