تحریر :-اینڈریو فیڈل فرنانڈو
ترجمہ و تبصرہ :- اعظم علی
دیوالیہ ہونے والے سری لنکا جیسے ملک حبس آلود راتوں میں لوڈ شیڈنگ گھنٹوں کی نیند چُرا لیتی ہے کہ پنکھے بند ہو جاتے ہیں، مہینوں سے پورے خاندان اسی طرح نیند سے محروم زندگی گذار رہے ہیں۔
زندگی ایک طویل امتحان ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے بعد تیل کے ذخائر خالئ ہو گئے، لمبے دن ہیں کام کاج بھی کرنا، دوسرے کاموں کے لیے بھاگ دوڑ بھی کرنی ہے، روزمرہ کی اشیائے ضرورت بھی ہر ہفتے دوگنی ہونے والی قیمتوں پر خریدنا بھی ہے، اس طرح آپ ہر ہفتے گذشتہ ہفتے کی بہ نسبت مزید ٹوٹتے جارہے ہیں۔ کھانا بھی کم کھانا ہے اور جہاں تک ممکن فاقے کرلیں پھر کہیں جانے کے لیے ٹرانسپورٹ تلاش کرنا بذات خود ایک مصیبت ہے۔
شھروں میں پیٹرول کی قطاریں پورے علاقوں کے گرد ایک بڑے اژدھے کی طرح لپٹی ہوئی اور روزانہ کی رفتار سے جسامت میں بڑھتی جارہی ہیں، سڑکیں بند کرتی اور روزمرہ زندگی کو توڑ مروڑ رہی ہیں۔
رکشہ ڈرائیور ان کے آٹھ لیٹر کی ٹنکی بھرنے کے لیے دنوں (تقریباً 48 گھنٹے) قطار میں لگنے کے لئے تکیے کپڑے اور پانی ساتھ لیکر آتے ہیں جب کہیں پیٹرول ملتا ہےاور و ہاپنا کام شروع کرتے ہیں۔
ابتدا میں تو مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے لوگ اپنے محلوں میں قطار بند رکشہ ڈرائیو وں کے لئے کھانا اور سافٹ ڈرنک لے آتے تھے لیکن بعد میں کھانے، کپڑوں، ٹرانسپورٹ اور گیس کی قیمتیں اتنی بڑھ گئیں، بجلی کی قلت بھی اوپر سے روپے کی قیمت زمین پر آگئی کہ اب وہ بھی سخاوت کے قابل نہیں رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
تخت تشینوں کے لیے پرویز مشرف کی زندگی اور موت میں چھپے سبق
مشرف جیسے کرداروں کی برائی کرنا قرآن سے ثابت ہے
درمیانہ درجے کے طبقے میں محلے دار فیملیاں مل جُل کر یہ مشکل وقت گذار رہی ہیں، عموماً لکڑی کے چولہے پر اکٹھے سادہ ترین کھانا چاول اور کھوپرے کا شوربہ پکاتے ہیں۔
یہاں تک کہ دال جو کہ جنوبی ایشیا کی روزمرہ کی غذا ہے ایک عیاشی بن گئی ہے۔ اور گوشت کھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اب اس کی قیمتیں تین گُنا ہو گئیں ہیں۔
تازہ مچھلیاں ایک زمانے میں سستی اور آسانی سے ملتی تھیں لیکن اب ڈیزل کی قلت کی وجہ سے کشتیاں سمندر نہیں جاسکتیں۔ جو مچھیرے سمندر میں جاسکتے ہیں وہ عموماً اپنی شکار کردہ مچھلیاں ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ کو مہنگی قیمتوں میں فراہم کرتے ہیں اس لحاظ سے مچھلی بھی عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئی۔
بچّوں کئ اکثریت پروٹین سے خالی غذا پر گذارا کرنے پر مجبور ہے، اور یہ وہ بحران ہے جو سری لنکا کی آبادی کے ہر درجے کو سامنا کرنا ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا بچّوں کے جسم و ہڈیاں و دماغ وہ سب کچھ (غذا میں) حاصل کررہے ہیں جن کئ انہیں ضرورت ہے۔ خشک دودھ جو زیادہ تر درآمد شدہ ہوتا ہے مہینوں سے غائب ہے۔ اقوام متحدہ بچّوں کی ناکافی غذا کی وجہ سے انسانی المیے کے خطرے سے خبردار کررہا ہے۔ لیکن بہتوں کہ لئے یہ المیہ مہینوں سے چل رہا ہے۔
جن لوگوں کو ٹرانسپورٹ ملتی بھی ہے تو کھچا کھچ بھری ہوئی بسوں و ٹرینوں میں یا تو دروازوں و پائیدانوں سے لٹک کر نہیں تو اندر پھنس کر اندر دم گھٹنے کی حالت میں اپنی جانوں کا خطرہ مول لیکر ہی سفر کرتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے سری لنکا نے عوامی ٹرانسپورٹ پر مناسب سرمایہ کاری بھی نہیں کی۔دوسری طرف سری لنکا کا دولتمند طبقہ یہاں کے رکشہ و بس ڈرائیوروں کے روئیوں کے بارے میں شاکی ہی رہتا ہے۔
یہ تاثر بڑہتا جارہا ہے سیاسی و دولتمند اشرافیہ کی عوام کے بارے میں عدم پرواہ نے ملک کو اپنے گھٹنوں پر لانے میں کردار انجام دیا ہے۔لیکن اس معاشی تباہی کی قیمت غریب و مڈل کلاس طبقات کو ادا کرنی پڑرہی ہے۔
نجی اسپتال کام کرتو رہے ہیں لیکن پہلے جیسا معیار نہیں ہے، ایک 16 سالہ بچّہ سانپ کے کاٹنے سے ہلاک ہو گیا کیونکہ اس کے والد سانپ کے کاٹے کی ادویات اسپتال میں ختم ہو چُکی تھیں اور اس کے والد مختلف فارمیسیوں میں تلاش کرتا ہی رہ گیا۔صحت کا شعبہ کئی زندگی بچانے والی ادویات رکھنا بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ایک نوزائیدہ بچی کا اس لئے انتقال ہو گیا کہ اس کے والدین اسے اسپتال لیجانے کے لئے رکشہ نہیں ڈھونڈ پائے۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی بحران جس کی ایک وجہ 2019 کے بڑے کاروباری و پروفیشنل طبقے کے لئے ٹیکسوں کی کمی کی وجہ سے سری لنکا کا خزانہ خالئ ہوا بھی ہے۔
اب بھی پیٹرول بلیک مارکیٹ میں مہنگا مل سکتا ہے جو زیادہ تر اشرافیہ کے بڑئ گاڑیوں کے لئے یا گھر کے جنریٹروں کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔
معاشی طور پر کمزور طبقے کے لوگ سائیکل خریدنے کی کوشش کررہے ہیں کہ کم از کم اپنے کام کے لئے پہنچنے کے لئے تو آسانی ہو لیکن اب مہنگائی اور روپے کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے یہ بھی ان کے لئے ناقابل حصول ہو گئی ہیں۔
بجلئ کی بدترین صورتحال مارچ میں کولمبو کے بڑے مظاہروں کی بڑئ وجہ تھی۔ اس وقت سال کے گرم ترین ہفتوں کے روزانہ 13 گھنٹے بجلی کا نہ ہونے نے لوگوں کا پیمانہ صبر لبریز کردیا تھا۔
عوامی غصے و تھکاوٹ نے ہزاروں مظاہرین کو صدارتی محل کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور کردیا، وہ مظاہرہ عوامی جذبات کا اظہار تھا ، ایک موٹر سائیکل کا ہیلمٹ پوش شخص نے تقریر کرتے ہوئے میڈیا، سیاسی جماعتوں ، مذہبی طبقے پر الزام لگاتا کہ انہواب نے مل کر ملک کو تاریخ کی نااہل، مفاد پرست ترین قیادت کے حوالے کردیا ۔بعد ازاں اس شخص سدارا نا دیش اور درجنوں مظاہرین کو پولیس کے ہاتھوں گرفتار کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سری لنکا نے 26 سال تک خانہ جنگی کا سامنا کیا، جو کہ ناقابل بیان حدتک تشدد آمیز تھی پھر بھی کبھی کوئی صدر فوجی قیادت سے اتنا قریب نہیں رہا جتنا موجودہ صدر اور سابق سیکریٹری دفاع گوٹابایا راجاپکسے ہیں۔
جنوبی سری لنکا نے باشندوں کو ان چند ماہ میں وہ تجربہ ہوا جو شمالی علاقوں کو کئی دہائیوں سے ہورہا تھا، کسئ بھی اختلافی آواز کو روایتی طور پر حکومتی تشدد کے زریعے کچل دیا جانا۔حالیہ مہینوں میں پُرامن مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں، عورتوں و بچّوں پر آنسو گیس کا بے تحاشا استعمال کیا گیا۔ اشیائے ضرورت کے حصول کے لئے لمبی قطاروں میں معمولی ناراضی کا اظہار کا نتیجہ بدترین ظالمانہ پٹائی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے چند افراد پتھراؤ سے زخمی ہوئے لیکن کئی مظاہرین تو جان سے گذر گئے یا شدید زخمی ہو کر اسپتال میں داخل ہوئے، مجموعی طور پر پولیس کا ردعمل غیر ضروری طاقت کا مظاہرہ سمجھا جارہا ہے۔
سوشل میڈیا پر سیاستدان عوام سے اظہار ہمدردی کررہے ہیں، عوامی مشکلات کی تصاویر پوسٹ کررہے ہیں اور تبدیلی کے نعرے لگا رہے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں عوامی غصہ مزید بڑھ رہا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ان ہی سیاستدانوں کی وجہ سے ہم اس حالت میں ہیں؟( کیا یہ بھی “میرے ہم وطنوں” کا انتظار کررہے ہیں، جیسا بھی ہے ملک تو سیاستدانوں نے ہی سنبھالنا ہے جمھوریت کی کمزوری کا علاج مزید جمھوریت )۔
ایک طرف پوری قوم صدر اور اس کے ساتھیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کررہی ہے لیکن وہ اپنی کرسیوں سے چپکے ہوئے ہیں۔ ان کا رائے عامہ کے جذبات کا احترام نہ کرنا اور واضع طور اقتدار سے چپکے رہنے کئ سازشیں سری لنکا کی سیاست کو زہر آلود کررہی ہے(گذشتہ روز مظاہرین کے صدارتی محل پر قبضے کے بعد صدر نے استعفی دینے پر رضامندی کا اظہار کردیا)۔وہی لیڈر جن پر ملک کو اس مقام پر پہنچانے کا الزام ہے اب اصرار کررہے ہیں کہ وہ ملک کو اس مصیبت سے نکال سکتے ہیں۔اور ان کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔
اس وقت حکومت بھرپور کوشش کررہی ہے کہ سری لنکا سے کارکنان کو بطور گھریلو خادمائیں، میکینک و ڈرائیور بیرون ملک بالخصوص مشرق وسطی کے لیے بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی کمائی زرمبادلہ کی صورت میں بھیج سکیں۔
اس سے ملک کے کمزور ترین طبقے کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوگا کہ غریب شھری جنہیں ملک میں ملازمتیں ملنے کی کوئی اُمید نہیں ہے، اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر ایسے ممالک میں ملازمت کے لیے جارہے ہیں جہاں ان کے حقوق کی کوئی ضمانت نہیں ہے، ایک بشریات کے ماہر نے سری لنکا کو خون چوسنے والی مملکت سے تشبیہ دی ہے (پاکستان بھی ایسی ہی لگتی ہے)۔
ہر روز شام تک ناقابل تصور حدتک تھکا دینے والا دن گذرتا ہے، گھر سے باھر سفر کرنا تقریباً ناممکن کیونکہ پیٹرول و ڈیزل نہیں ملتا، جائے ملازمت کس طرح کام کرے کہ بحران در بحران کم ہونے میں نہیں آتے۔ایک تو سامان کی ترسیل کا نظام درہم برہم ہو چُکا ہے دوسرے زیادہ تر گاہک بھی سوائے انتہائی ضروری اشیاء کے سوا کسی بھی چیز پر رقم خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں، پھر دفتر میں استاد کی حاضری بھی مکمل نہیں ہوتئ۔
اس کے علاوہ رات کو پھر بجلی بند ہو جاتی ہے، ہر گذرتے ہفتے کے ساتھ شام کو ہلکے پھلکے عشائیے سے کام چلانا پڑتا ہے، کہ اب گھر کے لئے اشیاء خورد نوش خریدنا مشکل ہے، جو خرید لیا اسے پکانے کے لیے بجلی و گیس نہیں۔ والدین کے لئے ادویات خرید نہیں سکتے۔ اور بچّوں کو تعلیم بھی فراہم نہیں کرسکتے ۔
اسکول اس لئے بند ہیں کہ وہاں پہنچنے کے لئے پیٹرول نہیں ہے، تین سالوں سے مسلسل آن لائن کلاسیں چل رہی ہیں۔حکومت مسلسل اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہے، عزیز و رشتے دار رقم اُدھار لینے کے لئے فون کرتے ہیں پر آپ کی اپنی جیب خالی ہے۔ان سب کے باوجود آپ شکر گذار ہیں کہ آپ کے ارد گرد لوگ آپ سے بدتر حالت میں بھی جی رہے ہیں۔
احتجاج دن بہ دن زور پکڑ رہا ہے ۔ اب تو سری لنکا کے عل کرکٹ ہیرو سنتھ جایا سوریا، کمارا سنگا کارا اور ماہیلا جے وردھنے نے بھی عوامی احتجاج میں شرکت کا اعلان کردیا ہے۔
جایا سوریا نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا “ میں ہمیشہ سری لنکا کے عوام کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ جلد ہی ہم فتح کی خوشیاں منائیں گے، یہ سب کچھ بغیر تشدد کے ہونا چاہئے”۔
“اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھا جب پوری قوم ایک ناکام قائد کو اُٹھا کر پھینکنے کے لئے اکھٹی ہو، تمھاری سرکاری رہائش پر نوشتہ دیوار پڑھو اور پُرامن طریقے سے گھر جاؤ”
ایک اور ٹویٹ میں کہا ہے، گھیراؤختم ہو گیا، تمھارا قلعہ سر ہو گیا، جدوجہد و عوامی قوت فاتح ہو گئی۔ بہتر ہے کہ عزت کے ساتھ استعفی دے دو”۔
کرکٹر کمارا سنگا کارا نے اپنی ویڈیو میں کہا “ یہ ہمارئ قوم کے مستقل کا سوال ہے”۔ جے وردھنے نے بھی ٹوئیٹ کیا کہ “ ملک نے اپنی راہ بدل لی اور اس اسے روکا نہیں جاسکتا، گوٹا (راجاپکسے) گھر جاؤ “
دوسری طرف گذشتہ ہفتے ایک ماں نے دو بچّوں سمیت دریا میں کود کر خودکشی کرکی ۔۔۔
ہر نیا دم تازہ درد دل لیکر آرہا ہے۔
اینڈریو فیڈل ایک سری لنکا کے ایوارڈ یافتہ صحافی ہیں۔
عوام اور اشرافیہ دونوں کو احساس ہی نہیں ہے کہ لیکن بدترین صورتحال میں کیا ہو سکتا ہے۔آج بھی ہمارے ہاں زندگی مشکل ضرور ہے۔ لیکن اس صورت میں وہ مشکل سو گُنا ہو جائے گی۔
ایک طرف ہمیں اپنی سیاسی و فوجی اشرافیہ کو درست راہ پر آنا ہے دوسری طرف چاہت کچھ بھی ہو ہمیں کسئ طرح بھی دیوالیہ نہیں ہونا۔
پیٹ پر پتھر باندھنا منظور ہے لیکن کسی صورت میں دیوالیہ ہونا منظور نہیں ہے۔
سری لنکا کو تو بھارت نے چار ارب ڈالر دئیے ہیں۔ ہم تو ایک ایک ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑ رہے ہیں۔
عرب کو عموماً ہمیں بھیک دیتے تھے اُنہوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ چینی قرضے انتہائی مہنگے ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف نسبتا سستے قرضے دیتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سری لنکا کی تباہی میں چینی قرضوں و انویسٹمنٹ کی افیون بھی شامل ہے۔
شاید سری لنکا میں اشرافیہ بھی اسی حال سے دوچار ہے۔۔۔ سوائے ان لوگوں کے جن کے پاس بیرون ملک آمدنی و جائیداد ہو۔
ہمارے ہاں بھی تو یہی ہوا تھا جب گذشتہ حکومت نے روپے کو زمین پر لانا شروع کیا تھا تو اسوقت کے وزیر خزانہ نے بانچھیں چیر کر کہا تھا کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو فائدہ ہو گا۔
اب ان کے ڈالر کے انہیں زیادہ روپے ملیں گے۔
اشرافیہ کے مزے کی داستان یہ ہے کہ ایک ماہ قبل عوام مے حکمران خاندان کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی ہے۔
زیادہ ترلوگ اپنے گھروں سے فرار ہو چُکے ہیں۔ پرسوں رات صدر گوٹابایا راجہ پکسے کے صدارتی محل پر ہجوم نے قبضہ کرلیا ہے اور وہ بھی نیوی کے جہاز میں بیٹھ کرنامعلوم مقام پر پناہ گزین ہے۔
کیسی عیش کہاں کی عیش ۔۔۔
لیکن یہ بات یادرکھیں desperate لوگ کسی اُٹھا کر پھینک تو سکتے ہیں۔ لیکن بہت کم ہی ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں بہتر حکمران آئے۔
پیارے یہ بھی ایسی ہی ہے، اس سے پہلے واکے بھی ایسے ہی تھے۔۔ ان سے پہلے والے بھی۔۔۔ ہم سب اپنی پسند و ناپسند کے مطابق ہیرو اور ولن کا انتخاب کرتے ہیں۔
بات تین ماہ کی نہیں ہے 70 سال کی داستان ہے۔
آپ کے دفتر میں کلرک کے انتخاب کے لئے بھی بھاشن نہیں متعلقہ تجربہ دیکھا جائے گا۔
یہاں پر کوئی بھی بھاشن باز آکر قوم کو چونا لگا دیتا ہے۔ زیادہ بات کروں تو کہا جاتا ہے کہ یہ
نہیں تو اور کون؟؟؟
بس اسی چکر میں کسی بھی بندر کے ہاتھ میں ماچس کا تماشا دیکھتے رہو۔۔
پتہ نہیں کون اہل ہے کون نااہل ۔۔ چور ہونے میں ان کے اب پہلے والوں ۔۔ اور ان سے پہلے ہذا علی القیاس ۔۔۔ کوئی شک نہیں۔
تبدیلئ کی خواہش نے عمران خان جیسا جوکر لا کر مسلط کردیا ۔۔ کیونکہ وہ باتیں اچھی کرتا تھا۔
ایک دفتر کے مینیجر کی کرسی کے لئے بھی سی وی دیکھا جاتا ہے تجربہ دیکھا جاتا ہے۔ یہاں پر پوری زندگی گیند کو تھوک لگانے والے کو پوری قوم کو تھوک لگانے کی ڈیوٹی دے دی۔
عوام و اشرافیہ میں قانون کے حکمرانی کا تصور پیدا کرنے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔
شارٹ کٹ سے شارٹ سرکٹ ہی ہوتا ہے پھر آگ اور تباہی مقدر ہوتی ہے۔
یہ سبق ہے ہمارے لئے۔۔اللہ ہمارے وطن کو محفوظ رکھے۔ آمین