تحریکِ پاکستان میں خواتین سیاست دانوں کے کارہائے نمایاں سے ایک عالم واقف ہے اور قیام پاکستان کے بعد خواتین کاسیاسی اثر و رسوخ جنگوں تک غالب آیا۔ رافعہ زکریا کی کتاب The upstairs wifeمیں انھی بااثر سیاسی خواتین کو بے نقاب کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کس طرح مسلم فیملی قوانین کی ترامیم میں بیگم رعنا لیاقت علی خان ،سابق وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی اہلیہ اور جنرل ایوب خان کی صاحبزادی نسیم اورنگزیب اثر انداز ہوئیں۔
پاکستانی سیاست میں خواتین کی شمولیت برائے نام تھی محترمہ بے نظیر بھٹو ،عابدہ حسین،تہمینہ دولتانہ ،فہمیدہ مرزا جیسی خواتین طاقتور سیاسی خاندانوں سے وابستہ تھیں جب کہ عام خواتین قابل ہونے کے باوجود منظر عام پر نہیں آیا کرتیں تھیں۔
یہ بھی پڑھئے:
2002میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں خواتین کی 60مخصوص نشستوں کا آغاز کیا جس کے بعد سیاسی جماعتوں میں electibles کی روایت عام ہوئی جو کہ خاتون کی انفرادی شہرت کے باعث سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے معروف ہوئی کیوں کہ خیال کیا جاتا ہے کہ خواتین مردوں کی مانند انتخابات کے بھاری اخراجات اور مشکل انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہوتی ہیں۔ دوسرا عوام خواتین نمائندوں سے سیاسی جانبداری کے کام کروانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں شامل خواتین کا تذکرہ کریں تو مسلم لیگ ن میں مریم نواز نے اپنی من پسند خواتین کے جھرمٹ میں عوامی تحریک شد و مد سے چلائی لیکن کچھ قانونی پیچیدگیوں اور کچھ سیاسی تدبر کی کمی کے باعث قیادت حاصل نہ کر سکیں اور درپردہ خواتین نے اپنی صاحبزادیوں کو مریم نواز کی معیت میں نمائندگی کے حصول میں مدد دی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں خواتین کو بھرپور نمائندگی اور اختیارات دینے کے ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے بھرپور کام کیا لیکن ان کی وفات کے بعد جماعت میں مردانہ نمائندگی کو فوقیت حاصل رہی درپردہ طاقتور خواتین میں دیگر کے علاوہ فریال تالپور سرفہرست تھیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم نے خواتین کو جلسوں کی زینت بنایا لیکن عملی سیاست میں کوئی عملی اقدامات نہ کیے۔ جماعت اسلامی کی باپردہ خواتین کو اسمبلیوں میں اپنی وضع قطع کے باعث سیاسی جماعت کی بجائے مذہبی جماعت کے طور پر باعث تضحیک سمجھا جاتا رہا۔
تحریک انصاف نے اس سکوت کو توڑا اور خواتین کو اپنے جلسوں اور جلوس دونوں میں بھرپور شرکت کی دعوت دی لیکن حکومت میں نمائندگی سے محروم رکھا۔ عائشہ گلالئی اور ناز بلوچ تو انتخابات سےپہلے پی چلی گئیں۔ فوزیہ قصوری نے بھی بعد ازاں پارٹی کو خیر باد کہا۔ شیریں مزاری جیسی بھرپور سیاسی کارکن کو کافی سوچ بچار کے بعد وزارت انسانی حقوق تھمائی گئی لیکن اختیار کا قرعہء فال خوبرو سیاست دان وزیر موسمیات زرتاج گل کے نام نکلا جنھوں نے وزارت میں تو کوئی معرکہ سر نہیں کیالیکن تحریک انصاف کی ترجمانی بہترین انداز میں کی۔ وہ تحریک انصاف کی اکلوتی خاتون سیاستدان بن کر ابھریں۔ تجزیہ نگار انھیں بھی جماعت کے اندر موجود پختون الائینز کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اب رہا سوال تحریک انصاف کی درپردہ خواتین کا تو فرح گوگی نے رئیل اسٹیٹ میں جو ترقی کی انھیں خود ساختہ جلا وطنی سے “گھبرانا نہیں” چاہئے تھا بلکہ اتنی کامیابی پر اربابِ اختیار سے قومی ایوارڈ کا تقاضا کرنا چاہیے تھا رہا سوال تحریک انصاف کی خاتون اول کا تو حال ہی میں لیک ہونے والی آڈیو نے ان کی سیاسی “مداخلت” کو “سازش” کا رنگ دے دیا ہے۔ تحریک انصاف کی پردہ نشین درپردہ اس خاتون کی آڈیو نے جماعت کی ساکھ کو شدید متاثر کیا ہے۔ سعادت حسن منٹو کا جملہ یاد آ گیا:”خطرناک قسم ہے ان عورتوں کی جو پردہ کرتی ہیں لیکن درپردہ نہیں کرتیں”
کیا ہی اچھا ہوتا خان صاحب انھیں ایسی کمال حکمت عملی پر میدان سیاست میں عملی طور پر شامل ہونے کی اجازت دیتے یا پھر جلسوں دھرنوں میں موسیقی کی تال پر جھومتی خواتین کو بھی پردے کی تلقین کرتے یہ بات بھی قابل فکر ہے کہ عملی سیاست میں خواتین کی شرح کم ہے،سیاست میں ان کا کردار محدود ہے اور پس منظر میں ان کا اختیار لامحدود کیسے ؟