Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
امجد اسلام امجد کی شاعری سے بعد میں متعارف ہوا، اس سے پہلے میں نے ان کے ڈائیلاگ کو جانا۔ ‘اُڈ مکھی’ اور ‘سواد آ گیا بادشاہو’ یہ دو ایسے فقرے تھے جو نوے کی دہائی میں زبان زد عام تھے۔ جس کسی سے جان چھڑانی ہو، کوئی اپنی افتاد طبع کے باوصف آپ کی جان کو آ گیا ہو اور آپ نجات چاھتے ہوں، کسی کی موجودگی آپ پر گراں گزرتی ہو، چہرے پر ذرا مضحک سی مسکراہٹ لائیے، لب ہلائیے اور کہہ دیجئے:
‘ اُڈ مکھی’.
اس عجیب سی ترکیب میں اتنی قوت تھی کہ یہ تمام لسانی حد بندیوں کو عبور کر کے ملک کے تمام خطوں میں یعنی کراچی تا خیبر اور اٹک تا گوادر، ہر جگہ نہ صرف سمجھی جاتی بلکہ بولی بھی جاتی۔ کسی ڈائیلاگ کی مقبولیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے لیکن یہ فقرہ مقبولیت کے اس درجے سے بھی کہیں آگے تھا۔
اچھے زمانوں میں جب پاکستان میں فلم ہوتی تھی، لڑکے بالے سینما ہال سے نکلتے ہی خود کو ہیرو سمجھ کر اس کا ڈائیلاگ دہرایا کرتے تھے لیکن ‘ اڈ مکھی’ جیسے ڈائیلاگ گلی محلے تک محدود نہ رہے بلکہ گھر کے صحن اور اس کے لونگ روم کی گفتگو کا مستقبل حصہ بھی بن گئے۔ یہ بھی گویا مقبولیت کا ایک نیا ریکارڈ تھا۔ بہن معصومیت کے ساتھ کوئی بات کہہ دیتی اور بھائی بھی معصوم سے لفنگے پن کے ساتھ ‘ اڈ مکھی’ کہہ کر بات اڑا دیتا۔ بالکل اسی طرح ہم عمروں اور بے تکلف دوستوں کے حلقے میں عابد کشمیری کی زبان سے ادا ہونے والا فقرہ ہونٹوں سے نکل کر کوٹھوں پر جا چڑھا، سواد آگیا بادشاہو۔
ہمارے امجد اسلام امجد کے ڈائیلاگ میں ایسی کیا بات تھی کہ ان کے قلم سے نکلتا اور زباں زد عام ہو جاتا؟ اس کا سبب ایک ہی تھا، انسانی محسوسات اور جذبات کا ایسا شعور جو من و تو کی تفریق سے اوپر اٹھ جائے۔ ڈرامہ ہو یا شعر، اسی قوت نے امجد اسلام امجد کو پاکستان کے ہر گھر کافرد اور ایک ایسا کردار بنا دیا جو ہمارے دل کی بات جانتا ہے، صرف جانتا نہیں ہے، اسے زبان بھی عطا کرتا ہے۔
یہ ہمارے لڑکپن کا زمانہ تھا جب ہم نے یہ نظم پڑھی:
‘ اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا ‘
یہ بھی پڑھئے:
خواجہ سعد رفیق کی گرین لائن اور ازبک ٹرین
ہمارے اشفاق صاحب نے اپنے نظیر سفر نامے ‘ سفر در سفر’ میں کسی ملنگ کا عجیب سا ایک واقعہ لکھا ہے جو تپسیا کرتا جاتا اور یہ کہتا جاتا:
‘آپے ای پانا ایں کنڈیاں تے آپے ای کچھنا ایں ڈور’
اس کے بعد پراسرار انداز میں کہتا:
‘ میں تے مچھی پھڑ لئی’
امجد صاحب کی اس قسم کی نظمیں پڑھنے کے بعد لگتا ان کے جادوئی شعروں سے نکلنے والی ڈور سے لگی کنڈی ہمارے گل پھڑے میں آ پھنسی ہے اور ہم بے اختیار ان کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ کچھ اسی قسم کی کیفیت میں تین مسافر اپنے گھروں سے نکلے اور ایم اے او کالج لاہور پہنچے۔ ان میں ایک کا نام امجد حسین امجد تھا۔ ایم اے او کالج کا یہ وہی زمانہ تھا جب لڑائی بھڑائی کی خبریں لاہور کے اس کوچے سے نکلتیں اور پورے دیس کو دکھی کر جاتیں۔ جیسے ہی اس تگڑم نے کالج کے احاطے میں قدم رکھا، ایک دبلا پتلا دراز قد لپک کر آیا اور نہایت شائستگی کے ساتھ سوال کیا کہ آپ کون ہیں، یہاں کیوں آئے ہیں؟ جنگ و جدل کی خبروں سے گھبرائے ہوئے مسافروں نے سہم کر سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور کہا:
‘امجد صاحب سے ملنا ہے’
سوال کرنے والے نے نعرہ لگایا کہ وزیٹر ہیں، وزیٹر۔ گرد و غبار چھٹ گیا اور بائیں جانب ملحق گلی سے ملنے والی دیوار کے ساتھ اساتذہ کے بڑے سے کیبن میں وہ سرخ و سفید چہرہ مسکراتا ہوا دکھائی دیا جس کی کشش مسافروں کو یہاں لائی تھی۔ سب سے پہلے ہمارے امجد نے آٹوگراف کے لیے اپنی ڈائری ان کے سامنے رکھی۔ امجد صاحب نے نام پوچھا تو اس نے بتا دیا۔ ساتھ والی میز پر پر قاسمی صاحب بیٹھے تھے۔ امجد صاحب نے دلچسپ سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی طرف دیکھا اور پھر امجد سے سوال کیا:
‘ یار، کچھ رعایت نہیں ہو سکتی’۔
ہمارے امجد نے حیرت کے ساتھ ان کی طرف دیکھا پھر ہماری طرف۔ اس پر شریک قافلہ اشفاق احمد کاشف نے کہا کہ یہ نہیں مانے گا سر۔ امجد صاحب مسکرا دیے اور کہا کہ چلو کوئی بات نہیں۔ پھر ہم ان کی قیادت میں چل دیے۔ اس زمانے میں ایم اے او کالج کے گیٹ کی بائیں جانب ایک بڑا سا چھپر ہوٹل ہوا کرتا تھا، مجھے لگتا ہے کہ عطا الحق قاسمی صاحب نے چھپر کانٹینینٹل کی ترکیب اسی کو دیکھ کر بنائی ہوگی۔ امجد صاحب کی قیادت میں ہم یہیں پہنچے اور ان کی میزبانی میں یہاں کی معروف ملائی والی چائے نیز ان کے اور قاسمی صاحب کی جملے بازی اور لطیفوں سے فیض یاب ہوئے۔
امجد صاحب سے یہاں وہاں ملنے اور مشاعروں میں سننے کے سینکڑوں مواقع ملے۔ ممکن ہوتا تو ملاقات بھی ہو جاتی۔ ہر دفعہ وہ اسی شفقت، گرم جوشی اور محبت سے ملتے۔
ان سے زیادہ بامعنی تعلق اس زمانے میں ہوا جب مجھے ایوان صدر میں صدر ممنون حسین صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس عرصے کے دوران میں وہاں کئی مشاعرے ہوئے۔ فطری طور پر مشاعرے کے انعقاد کی سرگرمیاں بہت حد تک میرے سپرد ہی ہوتیں۔
مشاعرے سے قبل تیاریوں کے ایام میں وہ تقریباً روزانہ مجھے فون کرتے اور بہت سے مشورے بلکہ ہدایات بھی دیا کرتے۔ ایک بار کہنے لگے کہ یار، میرے بار بار کے فون اور مشوروں سے پریشان نہ ہونا۔ تم سنجیدہ ادیب ہو اور اس کوچے کی نزاکتیں سمجھتے ہو لیکن شاعر اور مشاعرہ چیزے دگر است۔ اسی لیے میں تمھارے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتا ہوں۔ راہ نمائی اور سرپرستی کا یہ انداز ہمارے بزرگوں کے لیے خاص ہے، امجد صاحب اسی روایت کے آدمی تھے۔
ایوان صدر میں ایک بار مشاعرے کے بعد کھانے کے دوران میں؛ میں نے انھیں ان کی نظم ‘ محبت کی ایک نظم’ یاد دلائی اور عرض کیا کہ سر، عرصہ ہوا، آپ نے کوئی ایسی نظم نہیں کہی۔ کہنے لگے، یہ اس زمانے کی نظم ہے جب تم لڑکے تھے، میں بھی جوان تھا۔ زندگی آگے بڑھتی ہے، ہمیں بھی آگے بڑھنا چاہیے ۔ سچ کہتے تھے۔ وہ آگے بڑھ چکے تھے، اتنا آگے کہ ہماری دسترس بھی نکل گئے۔ اب ان کی نازک جذبوں کی ترجماں نظمیں ہیں اور ہم ہیں۔ بس یہی ہمارا اثاثہ ہے۔